ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مدّو جَزَر – بتول جولائی ۲۰۲۱

میں نے کوئی پندرہ سولہ سال کے ایک لڑکے کو پہلی دفعہ مسجد میں دیکھا تو یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ ہمارے اس وسیب کے تقریباً سبھی گھرانوں سے ہمارا پڑوسیوں جیسا معاملہ ہے اور اس لڑکے کو میں نے اب تک کیوں نہ جانا ! جب غوری صاحب نے اپنے نوافل ختم کیے تو میں نے ان سے اس لڑکے کے متعلق پوچھا وہ کہنے لگے بھٹی صاحب کے ہاں ایک خاتون کام کرتی ہے یہ اس کا بیٹا ہے اور بھٹی صاحب از راہ ِ کرم فرمائی اس لڑکے کو اپنے بیٹے مظہر کے ساتھ سکول بھیج رہے ہیں تاکہ یہ بھی ایک اچھا طالب علم بنے اور کل کو یہ اس قابل ہو جائے کہ اس کی والدہ کو لوگوں کے گھروں میں نوکری نہ کرنی پڑے ۔
پھر جب اس کی والدہ بھٹی صاحب کے ہاں سے نیاز کے چاول لیے ہماری بیٹی کے گھر آئی تو میں نے نزہت بیٹی سے اس خاتون کے بارے میں پوچھا ۔ مجھے اس خاتون کی دکھ بھری کہانی سنا دی گئی ۔ یہ خاتون ایک ایسے ایڈیشنل کمشنر کی بیوی ہے جس نے شہر کی ایک گریجو ایٹ لڑکی سے شادی کرلی ہے اور اس بے چاری کو ان پڑھ ہونے کی سزا مل رہی ہے۔ اس کے شوہر کانام محمد یار ہے جو راوی کنارے پرانے دیہاتی لوگوں میں سے ہے ۔ اس کا باپ اگرچہ سنار تھا لیکن اس کے گائوں والے اسے اپنے کامیوں سے ہی ایک فرد شمار کرتے تھے ۔ اپنے بچوں کی شادیوں کے وقت وہ اسی سے سونے چاندی کے زیورات بنواتے تھے اور بر وقت قیمت نہ دینے کے باوجود اپنی چودھراہٹ کے زعم میں رہتے اور یہ سنار بے چارہ اکثر ان کے گھروں کے چکر لگاتا رہتا لیکن اسے فصل خریف یا فصل ربیع کی برداشت کے بعد ہی اپنا روپیہ ملتا تھا۔
یہ سنار اتنا مال دار نہ تھا کہ اپنے اکلوتے بیٹے محمد یار کو تعلیم دلوا سکتا ۔ میٹرک تک تو اس نے اپنے بیٹے کو مقامی سکول میں داخل کرائے رکھا ۔ محمد یار ایک ہونہار طالب علم ثابت ہؤا اور اپنے گائوں کے لنگڑیال ہوتیانہ ، سیال ایسے زمینداروں کے بیٹوں سے اس نے زیادہ نمبر حاصل کیے لیکن ان میں مربعوں کے مالک ہونے کا غرورتھا، اس بچے کو وہ احقر اور کمتر ہی سمجھتے تھے ۔
بھٹی صاحب کے ہاں اس کی ماں مدت سے خادمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔ اس کے بچے کو بھٹی صاحب نے اپنے بیٹے وریام علی کے ساتھ گورنمنٹ کالج میں داخل کروا دیا اور محمد یار کو بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ہاسٹل میں داخل کروا دیا ۔ یہ دونوں ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں دیگردو طلبہ کے ساتھ رہتے تھے لیکن یہاں وریام علی اس سے اپنے جوتے پالش کرواتا ، رومال ، تولیہ جرابیں دھلواتا اور محمد یار خاموشی سے اس کی ایسی خدمات بجا لاتا ۔ چند دیگر طلبہ کو معلوم ہوگیا کہ محمد یار کی والدہ بھٹی صاحب کے ہاں کام کرتی ہے ، اور اس کھوئے کھوئے مزاج کے طالب علم کو بھٹی صاحب خدا ترسی کرتے ہوئے تعلیم دلوا رہے ہیں ۔ وہ محمد یار کو زبانی تو کچھ نہ کہتے لیکن دل میں اُسے ایک معمولی خاندان کا فرد ہی سمجھتے ۔ اس طالب علم نے کالج میں ملک صاحب ایسے استاد کے سامنے سعادت مندی ظاہر کر کے انہیں اپنا ایک طرح سر پرست بنا لیا جو اُسے ذہین طالب علم سمجھ کر خصوصی توجہ سے پڑھاتے ۔
وقت کی رفتار کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔ چار سال تو جیسے پر پھیلا کر اڑ گئے اور محمد یار نے بی ایس سی میں کالج میں اول پوزیشن حاصل کرلی ۔ کالج کے پرنسپل نے گریجو ایشن میں نمایاں پوزیشن لینے کے باعث اسے بلایا ، حوصلہ افزائی کی اور جب انہیں محمد یار کی خاندانی صورت حال کا علم ہؤا تو انہوں نے ڈپٹی کمشنر سے اس بچے کے لیے سفارش کی جو ان کے سامنے شام کو اکثر ٹینس کھیلتے مل جاتے تھے انہوں نے محمد یار کو نائب

تحصیل دار کے طور پر ملازمت کے لیے ڈویژنل کمشنر سے رابطہ کیا اور اس سفارش سے وہ اپنے آبائی ضلع سے دور اس ڈویژن کے ایک دوسرے ضلع میں تعینات ہوگیا۔
اس تقرری سے محمد یار کے والد کو بے حد خوشی ہوئی اور اب وہ گائوں کے زمینداروں کے سامنے کمر سیدھی کر کے چلنے لگا ۔ پھر بھی اس نے زیورات بنانے والے پیشہ کو نہیں چھوڑا اور جب کبھی محمد یار اپنے والدین سے ملنے آتا تو گائوں والے زمینداروں کی آنکھوں میں جھلکتا تکبر اسے باور کرانے میں کافی تھا کہ تعلیم اور منصب کے باوجود وہ اسے ’’کمیں ‘‘ ہی سمجھتے تھے ۔ انہی دنوں اس کے والدین نے اپنی ایک رشتہ دار خاتون کی بیٹی سے اس کی شادی کر دی ۔ محمد یار گائوں سے ناتا ختم کرنا چاہتا تھا لیکن وہ والدین کے سامنے انکار نہ کر سکا اور زبیدہ جو ایک ان پڑھ دیہاتی لڑکی تھی ، سے شادی کرلی۔ اس کے دماغ میں یہ خیال ثبت ہو چکا تھا کہ موقع ملتے ہی وہ شہر میں کسی پڑھی لکھی لڑکی سے دوسری شادی کر لے گا ۔ زبیدہ اپنی جگہ بہت مسرت محسوس کر رہی تھی کہ اسے اپنی ہمجولیوں کے شوہروں کے مقابلے ایک اچھے سرکاری منصب دار کی بیگم ہونا نصیب ہؤا ہے ۔ شادی کے بعد وہ زبیدہ کو کبھی اپنے ساتھ شہر نہیں لے گیا تھا ۔
اُس نے سرکاری ملازمت میں دل جمعی سے کام کیا اور افسران ِ بالا کے ہاں اسے ایک فرض شناس اور محنتی اہل کار سمجھا جانے لگا ۔ شروع سے ہی اُسے اپنے گائوں میں جس طرح کمتر فرد شمار کیا جاتا تھا ۔ اس نے اپنے لیے ایک اونچے مرتبہ کے حصول کی کوشش شروع کی ۔ اس کے دوسرے ماتحت کارندے اسے یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ اپنے عہدے کے سبب تنخواہ سے کہیں زیادہ روپیہ ’’کما‘‘ سکتا ہے ۔ اسے بھی امیر ہو کر بلند تر معیار زندگی دکھا کر ہی گائوں والوں کو نیچا دکھانے کا ایک آسان راستہ مل گیا ۔ اسے اپنے ماتحتوں کے تعاون سے ابتدائی چار پانچ سالوں میں ایک زرخیز خطے میں ایک مربع(۲۵ ایکڑ) زمین خریدنے کا موقع مل گیا ۔ یہ رقبہ اس نے اپنے والد کے نام خریدا تھا کیونکہ گائوں میں زرعی اراضی کی ملکیت ہی باعث شرف سمجھی جاتی تھی ۔ گائوں والوں نے اس کے والد کو پھر بھی ایک کامی سے اونچا درجہ نہ دیا۔
محمد یار پر والدین کا یہ اصرار سخت بار بن گیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے لیکن زبیدہ کو شہر میں اپنے ساتھ رکھنے سے کسی شہری دوشیزہ کو اپنے لیے متوجہ کرنا نا ممکن ہو جاتا ۔ خاندانی دبائو میں آکر اس نے زبیدہ کو ایک چھوٹا سا مکان لے دیا جہاں کچھ عرصہ تک وہ اسے نان و نفقہ مہیا کرتا رہا اور بہت کم اس نے تعلقات زن و شوئی استوار کیے اور اسی دوران زبیدہ ایک بیٹے کی مان بن گئی ۔ اگلے دو تین سالوں میں محمد یار اپنی خاندانی بیوی سے دور ہوتا گیا اور پھراس کا اپنی خواہش کے مطابق ایک ایسی جدید تعلیم یافتہ لڑکی کے خاندان سے رابطہ ہو گیا جو کسی حسب نسب پر یقین نہیں رکھتے تھے اور بس ایک نوجوان کا سرکاری عہدہ دیکھ کر اپنی بیٹی اس کے عقد میں دے دیتے ہیں۔ اس وقت تک وہ ترقی کر کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بن گیا تھا ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی موجودہ قوانین نہیں بنے تھے اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا ضابطہ موجود نہ تھا ۔ چنانچہ اپنے خاندان کو مطلع کیے بغیر اس نے شادی کرلی اور ایک متمول آبادی میں مکان خریدا اور وہیں نئی بیوی کے ساتھ رہنے لگا ۔ اس کے بعد محمد یار نے اپنی سابقہ بیوی اور بچے کو نظر انداز کر دیا ۔ کچھ عرصہ بعد اس کے گائوں والوں کو یہ خبر مل گئی ۔ اس کے والد نے چاہا کہ زبیدہ اور اپنے پوتے کو گائوں لے جائے لیکن زبیدہ رضا مند نہ ہوئی کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی موجودہ حیثیت میں رہ کر با عزت زندگی نہ بسر کر سکے گی۔ وہ صاحب حیثیت گھروں میں خادمہ کے طور پر کام کر کے اپنا گزار ا کرنے لگی۔ اس کا بیٹا سکول جانے لگا اور اس نے دسویں جماعت پاس کر لی ۔ اس مرحلہ پر تلاشِ روز گار میں قسمت اُسے بھٹی صاحب کے ہاں لے آئی اور خدا ترس بزرگ بھٹی صاحب نے ان ماں بیٹے کا ہاتھ تھام لیا اور انہیں اپنی کوٹھی کے ایک گوشے میں پناہ دے دی ۔ جس مکان میں زبیدہ اور اس کا بیٹا رہتے تھے وہ اس کے سابق سنگ دل شوہر نے اپنے قبضے میں لے کر بیچ ڈالا تھا۔
دنیوی طور پر محمد یار کو مزید ترقی مل گئی لیکن اس کا تعلق کسی ’’ بڑے ‘‘ خاندان سے نہ تھا جسے ملک کی مقتدر ہستیاں ڈپٹی کمشنر یا کمشنر بنا

دیتی تھیں ۔ وہ ایڈیشنل کمشنر (لینڈ ، ریونیو) بن گیا اب اس کی تقرری ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں ہو گئی ۔ اس کے گائوں میں بابا خان محمد اور پیراں دتہ کے بیٹوں میں ملکیت زمین کے جھگڑے میں تنازعہ پیدا ہو گیا تھا ۔ خان محمد کے بیٹے نے کوئی بیس ایکڑ زمین خریدی اور اپنے پاس روپے کی کمی دیکھ کر اس نے پیراں دتہ کے بیٹوں کو آٹھ ایکڑ زمین دینے کے وعدے پر اُن سے چھ لاکھ روپے لے لیے اور چند سال بعد خان محمد کے بیٹے نے اپنے ان حصہ داروں کو لال جھنڈی دکھا دی ۔ انہوں نے اپنے حصے کے رقبہ کو لینے کے لیے عدالتی چارہ جوئی شروع کی اور ان کا یہ مقدمہ بالآخر ڈویژن کے ایڈیشنل کمشنر کے دفتر میں پہنچا۔
اب محمد یار کو موقع مل گیا جب وہ ان زمینداروں کو سائلین کے روپ میں دیکھ سکتا تھا ۔ وہ ان کے کیس میں مہینے مہینے کے وقفہ سے تاریخ پر تاریخ دیتا رہا کہ بچپن میںایک غریب سنار کے بیٹے کو اپنے زرعی رقبہ سے محرومی کے باعث کمتر خیال کرتے تھے اور جب وہ اس کی عدالت میں سائل بن کر آتے تھے تو وہ انہیں مخاطب نہیں کرتا تھا ۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے گائوں کے ان چودھریوں کو دیکھتا تو ان کی نگاہیں چار نہ ہوتی تھیں ۔ ان کے وکیل تو بات کرتے یہ صرف گردن جھکا کر یا کن انکھیوں سے اسے دیکھتے اور اپنے من میں خجالت کے اسیر ہوتے تھے ۔ اب تو انہیں یقین آگیا ہوگا کہ صرف نسبی فضیلت واحد ضمانت نہیں ہوتی جو کسی شخص کو معزز بنائے ، علم و مہارت سے میسر آنے والا مرتبہ اور انسانی شرف وا کرام ہی کسی شخص کو معاشرے میں بلند سر بناتا ہے۔
زبیدہ نے بھی دل نہ ہارا ۔ بھٹی صاحب کے گھر خدمت کرتے اسے اپنے بیٹے کو تعلیم میں سرفراز ہوتے دیکھتی تواور بھی دل و جان سے ان کے کاموں میں شوق اور جوش سے لگی رہتی ۔ بھٹی صاحب کا بیٹا وریام علی زبیدہ کے بیٹے جتنا ذہن رسا تو نہ رکھتا تھا ، لیکن پھر بھی درمیانے درجے کا طالب علم تھا ۔ بھٹی صاحب نے چاہا کہ وہ وریام علی کو اچھی تعلیمی رہنمائی کے لیے کسی اکیڈمی میں داخل کرادیں لیکن زبیدہ کے بیٹے نے خود اس کی مدد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تو بھٹی صاحب مان گئے۔ یوں وریام بھی اپنے اس ’ ’ گھریلو ‘‘ ٹیوٹر کے ذریعے اچھی کامیابی حاصل کرنے لگا اور جب بی اے کا نتیجہ نکلا تو اسے اچھی سکینڈ ڈویژن مل گئی ۔ اس کے ساتھی ، زبیدہ کے بیٹے ماجد یار کو البتہ وظیفہ ملنے کی امید تھی ، بھٹی صاحب خوش تھے کہ ان کا بیٹا بھی بی اے ہو گیا ہے ۔ انہوں نے ان دونوں کو یونیورسٹی میں ماسٹرز کرنے کے لیے داخل کروا دیا ۔
وریام علی نے قانون کی سند لے کر وکالت شروع کردی۔ بڑے زمیندار اپنے بیٹوں کو وکیل بنا دیکھ کر خوش ہوتے ، اس کے ساتھی ماجد یار نے انگریزی ادب میں بہت محنت کی اور وہ ایم اے پاس کر کے یونیورسٹی میں اول آیا۔ اس کے استاد پر وفیسر خواجہ نے اسے مقابلے کے امتحان میں شامل ہونے کا مشورہ دیا یہاں بھی اُسے امتیازی مرتبہ حاصل ہؤا اور ابتدائی تربیتی دو ر گزار کر ماجد صوبائی دارالحکومت میں افسر بن گیا لیکن اس کی ماں بھٹی صاحب کے گھر میں خدمت کرتے رہنے کو ہی ترجیح دے رہی تھی۔
چند ماہ بعد ماجد یار والدہ اور بھٹی صاحب کو ملنے آیا تو وہ اپنی والدہ کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ البتہ وہ بھٹی صاحب کو حقیقی والد کا سا احترام دیتا رہا اور و ہ بھی جب کبھی صوبائی دارالحکومت جاتے تو ماجد انہیں بیٹوں کی طرح احترام دیتا ۔ اس کی امی اب خود گھر کی خادمہ سے کام لیتی تھی ، لیکن اس کی طبع میں شکر گزاری اور تواضع بھری ہوئی تھی ، اس نے اپنی ملازمہ کو کبھی کمتر نہ سمجھا۔
ملک میںیکا یک ایک تبدیلی آئی اور نئے سربراہ نے سول سروس کے بہت سے افسروں کو نکال دیا ۔ محمد یار بھی انہی کے طبقہ میں شمار ہو گیا اور اپنی کوئی لابی نہ ہونے کے سبب زاید از تنخواہ اثاثے بنانے کے جرم کا مرتکب ہو گیا تھا ۔ اس کے نصیب میں اولاد نہ تھی ۔ ماڈرن بیوی کے ساتھ اب باقی زندگی اُسے تنہا ہی گزارنی تھی ، اس کے ساتھ دوسرے ملازم بھی جو نوکری سے فارغ کیے گئے تھے پنشن سے محروم رہے ۔ ایسے لوگ اتنے وسائل پیدا کر چکے ہوتے ہیں کہ وہ کبھی مالی پریشانی کا شکار نہیں ہوتے۔
اِدھرماجد یار خوش بخت ثابت ہؤا نئی حکومت نے ضلع اور ڈویژن کی سطح کے اعلیٰ افسروں کے لیے ایک اور امتحان لے کر قابل اہل کاروں کے انتخاب کا فیصلہ کیا۔ ماجد یار نے اس امتحان میں بھی اپنی علمی

صلاحیت کو تسلیم کرالیا اور اپنے کیڈر میں بہت سے افسروں سے پہلے اونچے منصب پر فائز کیے جانے کا اہل ہو گیا تھا ۔ ڈپٹی کمشنر کا عہدہ اسے وہیں لے گیا جہاںکبھی اس کا باپ بھی ایڈیشنل کمشنر ہوتا تھا ۔ چارج سنبھال کر وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے پرانے محسن بھٹی صاحب کے ہاں بغرض اظہار نیاز مندی حاضر ہؤا اور بھٹی صاحب کے وکیل بیٹے وریام علی سے بڑے ادب اور لحاظ سے ملا ۔ اس وقت اس کی والدہ زبیدہ نے بھی اس خاندان میں گزارے ہوئے ماہ و سال کا ذکر کر کے ان کے احسانات کا اعتراف کیا۔
زبیدہ اور ماجد یار کو یہ تو علم تھا کہ محمد یار بھی وہیں مقیم ہے لیکن وہ اسے ملنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ ایک دن محمد یار نے اپنی بیوی سے ذکر کر دیا کہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر اس کا بیٹا ہے ۔ وہ خاتون یہ سن کر غصے اور حیرت سے محمد یار کی باتیں سنتی رہی ۔ اب زمانے کے تھپیڑوں نے انہیں سماجی طور پر عزت و شرف سے محروم کر دیا تھا لیکن محمد یار چاہتا تھا کہ زبیدہ اور ماجد یار اُسے معاف کر دیں اور ایک دن وہ دونوں میاں بیوی ان کے ہاں جا پہنچے ۔
زبیدہ نے بڑے حوصلے اور عالی ظرفی سے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا یا اور ماجد یار کو فون پر ان ’’ مہمانوں ‘‘ کے آنے کی اطلا ع دی۔ اس نے بھی اپنی پر محن زندگی میں جو بھی دکھ اٹھائے تھے انہیں بھلا کر ان کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔ تاہم زبیدہ اور ماجد یار نے ان کی کوٹھی میں جا رہنے کی بات نہیں مانی ، اپنی سرکاری رہائش گاہ میں ہی رہے ۔ ماجد یار نے اپنے مرحوم دادا کے گائوں والوں کو فراموش نہ کیا ۔ زبیدہ کے بھائی بھی خوش تھے ۔ ماجد یارنے گائوں کی ترقی کے متعدد اقدامات کر کے ان نسب کے پجاریوں کو بتلا دیا کہ تعلیم زرعی اراضی والی دولت سے کہیں زیادہ مرتبہ دلواتی ہے ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x