حضور اکرم سید عالم ﷺ کی ذات بابرکات، عالی صفات تمام اخلاق و خصائل، صفات جمال میں اعلیٰ اور اشرف اور اقویٰ ہے ۔ وہ تمام کمالات جن کا عالم امکان میں تصور ممکن ہے ، سب کے سب نبی کریم ؐ کو حاصل ہیں ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ علم و حکمت کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔سب سے زیادہ محترم، سب سے زیادہ منصف ، سب سے زیادہ حلیم و بردبار، سب سے زیادہ پاک دامن اور عفیف اور لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے اور لوگوں کی ایذارسانی پر سب سے زیادہ تحمل کرنے والے تھے۔
نبی کریم ؐ کی مجالس خیرو برکت
آپؐ کی مجلس حلم و علم ، حیا و صبر اور متانت و سکون کی مجلس ہوتی تھی اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور کسی کی حرمت پر کوئی داغ نہ لگایا جاتا تھا اور کسی کی غلطیوں کی تشہیر نہ کی جاتی تھی ۔
آپؐ کے اہل مجلس ایک دوسرے کی طرف تقویٰ کے سبب متواضعانہ طور پر مائل ہوتے تھے ۔ اس میں بڑوں کی توقیر کرتے تھے اور چھوٹوں پرمہر بانی کرتے تھے اور صاحب حاجت کی اعانت کرتے تھے اور بے وطن پر رحم کرتے تھے ۔( نشر الطیب)
حضرت زید بن حارثؓ سے روایت ہے کہ میںحضور اکرم ؐ کا ہمسایہ تھا جب حضور پر وحی نازل ہوئی تو آپ مجھے بلا بھیجتے ، میں حاضر ہو کر اس کو لکھ لیتا تھا۔ حضور اکرمؐ ہم لوگوں کے ساتھ حد درجہ دلداری اور بے تکلفی فرماتے تھے جس قسم کا تذکرہ ہم لوگ کرتے حضورؐ بھی اس قسم کا تذکرہ فرماتے ۔( یہ نہیں کہ بس آخرت ہی کا ذکر ہمارے ساتھ کرتے ہوں اوردنیا کی بات سننا بھی گوارا نہ کریں ) اور جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو حضور اکرم بھی آخرت کے تذکرے فرماتے ۔( یعنی جب آخرت کا کوئی تذکرہ شروع ہو جاتا تو اسی کے حالات و تفصیلات حضوراکرمؐ بیان فرماتے ) اور جب کھانے پینے کا کچھ ذکر ہوتا تو حضور اکرمؐ بھی ویسا ہی تذکرہ فرماتے ۔ کھانے کے آداب و فوائد لذیذ کھانوں کا ذکر ، مضر کھانوں کا تذکر ہ وغیرہ وغیرہ یہ سب کچھ آپ ہی کے حالات کا تذکرہ کر رہا ہوں ۔(خصائل نبوی)
آپ مجلس میں اپنے صحاب کے ساتھ تشریف فرما ہوتے تواپنے زانوئے مبارک کو ہم جلیسوں سے آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے کہ امتیاز پیدا نہ ہو جائے ۔ (زاد المعاد)
اگر کوئی شخص کھڑے کھڑے کسی بات کے متعلق سوال کرتا تو آپ اس کو نا پسند فرماتے اور تعجب سے اس کی طرف دیکھتے۔
اگر کسی مسئلہ کے بیان میں حضور انور ؐ مصروف ہوتے اور قبل اس کے سلسلہ بیان ختم ہو ، کوئی شخص دوسرا سوال پیش کر دیتا تو آپؐ اپنے سلسلہ تقریر کو بدستور جاری رکھتے ، معلوم ہوتا کہ گویا آپؐ نے سنا ہی نہیں ۔ جب گفتگو ختم کر لیتے تو سائل سے اس کا سوال معلوم کرتے اوراس کا جواب دیتے ۔
صحابہ کرامؓ کے مجمع میں ہوتے تو درمیان میںتشریف رکھتے اور صحابہ ؓ حضور کے ارد گرد حلقے پر حلقہ لگائے بیٹھے ہوتے اور آپ بوقت گفتگو کبھی ادھر کا رخ کر کے تخاطب فرماتے اور کبھی ادھر ۔ گویا حلقہ میں سے ہر شخص بوقت گفتگو آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھ لیتا۔
آپ جب مجلس میں بیٹھتے تو دونوں پائوں کھڑے کر کے ان کے گرد ہاتھوں کا حلقہ بنا کر بیٹھتے اور ویسے بھی آپ کی نشست اسی ہئیت سے ہؤا کرتی تھی اور یہ سادگی اور تواضع کی صورت ہے بعض اوقات آپ چار زانو بھی بیٹھے ہیں اور بعض اوقات بغل میں ہاتھ دے کر اکڑوںبھی بیٹھے ہیں ۔(نشر الطیب)
حضور نبی کریمؐ کا بیٹھنا اور اٹھنا سب ذکر اللہ کے ساتھ ہوتا اور
اپنے لیے کوئی جگہ بیٹھنے کی ایسی متعین نہ کرنے سے منع فرماتے تھے اور جب کسی مجمع میں تشریف لے جاتے تو جس جگہ مجلس ختم ہوتی وہاں ہی بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی یہی حکم فرماتے اوراپنے تمام جلیسوںمیں سے ہر شخص کو اس کا حصہ اپنے خطاب وتوجہ سے دیتے یعنی سب سے جدا جدامتوجہ ہو کر خطاب فرماتے یہاں تک کہ آپ کا ہرجلیس یوں سمجھتا کہ مجھ سے زیادہ آپ کو کسی کی خاطر عزیز نہیں۔
جو شخص کسی ضرورت کے لیے آپؐ کو لے کر بیٹھ جاتا یا کھڑا رکھتا تو جب تک وہی شخص نہ اٹھ جائے آپؐ اس کے ساتھ مقید رہتے۔
جو شخص آپ سے کچھ حاجت چاہتا تو بغیر اس کے کہ اس کی حاجت پوری فرماتے یا نرمی سے جواب دیتے اس کو واپس نہ کرتے۔
آپؐ کی کشادہ روئی اور خوش خوئی تمام مسلمانوں کے لیے عام تھی اور کیوںنہ ہوتی ، کہ آپ ان کے روحانی باپ تھے اور تمام لوگ آپؐ کے نزدیک حق میں فی نفسہٖ مساوی تھے۔ البتہ تقویٰ کی وجہ سے متفاوت تھے یعنی تقویٰ کی زیادتی سے تو ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے تھے اور دیگر امور میں سب باہم مساوی تھے اور حق میں سب آپؐ کے نزدیک برابر تھے۔(روایات از حسن بن علیؓ)
اہل مجلس کے ساتھ سلوک
رسول اللہؐ ہمہ وقت کشادہ رو رہتے نرم اخلاق تھے ، آسانی سے موافق ہو جاتے تھے ، نہ سخت خو تھے ، نہ درشت گو تھے ، نہ چلا کر بولتے اورنہ نا مناسب بات فرماتے، جو بات یعنی خواہش کسی شخص کی آپ کی طبیعت کے خلاف ہوتی تو اس سے تغافل فرما جاتے ( یعنی اس پر گرفت نہ فرماتے ) اور( تصریحاً) اس سے باز پرس بھی نہ فرماتے بلکہ خاموش ہو جاتے۔
آپؐ نے تین چیزوں سے اپنے آپ کو بچا رکھا تھا۔
(۱) ریا سے(۲) کثرت کلام سے (۳) بے سود بات سے
اور تین چیزوں سے دوسرے آدمیوںکو بچا رکھا تھا۔
(۱) کسی کی مذمت نہ فرماتے (۲) کسی کو عارنہ دلاتے(۳) نہ کسی کا عیب تلاش کرتے ۔
آپ ؐوحی کلام فرماتے اور جب آپؐ کلام فرماتے تھے آپ کے تمام جلیس ( ہم مجلس ) اس طرح سرجھکا کر بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پرپرندے آکر بیٹھ گئے ہوںاور جب آپ ساکت ہوتے تو تب وہ بولتے ۔ آپ کے سامنے کسی بات پر نزاع نہ کرتے ۔آپ کے پاس جو شخص بولتا اس کے فارغ ہونے تک سب خاموش رہتے ( یعنی بات کے بیچ میں کوئی نہ بولتا )
اہل مجلس میں ہر شخص کی بات رغبت کے ساتھ سنے جانے میں ایسی ہوتی جیسے سب سے پہلے شخص کی بات تھی ( یعنی کسی کے کلام کی بے قدری نہ کی جاتی ) جس بات سے سب ہنستے آپ بھی ہنستے ۔ جس سے سب تعجب کرتے آپؐ بھی تعجب فرماتے ۔ یعنی حدا باحت ( حد جواز) تک اپنے جلیسوں کے ساتھ شریک رہتے ۔ پردیسی آدمی کی بے تمیزی کی گفتگو پر تحمل فرماتے اور فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی صاحب حاجت کو طلب حاجت میں دیکھو تو اس کی اعانت کرو۔
جب کوئی آپؐ کی ثنا کرتا تو آپ اس کو جائز نہ رکھتے البتہ اگر کوئی احسان کے مکافات کے طور پر کرتا تو خیر ( بوجہ مشروع ہونے کے اس ثناء کو بشرط عدم تجاوز حد کے گوار ا فرما لیتے ) اور کسی کی بات کو نہ کاٹتے یہاں تک کہ وہ حد سے بڑھنے لگتا۔ اس وقت اس کو ختم کرا دینے سے یا اُٹھ کر کھڑے ہو جانے سے منقطع فرمادیتے (نشر الطیب)
الطاف کریمانہ
حضورنبی کریم ؐ اپنی زبان کو لا یعنی باتوں سے محفوظ رکھتے لوگوں کی تالیف قلب فرماتے تھے اور ان میں تفریق نہ ہونے دیتے تھے اور ہر قوم کے آبرو دار آدمی کی عزت کرتے تھے اور ایسے آدمی کو اس قوم پر سردار مقرر فرما دیتے تھے ۔لوگوں کو نقصان دینے والی باتوں سے بچنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے اور ان کے شر سے اپنا بھی بچائو رکھتے تھے ، مگر کسی شخص سے کشادہ روئی اور خوش خوئی میں کمی نہ فرماتے تھے ۔ اپنے ملنے والوں کے بارے میں استفسار فرماتے تھے اور لوگوں میں جو واقعات ہوتے تھے آپ وہ پوچھتے رہتے ( تاکہ مظلوم کی نصرت اورمفسدوں کا انسداد ہو سکے)
اور اچھی بات کی تحسین اور تصویب اور بری بات کی تقبیح ( مذمت اور تحقیر ) فرماتے ۔(نشر الطیب)
سلام میں سبقت
حضور اکرم ؐ کی تواضع میں یہ بھی ہے کہ جو بھی آپؐ کے پاس آتا تو آپ سلام کرنے میں سبقت فرماتے تھے اور آنے والے کے سلام کا جواب بھی دیتے تھے ۔
اس جگہ حضور انور کی قبر انور کی زیارت کرنے والوں کے لیے بشارت ہے کہ آپ جب اپنی ظاہری حیات میں اس خوبی کے ساتھ متصف رہے تو اب بھی ہر زیارت کرنے والا آپؐ کے سلام سے مشرف ہوتا ہوگا چنانچہ مقر بین بارگاہ ایسے ہوئے ہیں جو طریق کرامت اپنے کانوں سے حضور کا سلام سننے سے مشرف ہوئے ہیں ۔ بلا شبہ حضور امت کے لیے اس دینوی حیات میں بھی رحمت ہیں اور بعد وفات بھی رحمت (مدارج النبوۃ۔ روایات از حسن بن علیؓ)
انداز کلام
رسول اللہ ؐ ہر وقت آخرت کے غم میں اور ہمیشہ امور آخرت کی سوچ میں رہتے۔ کسی وقت آپ کو چین نہ ہوتا تھا اور بلا ضرورت کلام نہ فرماتے آپ کا سکوت طویل ہوتا تھا ۔ کلام کو شروع اور ختم منہ بھر کرفرماتے ( یعنی گفتگو اول سے آخر تک نہایت صاف ہوتی ) کلام جامع فرماتے تھے ، جس کے الفاظ مختصر ہوں مگرپر مغز ہوں آپؐ کا کلام حق و باطل میں فیصلہ کن ہوتا جو نہ حشو وزائد ہوتا اور نہ تنگ ہوتا ۔
آپ نرم مزاج تھے ۔ مزاج میں سختی نہ تھی اور نہ مخاطب کی اہانت فرماتے۔نعمت اگر قلیل بھی ہوتی تب بھی اس کی تعظیم فرماتے اور کسی نعمت کی مذمت نہ فرماتے مگر کھانے کی چیز کی مذمت اور مدح دونوں نہ فرماتے ( مذمت تو اس لیے نہ فرماتے کہ وہ نعمت ہے اور مدح زیادہ اس لیے نہ فرماتے کہ اکثر اس کا سبب حرص اور طلب لذت ہوتی ہے )
جب امر حق کی کوئی شخص ذرا مخالف کرتا اس وقت آپؐ کے غصہ کی کوئی تاب نہ لا سکتا تھا جب تک اس حق کو غالب نہ کر لیتے ، اپنے نفس کے لیے غضبناک نہ ہوتے تھے ، نہ اپنے نفس کے لیے انتقام لیتے ، گفتگو کے وقت جب آپ اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ کرتے ، جب کسی امر پر تعجب فرماتے تو ہاتھ کو لوٹتے ، آپ جب بات کرتے تو آپ داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کو بائیں ہتھیلی سے متصل کرتے یعنی اس پر مارتے ، جب آپ کو غصہ آتا تو آپ ادھر سے منہ پھیر لیتے ، کروٹ بدل لیتے ، جب خوش ہوتے تو نظر نیچی کر لیتے۔ اکثر ہنسنا آپ کا تبسم ہوتا اور اس میں دندان مبارک جو ظاہر ہوتے تو ایسے معلوم ہوتے جیسے بارش کے اولے (نشر الطیب، شمائل ترمذی)
حضور عرب کی سب زبانیں ( لغات) جانتے تھے ۔ ام معبد ؓ فرماتی ہیں کہ آپ شیریں کلام اور واضح بیان تھے ، نہ بہت کم گو تھے کہ ضروری بات میں بھی سکوت فرما دیں اور نہ زیادہ گو تھے کہ غیر ضروری امور میں مشغول ہوں ۔ آپ کی گفتگو ایسی تھی جیسے موتی کے دانے پرو دیے گئے ہوں ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ کے کلمات میں نہایت وضاحت ہوتی تھی اور ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ اس طرح کلام فرماتے تھے کہ اگر کوئی الفاظ کو شمار کرنے والا چاہے تو شمار کر سکتا تھا۔
جس بات کا تفصیل سے ذکر کرنا تہذیب سے گرا ہؤا ہوتا اس کو حضور کنا یہ میں بیان فرماتے ۔ بات کرتے وقت آنحضرت مسکراتے اور نہایت خندہ پیشانی سے گفتگو فرماتے( نشر الطیب)
ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور ؐ کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگا تار جلدی جلدی نہ ہوتی تھی بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے مضمون سے ممتاز ہوتا تھا۔ پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیتے تھے ۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس( بعض مرتبہ )کلام کو (حسب ضرورت)تین تین بار دہراتے تاکہ آپ کے الفاظ اچھی طرح سمجھ لیں ۔(شمائل ترمذی)
وعظ فرمانے کا انداز
آنحضرت ؐ مسجد میں وعظ فرماتے تو عصا مبارک پر ٹیک لگا
کرقیام فرماتے اور اگر میدان جہاد میں نصیحت فرماتے تو کمان پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے۔
وعظ و تلقین کے خصوصی اور مختصر جلسے تو تقریباً ہر نماز اور خاص طور سے نماز صبح کے بعد تو منعقد ہؤا ہی کرتے تھے مگر افادۂ عام کی غرض سے ایک جلسہ بھی کبھی کبھی طلب فرما لیا کرتے تھے۔
دوران وعظ میں جس امر پر نہایت زور دینا ہوتا تو اس پر ان الفاظ سے قسم کھاتے ۔والذی نفسی بیدہ، یعنی قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔
انداز سکوت
آپؐ کا سکوت چار امور پر مشتمل ہوتا تھا:
(۱) حلم (۲) بیدار مغزی(۳) انداز کی رعایت اور (۴) فکر
انداز کی رعایت یہ ہے کہ حاضرین کی طرف نظر کرتے ہیں اور ان کی غرض معروض سننے میں برابری فرماتے تھے اور فکر باقی وفانی میں فرماتے تھے یعنی دنیا کے فناء اور عقبیٰ کی بقا کو سوچا کرتے اور حلم کو آپ نے صبر یعنی ضبط کے ساتھ جمع فرما لیا تھا سو آپ کو کوئی چیز اتنا غضبناک نہ کرتی تھی کہ آپ کو از جارفتہ کر دے اور بیدار مغزی آپ کی چار چیزوں کی جامع ہوتی تھی۔
(۱) ایک نیک بات کا اختیار کرنا تاکہ اور لوگ آپ کی اقتداء کریں۔
(۲) دوسرے بری بات کو ترک کرنا تاکہ اور لوگ بھی باز رہیں۔
(۳) تیسرے رائے کو ان امور میں صرف کرنا جو آپ کی امت کے لیے مصلحت ہو۔
(۴) چوتھے امت کے لیے ان امور میں اہتمام کرنا جن میں ان کی دنیا اور آخرت دونوں کے کاموں کی درستی ہو(نشر الطیب)
انتظام امور
آپ کا ہر معمول اعتدال کے ساتھ ہوتا تھا ۔ اس میں بے انتظامی ناہوتی تھی ( کہ کبھی کسی طرح کرلیا ۔ کبھی کسی طرح کرلیا)
ان لوگوں کی تعلیم میں مصلحت کو پیش نظر رکھتے اس میں غفلت نہ فرماتے ۔ اس احتمال سے کہ اگر ان کو ان لوگوں کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو خود دین سے غافل ہو جائیں گے یا بعض امور دین میں اعتدال سے زیادہ مشغول ہو کر دین سے اکتا جائیں گے۔
ہر حالت کا آپ کے یہاں ایک خاص انتظام تھا ۔ حق سے کبھی کوتاہی نہ کرتے اور کبھی تجاوز کر کے نا حق کی طرف نہ جاتے ۔ سب میں افضل آپ کے نزدیک وہ شخص ہوتا جو عام طور پر سب کا خیر خواہ ہوتا اور سب سے بڑا رتبہ اس شخص کا ہوتا جو لوگوں کی غم خواری اور اعانت بخوبی کرتا ۔(نشر الطیب)
حوالہ: کتاب اسوہ رسول اکرم ؐ مکتبہ الحرمین لاہور)
٭ ٭ ٭
نظام الاوقات اندرون خانہ
تقسیم اوقات: حضرت حسنؓ اپنے والد ماجد حضرت علی ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ کا اپنے گھر میں اپنے ذاتی حوائج ( طعام و منام) کے لیے تشریف لے جانا ظاہر ہے اور آپ اس بات کے لیے منجاب اللہ ماذون ( اجازت) تھے ۔ سو آپ اپنے گھر میں تشریف لاتے تو اپنے اندر رہنے کے وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ۔
(۱) ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے
(۲) ایک حصہ اپنے گھر والوں کے معاشرتی حقوق ادا کرنے کے لیے ( جس میں ان سے ہنسنا بولنا شامل تھا)
(۳) اور ایک حصہ اپنے نفس کی راحت کے لیے ۔
پھر اپنے حصہ کواپنے اور لوگوں کے درمیان میں تقسیم فرما دیتے (یعنی اس میں سے بھی بہت سا وقت امت کے کام میں صرف فرماتے اور اس حصہ وقت کو خاص احباب کے واسطہ سے عام لوگوں کے کام میں لگا دیتے ( یعنی اس حصہ میں عام لوگ تو نہ آ سکتے تھے مگر خواص حاضر ہوتے اور دین کی باتیں سن کر عوام کو پہنچاتے اس طرح عام لوگ بھی ان منافع میں شریک ہو جاتے ) اور لوگوں سے کسی چیز کا اخفانہ فرماتے ۔ نہ تو احکام دینیہ کا اور نہ متاع دنیوی کا بلکہ ہر طرح کا نفع بلادریغ پہنچاتے اور اس حصہ وقت میں آپ کا طرز یہ تھا کہ اہل فضل( یعنی اہل عمل ) کو آپ اس امر میں اوروں پر ترجیح دیتے کہ ان کو حاضر ہونے کی اجازت عطا فرماتے اور اس وقت کوان لوگوں پر بقدر ان کی فضیلت دینیہ کے تقسیم فرماتے ۔ سو ان میں سے کسی کو ایک ضرورت ہوتی کسی کو دو ضرورتیں ہوتیں ، کسی کو زیادہ ضرورتیں ہوتیں سو ان کی حاجت میں مشغول ہوتے اور ان کو ایسے شغل میں لگاتے جس میں ان کی بقیہ امت کی اصلاح ہو۔ وہ شغل یہ کہ وہ لوگ آپ سے پوچھتے اور آپ ان کے مناسب حال امور کی ان کو اطلاع دیتے اور آپ یہ فرمایا کرتے تھے کہ جو تم میں حاضر ہے وہ غیر حاضر کو بھی خبر کر دیا کرے اور یہ بھی فرماتے کو جو شخص اپنی حاجت مجھ تک کسی وجہ سے مثلاً پردہ یا ضعیف یا بعد وغیرہ کے سبب نہ پہنچا سکے تم لوگ اس کی حاجت مجھ تک پہنچا دیا کرو۔ کیونکہ جو شخص ایسے کی حاجت کسی ذی اختیار تک پہنچا دے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا ۔
حضورؐ کی خدمت میں انہیں باتوں کا ذکر ہوتا تھا اور اس کے خلاف دوسری بات کو قبول نہ فرماتے ( مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے حوائج و منافع کے سوا دوسری لا یعنی یا فضول باتوں کی سماعت بھی نہ فرماتے )
لوگ آپ کے پاس طالب ہو کر آتے اور کچھ نہ کچھ کھا کر واپس ہوتے ( یعنی آپ علاوہ نفع علمی کے کچھ نہ کچھ کھلاتے تھے ) اور ہادی یعنی فقیہ ہو کر آپؐ کے پاس سے باہر نکلتے ۔(نشر الطیب)
اقات خلوت
نبی کریم ؐ اچانک گھر میں کبھی تشریف نہ لاتے کہ گھر والوں کو پریشان کر دیں بلکہ اس طرح تشریف لاتے کہ گھر والوں کو پہلے سے آپ کی تشریف آوری کا علم ہوتا ۔پھر آپؐ سلام کرتے ۔ جب آپ اندر تشریف لاتے تو کچھ نہ کچھ دریافت فرمایا کرتے ۔ بسا اوقات پوچھتے کہ کیا کچھ کھانے کو ہے ؟ اور بسا اوقات خاموش رہتے یہاں تک کہ ما حضر پیش کر دیا جاتا ۔ نیز منقول ہے کہ جب آپ گھر میں تشریف لاتے یہ دعا پڑھتے:
اَلْحمَدُ للّٰہ الَّذِیْ کَفَانِی وَا وَانِیْ وَالْحَمُدُ للِّٰہ الَّذیْ اَطْعَمَنِیْ وَ سَقَانِی وَ الْحَمْدُ للِّٰہ الَّذِیْ مَنَّ عَلَیَّ اَسْالُکَ اَنْ تُجِیْرَنِیْ مِنَ النَّارِ
تمام تعریفیںاللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس ن ےمیری ( تمام ضروریات کی ) کفایت فرمائی اور مجھے ٹھکانا بخشا اورتمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے کھلایا اور پلایا اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھ پر احسان فرمایا( اے اللہ ) میں آپ سے درخواست کرتا ہوں ، کہ آپ مجھے ( عذاب) نار سے بچا لیجیے۔
نیز ثابت ہے کہ آپؐ نے حضرت انس ؓسے فرمایا کہ جب تم گھر والوں کے پاس جائو تو انہیں سلام کرو تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے لیے باعث برکت ہو گا ۔(زادالمعاد ، شمائل ترمذی)
۲۔ حضرت اسود ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ؐ اپنے گھر والوں میں آکرکیا کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی خدمت یعنی گھریلو زندگی میں حصہ لیتے تھے ۔ مخدوم اور ممتاز بن کر نہ رہتے تھے بلکہ گھر کا کام بھی کر لیتے تھے ، مثلاً بکری کا دودھ دوھ لینا ۔ اپنی نعلین مبارک سی لینا (ہکذافی نشر الطیب)
اس میں دوسرے اعمال اور دیگر معمولات و مشاغل کی نفی نہیں ہے۔(مسند احمد)
۳۔ حضور اکرمؐ اپنے گھر والوں اور خادموں کے ساتھ بہت خوش اخلاقی کا سلوک فرماتے اور کبھی کسی سے سر زنش اور سختی سے پیش نہ آتے ۔
حضور اکرمؐ گھر والوں کے لیے اس کا بڑا اہتمام فرماتے کہ کسی کو کسی کی نا گواری نہ ہو ۔
۴۔ حضور اکرم ؐ ازواج مطہراتؓ کے پاس ہوتے تو بہت نرمی ، خاطر داری کرتے اور بہت اچھی طرح ہنستے بولتے تھے( ابن عساکر)
۵۔ آنحضرتؐ جب گھر میں تشریف رکھتے تو خانگی کاموں میں مصروف رہتے ، خالی اور بیکار کبھی نہ بیٹھتے ، معمولی معمولی کام خود انجام دے لیتے مثلاً گھر کی صفائی ، مویشی کو چارہ دینا ، اونٹ، بکری کا انتظام فرمانا اور بکری کا دودھ بھی خود ہی نکال لیا کرتے تھے ۔خادم کے ساتھ مل کر کام کرلیا کرتے ۔ آٹا گندھوا لیتے۔
بازار سے خود سودا خرید نے جاتے اور کپڑے میں باندھ کر لے آتے ، اپنا جوتا خود ہی سی لیتے ، اپنے کپڑے میں خود پیوند لگا لیتے وغیرہ وغیرہ (زاد المعاد، مدارج النبوۃ)
خواب اور بیداری میں آنحضرت ؐ کا طرز و طریق
آپ ابتدائے شب میں سوتے اور نصف شب کی ابتدائی میں بیدار ہو جاتے اٹھ کر مسواک فرماتے اور وضو کر کے جس قدر اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھی ہوتی نماز پڑھتے ، گویا بدن کے جملہ اعضا ء اور تمام قویٰ کو نیند اور استراحت سے حصہ مل جاتا۔
آپ ضرورت سے زیادہ نہیں سوتے تھے اور ضرورت سے زیادہ جاگتے بھی نہ تھے، چنانچہ جب ضرورت لاحق ہوتی تو آپ دائیں طرف اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آرام فرماتے حتیٰ کہ آپ کی آنکھوں پر نیند غالب آجاتی ۔ اس وقت آپ شکم سیرنہ ہوتے۔ نہ آپ سطح زمین پر لیٹ جاتے اور نہ زمین سے بچھونا زیادہ اونچا ہوتا بلکہ آپؐ کا بستر چمڑے کا ہوتا۔ جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوتی ۔ آپ تکیہ پر ٹیک لگاتے اور کبھی رخسار کے نیچے ہاتھ رکھ لیتے اور سب سے بہتر نیند دائیں جانب کی ہے ۔( زاد المعاد)
حضور اکرم کی نیند بقدر اعتدال تھی ۔ قدر ضرورت سے زیادہ نہ سویا کرتے تھے اور نہ قدر ضرورت سے زیادہ اپنے آپ کو سونے سے باز رکھا کرتے تھے ۔ یعنی حضوراکرمؐ خواب بھی فرماتے اور قیام بھی فرماتے جیسا کہ نوافل و عبادت میں حضورؐ کی عادت کریمہ تھی ، کبھی رات میں سو جاتے پھر اٹھ کرنماز پڑھتے اس کے بعد پھر سو جاتے ۔ اس طرح چند بار سوتے اور اٹھتے تھے۔ اس صورت میں یہ بات درست ہے کہ جو نیند میں دیکھنا چاہتا وہ بھی دیکھ لیتا اور جو بیدار دیکھنا چاہتا وہ بھی دیکھ لیتا ۔( زاد المعاد ، مدارج النبوۃ)
حوالہ: کتاب اسوہ رسول اکرم ؐ مکتبہ الحرمین لاہور)
٭ ٭ ٭