ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عہدِ وفا-بتول جنوری ۲۰۲۱

نکاح ایک ایسا عہد وفا ہے جس کو اللہ رب العزت کے نام پہ گواہوں کی موجودگی میں قائم کیا جاتا ہے۔ اور ’’عہد الست‘‘ کے بعد یہ وہ پہلا اقرار ہے جو اولاد آدم کے درمیان لازمی قرار پایا ہے ۔ رب العلمین نے اولاد آدم سے اقرار لیا کہ وہ ہر حال میں اسی کو رب تسلیم کریں گے یہ خالق اور مخلوق میں وہ ’’عہد وفا‘‘تھا جس کے گواہ فرشتے اور کل کائنات تھی ۔ دنیا کا نظام چلانے کے لیے مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ نکاح کی شکل میں لازم ہؤا جس پہ گواہ لازمی اور اعلان مستحسن ہے ۔ دنیا کی کوئی تہذیب اس سے انکار نہیں کر سکتی ۔ جانوروں اور انسانوںکے طرز زندگی میں یہی بنیادی فرق ہے ۔
’’عہد الست ‘‘میں مکمل وفا کا تقاضا ہے ۔ قولی عملی اور ظاہری و باطنی طور پہ ایک ہی رب کا ہو کر رہنا اور اور اس کو’’ ادخلوا فی السلم کآفۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
سیدنا آدم عليہ السلام اور اماں حوا کو اللہ تعالیٰ نے اپنی فرماں برداری کی پہلی شرط کے ساتھ ایجاب و قبول کروا کر ایک دوسرے کے ساتھ سر تاپا وفا کی پاسداری کا پابند کر دیا ۔ اولاد آدم کےہر مرد و عورت اسی شرط کے ساتھ باہم ایک جوڑا بنے اورخوب صورت اور مکمل زندگی تشکیل پائی ۔ دونوں کو ایک دوسرے کا لباس بنایا ۔ ایک دوسرے کے لیے محبت ،مودت اور رحمت اورباعث سکون بنایا ۔ یہ سب نعمتیں اور خوشیاں دائمی اسی وقت ہو سکتی ہیں جب اس معاہدے کے قواعد وضوابط کا بھر پور خیال رکھا جائے اور اللہ تعالیٰ کے نام پہ استوار ہونے والے اس رشتے کو خدا خوفی اور احساس جواب دہی کے ساتھ نبھایا جائے ۔ وفا کا عہد ہر دو زوجین سے برابر پاسداری تقاضا کرتا ہے ۔ اور یہ وفاکا تقاضا سماعت ،بصارت،اور دل کی کیفیات سے منسلک ہے اللہ تعالیٰ نے آنکھ کان اور دل میں اٹھنے والے خیالات تک کا محاسبہ کرنا ہے (بنی اسرائیل ) اور اللہ دلوں میں چھپے رازوں اور نظروں کی خیانت سے واقف ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ان خاموش اعمال کی باز پرس ہوگی تو زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ اور ہر چھوٹے بڑے عمل کا کیسا کڑا حساب ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ کے رسول بر حق خاتم النبیین محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ میں تفصیل سے اس خیانت بد عہدی کھلی یا چھپی بے حیائی اور نافرمانی کے معاملے میں متنبہ فرمایا ہے ۔
ہر لڑکا اور لڑکی نکاح سے پہلے اپنے آپ کو اپنے ہونے والے ساتھی کی امانت سمجھے تو شیطانی وسوسوں، اور لایعنی فحش خیالات اور بد نظری ،جذباتی انتشار سے بچاؤ ممکن ہے ۔ عصمت و آبرو کی حفاظت کے لیے رب العالمین نے ایک مضبوط حصار کا انتظام کیا ہے ۔ فطری حیا ، خاندانی نظام کا مربوط حکمت سے بھر پور خاکہ ، محرم نا محرم کی حدود، لباس کی تراش خراش ، نظروں کی حفاظت ، چادر اور چار دیواری کی حرمت، پردے کے گھر اور گھر سے باہر والےاحکامات ۔ رشتوں کا تقدس ، مرد کی نفسیات کے تحت حسب ضرورت تعدد ازواج کی اجازت غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے توحید کے تقاضے پوری وضاحت سے بیان کیے ہیں تو اس کے بعد مرد و عورت کے درمیان تعلق کی نوعیت کو پوری وضاحت سے بیان فرمایا ہے ۔ دونوں معاہدے ’’ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں‘‘ کی بنیاد پہ کامیاب ہو سکتے ہیں ۔
شیطان مرد اور عورت کا ازلی و ابدی دشمن ہے تو اس کی دشمنی دونوں کو رب سے بے وفائی اور ایک دوسرے سے بے وفائی بدگمانی پیدا کرنے اور جدائی ڈالنے کے لیے مختص ہے۔
بحر و بر میں فساد کی یہ دو ہی وجوہات ہیں ۔ اور غور کا مقام ہے کہ رب سے بے وفائی(شرک) ناقابل معافی اور جہنم کی وعید ہے اور مرتد اسلام کو سزائے موت ہے تو دین حق و فطرت میں زوجین میں سے کسی ایک کی بے وفائی کی ساری حدود پار کرنے پہ بھی دنیا میں اتنی کڑی سزا ہے کہ اس کو جینے کا حق نہیں ملتا ۔ اور زندگی ختم کرنے کی سزا بھی سنگساری ہے جو ہرجرم کی سزا سے زیادہ عبرت ناک ہے ۔ یہ باعث عبرت اس لیے بنائی گئی ہے کہ شرم و حیا انسان کی فطرت ہے اس سے بغاوت ہے اور پھر دین فطرت میں جو معاشرتی وسماجی حدود مقرر کی گئ ہیں ان سب کو توڑنے کا جرم کیا ہے ۔ معاشرے کو پاک رکھنے کے لیے اس گندگی سے نجات ضروری ہے ۔
ازل سے شیطان ان دو معاہدوں میں خیانت کروانے کے لیے برسر پیکار ہے اور ان میں کامیاب ہونے کا مطلب ہے دنیا کا نظام عدم توازن کا شکار ہو جائے ۔
یہ بات باعث تشویش ہے کہ مسلم معاشرے میں شرک بڑھ رہا ہے اور زوجین میں نکاح کے تقاضے بھی نسیا منسیا ہو رہے ہیں تو گویا امت مسلمہ کے ایمانی و معاشرتی معاملات میں خدا خوفی ، احساس جواب دہی ختم ہو رہا ہے ۔ اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان عمر کے ہر مرحلے میں ایک باوقار فاصلہ رکھنے کی تلقین کی ہے ۔ مخلوط تعلیم نے جس تدریج سے مرد و عورت کے درمیان لحاظ و مروت کو ختم کیا ہے اس پہ متقی خاندان بھی اب بے بس نظر آتے ہیں ۔ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ اب ناپسندیدہ یا باعث عار رشتہ نہیں رہا چند سال کی عمر سے سکول کالج یونیورسٹی اور روزگار کے مقام پہ ایک ساتھ رہنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آپس میں بےتکلفی کوعار کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
میڈیا وہ شیطانی ہتھیار ہے جس نے ہر مرد و عورت بوڑھے اور جوان کو ’’جیسے چاہو جیو‘‘ کا سلوگن دے کر کہ’’عالم دوبارہ نیست‘‘ مد ہوش کر رکھا ہے ۔
اس خرابیِ بسیار کا علاج کیسے ممکن ہو؟
ان حالات میں ہر درد مند کہتا ہے کوئی معجزہ ہی مسلمانوں کو سدھار سکتا ہے ۔نہ جگہ جگہ تبلیغی اجتماع ، نہ عمرہ حج کرنے جانے والوں کا رش ، نہ گلی گلی مساجد، نہ محلے محلے مدارس ، نہ لاکھوں علما، نہ کوئی پیر نہ کوئی مزار، نہ کوئی قطب نہ کوئی ابدال، اور نہ کوئی حوروں کی ترغیب دے کر لبھانے والا اگر یہ سب ادارے یا افراد ان دگرگوں حالات میں مایوس ہیں تو کیا یہ بھی کفر کا راستہ نہیں؟
امت مسلمہ کی زبوں حالی کا کوئی تو حل ہوگا؟ یوں مایوسی اور بےبسی کے افکار ہی تو شیطانی منصوبوں کا راستہ کھولتے ہیں ۔
بیماری کی درست تشخیص سے آدھا علاج ہو جاتا ہے ۔بیمار امت مسلمہ کی بنیادی وجہ دراصل قرآن و سنت کے حقیقی فہم سے شعوری دوری ہے ۔ اپنے رب سے کئے گئے عہد الست کی تذکیر سے نابلد ہیں۔ اسی تذکیر میں کلمہ توحید کا اقرار اور اسی اقرار کے تحت کامیاب معاشرتی وسماجی زندگی ممکن ہے اور اسی سے اخروی کامیابی مربوط ہے ۔
آئیے دونوں جہان کی کامیاب زندگی کے لیے کوئی قابل عمل ، ٹھوس لائحہ عمل تلاش کریں ۔
(جاری ہے)

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x