اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کو رسالت کا فریضہ ادا کرنے کے لیے مبعوث فرمایا، اور آپؐ نے اس فرض کو پوری لگن اور جانفشانی سے ادا کیا، اور انسانوں کو قعرِ مذلت سے اٹھا کر شرفِ انسانیت کی بلندی پر لا کھڑا کیا۔ آپؐ سے جتنی بھی محبت کی جائے اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل آپؐ کی محبت کے اسیر ہیں۔ وہ اس ذات سے عشق کرتے ہیں جو محسنِ انسانیت اور رحمت للعالمین ہے۔
عشقِ رسولؐ کیا ہے؟
مومن کے دل کا ایسا لگاؤ کہ وہ اس ذات کے سامنے اپناسب کچھ لٹانے کو تیار ہو جائے، اس کے والدین، اولاد، بہن بھائی، ازواج، قوم، قبیلہ، مال و دولت، گھر، تجارت، عیش پسند زندگی اور اس کے سب لوازمات اللہ اور اس کے رسولؐ کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہ رکھتے ہوں، بلکہ اسے اپنے آپ سے بھی وہ محبت نہ ہو جیسی خالص محبت اللہ اور اس کے رسول ؐ کے لیے ہو۔وہ ہر آن اس فکر میں غلطاں رہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐکو کس طرح خوش اور راضی رکھے۔اپنے قول اور عمل سے مسلسل اسی محبت کو پیش کرتا رہے، اور یہ اس کے اعمال کی فہرست میں سب سے قیمتی توشہ ہو۔
محبت ِ رسولؐ کا حکم
اگر مومن کی زندگی سے محبتِ رسول ؐکو نکال دیا جائے تو ایمان نامکمل رہ جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں رسول ِ کریمؐ سے محبت کو ایمان کے واجبات میں شامل کیا گیا ہے، ارشاد ہے:
’’اے نبیؐ! کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز واقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔ (التوبہ، ۲۴)
یہاں اللہ تعالیٰ نے محبتوں کے رنگ اور ان کی مثالیں بیان کر دی ہیں۔ کون سے تعلقات، کون سے روابط اور کون سے لذائذ ایمان کے خلاف ہوں گے تاکہ انہیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ایمان اور اسلام کے تقاضوں کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر مشخص اور ممثل انداز میں بتایا جائے۔خون، نسب کے رشتے اور قرابت داریاں اور اموالِ تجارت اور زندگی کی لذتوں کو ایک پلڑے میں رکھ کر دوسرے میں حبِ الٰہی، حبِ رسولؐ، اور جہاد میں رکھ کر دعوتِ انتخاب دی جاتی ہے۔ یہ بڑی مشقت آمیز راہ ہے اور نہایت ہی عظیم ذمہ داری! یہ پوری امتِ مسلمہ سے مطالبہ ہے۔ اور یہ اللہ کی نہایت کریمی ہے کہ اس نے اس ضعیف انسان کے اندر اس قدر صلاحیت اور طاقت رکھی ہے کہ وہ اس قدر مخلصانہ معیار پیش کرے اور اس قدر مشکلات برداشت کرے۔ اور اس کو اس خلوص اور شعور کے اندر وہ لذت دی ہے کہ وہ اس کی خاطر تمام لذاتِ ارضی کو خیرباد کہہ سکتا ہے۔ اور جب بھی اس دنیا کی سفلی لذات اس کا دامن کھینچتی ہیں تو وہ اپنی نگاہیں بلند افق پر ایک روشن نصب العین پر مرکوز کر دیتا ہے، اور ان سب سے دامن چھڑا لیتا ہے۔ (دیکھیے: فی ظلال القرآن، تفسیرا لآیہ)
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’بلا شبہ نبیؐ تو اہلِ ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہیں‘‘۔ (الاحزاب، ۶)
یعنی نبی ؐکا مسلمانوں سے اور مسلمانوں کا نبی ؐ سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانوں سے ایک بالاتر نوعیت رکھتا ہے۔ کوئی رشتہ اس رشتے سے اور کوئی تعلق اس تعلق سے جو نبی اور اہلِ ایمان کے درمیان ہے، ذرّہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔نبی ؐ مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بھی بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور بیوی بچے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کروا سکتے ہیں، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں، مگر نبیؐ ان کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیںجس میں ان کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار سکتے ہیں، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں، لیکن نبی ؐ ان کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقع ان کے حق میں نافع ہو۔ جب معاملہ یہ ہے تونبی ؐ کا بھی مسلمانوں پر حق ہے کہ وہ آپؐ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت رکھیں، اپنی رائے پر آپؐ کی رائے کو، اور اپنے فیصلے پر آپؐ کے فیصلے کو مقدّم رکھیں، اور آپؐ کے ہر حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیں۔(تفہیم القرآن، ج۴، ص۷۱)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی اولاد، باپ اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔ (متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن ہشام سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ؐ کے ہمراہ تھے، اور انہوں نے حضرت عمر بن خطابؓ کا ہاتھ تھام رکھا تھا، تو ان سے عمرؓ نے کہا: یا رسول اللہؐ، آپ مجھے اپنے علاوہ ہر شے سے زیادہ محبوب ہیں، اس پر رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، حتیٰ کہ میں تمہیں تمہاری ذات سے بھی بڑھ کر محبوب ہو جاؤں‘‘۔پھر حضرت عمرؓ نے ان سے کہا: اللہ کی قسم، اب آپؐ مجھے اپنی ذات سے بھی بڑھ کر محبوب ہو گئے ہیں، تب رسول اللہؐ نے فرمایا: اب اے عمرؓ (یعنی اب بات بنی ہے)۔(رواہ البخاری، ۶۶۳۲)
اسی لیے شاعر نے کہا:
محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایماں نامکمل ہے
حبِ رسول ؐ کے مظاہر
جب دلوں میں حبِ رسول ؐ جاگزیں ہو جاتی ہے تو اس کا اثر افعال میں نظر آتا ہے، اور بظاہر ایک عام عمل بھی اس گہری محبت کے اثر سے خاص ہو جاتا ہے۔
رسول کریم ؐ ایک روز حرم میں تھے جب کفار کی ایک جماعت نے آپؐ پر حملہ کر دیا،اور حضورؐ کی سر اور ڈاڑھی کے بال نوچ ڈالے ، اور آپؐ کے کئی بال اکھڑ گئے۔ حضرت ابو بکرؓ آپؐ کی حمایت کے لیے اٹھے۔ وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: ’’ کیا تم ایک شخص کو اس لیے مار ڈالو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے‘‘۔ رسول اللہؐ نے ان سے کہا: انہیں چھوڑ دو اے ابوبکرؓ، میں ان کی طرف ذبح کے ساتھ ہی بھیجا گیا ہوں۔ یہ سن کر ساری بھیڑ آپ کے پاس سے چھٹ گئی۔(رواہ البخاری)
حضرت حمزہؓ رسول اللہ ؐ کے چچا اور دودھ شریک بھائی بھی تھے، ایک روز شکار سے واپس آئے تو انہیں عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی نے خبر دی کہ آج ابو جہل نے آپؐ کو بہت گالیاں دی ہیں اور برا بھلا کہا ہے۔ حضرت حمزہ کو رسولِ خداؐ سے بہت محبت تھی، وہ تیر کمان لیے ہوئے فوراً حرم میں گئے اور کمان اس زور سے اس کے سر پر ماری کہ ابو جہل کا سر پھٹ گیا، پھر کہا: ’’تو ان کو گالیاں دیتا ہے، میں بھی انہیں کے دین پر ہوں، اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتے ہیں، تجھ میں ہمت ہے تو ذرا وہی گالیاں مجھے دے کر دیکھ‘‘۔ اس پر بنو مخزوم کے کچھ لوگ اس کی حمایت میں اٹھے، مگر ابو جہل نے انہیں یہ کہہ کر روک دیاکہ میں نے واقعی ان کے بھتیجے کو بری طرح گالیاں دی تھیں۔ (طبرانی)
ہجرت کے سفر میں غارِ ثور کی جانب جاتے ہوئے حضرت ابو بکرؓ کی عجیب کیفیت تھی۔ کبھی رسول اللہؐ کے آگے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے آجاتے۔ حضورؐ نے یہ اضطرابی کیفیت دیکھی تو پوچھا: ’’ابو بکر یہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟‘‘۔ کہنے لگے: یا رسول اللہ! جب مجھے خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی پیچھے سے آپؐ پر وار نہ کر دے تو آپ کے پیچھے ہو جاتا ہوں اور جب خیال آتا ہے کہ کوئی دشمن آگے کہیں کمین گاہ میں نہ بیٹھا ہو تو آگے آجاتا ہوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: تو یہ سب اس لیے کرتے ہو کہ سارا ضرر تمہیں پہنچے اور میں محفوظ رہوں؟ کہا: اس اللہ کی قسم، جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں یہی چاہتا ہوں کہ آپؐ پر ٹوٹنے والی آفت اپنے اوپر لے لوں اور آپ محفوظ رہیں۔ (دلائل النبوۃ للبہیقی)
آپؐ کی اطاعت اور اتباع
آپؐ سے محبت کا اصل اور بڑا مظہر آپؐ کی پیروی کرنا ہے۔مومن کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اللہ کی محبت حاصل کرنا ہے، اور وہ رسول اللہ ؐ کے بتائے ہوئے احکام کی اطاعت اور تعمیل میںہی ملتی ہے، اور وہی اس کا مقصودِ اوّل ہے۔اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
’’اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کر لو،پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبّت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں‘‘۔ (آل عمران، ۳۲)
آپؐ کی اطاعت اور اتباع صرف آپؐ کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے لیے ہے۔ اور آپؐ کا عمل اور آپؐ کا طریقہ ہی قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے دمیان فیصلہ کن سند ہے۔حدیث میں اسی بات کو نبی اکرم ؐ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی خواہشِ نفس اس طریقے کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں‘‘۔ (کتاب الحجۃ، حدیث صحیح باسناد صحیح)
محب کا مقام
رسول اللہؐ سے محبت جنت کا راستہ ہے، اور یہ اللہ کی محبت پانے کا دروازہ ہے۔یہ مومن کے اللہ اور اس کے رسول سے اخلاص کی دلیل ہے۔جب مومن اللہ کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے تو ان کی اطاعت اور اتباع میں اس کے قدم تیز ہو جاتے ہیں، اور جس کام سے آپؐ نے منع کیا یا نا پسندیدگی کا اظہار کیا وہ اس کو چھوڑ دیتا ہے، اور ایسی چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔اور اس کی محبت کی سچائی اور اخلاص کی دلیل یہ ہے کہ حبِّ رسول فقط اس کے دل میں بسیرا نہیں کرتی بلکہ وہ اس کی خوشبو سے دوسروں کو بھی معطر کرنے لگتا ہے۔
ایک شخص رسول اللہ ؐ کے پاس آیا اور سوال کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ،قیامت کی گھڑی کب آئے گی؟ آپؐ نے پوچھا: تم نے اس کی کیا تیاری کی ہے؟ وہ بولا: میں نے اس کی تیاری نماز، روزے اور صدقات کی کثرت سے تو نہیں کی، لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو نے محبت کی‘‘۔ (رواہ مسلم، ۳۶۹۔۱۰)
رسول اللہ ؐ کے اصحاب آپؐ کی محفل کے مشتاق تھے۔ ان میں سے بعض حضرات تو ایسے تھے جو آپؐ کی جدائی کے تصور ہی سے پریشان ہوجاتے تھے۔ ابنِ جریر نے حضرت سعید بن جبیرؓ سے روایت کی ہے کہ انصار میں سے ایک شخص رسول اللہ ؐ کے پاس آیا، وہ بہت پریشان لگ رہا تھا، آپؐ نے اس سے پوچھا: ’’اے فلاں تم پریشان کیوں ہو؟ وہ بولا: یارسول اللہؐ ، میں ایک معاملے میں سوچ رہا تھا۔ آپؐ نے پوچھا: کیا تھا وہ؟ وہ کہنے لگا: میں سوچ رہا تھا کہ ہم صبح شام آپ سے آ کر ملتے ہیں، آپؐ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہیں اور آپؐ کی مجلس میں آ کر بیٹھتے ہیں۔ کل آپ نبیوں کے ہاں چلے جائیں گے تو ہم آپؐ سے ملاقات نہ کر سکیں گے۔ نبی اکرم ؐ نے اس شخص کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ اتنے میں حضرت جبرائیلؑ یہ آیت لے کر آئے: ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔ اور اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں‘‘۔ (النسائ، ۶۹) نبی اکرمؐ نے اس شخص کے لیے پیغام بھیجا اور اسے خوشخبری دی۔(رواہ الترمذی)
صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ؐ سے شدید محبت رکھتے تھے، ان کی زندگیاں اسی محبت میں گزریں اور اس محبت کی گواہیاں تاریخ کے اوراق میں بھی محفوظ ہیں اور سینہ بہ سینہ عشاقِ رسول اسے منتقل بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہر دور میں محبت کی یہ داستانیں رقم ہوتی رہی ہیں، جب مومنوں کے لیے محبتِ رسول ہی سب سے قیمتی رہی ، اور اس محبت کے سامنے نہ کوئی رشتہ کھڑا رہ سکا نہ مال و دولت اور دنیا کی کوئی شے حائل ہو سکی۔اور اسی کی دلیل ابو سفیان بن حرب کا قول ہے جو اس نے آپؐ کے بارے میں کہا: ’’میں نے لوگوں میں کسی کو کسی سے اس طرح محبت کرتے نہیں دیکھا جس طرح اصحابِ محمدؐ ، محمدؐ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ حضرت عمر بن العاصؓ کا قول ہے کہ: ’’مجھے کسی شخص سے اتنی محبت نہیں جتنی میں رسول اللہؐ سے کرتا ہوں‘‘۔
غزوہ بدر میں ناکامی کے بعد قریش نے کچھ مسلمانوں کو پکڑ لیا، ان میں زید بن دثنہؓ بھی تھے۔ صفوان بن امیہ نے اپنے باپ امیہ بن صلت کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے زیدؓ کو خرید لیا، اور انہیں قتل کرنے کے لیے اپنے غلام کے ہمراہ تنعیم کی جانب بھیج دیا، اور اس قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے کفار کی ایک جماعت جمع ہو گئی، جن میں ابو سفیان بھی تھا۔ زیدؓ کوجب قتل کے لیے لایا گیا تو ابو سفیان نے زیدؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوںکہ کیا تم پسند کرو گے کہ ہم تمہیں چھوڑ دیں اور محمدؐ کو تمہارے بدلے میں قتل کر دیں اور تم اپنے گھر آرام سے رہو۔ حضرت زیدؓ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا: ’’اللہ کی قسم مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ رسول کریم جہاں پر ہیں وہیں ان کے پاؤں مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں‘‘۔یہ سن کر ابوسفیان بولا: خدا کی قسم! میں نے کسی کو کسی کا اس قدر محب، مخلص ، دوست اور جانثار نہیں دیکھا، جتنا محمد ؐ کے ساتھی ان کے جانثار اور چاہنے والے ہیں۔ قریش نے زید بن دثنہؓ کے دوسرے ساتھی حضرت خبیب بن عدیؓ کو بھی پھانسی دیتے وقت یہی سوال کیا، اور خبیبؓ کا جواب بھی یہی تھا، جسے سن کر قریش دنگ رہ گئے۔ (البدایہ والنہایہ)
غزوہ احد کا معرکہ بڑا کٹھن معرکہ تھا۔ ابتدائی فتح کے بعد مسلمانوں کی غلطی کا فائدہ اٹھا کر کفار کے لشکر نے عقب سے پلٹ کر حملہ کیا تھا، اوربھاگتے ہوئے کفار بھی اپنی جگہ جم کر لڑنے لگے تھے۔ مسلمانوں کا لشکر چکی کے دو پاٹوں کے بیچ میں پس رہا تھا، اس حال میں رسول اللہ ؐ کی پکار ’’ھلم الیّ‘‘ میری جانب آؤ، سن کر کفار بھی آپؐ پر زیادہ شدت سے حملہ آور ہو گئے تھے اور مسلمان بھی ان مشکل گھڑیوں میں اپنا سب کچھ قربان کر کے آپؐ کی حفاظت کے لیے حصار بنا رہے تھے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ پر جب قریش کا ہجوم ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ’’کون ہے جو ان کو مجھ سے ہٹائے اور جنت میں ہمارا رفیق بنے۔ آپؐ کے ارد گرد سات انصار صحابہ اور دو مہاجرین تھے، جو پروانوں کی مانند آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے جانیں قربان کرتے رہے، انصار میں سب سے آخر میں عمارہ بن یزیدؓ زخمی ہوئے ، اور گر پڑے ، صحابہ نے انہیں آپؐ کے قریب کیا تو انہوں نے اپنا گال آپؐ کے پاؤں مبارک پر رکھ دیا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ (ابن ہشام، ۲۔۸۱) آخر میں آپؐ کے پاس صرف دو قریشی مہاجر طلحہ بن عبید اللہؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ رہ گئے۔رسول اللہؐ انہیں تیر نکال کر پکڑاتے اور فرماتے: انہیں پھینکو، میرے ماں اور باپ تم پر فدا۔ اور یہ کلمات نبی کریمؐنے سعد کے علاوہ کسی کے لیے نہیں کہے، یعنی اپنے ماں باپ دونوں کو جمع نہیں کیا(الرحیق المختوم ، ص۲۴۴) اور حضرت طلحہؓ نے بھی اس روز اس جانفشانی سے رسول کریمؐ کے دفاع کا حق ادا کیا، گویا وہ گیارہ لوگوں کے برابر لڑ رہے ہوں، اور احد کے روز انہیں پینتیس یا انتالیس زخم آئے اور آپ کی شہادت کی انگلی اور اس کے ساتھ والی شل ہو گئیں۔ (سنن النسائی، ۲۔۵۲)
حضرت امّ عمارہ نے آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے ایک کافر عبداللہ بن قمیہ کی تلوار کا وار اپنے کندھے پر لیا اور رسول ِ کریمؐ کا دفاع کیا۔ جب کفار کے تیروں کی بارش ہوئی تو ابو دجانہؓ نے آپؐ کو اپنے وجود سے ڈھانپ لیا اور تیروں کو اپنی کمر پر روکا۔ حضرت سعد بن ربیع ؓ خوب جرآت سے لڑے اور جب زخمی حالت میں انہیں دیکھا گیا تو انہوں نے آخری لمحوں میںساتھیوں کو یہی پیغام بھیجا کہ : اگر رسول کریم ؐ تک دشمن کا ہاتھ پہنچ گیا اور تم میں ایک آنکھ بھی دیکھنے والی موجود ہوئی تو پھر قیامت کے دن تمہاری کوتاہی کا کوئی عذر نہ سنا جائے گا‘‘۔(محسنِ انسانیت، ص ۳۶۸)
حبّ رسول تربیت کا ذریعہ بھی!
اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اس نے رسول اللہؐ سے محبت کو ایمان کا حصّہ بنایا، اور اسی محبت اور اطاعت کو اللہ کی محبت پانے کا ذریعہ بھی قرار دیا۔اسی لیے اس محبت کے حصول کے لیے اپنے نفس کی تربیت کرنا ضروری ہے، پس لازم ہے کہ:
٭ رسول کریم ؐکی حیثیت کو پہچانا جائے، کہ آپؐ کو اللہ نے تمام انسانوں پر فضیلت دی، اور اپناآفاقی پیغام آپؐ کے ذریعے تا قیامت روئے زمین کے سب انسانوں کے لیے پہنچایا۔
٭اس بات کا شعور پیدا کیا جائے کہ رسول اللہ ؐ کا اتباع ، اور آپؐ کے طریقے کی پیروی ہی دخولِ جنت کا ذریعہ ہے۔ اس بات کا یقین ہونا کہ رسول اللہ ؐ کا طریقہ ہی درست اور اللہ کے ہاں مقبول عمل ہے۔
٭ رسول اللہؐ کی اپنی امت سے محبت اور ان پر شفقت کو ضرور یاد رکھا جائے۔وہ ان کی ہدایت کے لیے کس طرح بے چین ہوتے تھے، اور کن مشکلات کو برداشت کر کے دین ِ حق کو امت تک پہنچایا اور اس راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کی نہ دھمکیوں کو در خورِ اعتنا جانا۔ آپؐ کی شفاعت میں حصّہ پانے کی دعا کرنی چاہیے۔آپؐ نے فرمایا: ’’ہر نبی کی ایک دعا کو اللہ نے قبولیت عطا کی اور، میںچاہتا ہوں کہ اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا کر رکھوں ‘‘۔ (رواہ البخاری، ۶۳۰۴)
حبّ رسولؐ کے ثمرات
رسول اللہ ؐ سے محبت کے ثمرات مسلسل ملتے ہیں۔ محبت وہ شیریں جذبہ ہے جو بڑے بڑے کاموں کو سہل بنا دیتا ہے، اور جب محبت رسول اللہ ؐ جیسی ذات ِ مبارک سے ہو تو اس کے ثمرات کا کیا کہنا!
صحابہ کرامؓ آپؐ سے محبت کرتے تھے تو آپؐ سے متعلق ہر چیز سے محبت کرتے،۹ھ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ امیر حج بنا کربھیجے گئے، بعد میں سورہ التوبہ کی آیات نازل ہوئیں تو رسول کریم ؐنے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو اپنی اونٹنی پر بھیجا تاکہ وہ حج کے دن اللہ کی جانب سے مشرکوں کو اعلان برأ ت سنا دیں۔ حضرت علیؓ جب وہاں پہنچے تو صحابہ کرامؓ رسول اللہ ؐ کی اونٹنی کو دیکھ کر خوش ہو گئے۔
رسول اللہؐ نے قرآن و سنت کو آگے بیان کرنے کا حکم دے کر محبت کا ایسا در کھولا کہ آج بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر سنت و حدیث کو بیان کرنا بڑے اعزاز کا کام سمجھا جاتا ہے، اور دین کے داعی قرآن کی تعلیم کے ساتھ آپؐ کے طریقے کو بڑی محبت سے بیان کرتے ہیں۔
رسول اللہ ؐ سے محبت قیامت میں آپؐ کا ساتھ ملنے کو خوشخبری ہے۔اسی طرح کئی اعمال پر آپؐ نے جنت میں ساتھ کی نوید سنائی ، جس طرح چار یا تین بیٹیوں کی پرورش کرنے والے کو، اور یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے کو خوشخبری سنائی۔ رسول اللہؐ کی زندگی میں مومنوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
حبّ رسول تعلق کی بنیاد
رسول اللہ ؐ سے تعلق کی مضبوط بنیاد آپؐ سے محبت ہے، یہ شرطِ ایمان ہے۔ اس سے مراد رسمی اور محض روایتی محبت نہیں بلکہ ایسی محبت ہے جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے، جس کے سامنے عزیز سے عزیز رشتے اور محبوب سے محبوب شے کی بھی کوئی وقعت نہ رہے۔ محبت کا وہ درجہ جس تک کوئی اور محبت نہ پہنچ سکے۔ اور ایمان کی لذت سے وہی آشنا ہو سکتا ہے جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول ؐدوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں۔
نبی کریم ؐکے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد صحابہ کرامؓ کو آپؐ کی جدائی کا غم بہت ستاتا، حضرت بلالؓ نے اذان دینا چھوڑ دی۔ اور آپؐ کو یاد کر کے صحابہؓ رو پڑتے۔ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق ؓاور حضرت عباسؓ انصار کی ایک مجلس میں گئے تو دیکھا کہ سب رو رہے ہیں۔ سبب پوچھا تو کہنے لگے ہمیں رسول اللہؐ کی مجلس یاد آگئی۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ رسول اللہ ؐکے مرض الموت کا واقعہ ہے جس میں انصار کو یہ خوف لاحق ہو گیا تھا کہ اگر آپ کا وصال ہو گیا تو پھر آپؐ کی محفل میسر نہ ہو گی اور وہ اس غم سے رو پڑے تھے۔
رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے:
جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ (رواہ ترمذی)
پس آپؐ سے محبت کا طریقہ یہی ہے کہ آپؐ کے طریقے سے محبت کرے اور اسے آگے بڑھ کر اختیار کرے۔
٭٭٭