ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مسلم فیمی نسٹ خواتین اور قرآنی احکا م کی تعبیر – مارچ ۲۰۲۱

خواتین کے مقام ومرتبے اور حقوق وفرائض کا تعین انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایک مشکل لیکن اہم معاملہ رہا ہے۔ اہمیت یہ ہے کہ معاشروں ، سلطنتوں اور حتیٰ کہ تہذیبوں کے عروج وزوال سے اس معاملے کا تعلق ہے،اور مشکل یہ ہے کہ الحادی نظریات وافکار ہوں یا مذاہب عالم کی تعلیمات و روایات، ہر جگہ اس حوالے سے افراط وتفریط ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسلام کا البتہ اس حوالے سے امتیاز یہ ہے کہ اس آخری الہامی دین اور آسمانی ہدایت میں تکریمِ نسل آدم کے بنیادی تصور کی روشنی میں قانون واخلاق کو یک جا کر کے عالمِ نسواں کے مسائل کا ایک ایسا جامع حل پیش کیا گیا ہے جس کی نمایاں ترین خصوصیت عدل وتوازن ہے۔ اعتدال وتوازن کی اس خوبی کا درست اندازہ دیگر عقلی فلسفوں اور دینی روایات کےساتھ تقابل سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی چودہ صدیوں کی تاریخ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ تھوڑی بہت عملی کوتاہیوں اور مختلف خطوں کے مسلمانوں کے داخلی مسائل اور معاشرتی رسوم کے فرق کے باوجود ، مسلمان معاشرں میں خواتین کے حقوق سے متعلق کوئی بڑی بے چینی دیکھنے میں نہیں آئی۔ مغرب میں جب انیسویں اور بیسویں صدی میں حقوقِ نسواں کی تحریکیں اٹھیں، اس وقت بدقسمتی سے مسلم ممالک سیاسی طور پر بھی، اور فکری لحاظ سے بھی مغربی استعمار سے مغلوب اور مرعوب تھے۔ اس مرعوبیت نے جس طرح زندگی کے دیگرشعبوں کو متاثر کیا اسی طرح خواتین کے طبقے میں بھی نفوذ حاصل کیا۔ چنانچہ عورتوں کی آزادی ، مساوات، معاشی حقوق، سیاسی اداروں میں شرکت کے مواقع اور معاشرتی بندشوں کے خاتمے کی مغرب سے آنے والی آوازیں ان کے ہاں بھی پذیرائی حاصل کرنے لگیں۔
یہاں ضروری ہے کہ مختصراً واضح کیا جائے کہ مغربی معاشرے میں حقوقِ نسواں کے لیے مطالبات کا ایک مخصوص مذہبی اور معاشرتی پس منظر تھا ۔ عیسائیت اور یہودیت میں تحریف اور مذہبی طبقے کی اجارہ داری کی ایک خاص صورت نے دین کو مشکل بنا دیا تھا (قرآن مجید نے جس کی طرف سورہ اعراف میں اشارہ کیا ہے( آیت ۱۵۷)۔ ایسے میں جن مظلوم طبقات کے حقوق پامال ہوئے ، خواتین بھی انھیں میں سے تھیں۔ دوسری طرف مغرب کا تہذیبی ورثہ روم ویونان سے آیا اور ان دونوں تہذیبوں میں بھی عورتوں کے حوالے سے افراط وتفریط تھی۔ چنانچہ مغربی عورت کا حقوق کا نعرہ بلند کرنا ، جبکہ اس میں صنعتی انقلاب کے بعد حالات کی تلخیاں بھی شامل ہو گئی تھی، کسی قدر قابل فہم ہے۔ بعد ازاں گزشتہ چند دہائیوں میں اس تحریک نے اپنے ایجنڈے کو اقوام متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز(MDGs)اور پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs)میں شامل کروا کر ، اور ساری دنیا کی حکومتوں کو اس حوالے سے اقدامات کا پابند بنا کر بلاشبہ اپنی تاریخ کی بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ البتہ مغرب کی پیروی میں مسلمان عورت کا ’’حقوقِ نسواں‘‘کی تحریک میں شریک ہونا ، اس کے لیے اسلامی تہذیبی روایت اور دین کے بعض اہم مطالبات کو پس پشت ڈالنا ، ان سب سے بڑھ کر آزادئ نسواں کی مغربی روش کی پیروی کے لیے دینی نصوص سے استدلال کرنا اور وہ نتیجے اخذ کرنا جو مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں نہیں کیے گئے تھے، یہ صورت حال علوم اسلامیہ کے کسی طالب علم کے لیے بڑے سنجیدہ سوالات پیدا کرتی ہے۔مثلاً یہ کہ مسلمان ملکوں میں ایک خاص طبقے کی خواتین کی ان کوششوں کے اسباب ومحرکات کیا ہیں؟ وہ خواتین جو قرآن وحدیث سے بعض خاص معاملات میں ایک نئی طرح کا استدلال واستنباط کر رہی ہیں، ان کے فہم دین کی بنیاد کیا ہے؟ ان کے نتائج فکر کیا ہیں اور ان اخذ کردہ نتائج کے استناد کا تعین کیسے ہوگا؟
موضوع کی اہمیت
حقوقِ نسواں کے حوالے سے مسلم خواتین کی کوششوں کے مطالعے کی اہمیت علمی بھی ہے، معاشرتی بھی اور تہذیبی بھی۔ مسلمانوں کی علمی روایت کا یہ امتیاز رہا ہے کہ یہاں مرد وخواتین میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں برتا گیا ۔ نبیﷺ کے دور میں خواتین حصول علم کی سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ باجماعت نماز، خطبات جمعہ وعیدین، خواتین کے علمی حلقے اور حصول علم کے مواقع، کسی میدان میں خواتین کو محروم نہیں رکھا گیا۔ امہات المؤمنین، مسلم خواتین کی علمی سرگرمیوں کے لیے اسوہ اور نمونہ بنیں ۔ ان کے حلقہ ہائے درس اورقرآن وحدیث کی اشاعت میں ان کا قائدانہ کردار کسی سے مخفی نہیں ۔ امہات المؤمنین نے صرف روایت میں ہی حصہ نہیں لیا، بلکہ ’’درایت‘‘ اور علمی اختلاف کے میدان میں بھی نمایاں ہوئیں۔ انھوں نے کبار صحابہ کی بعض روایات کی اصلاح کی، اپنی فقہی آراء پیش کیں(بخاری)اور حتیٰ کہ سیاسی معاملات میں بھی بصورت مشاورت اپنا حصہ ڈالا۔ مسلم خواتین کی یہ علمی روایت ہمیشہ مسلمان معاشروں میں جاری وساری رہی۔ بہت بڑے بڑے علماء امت ان کے خوشہ چین ہوئے۔ اپنے حقوق کے معاملے میں وہ حساس اور باخبر (vigilant) رہیں اور بار ہا انھو ں نے ان حقوق کا بڑی جرأت سے تحفظ کیا۔ حضرت ام سلمہؓ نے حضرت عمرؓ کو ٹوکا کہ آپ ہمارے گھر کے معاملوں میں کیوں مداخلت کرتے ہیں (طبقات الکبریٰ)۔ خولہ بنت ثعلبہؓ کا ’’مجادلہ‘‘ قرآن مجید میں تلاوت کیا جاتا ہے۔حضرت ام سلمہؓ نے سوال کیا کہ مردوں کے لیے باہر کی دنیا کے سارے اجر والے کام ہیں اور ہم گھروں میں رہتی ہیں ہمارے لیے کیا ہے؟ (نسائی)ایک لڑکی آئی ، کہ میرے باپ نے جہاں نکاح کیا ہے، میں وہاں راضی نہیں۔ نبی کریم ؐنے اسے نکاح کے باقی رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار دے دیا ۔ بریرہؓ ، جو لونڈی تھیں، آزادہوئیں اور نبیؐ کی سفارش کے باوجود انھوں نے سابقہ شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا(بخاری)۔ ہندہ زوجہ ابو سفیان ؓ نے خود بتایا کہ شوہر نفقہ میں بخل کرتے ہیں، میں نکال لیتی ہوں ، نبی ؐنے اس کی اجازت دی (ابی داؤد)۔یہ چند مثالیں صرف دور نبویؐ کی ہیں جبکہ معاشرہ قبائلت کے پنجوں سے چھڑایا جا رہا تھا اور اس وقت عرب کے لوگ عورتوں کو کچھ سمجھتے نہیں تھے۔ آگے چل کر مسلمانوں نے اسی روایت کو نبھایا اور مسلم دنیا میں خواتین کے معاشی، معاشرتی اور قانونی و اخلاقی حقوق کی ادائیگی کا تسلسل ا پنے زمانے کی دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں جاری رہا-
نیزاسلام کے بارے میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہاں بھی علم دین اور قرآن و حدیث کی تفسیر و تشریح کے میدان میں مردوں کی اجارہ داری رہی ہے تو یہ کسی نئی ’’زنانہ تعبیر‘‘کو پیش کرنے کے لیے ایک کمزور دلیل ہو گی۔ حال ہی میں برطانیہ میں مقیم انڈین عالم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے خواتین کی خدمات حدیث کے بارے میں چالیس جلدوں پر مشتمل ایک انسائیکلو پیڈیا شائع کیا ہے جس میں آج کے زمانے تک کی تقریباً ِِدس ہزار محدثات خواتین کا تذکرہ شامل ہے۔Al Muhaddisat کے نام سے اس کے مقدمے کا انگریزی ترجمہ کئی سال پہلے شائع ہو چکا ہے اور ایمیزون پردستیاب ہے۔ دیگر علوم میں مسلم خواتین کی خدمات کے تذکرے اب تو گوگل سے بھی مل سکتے ہیں.
دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات سے ، نبیؐ کی ذاتی زندگی کے اُسوے سے، اور خطبۂ حجۃ الوداع اور ان نبوی وصیتوں سےاور جو عورتوں کے حوالے سے احکام وہدایات نبی مہربانؐ نے دیں، علمائے امت عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ہمیشہ حساس رہے۔ فیمینسٹ انسائیکلوپیڈیا میں ہمیں یہ اعتراف ملتا ہے کہ عصرحاضر میں حقوق نسواں کے معاملات میں جہاں کوئی اونچ نیچ ہوئی،مسلمان ممالک میں ان مسائل کو اولاً مسلمان مردوں نے ہی اٹھایا۔ برصغیر کی مثال سامنے رہے کہ انگریزی استعماری دور میں جب مسلمانوں کا اپنا ’’قضائے شرعی‘‘ کا نظام باقی نہیں رہا تو مسلم علمانے طلاق وخلع اور دیگرمسائل میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی فقہ کے دائرے سے باہر نکل کر (حتیٰ کہ روایت شکنی کر کے) ان مسائل کے شرعی حل پیش کیے ۔ ان تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہمہ وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے کس قدر ہمدردانہ جذبات کی روشنی میں شرعی قوانین کے عصری اطلاق کے لیے تجاویز پیش کی گئیں ۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی ’’الحیلۃ الناجزہ‘‘ اور مولانا مودودیؒ کی ’’حقوق الزوجین‘‘ گزشتہ صدی کی تیسری چوتھی دہائی میں برصغیر میں ہونے والی ایسی کوششوں کا ایک نمونہ ہیں۔ یہ کوششیں مصر میں بھی ہوئیں اور دنیا کے دیگر خطوں کے اہل علم کی طرف سے بھی۔
اس موضوع کی اہمیت کی تیسری جہت یہ ہے کہ مسلم خواتین نہ مظلوم و مقہور ہیں اور نہ مرد اہل دین کے’’خواتین کش‘‘رویوں کا شکار۔اسلام میں ’’اجتہاد‘‘ کے اصول نے اس دین میں اتنی لچک پیدا کی ہے کہ انسانی زندگی کے کسی دور میں یہ مسائل کے حل سے قاصر نہیں رہا۔ البتہ یہ اہتمام کیا گیا کہ اجتہاد کا یہ بنیادی اصول پیش نظر رہے کہ استنباط کی بنیاد قرآن و حدیث ہوگی، ہوائے نفس اور اتباع زمانہ نہیں۔ اجتہاد کی اہلیت کا معیار پیش نظر رکھا جائے گا اور اسلامی قانون کی تعبیرو تشریح کا اختیار ماہرین کا ہوگا، ہرکس و ناکس کا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ طبی معاملات ہوں یا آج کی پیچیدہ معیشت کے مسائل، اہل علم نے امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے میں کوتاہی نہیں کی۔ یہ معاملہ انفرادی طور پر بھی جاری ہے، مختلف خطوں کے دارالافتاء کی صورت میں بھی اور عالمی سطح پر فقہی مجامع ( Fiqh Councils) کی صورت میں بھی ….مثلاً مجمع الفقہ الاسلامی جدہ، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیااور یورپین فتویٰ کونسل وغیرہ، جہاں مسلم علماء اور متعلقہ میدان کے سائنسدان، ڈاکٹر اور ماہرین بیٹھ کر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کرتےہیں۔اسلامی اجتہاد کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپنی پوری تاریخ میں اس نے کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ خواہ وہ ملکی یا ریاستی سطح کا ہو یا بین الاقوامی۔ چنانچہ نئی تشریحات، تعبیرات، بلکہ ’’تشریعات‘‘ پیش کرتے ہوئے قدامت پسندی، سیاسی دباؤ یا مردانہ تعصب کا الزام کم از کم اسلامی قانون اور شریعت پر نہیں لگایا جاسکتا۔
تعبیرِ نصوص کی تہذیبی جہت:قابل غور پہلو
فیمی نسٹ خواتین کی تعبیر نصوص کی کوششوں کی چوتھی جہت البتہ تہذیبی ہے، اورقابل غور۔ آج مغربی تہذیب، افکاراور نظریات کا دنیا بھر پر غلبہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور مسلمان معاشرے اس سے مستثنٰی نہیں ہیں، خاص طور پر مسلمانوں کاطبقہ اشرافیہ۔ استعماری دور سے ہی اس طبقے نے مغربی انداز واطوار کو اختیار کرنا شروع کیا اور پھر اس میں مسلسل اضافہ ہؤا۔ جدید تعلیم اور سیاسی میدان میں مسلم ممالک میں یہی لوگ، مردوخواتین، آگے بڑھے اور گزشتہ چند دہائیوں میں اس طبقے کی خواتین نے ’’حقوق نسواں‘‘ کی مغربی تحریکوں کی پیروی میں مسلمان ملکوں میں بھی ایسی تحریکات کا آغاز کیا ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان معاشرے فیمی نسٹ تحریکوں کو ’’درآمدی‘‘ اور’’استعماری‘‘ فکر سمجھتے ہیں۔ معروف مصنفہ اسماء برلاس اسی تناظر میں اپنے آپ کو فیمی نسٹ کہلانے سےانکار کرتی ہیں ۔ چونکہ اسلامی تعلیمات کے بنیادی مصادر ،یعنی قرآن وسنت سے اس درآمدی فکر کے دلائل مہیا کرنا آسان نہیں تھا، چنانچہ اس حوالے سے متحرک خواتین نے نصوص کی تعبیر نو کا راستہ اختیار کیا۔ مسلمانوں کے صدیوں کے علمی ذخیرے کو مردانہ تعصب کی روشنی میں بیان کردہ تشریحات (Patriarchal Misogynist & ) قرار دے کر رد کرتے ہوئے اپنی طرف سے نئی تشریح وتفسیر اور تعبیر وتاویل کی کوششوں کا ڈول ڈالا۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ ان خواتین کے قرآن وسنت پر ’’غور وفکر‘‘ نے انھیں جن نتائج تک پہنچایا وہ مغربی عورت کے تہذیبی طور طریقے اور مغربی حقوقِ نسواں کی تحریکوں کے مطالبات ہیں۔ مثلاً عورت کی بے مہار آزادی، مغربی طرز کی مساوات مردوزن، بے حجابی، مخلوط معاشرت کی اجازت ،خاندانی زندگی میں مرد اور عورت کے مقام اور کردار سے متعلق اسلامی احکام وہدایات سے بغاوت اور نفور وغیرہ۔ گویا اس بات کی کوشش کہ وہ تصورات جنھیں معاشرہ ویسے قبول نہیں کر رہا ، انھیں اسلامی ماخذ سے ثابت کر کے قابل قبول بنایا جائے۔
مسلم ممالک میں حقوق نسواں ؛مغرب کا دباؤ اور دلچسپی
نصوص کی تعبیر نو میں فیمی نسٹ خواتین کے تفردات کےمحرکات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے مغرب کے کردار کوبھی نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ ان تحریکات اور کاوشوں کی حوصلہ افزائی بھی وہاں سے ہو رہی ہے اور مسلمان حکومتوں سے اقدامات کے مطالبات بھی، کہ آپ کے معاشروں کے اندر سے ’’اصلاح ‘‘(Reformation) کی یہ آوازیں جو بلند ہو رہی ہیں، انھیں سنا جائے ۔ آخر مسلمانوں میں مذہبی اصلاح کے اس خاص دائرے ، یعنی معاشرے میں عورت کا مقام ومرتبہ اور خواتین کے لیے شرعی احکام وہدایات سے مغربی دنیا کو کیا دلچسپی ہے کہ وہ اس معاملے میں ’’زور زبردستی‘‘کرنے سے بھی نہیں شرماتی؟
اس کی ایک بڑی مثال لندن کے مشہور سیاسی جریدے اکا نو مسٹ میں شائع ہونے والا ایک مضمون ہے جس کا معروف دانشور ،خرم مراد نے اپنی کتاب’’مغرب اور عالمِ اسلام‘‘ میں بھی ذکر کیا، کہ مغرب بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے مسلم معاشروں میں کیا تبدیلیاں چاہتا ہے ۔’’اسلام کا سروے ‘‘نامی اس مفصل مضمون کے مصنف نے علاوہ دیگر مطالبات کے، عورتوں کے حوالے سے بھی ایجنڈا پیش کیا ہے۔ یہ ایک اہم مطالبہ ہے کہ مسلم دنیا عورت کو آزاد کرے اور اسے معاشی خود کفالت دے۔ اسلام کی تشریح اور اجتہاد میں علماء کے حق کو ختم کرے جس کو انھوں نے ہائی جیک کر رکھا ہے اور مسلم عوام بھی یہ سمجھتے ہیں کہ صرف علماء کی تعبیر آزادانہ ہوتی ہے۔ آگے چل کر مضمون نگار نے لکھا کہ یہ علماء عورت کی آزادی کو روک کر بیٹھے ہیں۔ صدیوں پہلے انھوں نے عورت کے حوالے سے جو غلط اجتہاد کیا، آج بھی اسی پر قائم ہیں۔ اگر عالم اسلام عورت کو وہ مساوات دینا چاہتا ہے جو کم وبیش قرآن نے دی ہے تو اسے معاشرے پر علما کی گرفت کو توڑنا ہو گا ۔
مغربی دنیا میں اسلامی فیمی نزم کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ اصلاح کی تحریک ہے اور اس حوالے سے متحرک خواتین اصلاح مذہب کی علم بردار ہیں۔ Erich Kolig لکھتا ہے کہ اسلامی فیمی نزم کی بحث یہ ہے کہ عورتوں کا مقام وہی ہو جو پیغمبر اسلام کے وقت میں تھا مگر جو بعد میں کمزور پڑتا گیا اور دوبارہ قبل از اسلام والے کمترمقام تک آگیا۔البتہ مثال کے طور پہ مسلم فیمی نسٹ خواتین فاطمہ مرنیسی اور آمنہ ودود کا ذکر کرتے ہوئے اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ مخالفین ان کی اس دلیل کومغربی فیمی نزم ہی کی شاخ اور اس اعتبار سے غیر اسلامی سمجھتے ہیں ۔
اسلام میں ’’اصلاح‘‘ کی ضرورت کے احساس کے لیے بھی ان ہی خواتین کو حوالہ بنایا جاتا ہے مثلاً ڈاکٹر رفعت حسن۔نیویارک سے چھپنے والی ایک اور کتاب” Women in Islam and the Middle East “میں بھی اسلامی فیمی نزم کی تعریف کرتے ہوئے ، کہ یہ ’’حقیقی اسلام‘‘ کی طرف لوٹنے کی ایک کوشش ہے، اس بات کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے کہ مسلم فیمی نسٹ خواتین کی طرف سے قرآن وحدیث اور سیرت کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے مغربی طرز کی مساوات مردوزن کو ثابت کیا جاسکے۔اس کے لیے دو طریقے اختیار کیے گئےہیں۔ ایک طریقہ فاطمہ مرنیسی کا ہے جو قرآن وحدیث کے منتخب حصوں پر توجہ دیتی ہیں۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی مصادر کی مکمل تشریح ہی فیمی نسٹ طریقہ پر کر دی جائے ( جیسے کہ لیلیٰ بختیار کا ترجمہ قرآن) ۔ اسی عبارت میں آگے چل کر زیادہ تعریف دوسرے طریقے کی کی گئی ہے جس میں پورے متن کی نسوانی تشریح کے ساتھ ’’متبادل معنی‘‘ بھی پیش کیے جائیں۔
نیو یارک ٹائمز نے لیلیٰ بختیار کے ترجمہ قرآن کی پذیرائی کرتے ہوئے لکھا کہ اس لبرل تشریح نے ثابت کردیا ہے کہ اب مسلمان خواتین عہد وسطی کی تشریحات سے جان چھڑانا چاہتی ہیں ۔
چنانچہ خواتین کے حوالے سے عالم اسلام پر دین میں اصلاحات کے لیے دباؤ اور مسلمان فیمی نسٹ خواتین کی ’’دینی تعبیرات ‘‘کی تحسین اور حوصلہ افزائی، مغربی رویے کے دو ایسے مظاہر ہیں جن کی وجہ سے مسلمان اس بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں کہ اس ’’پردہ ٔ زنگاری ‘‘کے پیچھے کوئی اور ہے۔
مسلم فیمینسٹ خواتین کی کتب سےاندازہ ہو تا ہے کہ تعبیر نو کی داعی ان خواتین نے عین وہی لب و لہجہ اختیار کیا ہے، جس کا مغربی دنیا مسلمانوں سے مطالبہ کر رہی تھی- ان خواتین کی تحریر و تقریر میں علماء اور ملا پر تنقید کے ساتھ ساتھ ’’اصلاح‘‘ کے مطالبات ہیں۔ انہی خواتین کی مغرب میں پذیرائی کی جاتی ہے۔ انہی کے لیے مغربی اداروں کے پاس ایوارڈز ہیں،مغرب کی یونیورسٹیوں میں تدریس کے مواقع ہیں اور پبلک فورمز پر اسلام کا موقف پیش کرنے کے لیے انھیں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان میں فاطمہ مرنیسی ہیں جو سوشیالوجی کی پروفیسر ہیں لیکن قرآن اور حدیث کے بارے میں بے تکلف ’’ماہرانہ‘‘ آرا دیتی نظر آتی ہیں۔انگریزی اور فلسفے کی طالب علم رفعت حسن ہیں جو ماہر قرآنیات ہیں۔لیلیٰ بختیار ہیں جنھوں نے فلسفہ اور نفسیات کی تعلیم حاصل کی لیکن پورے قرآن کا فیمی نسٹ نقطہ نظرسے ترجمہ کر ڈالا۔انہی میں اسما برلاس بھی ہیں۔ذیل کی سطور میں اسماء کی کتاب کا مختصر جائزہ شامل ہے بطور نمونہ:
اسما برلاس 1950
قرآن مجید کی ’’تعبیر نو‘‘ کے حوالے سے پاکستانی نژاد مصنفہ اسماء برلاس کی کتاب
’’Believing Women‘‘ in Islam -Unreading Patriarchal Interpretations of the Quranنے بھی عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ انڈونیشی زبان میں مکمل کتاب ترجمہ ہوئی، اور دیگر سات زبانوں میں اس کے جزوی تراجم کیے گئے۔ نیویارک کے ایک لبرل آرٹس کالج کے شعبہ سیاسیات کی فیکلٹی ممبر اسماء برلاس، دنیا کے مختلف ممالک (بشمول مسلم ممالک) اور بہت سے علمی اور ابلاغی فورمز پر مدعو کی جاتی ہیں۔اسماء برلاس نے لاہور میں کنیرڈ کالج سے انگریزی ادب اور فلسفہ میں بی اے، پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے اور امریکہ کیDenver یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ پاکستان فارن سروس اور ءصحافت سے متعلق رہیں اور بالآخر 1983میں امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کی۔ اپنے پورے تعلیمی کیرئیر میں علوم اسلامیہ کے کسی پہلو سے علمی تعلق کے بغیر، اس کتاب میں اسماء برلاس علوم اسلامیہ کی تاریخ اور متون پر تبصرے اور تجزیے کرتی نظر آتی ہیں۔
مقصد تحریر
مصنفہ نے مقدمہ کتاب میں کتاب لکھنے کا مقصد بیان کیا ہے کہ بنیادی سوال اس پوری کتاب کا یہ ہے کہ کیا قرآن ایک پدرسری احکام پر مبنی متن( text patriarchal) ہے یا پھر خواتین کی آزادی کا ضامن ہے؟ مصنفہ کے خیال میں چونکہ یہ کتاب عرب کے پدر شاہی معاشرے ، اور اس نظریے کے حامل زمانے میں اتری، اسی طرح سمجھی گئی اور بیان کی گئی، چنانچہ آج کی مسلم خواتین کا ’’حق ‘‘ہے کہ وہ اس زمانے کی تشریح و توضیح کو چیلنج کریں کیونکہ قرآن پڑھنے پر کسی کی ’’اجارہ داری ‘‘نہیں ہے۔ خواتین کو مخاطب کر کے، قرآن مجید کے بلاواسطہ مطالعے کی ترغیب دیتے ہوئے ،اسماء نے لکھا ہے کہ اسلام کو بدنام کرنے والی تشریحات اور ’’خواتین پر تشدد‘‘کی روایت کو اسلامی سمجھ کر قبول کر لینا ’’لڑے بغیر جنگ ہار دینے کے مترادف ہے‘‘ ۔
اسماء برلاس کی اس کتاب کے دو حصے ہیں اور کل چھ ابواب۔ باب اول میں اس کتاب کے منہج کا تعارف اور اس منہج کی ضرورت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ تیس صفحات پر مشتمل اس مفصل تعارفی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ قرآن، جو شدت کے ساتھ انصاف کا علمبردار ہے،اس کا مطالعہ ماضی میں ہمیشہ پدرسری نقطہ نظر سے کیا گیا اور اس مطالعے کے ذریعے خواتین کا استحصال کیا گیا۔ حالانکہ مصنفہ کے خیال میں خواتین کی آزادی (liberation) کے جواز کے لیے بھی قرآن مجید سے دلائل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
قرآن مجید سے سیکولر اور فیمی نسٹ مطالبات کا جواز کیوں پیش کیا جائے… لگی لپٹی کے بغیر مصنفہ نے واضح کیا ہے کہ سیکولر اور فیمی نسٹ خواتین و حضرات حقوق نسواں کے بارے میں کتنے ہی مطالبے اور اپنی ذاتی آرا پیش کرلیں، مسلم معاشروں اور حتیٰ کہ خواتین میں بھی انھیں پذیرائی نہیں مل سکتی یہاں تک کہ وہ اپنے مطالبات کا جواز قرآن مجید سے حاصل نہ کریں۔
مطالعہ قرآن کا طریقہ
چونکہ مسلم معاشروں میں قرآن سے جڑے متون کے ذریعے ظلم اور استحصال کیا گیا( sexual textual oppression) چنانچہ ضروری ہےکہ تفسیری اقوال، حدیث اور شریعت کی روشنی میں قرآن کو پڑھنے کی بجائےtext یعنی متن قرآن کو اس کے سیاق و سباق یعنی context سے نکال کرخدا ہی کے بیان کی روشنی میں سمجھا جائے۔ مصنفہ کے بقول یہی اس کا منہج اور طریق تفسیر ہے۔ اسماء برلاس مطالعہ قرآن کا مجوزہ طریق کار بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہتی ہیں کہ کلام الہی کی کئی تاویلات ممکن ہیں۔ ان میں سے کچھ اچھی بھی ہیں اور کچھ ایسی بھی جو رد کرنے کے لائق ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں کہا گیا الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ… اس آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ کچھ تاویلات احسن نہیں۔صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ ایک آیت کو 60,000 طرح پڑھا جا سکتا ہے۔ یہاں مصنفہ کا کہنا ہے کہ گویا ہر شخص اپنے فہم اور ضرورت کے مطابق معنی اخذ کر سکتا ہےاور ان کی پیروی کر سکتا ہے۔نیزقرآن سمجھنے کے لیے عربی سمجھنا بھی ضروری نہیں؛ ترجمہ دیکھیں، جو معنی اچھے لگیں اختیار کرلیں۔ عربی زبان کا جاننا نہیں، عقل و فہم کا استعمال ضروری ہے جس کی طرف قرآن نے توجہ دلائی ہے (افلا تعقلون)۔وہ لکھتی ہیں کہ جیسے مرد قرآن کا مطالعہ اورتفسیر کر سکتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی قرآن کا مطالعہ اور اپنے طور پر تفسیر کر سکتی ہیں۔(اسلام کی علمی روایت میں اس کا کبھی انکار نہیں کیا گیا)اور قرآن مجید کا مطالعہ عصر حاضر کے تناظر میں کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر حقوق نسواں ،صنفی مساوات اور مردوں کے حقوق و اختیارات کے تصورات کے حوالے سے (اصولی طور پر یہ بات درست ہے اور اس سلسلے میں قرآن کی تفاسیر موجود بھی ہیں)۔
دینی متون اور مطالعہ قرآن میں ان سے استفادہ :
کتاب کے حصہ اول میں دوسرا اور تیسرا باب شامل ہیں جو ’’مقدس متون ‘‘’’sacred texts‘‘ سے بحث کرتے ہیں۔
اس میں سے دوسرا باب تفسیری ادب اور حدیث نبویؐ کی تشکیل و تدوین سے متعلق ہے۔ مصنفہ کے مطابق، صدر اول کے علما کی بیان کردہ تفاسیر اور حدیث، دونوں بیرونی ذرائع تھے جن سے آج تک مطالعہ قرآن میں مدد لینا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ باب کے شروع ہی میں لکھتی ہیں کہ ان’’مصادر‘‘ کو تنقیدی چھان بین کے عمل سے گزارنا ضروری ہے اور خاص طور پر خواتین کے حوالے سے احکام و معاملات دیکھنے کے لیے۔
تفسیر
ان ’’متون‘‘ میں اسما برلاس نے تفسیر کو سر فہرست رکھا ہے ۔ یہاں مصنفہ نے لمبی بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تفسیر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک تو قرآن کے الفاظ کے کئی طرح کے معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں اور سمجھا جا سکتا ہےاوردوسرے مختلف زبانیں بولنے والی اقوام جب مسلمان ہوئیں تو انھیں بھی قرآن سمجھنے کے لیے تفسیر کی ضرورت پڑی۔ یہ تاریخ کے اس خاص دور میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش تھی جو بعد ازاں نقد و نظر سے بالا قرار دے دی گئی۔ ان کے خیال میں یہ حکمرانوں کی ضرورت تھی کہ قرآن میں ممکن نہیں تو تفسیری اقوال میں اپنی مرضی کی آراء شامل کروا کر حکمرانی کو آسان بنائیں۔تفسیر میں مفسرین کے مزاج، خیالات، رجحانات، فنون اور مہارتیں، لغوی اور معنوی ترجیحات، ان کے فرقہ وارانہ اور مسلکی رجحانات، سب شامل ہو گئے اور یہ سب’’ قرآن پر بھی حاوی ہو گیا ‘‘۔ یہاں مصنفہ نے آمنہ ودود کی رائے سے استفادہ کیا ہے۔پھر لکھتی ہیں کہ اسرائیلیات میں سے خاص طور پر عورتوں کی تنقیص و تذلیل کے حوالے سے روایات شامل کی گئیں۔
مصنفہ کے ان خیالات میں کئی مبالغے اور مغالطے شامل ہیں۔ہر زمانے کی ضرورت کے مطابق لکھی جانے والی تفاسیر موجود ہیں۔نئی تفاسیر کی ضرورت بھی ہمیشہ رہے گی البتہ جیسے ہر طرح کی علمی تحقیق میں ضروری ہے کہ خواہ اختلاف ہی کیا جائے مگر پہلے سے موجود کام پر مزید کام کی تعمیر اٹھائی جائے، اسی طرح پچھلی تفاسیر کو مکمل رد کر کے قرآن کو نئے معنی پہنانا مستند نہ ہوگا۔
حدیث
دوسرا اہم حصہ حدیث پر بحث ہے۔ حدیث کے عنوان کے تحت مصنفہ نے مسلسل مستشرقین کے نظریات بلکہ اقتباسات نقل کیے ہیں یا مسلمانوں میں سے متجددین اور فیمی نسٹ خواتین کے۔یہ مبحث ستر پچھتر فیصد اقتباسات پر مبنی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حدیث ،مسلم تاریخ کے ابتدائی دورمیں موجود ہی نہیں تھی۔مذہبی، تاریخی اور معاشرتی ارتقاء کے ساتھ ابتدائی دو صدیوں میں وجود میں آئی۔ روایت بھی ابتدا زبانی تھی اور حقیقت میں اس زمانے کی تاریخ۔ تفسیری ضروریات کے لیے بھی احادیث وضع ہوئیں۔ اسلام میں حکومت کا کوئی مقرر کردہ نظام نہیں تھا، سوائے اس کے کہ وراثتی اقتدارکوناپسندیدہ قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح کلیسائی نظام کی طرح کا کوئی مذہبی نظام بھی نہیں تھا۔ حدیثیں اپنے پاس سے گھڑ کر مذہبی اور سیاسی دونوں نظاموں کی تشکیل بھی کی گئی اور انھیں دینی استناد اور تحفظ بھی دیا گیا۔
برلاس کے مطابق عورتوں کے معاملے میں بھی یہی ہؤا۔ جو misogynistic طرز عمل تاریخ کے اس دور میں مذاہب، بشمول عیسائیت و یہودیت اور عرب معاشرے کا تھا، اسی کو تفسیری اقوال میں سمو کر، دینی جواز بخشا گیا۔ عورتوں کے بارے میں وہ ’’ذخیرہ احادیث‘‘ اکٹھا ہؤا جو نہ قرآن کے عمومی مزاج سے مناسبت رکھتا ہے، نہ نبی کریم ؐ کا طرز عمل عورتوں سے ویسا تھا۔ مثلاًیہ کہ وہ ’’ناپاک‘‘ ہیں، وہ جہنم میں اکثریت میں ہوں گی، وہ کم عقل، اخلاقی اور دینی اعتبار سے ناقص اور سیاست کے لیے ناموزوں ہیں۔
بخاری کی چھ لاکھ احادیث (امام بخاریؒ کا یہ قول کہ میں نے چھ لاکھ احادیث میں سے اپنی اس صحیح کی انتخاب کیا ہے)کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ اس کثرت کی وجہ سے بعض اوقات احادیث، قرآن سے بھی متعارض ہونے لگیں تو (امام) شافعی نے حدیث کے تحفظ کے لیے فتوی دیا کہ قرآن اور حدیث میں تعارض ہو تو حدیث کو ترجیح حاصل ہوگی۔
حدیث گھڑنے کی بات کرتے کرتے مصنفہ ایک عجیب نکتہ بیان کرتی ہیں (بحوالہ فاطمہ مرنیسی) کہ ستّر ہزار احادیث میں سے صرف چھ، خواتین کے خلاف متعصبانہ احادیث صحیح ثابت ہوتی ہیں، اور مرد انہی چھ کو لے کر ان کا چرچا کرتے ہیں جبکہ درجنوں’’مثبت‘‘ احادیث کو مجرمانہ طور پہ نظرانداز کردیتے ہیں۔یہ درجنوں ’’مثبت (positive) احادیث کیا ہیں؛ وہ احادیث جو عورتوں کے حق میں ہیں۔اورعجیب بات یہ ہے کہ ساری بحث، اوّل سے یہاں تک، اور پھر آخر تک وضع حدیث پر چل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مثبت اورمنفی کی تقسیم محترمہ نے کہاں سے اخذ کی ہے اگر حدیث ان کے خیال میں’’موضوع‘‘ ہے؟
بخاری کی 6 لاکھ احادیث ثابت کرتی ہیں کہ بہت کچھ عصر تدوین میں ہی شامل ہو گیا تھا۔ (حالانکہ چھ لاکھ کا مطلب یہ تھا کہ ایک حدیث اگر بیس سے زیادہ سلسلہ روایت سے ان تک پہنچی تو انھوں نے اس میں سے بہترین روایت کو درج کیا)پھر مسلمانوں نے اسے اہمیت دی۔ Levy کا اقتباس نقل کرتی ہیں کہ ’’اتنی زیادہ غیر مستند حدیثوں‘‘ کے باوجود حدیث مسلم قانون کا مستند ماخذ بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بقول مصنفہ بعض لوگ حدیث کے مکمل رد کے حق میں ہیں اور باقی لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ تاریخ کے اس دور میں کیا کچھ قابل عمل تھا اور کیا آج بھی اس پر عمل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
مصنفہ کی طرف سے آیت حجاب کی تفسیر
تفسیری اقوال اور حدیث کے بارے میں ان خیالات کے اظہار کے بعد، مصنفہ نے قرآنی حکم حجاب کی تفسیر، مندرجہ بالا دونوں ’’استحصالی متون‘‘یعنی تفسیری روایات اور حدیث نبویؐ کے بغیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سورۃ احزاب کی آیات 59،60 اور سورۃ نور کی آیات 30۔31 کا تجزیہ کرتے ہوئے پہلے تو یہ دعویٰ پیش کیا ہے کہ :
• صرف نبیؐ کو حکم تھا کہ وہ اپنی بیویوں کو پردے کے بارے میں کہیں، باقی مردوں کو نہیں تھا۔
• نبی بھی بیویوں پر جبر نہیں کر سکتا تھا۔
• جلباب اور خمر کا عمومی مفہوم ایک ہی ہے۔ سینہ اور گردن ڈھانپنا۔
• سورہ نور اور سورہ احزاب کی آیات جاہلی سوسائٹی اور عبوری دورمیں، جہاں لاقانونیت تھی،’’پہچان‘‘ کے لیے اتریں کہ پردہ کرنے والی لونڈیاں نہیں اور ہر ایک کے لیے میسر نہیں۔ یہ اس لیے نہیں تھا کہ جب قانون کی حکمرانی ہوجائے تو بھی عورتیں بند رہیں۔ مثلاً مغرب نے ہراسمنٹ کے قوانین بنا کر اس صورت حال کو کنٹرول کر لیا ہے۔)پھر دور صحابہ میں اس کا ثبوت ملنا چاہیے تھا جب امن ہو چکا تھا اور پردہ بھی جاری رہا )۔
• نتیجہ یہ کہ ،قرآن آج کے سیاق وسباق میں پڑھیں، تفسیر، حدیث اور سنت کے قدیم تصورات سے الگ کر کے پڑھیں۔ مصنفہ کے بقول حکم حجاب کے تحلیل و تجزیہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ ہمیں درحقیقت شریعت کی تشکیل نو اور تنقیدی اجتہاد کی ضرورت ہے۔
شرعی قوانین
مصنفہ کی ’’تحقیق ‘‘کے مطابق شرعی قوانین خلفاء کی سرپرستی میں، اور ان کی منشاکے مطابق تشکیل پائے۔دلائل یہ ہیں:
شریعت بھی ایک خاص زمانے کی تعبیر نصوص کا نام ہے۔
•اجتہاد کا دروازہ بند کر کے’’اجماع‘‘ کو قبول کروانے اور اسے اجتہاد پر ترجیح دینے میں بھی ریاست کا ہاتھ تھا تاکہ بعد کے لوگ بھی نئی راہ نہ نکال سکیں۔
,text sex and statesکے ذیلی عنوان کے تحت لکھتی ہیں کہ شرعی احکام کی ترتیب یوں ہے کہ ریاست کو سول سوسائٹی پر، مردوں کو عورتوں پر، قدامت پسندی کو انصاف پر اور کچھ مذہبی متون اور ان کی methodology کو دیگر متون پر مستقل ترجیح دے دی گئی ہے۔(درج بالا نکات پر آسان الفاظ میں بحث دیکھنی ہو تو ڈاکٹر محمود غازی کی محاضرات فقہ کا مطالعہ مفید ہو گا)۔
خدا اور باپ کا مقام
پدر شاہی نظام کو رد کرنے کے لیے چوتھے باب میں مصنفہ عجیب استدلال کرتی ہیں۔ان کے مطابق ،قرآن نے باپ دادا کے دین پر چلنے سے منع کیاہے۔ مثلاً حضرت ابراہیمؑ اوران کے باپ کی مثال۔انھوں نےباپ کے معبودوں کو، باپ کی اتھارٹی کو رد کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ آپ میری پیروی کریں۔اسی طرح ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے کا مکالمہ جب انھوں نےاس سے پوچھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمھیں قربان کر رہا ہوں تمھاری کیا رائے ہے۔اور نتیجہ یہ ہے کہ’’ابراہیم نےاپنے بیٹے پر حکم نہیں چلایا‘‘۔قرآن میں قصہ ابراہیم کا انقلابی سبق، اسماء برلاس کے خیال میں یہ ہے:
’’قصہ ابراہیم کا بے حد طاقتور استعاراتی اظہار بتاتا ہے کہ خدا ئی حکم چلنے کے لیے ضروری ہے کہ باپ کی حکمرانی کو یا تو توڑا جائے ، جیسا کہ خود ابراہیمؑ نے کیا تھا ، یا علامتی طور پہ خدا کے حکم کے تحت کر دیا جائے جیسا کہ ابراہیم نے بطور باپ کیا‘‘۔(ص ۱۱۸)
ان کے بقول حضرت محمدؐ ؐ کے واقعات میں بھی یہی سبق ہے۔ ان کے زمانے کے لوگوں کا عذر بھی یہی تھا کہ باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر آپ ؐ کی پیروی کیسے اختیار کریں۔ یہی بات حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون نے کہی تھی۔
اسی طرح رسولؐ اللہ کی زندگی میں شوہر کی حکمرانی کی مثال نہیں ملتی۔ آپ کی بیویاں آزاد تھیں کہ پردہ کریں نہ کریں۔ قرن فی بیوتکن میں یہ معنی لیے جاتے ہیں کہ چپ چاپ گھر میں رہیں حالانکہ اس کے ’’بصرہ‘‘ کی لغت میں معنی ہیں: ’’وقار اور سکون کے ساتھ رہنا‘‘۔ (مصنفہ آیت کے اگلے حصے کو بھی ساتھ پڑھیں تو یہ مطلب واضح ہے کہ’’ولا تبرجن تبرج الجاھلیہ….‘‘)
وہ آپؐ سے جھگڑا بھی کر لیتی تھیں اور اس معاملے میں اپنے باپوں (ابوبکر و عمررضی اللہ عنھما کی مثال دی ہے) کی بھی نہیں سنتی تھیں (حالانکہ شوہر اور بیوی کے تعلق میں اس کی گنجائش ایک الگ معاملہ ہے اور والد کی مشروط فرمانبرداری کا دینی حکم ایک الگ معاملہ )۔
اس باب کے اختتام پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ قرآن کو پدرسری نظام مخالف متن کے طور پہ پڑھا جاسکتا ہے، اگر اب تک ایسا نہیں ہؤا تو اس کی وجہ مسلمانوں کی اس نظام سے وابستگی ہے اوریہ یقین کہ نبیؐ کے ساتھی تعبیر کی غلطی نہیں کرسکتے۔
پانچویں باب کا عنوان یہ ہے
The Quran Sex/Gender and Sexuality
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
قرآن میں جہاں مجموعی خطاب ہے، مردوں عورتوں،دونوں سے ہے، مثلاً الناس، بشر وغیرہ ۔ دونوں خلافت کے منصب پر فائز کیے گئے، دونوں پر دینی ذمہ داریاں ہیں اور دونوں کے لیے اجر ہے۔ دونوں پر اخلاقی ذمہ داریاں بھی یکساں ہیں۔یہاں تک درست بات کرنے کے بعد خاتون مغالطہ آرائی شروع کرتی ہیں:
مسلمانوں میں غلط فہمی ہے کہ اخلاقی طور پر دونوں برابر ،لیکن معاشرتی طور پر نہیں ہیں، مثلاً نکاح/ طلاق وغیرہ کے قانونی معاملات میں مردوں کا اختیار بڑھادیا گیا ہے، حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ عیسائیت، یہودیت میں عورت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں تھا، وہاں سے اخذ کر کے مسلمانوں میں بھی یہ روایات نفوذ پذیر ہوئیں۔(نکاح و طلاق کے معاملات قرآن میں واضح ہیں اور جمہور علما نے تفاسیر میں انہی کو اختیار کیا ہے)
غض بصر کی تعبیر: یہ اگر مرد عورت دونوں کے لیے لازم ہے تو پردہ لازم نہیں ہو سکتا، ضروری تو مرد عورت دونوں کی modest dressing ہے۔ عورت کا جسم چھپانے کی چیز نہیں ہے۔ (حالانکہ سورہ نور کی آیات 30،31 اور سورہ احزاب کی آیات کو ملا کر پڑھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ عورتوں کو غض بصر سے آگے بھی کچھ احکام ملے اخفائے زینت کے)۔
خواتین شوہر کی ملکیت نہیں بن جاتیں عقد نکاح کے ذریعے، چنانچہ انھیں اجازت نہیں کہ اپنی بیویوں کوrape کریں(یہ بعینہ مغربی فیمینزم کا نعرہ ہے جسے کچھ اور باتوں کے ساتھ ملا جلا کر ذہن میں اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہے)۔
چھٹے باب کا عنوان ہے The Family and Marriage in Islam:۔اس آخری باب میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ بظاہر لگتا ہے کہ نکاح اور طلاق میں مردوں کو اسلام نے اتھارٹی دی ہے، لیکن ایسا ہےنہیں۔ یہاں مصنفہ پھر مغالطہ آرائی کرتی ہیں:
اسلام نے دونوں صنفوں کو اس معاملے میں برابر رکھا ہے ۔ نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں دونوں اپنی مرضی سے شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح طلاق میں بھی مردوں کو ضابطے کا پابند کیا ہے۔ عورتوں کو بھی حق طلاق دیا گیاہےاگرچہ خواتین کی اکثریت اسے استعمال نہیں کرتی (یہاں مردوں عورتوں کےحقوق میں جو فرق ہے وہ سورہ البقرہ کی آیت 221 میں اور237 کی تفسیر میں دیکھا جا سکتا ہے،تفہیم القرآن جلد اول)۔
قوامیت کی وجوہات میں سے اہم ترین خرچ کرنا ہے ورنہ انسان کی حیثیت میں تو سب برابر ہیں ، کسی کو کسی پر درجہ نہیں۔ پھر اگر مرد خرچ نہ کرے یا عورت خرچ میں حصہ ڈالے تو قوامیت کا تصور ختم ہو جاتا ہے (حالانکہ قرآن مجید میں ایک درجہ زیادہ کی بات پہلے ہے خرچ کرنے کی بعد میں، کیونکہ قوامیت کی ذمہ داری صرف خرچ سے متعلق نہیں ہے، اس میں مزید کئی امور ہیں جو عورت کی بہتری کی ضمانت دیتے ہیں)۔
کتاب کا خلاصہ( postscript@) یہ لکھا ہے کہ مصنفہ کے طریق تفسیر قرآن کو اختیار کر کے ہی مسلم خواتین جدید دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ جی سکتی ہیں۔
تجزیہِ افکار
اسمابرلاس اور دیگر مسلم فیمی نسٹ خواتین کے افکار کا خلاصہ درج ذیل چند نکات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے:
1۔ مقصد ان مصنفات کی ساری کوشش کا یہ ہے کہ فیمی نسٹ تحریکوں کے مطالبات کے لیے استناد، نصوص سے فراہم کیا جائے تا کہ ان کے نظریات کو مسلم معاشروں میں پذیرائی حاصل ہو سکے۔ اس باب میں قرآن مجید پر ان کا سب سے زیادہ انحصار ہے۔ قرآن مجید کےاحکام اجمالی ہیں اور ان کی تفصیل حدیث نبوی اور دیگر مصادرسے حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ فیمنسٹ خواتین ،سب متفق ہیں کہ قرآن ہمیں کافی ہے اور ’’دیگر‘‘متون چونکہ آزاد مطالعے کی راہ میں رکاوٹ ہیں لہٰذا ان سے جان چھڑائی جائے ۔ قرآن ،ان کے مطابق سب کے لیے ہے،مرد ،خواتین ،عالم اور عامی، چنانچہ ہر کوئی خود پڑھے، اپنی مرضی اور ضرورت کے معنی اخذ کرے اور اس کے مطابق عمل کرے ،نہ اسلام بگڑے گا نہ ایمان جائے گا ۔فاطمہ مرنیسی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ دینی علوم کی ماہر نہیں ہیں (ص 217 ) اسما برلاس واضح کرتی ہیں کہ عربی ضروری نہیں ، کوئی ترجمہ لے لیں اور قرآن پڑھ کر خود ہی سمجھ لیں ۔ قرآن چونکہ عدل و مساوات پر مبنی متن ہے، چنانچہ خواتین کے حوالے سے سارے حقوق یہاں ثابت کیے جا سکتے ہیں ۔ جو زیادتیاں عورتوں پر دین کے نام پر ہوتی ہیں، مثلا پردہ کا مسلط کیا جانا،گھر کو خواتین کا دائرہ کار قرار دیا جانا، مردوں کی قوامیت،نکاح و طلاق میں ان کے حقوق اور باپ اور شوہر کی اطاعت کا حکم اور ایسے ہی دیگر معاملات سے متعلقہ اسلامی احکام کی خود ساختہ تاویلیں کر کے ان فیمینسٹ خواتین نے اپنی تحریروں میں ان احکام سے گریز کا راستہ اپنے تئیں قرآن سے اخذ کیا ہے۔
2۔ مصادر اسلامیہ پر ان خواتین کے نقد کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ شدت، حدیث نبویؐ کے معاملے میں نظر آتی ہے۔مستشرقین کا کوئی اعتراض ایسا نہیں جسے ان خواتین نے نقل نہیں کیا۔وضع حدیث ، قبائلی، معاشرتی ، سیاسی اور مذہبی اسباب کے تحت احادیث بنانا، حکمران اور وضع حدیث، حدیث کی زبانی روایت اور دو صدیوں کے بعد تدوین، احادیث کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا، اور اس سے یہ ثبوت ،کہ گویا یہ گھڑی ہوئی احادیث تھیں۔دونوں خواتین مصنفات اپنے تحریروں میں مستشرقین کے پیش کردہ دلائل سےمدد لیتی ہیں۔ اسماء برلاس کی تحقیق حدیث کا ستر فیصد سے زائد حصہ مستشرقین کے پیش کردہ دلائل کے اقتباسات پر مشتمل ہے جس میں ساتھ ساتھ فیمی نسٹ خواتین کے افکار سے بھی مدد لی گئی ہے۔فاطمہ مرنیسی کی کتاب 1991 میں شائع ہوئی ، اسماء برلاس کی کتاب 2002 میں جب کہ مصطفیٰ اعظمی نے 1966 میں ہی مستشرقین کے ان دلائل کا رد کیمبرج یونیورسٹی میں پیش کردہ اپنے تحقیقی مقالے میں کماحقہ کیاتھا،جس میں گولڈ زیہر ،شاخت اور مارگولیتھ کے مصادر حدیث پر کیے گئے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں سے ڈبل پی ایچ ڈی ،ڈاکٹرمحمد حمید اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام بن منبہ کے صحیفہ کی تدوین سے ثابت کیا کہ تحریری روایت حدیث ،دور نبوی اور دور صحابہ سے ثابت ہے۔ ڈاکٹر فواد سیزگن نے جرمن سپروائزر کی زیر نگرانی صحیح بخاری کے مصادر پر تحقیق کی اور ثابت کیا کہ امام بخاری کے تمام اساتذہ کے تحریری مجموعے موجود رہے ہیں اور ڈاکٹر ضیا الرحمٰن اعظمی نے حضرت ابو ہریرہؓ کی مرویات پر داد تحقیق دے کر مستشرقین اور ان کے مسلم ممالک میں ہمنواؤں کو علمی طور پر پسپا کر دیا تھا۔ مستشرقین کی ہاں سے اپنی مرضی کے افکار کی خوشہ چینی کے شوق میں ان خواتین نے علمی روایت کو بھی پامال کیا ہے ۔
3۔ اسی طرح تفسیر قرآن کا معاملہ ہے۔ علامہ سیوطی ؒ نے الاتقان میں علوم القرآن کی 80 انواع ذکر کی ہیں اور مفسر کے لیے پندرہ علوم کا جاننا ضروری قرار دیا ہے۔لغت ، نحو، صرف، معانی، بیان اور بدیع، قرات ، اصول دین ، ناسخ و منسوخ اور فقہ و دیگر ۔ ایک سادہ دنیاوی علم کے لیے بھی ماہرین کی رائے کو معتبر مانا جاتا ہے ، یہاں پر ان خواتین نے علوم القرآن سے سرسری واقفیت کے بغیر اپنی آرا ء پیش کی ہیں ۔ اسماء برلاس علم اسبا ب نزول سے ثابت کرتی ہیں کہ بعض احکام ، مثلاً پردہ بھی اس خاص زمانے میں ان خاص اسباب کی وجہ سے تھا، اب نہ سبب باقی ہے نہ حکم باقی ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ ہراسمنٹ کے خلاف قانون بنائیے جیسا کہ مغرب میں ہؤا ، پردے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
4۔ اسی طرح ان خواتین کی کتب میں قدامت پسندوں پر تنقید کے ساتھ اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ امت کے اہل علم متفق ہیں کہ اجتہاد وہ شخص کر سکتا ہے جو قرآن و حدیث کے لغوی و اصطلاحی مفہوم سے واقف ہو اور مسائل ضروریہ کو ادلہء تفصیلیہ کے ساتھ جانتا ہو ۔
اجتہاد کا دروازہ بھی عملاً کبھی بند نہیں ہؤا ۔ جدید طبی ، معاشی و معاشرتی مسائل میں اہلِ علم کا اجتہاد آج بھی جاری ہے اور اس کے ثمرات بھی، بے لگام اجتہاد کی اجازت کسی بھی شعبہء علم کی طرح دین میں بھی نہیں دی جاسکتی۔
5۔ آخری اہم نکتہ یہ ہے کہ ان خواتین کے تتبع اور ان کی تعبیر نصوص کی روشنی میں مغرب کی پیروی کس حد تک ممکن ہے۔ مغرب کی عورت اور مرد نے بھی سیکیولرائزیشن کے راستے پر چل کر،اور دینی روایت سے زندگی کے ہر شعبے کو کاٹ کر ،جو آزادی اور حقوق حاصل کیے ہیں کیا وہ واقعی مفید ہیں؟ کیا اسلام کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ان آزادیوں کا حصول ممکن ہے؟ اور کیا مسلم معاشرے اس کو قبول کرنے پر راضی اور مطمئن ہو جائیں گے؟ مغربی دنیا کے LGBT کے جواز کے قوانین ، خاندانی زندگی کا انتشار اور خود عورت کی زندگی کے مصائب میں اضافہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اسلام کے دامن رحمت میں رہنے پر راضی ہوکر ان قوانین کی حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں جو الہامی ہدایت کی روشنی میں ہمیں نصیب ہوئے ہیں۔دین کی تشریح ہر فرد کا بلا شبہ حق ہے، لیکن ضروری اہلیت کے ساتھ اور اتباع ہویٰ سے بالا ہوکر ، ورنہ ایسی قلمی کاوشیں نہ دین کی اور نہ خواتین کی کوئی خدمت شمار کی جاسکتی ہیں۔
تجاویزوسفارشات
1۔ عصر حاضر میں دنیا بھر میں حقوق نسواں کے حوالے سے خواتین میں شعور بیدار ہوا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ مسلم خواتین میں اس شعور کو مثبت رخ دے کر معاشرے کے لیے مفید بنایا جائے۔
2۔ اقوام متحدہ کے دباؤ پر ممبر ممالک، خواتین کے حقوق کے بارے میں بعض قوانین کے نفاذ پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ مسلم اقوام کو چاہیے کہ وہ اپنا یہ حق تسلیم کروائیں کہ دینی ضابطوں کے خلاف قانون سازی پر انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
3۔خواتین کے معاشرتی ، معاشی اور اخلاقی حقوق کی خوش دلانہ ادائیگی کے لیے عمومی معاشرتی شعور کو بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے، صرف قانون یہاں کام نہیں آسکتا۔پاکستان میں بھی خواتین کے حقوق کے لیے قانون کم نہیں، مسئلہ ان کی تنفیذ میں ہے۔
4۔ خواتین کے مسائل کے حل میں معاشرے کی ذمہ داریاں ، ہمارے علما اور دیگر اہم علم کے خطابات کا موضوع ہونے چاہئیں ۔
5۔ اسلام میں عورت (اور مرد کے بھی )کے مقام، خاندان کی اہمیت اور خاندانی زندگی میں حقوق و فرائض کے اسلامی ضوابط ،
Comparative Women and Family Studies کے کورس کی صورت میں خاص طور پر علوم اسلامیہ کے نصاب کا حصہ بنائے جائیں تاکہ دیگر مذاہب اور تہذیب جدید کے ساتھ تقابل کی روشنی میں نئی نسل اسلام پر شرح صدر حاصل کرے۔
6۔ برقی ذرائع ابلاغ کی وجہ سے دین کی غلط تشریحات کی اشاعت اور ترسیل کو روکنا اب ممکن نہیں رہ گیا، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ قرآن اور دینی تعلیمات کے جامع نصاب ابتدا ئی سے اعلیٰ تعلیمی مدارج تک شامل کیے جائیں تاکہ ہر درآمدی فکر کے پیچھے بھاگنے کی بجائے نوجوان مرد و خواتین دینی تہذیب و ثقافت پر فخر کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔
حوالہ جات
1Encyclopedia of Feminist Theories, Edited by Lorraine Code, Routledge , London , 2000. P: 276
2 Interview Asma barlas, https:// en.qantara.de, retrieved on: Dec.22,2019
3مغرب اور عالم اسلام ایک مطالعہ، خرم مراد، منشورات لاہور، 2006، ص 59-61
4Economist-com/specialreport/1994/0804/the-next-war-they-say ,by Brain Beedham, Retrieved on: December 2020,2019
5De Talebanizing Islam and creating trans cultural Spaces: Erich Kolig, p:116 The Teaching and Study of Islam in Western Universities,)Edited by Paul Morris( ,Routledge, New York, 2014, p: 131
6Women in Islam and the Middle East, Edited by Ruth Roded, I. B. Tauris,New York 2008, p: 116
7The New York Times, https/www.nytimes.com>world retrieved on:19 Dec 2019
8 “Believing Women” in Islam, Unreading Patriarchal Interpretations of the Quran, Asma Barlas, University of Texas press, Austin, 2002.
9 الاتقان فی علوم القران، علامہ سیوطی: 443-4461/، ادارہ اسلامیات ، لاہور۔
10 حجۃ اللہ البالغہ، شاہ ولی اللہ(مترجم مولانا عبد الرحیم)، قومی کتب خانہ،1983، 1/700؛ اصول فقہ اسلام ،سر عبد الرحیم،(مترجم مولوی مسعود علی)، ایجوکیشنل پریس کراچی، 1967، ص 189

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x