گرمی کی چھٹیاں
محمد یوسف ملک ۔ کراچی
علی، سعد ، حارث اور شہزاد بہت خوش تھے ۔ گرمی کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں اور کل وہ لاہور اپنے چچا کے گھر جا رہے تھے جہاں ان کے چچا زاد بھائی حامد اور عبد اللہ بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ کراچی سے لاہور بہ ذریعہ ٹرین جانے کا سوچ کر ہی وہ بہت پر جوش ہو رہے تھے۔
وہ وقت پر اسٹیشن پہنچ گئے ۔چھٹیوں کی وجہ سے کافی رش تھا ۔ جیسے ہی گاڑی پلیٹ فارم پر لگی ، ایک ہڑ بونگ مچ گئی۔
’’ جلدی کرو۔ سامان ڈبے میں رکھو۔‘‘ علی نے حارث سے کہا۔انھوں نے جلدی جلدی سامان اپنے کوپے میں رکھا ۔ یہ پورا کوپا ان ہی کا تھا ۔ سامان ترتیب سے رکھ کر وہ آرام سے بیٹھ گئے ۔ امی ابو تو سو گئے ۔ سعد موبائل گیم کھیلنے لگا ۔ علی اونگھ رہا تھا ۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔
’’ کون ہے ؟‘‘ شہزاد نے نعرہ لگایا۔
علی ہڑ بڑا کر اٹھ گیا اور غصے سے بولا:
’’ ارے بھائی ، جا کر دیکھ لو ۔ یہ کوئی اپنا گھر تو ہے نہیں ۔‘‘ شہزاد نے دروازہ کھولا سامنے ٹکٹ چیکرتھا۔ ’’ بھائی ! ٹکٹ چیکر ہے ۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’ ہم شریف لوگ ہیں ، کوئی مفت سفر کرنے والے تو نہیں ۔‘‘ حارث نے برا مان کر کہا ۔’’ اوں ہوں۔‘‘ ابو نے گھور کر دیکھا ۔ شور شرابے سے ان کی آنکھ کھل گئی تھی ۔’’ یہ اس کی ڈیوٹی ہے ۔‘‘ انھوں نے پرس سے ٹکٹ نکال کر چیکر کو دکھائے۔
’’ حیدر آباد ۔ حیدر آباد ‘‘ شہزاد نے ایسے نعرے لگائے جیسے بس کنڈیکٹر لگاتا ہے۔
’’ اتنا کیوں اچھل رہے ہو ؟ کیا تم نے حیدر آبادی اچار لینا ہے ۔‘‘ سعد نے تنک کر کہا۔
’’ ویسے بھی اسٹیشن پر کہاں اچھا اچار ملتا ہے ۔‘‘ حارث نے سر ہلا کرکہا ۔گاڑی ذرا دیر حیدر آباد کے اسٹیشن پر رُک کر پھر چل پڑی تھی۔’’لو بھئی شہزاد ۔ تمھارا حیدر آبادی اچار تو گیا ۔‘‘ علی نے افسردہ سی شکل بنا کر کہا۔ شہزاد بسورنے لگا ۔ امی نے ڈانٹا۔
’’ تم لوگوںکو نہ دن میں چین ہے نہ رات میں ۔ اب خبر دار جو کسی کی آواز آئی۔‘ یوں ہی ہنستے ، مسکراتے ، لڑتے جھگڑتے وہ اگلے دن لاہور پہنچ گئے ۔ اسٹیشن پر چچا جان لینے آئے ہوئے تھے ۔ گھر پہنچ کر وہ چچی جان ، عبد اللہ اور حامد سے ملے۔ رات دیر تک سیر کا پروگرام ترتیب دیا جاتا رہا ۔ اگلے دن وہ مری کے لیے روانہ ہوگئے ۔ بچوں کی دلچسپ باتوں میں سفر کٹنے کا پتا بھی نہ چلا۔ وہ چیئر لفٹ پر پہنچے ۔دو دو کر کے وہ بیٹھتے رہے۔ بلندی سے منظر بہت اچھا نظر آ رہا تھا ۔ اچانک علی کی نگاہ ساتھ بیٹھے حامد کے پائوں پر پڑی۔
’’ حامد ! تمھارا جوتا ؟‘‘
’’ ارے میرا جوتا ۔‘‘ حامد چلایا۔
اس کے ایک پائوں کا جوتا نیچے کہیں گر گیا تھا ۔’’ میرا خیال ہے تم دوسرا جوتا بھی پھینک دو ، ایک کا کیا فائدہ ؟‘‘ علی نے تجویز دی۔حامد اُسے غصے سے گھورتا رہ گیا۔
ایک دن مری میں گزار کر وہ واپس لاہور لوٹے۔ اگلے دن سے لاہور کی سیر شروع ہوئی۔ مینار پاکستان دیکھ کر وہ واہگہ بارڈر گئے۔پریڈ دیکھی ، نعروں اور ترانوں میں حصہ لیا ۔ بچوں میں بڑا جوش و خروش پیدا ہوا۔
اگلے دن جمعہ تھا ۔ وہ سب بادشاہی مسجد نماز پڑھنے کے لیے گئے ، عبد اللہ کی طبیعت خراب تھی اس لیے وہ نہیں گیا ۔ نماز کی ادائیگی کے بعد جب جوتے ڈھونڈے گئے تو حامد اور علی کے سوا سب کے جوتے غائب تھے۔ گرم جلتے فرش پر ہائے ہائے کرتے جب وہ گاڑی کے پاس پہنچے تو علی نے کہا :
’’ عبد اللہ کہاں ہے ؟‘‘ ‘ سب پریشان ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ اب عبد اللہ کی تلاش شروع ہوئی۔ کافی دیر گزر گئی ۔ اتنے میں چچا جان کا فون آگیا۔
’’ بھئی آپ سب کہاں ہیں؟ عبد اللہ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے ہم اسے کلینک لے کر جا رہے ہیں ۔‘‘ اب انھیں یاد آیا کہ عبد اللہ تو ان کے ساتھ آیا ہی نہیں تھا ۔ ایک دوسرے پر الزام دھرتے وہ واپس گھر پہنچے ۔ایک ہفتہ لاہور میں مزے کرنے کے بعدسعد وغیرہ واپس جا رہے تھے تو انھوں نے چچا جان سے وعدہ لیا کہ سردی کی چھٹیوں میں وہ کراچی آئیں گے۔
٭…٭…٭
بہادر بہن
زینت جاوید
مسلمان لشکر دمشق کا محاصرہ کیے ہوئے تھا کہ اطلاع ملی کہ رومیوں کا ایک لشکر دمشق کے عیسائیوں کی مدد کے لیے آ رہا ہے ۔ مسلمانوں کے سالار حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔ آپؓ نے پانچ سو سواروں کے ایک دستے کو حکم دیا کہ اس لشکرکو راستے ہی میں روک لو ۔دستہ حضرت ضرارؓ کی سر کردگی میں روانہ ہوا اور راستے میں رومیوں کو جا لیا۔ رومی لشکر دس بارہ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا جبکہ مسلمان صرف پانچ سو تھے ۔ مگر وہ انتہائی بے جگری سے لڑے۔ حضرت ضرار ؓ شیر کی طرح دشمن پر چھپٹے اور کشتوں کے پشتے لگا دیے ۔ بدقسمتی سے ان کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی اور وہ نیچے گر گئے ۔ رومیوں نے انھیں گھیر ا ڈال کر گرفتار کرلیا ۔ مسلمانوں نے جو یہ دیکھا تو فوراً ایک قاصد حضرت خالد ؓ کی طرف دوڑایا۔ حضرت خالد ؓ اطلاع ملتے ہی کچھ دستے دمشق کے محاصرے پر چھوڑ کر تیزی سے لڑائی کے میدان کی طرف چلے ۔جلد ہی وہ موقع پر پہنچ گئے جہاں گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا ۔ حضرت خالد ؓ کے آنے سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ بڑھ بڑھ کر حملے کرنے لگے ۔ حضرت خالد ؓ نے دیکھا کہ ایک نقاب پوش اس بے جگری سے لڑ رہا ہے کہ کوئی رومی اس کے سامنے ٹھہر نہیں پا رہا۔ آپ ؓ نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ تو اس نے جواب دیا میں ضرار ؓ کی بہن خولہ ؓ ہوں ۔ جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لوں گی چین نہیں پا سکتی ۔ اتنے میں کچھ رومیوں کو گرفتار کر کے لایا گیا ۔ حضرت خالد ؓ نے ان سے حضرت ضرار ؓ کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں تو ہمارے سالار نے ایک دستے کے ساتھ حمص بھیج دیا ہے۔
حضرت خالدؓ نے فوراً سو سوار وں کا ایک دستہ ان کے پیچھے روانہ کیا ۔ حضرت خولہؓ بھی ان کے ساتھ چلیں ۔ آگے جاکر انھوں نے رومی دستے کو جا لیا اور اللہ اکبرکے نعرے لگاتے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑے ۔ جلد ہی رومی دستے کو تہہ تیغ کرتے ہوئے حضرت ضرار ؓ کو آزاد کروالیا۔
٭…٭…٭
کوہ پیما
مسفرہ سلیم
دنیا میں قسم قسم کے کھیل کھیلے جاتے ہیں اور طرح طرح کے مشغلے اپنائے جاتے ہیں ۔ان میں سے کچھ مشغلے انتہائی خطر ناک اور جان جوکھوں میں ڈالنے والے ہیں ۔ ایک ایسا ہی خطر ناک مشغلہ کوہ پیمائی ہے ۔ ہزاروں فٹ اونچی پہاڑی چوٹیوں کو سر کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں مگر انسان کے حوصلے اور جرأت کی کیا بات ہے کہ جان جانے کے خدشے کے باوجود وہ فلک بوس چوٹیوں پر اپنے قدموں کے نشان ثبت کرتا ہے۔
پاکستان کے پر عزم ، باہمت اور جرأت مند جوان اس مہم جوئی کے شوق میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ نذیر صابر پہلے پاکستانی تھے جنھوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ پر پاکستانی پرچم لہرایا ۔ پاکستان کی پانچ آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں میں سے چار پر آپ نے قدم رکھا جن میں کے۔ ٹو بھی شامل ہے ۔ان کے علاوہ حسن سد پارہ ، علی سدپارہ ، مرزا علی بیگ، اشرف امان ، اسد علی ، ثمینہ بیگ ، سیلناخواجہ بہت سے ایسے نام ہیں جو دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کر کے فتح کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں اور یہ ثابت کر چکے ہیں کہ آہنی عزم ، استقلال اور لگن ہو تو کامیابی ضرور آپ کے قدم چومتی ہے۔
٭…٭…٭
راستے کا پتھر
محمد طلال
ہم لوگ پورے خاندان کے ساتھ مری ،ناران ، کاغان اور چائنہ بارڈر گھومنے گئے ۔ راستے میں کچھ کھانے پینے کے لیے گاڑی روکی ۔ابھی چائے پی رہے تھے کہ کیا دیکھا کہ بد قسمتی سے ایک حادثہ ہو گیاہے اور ایک گاڑی پتھر کی وجہ سے نیچے گر گئی ہے ۔ اسلام کہتا ہے کہ دوسروں کی مدد کرو ۔ تو ہم سب کزنز نے مل کر وہ پتھر جو کہ کافی بڑا تھا، راستے سے ہٹا کر ایک طرف کر دیا تاکہ اب آنے والوں کو نقصان نہ پہنچے۔ دوسروں کے لیے کچھ کر کے ہمیں بہت سکون ملا۔
٭…٭…٭
مہم جو لکھاری
تمکنت عامر
آؤ بچو! تمھیں بتائیں کیسے ہم نے جانی
مہم جوئی کی لکھتے ہیں کیسے عجب کہانی
اشتیاق احمد کے نام کا تھا اک ایسا عظیم لکھاری
جس کے ناول شوق سے پڑھتی تھی یہ دنیا ساری
اس کا اِک کردا ر کہ جو تھا انسپکٹر جمشید
جو حل کرتا تھا ہمت سے بڑے بڑے سب بھید
انسپکٹر جمشید کے گھر تھے بچے ان کے تین
محمود و فاروق تھے بھائی،دونوں بہت ذہین
بہن بھی ان کی ایک تھی بچو! نام اس کا فرزانہ
لیکن اس کی بھولی بھالی صورت پر نہ جانا
تیز تھی اتنی گویا جانو میل ہو اِک طوفانی
باتوں سے لگتی تھی پوری افلاطون کی نانی
والد ان کے انسپکٹر جمشید بہت تھے اچھے
کام میں اپنے کھرے تھے اور کردار کے تھے وہ سچے
قصے ان کی جی داری کے ملک میں تھے یوں عام
مجرم تھر تھر کانپتے تھے سنتے ہی ان کا نام
تھیں بیگم جمشید بھی کم نہ ان سب سے ہوشیار
ساتھ تھیں ہر دم گھر والوں کا دینے کو تیار
ان کی مہموں کو پڑھ پڑھ کرہم اپنا سر دھنتے
ان کی حب الوطنی کے تھے شوق سے قصے سنتے
اللہ ایسے لکھنے والوں پر تو رحمت کرنا
جن کے دم سے سیکھا ہم نے لٹریچر کو پڑھنا
٭…٭…٭