ڈاکٹر فلزہ آفاقبرزخ ڈرامہ - ڈاکٹر فلزہ آفاق

برزخ ڈرامہ – ڈاکٹر فلزہ آفاق

(اگرچہ یہ بھارتی ٹی وی چینل پر نشر ہؤا مگر یہ چینل پاکستان میں دیکھا جاتا ہے اور خاص بات یہ کہ اس کی کاسٹ میں سب نمایاں نام پاکستانی مقبول اداکاروں کے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی ناظرین اس کا خصوصی ہدف تھے۔ علاوہ ازیں یہ یو ٹیوب پر بھی ساتھ ساتھ اپ لوڈ ہورہا تھا۔مدیرہ)حال ہی میں زی ٹی وی کی پیشکش’’برزخ‘‘ نے معاشرے میں بے چینی پھیلا دی۔
اس پرکچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا، جبکہ پاکستان میں یو ٹیوب پر اس کی آ خری قسط بھی آن ائیر ہو چکی تھی۔اس ضمن میں کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں جن پر غور وفکر ضروری ہےـمثلاً! یہ کہ ہمارے معاشرے میں میڈیا کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اور کیا ہے؟اس کے کیا اثرات معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں؟کیا میڈیا کے مقاصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں سے ہم آہنگ ہیں،یا میڈیا کسی اور ایجنڈے پر کام کر رہا ہے؟
ان سوالات سے جڑا ایک واقعہ ذہن میں تازہ ہو گیا۔
یہ 80 کی دہائی کا زمانہ تھا، پی سی لاہور میں پروفیشنل خواتین کے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔سیمینار ہال کے باہر بڑے بڑے پوسٹر آویزاں تھے جن میں مختلف پیشوں سے متعلق خواتین کی تصویریں تھیں۔ڈاکٹر، انجینئر،استاد،سائنسدان….اور ان کے ساتھ دو پاؤں جن میں گھنگھرو بندھے ہوئے تھے۔
یہ غالبا ًشروعات تھیں عادی بنانے کی، desensitization کی۔سیمینار کی ایک مقررہ کراچی کے ایک معروف انگریزی اخبار کی سینئر صحافی تھیں۔ ان کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ جب انسان بے لباس پیدا ہؤا ہے تو اپنے آپ کو ڈھکنے کی اور بچوں سے کچھ فطری تقاضوں کو پوشیدہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
ایسی بے باک گفتگو بہت غیر متوقع تھی۔چنانچہ بیگم رضیہ اعظم علی بیگ(جو کہ علی گڑھ سے فارغ التحصیل انتہائی با وقار اور تمام حلقوں میں ایک محترم ہستی تھیں ،قائداعظم کی ساتھی اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بڑا ممتاز مقام رکھتی تھیں) اٹھیں اور اپنا موقف پیش کرنے کے لیے اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے لگیں۔
اسٹیج سیکریٹری نے جو کہ ایک معروف سیکولر شاعرہ اور مصنفہ تھیں، ان محترم خاتون کو کندھوں سے پکڑ کر تقریباً دھکا دیتے ہوئے نیچے اتار دیا(تاکہ بیباک تقریر کا اثر زائل نہ ہو سکے)۔
اب آئیے ڈرامہ سیریز برزخ کے مرکزی خیال پر اور ساتھ ساتھ تجزیہ کیجیے ۔
ڈرامے کا مرکزی خیال
یہ دو نوجوانوں( ایک لڑکا اور ایک لڑکی) کی محبت کی داستان ہے (جن کا تعلق ہر اخلاقی حد پار کر چکا ہے)۔یہاں سے ابتدا ہوتی ہے۔ گاؤں کے بزرگ اس لڑکی کو قتل کر دیتےہیں اور پھرفوراً ان کی موت واقع ہو جاتی ہے(اچانک، قتل کے رد عمل میں)۔ دوسری طرف اس لڑکی کو کوئی غیر مرئی مخلوق( پریاں یا فرشتے) اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں اور ایک اورد نیا میں لے جاتے ہیں۔وہ چونکہ (ناجائز)حمل سے تھی، وہاں ایک بچی کو جنم دیتی ہے، جسے واپس دنیا میں بھیج دیا جاتا ہے( اواگون؟)۔ بچی اپنے باپ کے پاس پہنچتی ہے جو کہ دو شادیوں کے بعداب اپنی فوت شدہ محبوبہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔آخر میں وہ ایک پہاڑ پر ایک درخت کے پاس جا کر غائب ہو جاتا ہے جہاں وہ اور اس کی محبوبہ پھر سے جوان ہو جاتے ہیں ۔ان کا انجام یہ دکھایا گیا ہے کہ وہ اور اس کی محبوبہ شادی کر لیتے ہیں اور خوش و خرم نظر آتے ہیں۔ بچی کو بھی وہ غیر مرئی مخلوق واپس لے جاتی ہے ۔
ڈرامےمیں مستقل روحیں آتی رہتی ہیں( ہندو مت کی توہمات) ۔ درمیان میں بہت سا فحش اور حرام مواد ڈالا گیا ہےمثلاً ہم جنس پرستی،والدین سے بے ادبی،خود کشی، بچوں کی بے باک گفتگو ، زنا بالرضا کا خوشگوار انجام، اور غیرت کے نا م پہ قتل کرنے والوں کا برا انجام۔غیرت کے نام پہ قتل تو ویسے ہی ناجائز ہے ،البتہ زناپر حد جاری ہوسکتی ہے اورحد جاری کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے نہ کہ کسی فرد یا پنچایت کی۔ اس میں بھی نہ تو غیر شادی شدہ کی سزا موت ہے اور نہ ہی حمل کے دوران سزا دی جاتی ہے۔
اب آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ اس ڈرامے کا مقصد معاشرے میں کس بات کو رواج دینا ہے؟ تفریح کے نام پہ انتشار،بے سکونی، بے چینی، بے مقصدیت، ذہنی اور عملی آوارگی؟
بچے کے معصوم ذہن کی تربیت میں سب سے مضبوط اور دیرپا اثر بلاشبہ گھر کا ماحول اور والدین کا اپنا کردار ہے۔ اس کے ساتھ معاشرہ، تعلیمی ادارہ اور میڈیا بھی اپنا گہرا اثر ڈالتا ہے۔بچہ پیدائش سے قبل ہی بیرونی آوازوں کا اثر لینے لگتا ہے۔پاکستان میں جب ٹی وی کی آمد ہوئی تو دورانیہ بھی مختصر تھا اور آغاز میں بچوں کے پروگراموں کے لیے وقت مختص تھا۔ بعد کے پروگرام بھی اکثر گھریلو نوعیت کے ہوتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔مشہور زمانہ ’’پروٹوکولزآف ایلڈرز آف زائنز‘‘ میں درج ہے کہ معاشرے میں جس چیز کو رائج کرنا ہو اسے پہلے میڈیا میں دکھا دیں ۔
پیمراکہاں ہے؟
پاکستان میں ایک ادارہ پیمرا Pakistan Electronic Media Regulatory Authority کے نام سے موجود ہے جس کا مقصد جال کی طرح پھیلے ٹی وی چینلز کے لیے ضابطہ اخلاق طے کرنا اور اس پر عمل کروانا ہے۔پیمرا آرڈیننس سیکشن 5 Aمیں درج ہےکہ پیمرا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حاکمیت، تحفظ، اورسالمیت کی حفاظت یقینی بنائے گی۔سیکشن بی میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی، ثقافتی، سماجی اور دینی اقدار اور اصولوں سے مطابقت کو یقینی بنائے گی جیسا کہ دستور میں درج ہے۔قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل کتنا ہے؟ یہاں یہ بھی جان لیجیے کہ کسی بھی قانون پر عمل درآمد کی ذمہ داری حکومت پر تو ہے ہی مگر عوام پر بھی ہے جو براہ راست اس قانون کے اثر میں آتے ہیں۔بہت سے ناپسندیدہ ، غیر اخلاقی امور ہماری خاموشی، نیم رضامندی سے فروغ پاتے رہتے ہیں اور یہاں تک نوبت آ جاتی ہے۔
تنبیہ یا ترغیب
اس ڈرامے میں مختلف قسم کے شیطانی افعال دکھائے گئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برائی کو کھلے عام دکھانے سے برائی رکتی ہے یا فروغ پاتی ہے۔ ریسرچ کیا بتاتی ہے؟آئے دن ہم سنتے ہیں ، بچوں نے کسی پُر تشدد سین کو دیکھ کر اپنے ہی قریبی افراد پر اس کو دہرایا۔ نوجوانوں نے خود کشی کے طریقوں کی تشہیر کے بعد خود پر آزما لیا۔تو کیاایسا منفی نوعیت کامواد دیکھنے کے بعد بچپن اور معصومیت کی تباہی اور اخلاقی اقدار کی پامالی نہ ہو گی؟
برزخ( کیا یہ نام مناسب ہے؟) ڈرامے کی مرکزی کردار نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم برائیوں کی اصلاح کے ذمہ دار نہیں ہیں۔تو پھر سوال یہ ہے کہ برائیوں کی تشہیر کے ذریعے ان کو پھیلانے کے ذمہ دار کیوں بن رہے ہیں؟انہوں نے مزید کہا کہ ہم ترقی کے سفر میں دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں، لیکن ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ ڈرامہ اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔مگر کیا ان قوموں کی ترقی کا باعث ان کی محنت ،ایمانداری، انصاف،تحقیق اور علم و دانش ہے یا ان کے یہ گمراہ کن رجحانات جو ان کےاپنے معاشروں کو بھی اندر سے کھوکھلا کر چکے ہیں؟کیا ہم بھی نازک شاخوں پر اپنا آشیانہ بنانا چاہتے ہیں یا مضبوط بنیادوں پر اپنے گھر، اپنےملک کی تعمیر چاہتے ہیں؟
ڈرامے کی مرکزی اداکارہ نے مزید کہا، آج لوگ روحانیت Spirituality کی تلاش میں ہیں اور یہ ڈرامہ اس خلا کو پورا کر رہا ہے۔یہ درست ہے کہ آج کے مادہ پرست دور میں انسان اپنی روح کی تسکین چاہتا ہے، لیکن کیا ایک خود ساختہ روحانیت(روحوں کا آنا جانا) اس کا حل ہے جو انسان کو الجھا کر رکھ دے ؟یا اپنے خالق حقیقی کے ساتھ تعلق کی استواری ہی حقیقی روحانیت ہے، جو اندھیروں سے روشنی میں لانے کا اور قلوب کے سکون کا باعث بنتی ہے،جو جذبات کے ساتھ تعلم، تفکر اور تدبر کا نتیجہ ہے۔ جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے اور حیوانوں سے ہی نہیں ، ملائکہ سے بھی بلند درجے عطا کر سکتی ہے۔
نوجوانی زندگی کا وہ دور ہے جب ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔اس وقت درست راہنمائی سے زندگی کو مقصدیت اور منزل کے نشان مل جاتے ہیں۔زندگی سنور جاتی ہے۔جبکہ برائی کی وقتی کشش کے ساتھ اگر غلط راہنمائی بھی میسر ہو اور ایسی صحبت بھی تو قدم پھسلنے میں دیر نہیں لگتی اور خدا نخواستہ ہوش تب آتا ہے جب کسی کھائی میں گرنے کا سانحہ ہو جائے۔ یا خوش قسمتی سے کوئی ہاتھ تھام کر درست سمت میں راہنمائی کر دے اور دلدل سے نکال دے ۔
نوجوان نسل ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اور ہم سب کی ذمہ داری ہیں۔جس طرح بچے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتے ہیں، اسی طرح پروڈیوسرز،ڈائیریکٹرز اور رائٹرز وغیرہ کے لیے بھی بن سکتے ہیں اگر وہ ان نوجوانوں کے لیےتعمیری مواد پیش کریں۔ بھلائی یا برائی جہاں جہاں ان کی وجہ سے پھیلے گی،وہ حصہ دار ہوں گے ۔
اس ضمن میں ماضی میں ایک اور تجربہ ہؤا جو بہت تشویشناک تھا۔تقریباً دس سال قبل ایک بچی سے ملاقات ہوئی جو لاہور کی ایک جدید یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کی طالبہ تھی اور چھٹیوں میں انٹرن شپ کے لیے گھر سے آئی تھی۔ اولڈ سٹوڈنٹس کی قائم کردہ ایک سماجی تنظیم کی طرف سے اسے اسائن منٹ ملی تھی کہ لاہور کے گورنمنٹ ہائی سکول کے بچوں میں سماجی شعور بیدار کیا جائے۔اس مقصد کے لیے جو موضوعات اس بچی کو دیے گئے تھے ان میں اسقاط حمل اورہم جنس پرستی شامل تھے۔ گفتگو سے اندازہ ہؤا کہ وہ ان کے بارے میں سائنسی معلومات سے بھی پوری طرح آشنا نہیں تھی۔جب استفسار کیا گیا کہ آپ جن معصوم بچوں کویہ تعلیم دینے جا رہی ہیں انھوں نے شاید یہ نام بھی نہ سنے ہوں گے،تواگر آپ کے بتانے کے بعد خصوصا مؤخرالذکر کے بارے میں انھوں نے نیٹ سے مدد لی اور پھر اس لعنت میں مبتلا ہو گئے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اس کی بجائے آپ ان مسائل پر قرآن کی پاکیزہ تعلیمات کی روشنی میں ان بچوں کی ذہن سازی کیوں نہیں کرتے؟( اس موضوع پر محترمہ ثریا بتول علوی صاحبہ کی کتاب’’بچوں کی جنسی تعلیم اور اسلام‘‘ میں بہترین راہنمائی موجود ہے) تو ان کا جواب یہ تھا کہ ہم تو بس یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر انسان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے ۔
یعنی ’’جیسے چاہو جیو‘‘۔ہر جگہ ذہنوں میں یہی بٹھایا جا رہا ہے۔ یہ سلوگن مغرب میں پھیلی اس وبا کا حصہ ہے جسےHumanism کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کو اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کا حق ہے(یہ آزادیِ عمل اور آزادیِ رائے کا ایک بگڑا ہؤا اور مبالغہ آمیز تصور ہے۔مدیرہ)۔چنانچہ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے ایک قونصلیٹ میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہم پاکستان میں ہم جنس پرستوں کو ان کا حق دلا کر رہیں گے۔ ڈرامہ برزخ میں بھی اس سوچ کی نمائندگی کی گئی ہے۔اب اس کے پیچھے کیا کیا ترغیبات (incentives) متعلقہ افراد کو دیے گئے ہوں گے، ہم نہیں جانتے۔
ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جن قوموں پر عذاب آنے کا ذکر قرآن پاک میں ہے ان میں قوم لوط کا عذاب سب سے شدید تھا۔ یہ غیر فطری عمل ( Homosexuality) نہ صرف انسانیت کا قتل ہے، نسل کشی ہے بلکہ افراد کے لیے بھی موت کا پروانہ ہے۔تحقیق کے مطابق جو افراد یہ طریقہ زندگی اختیار کرتے ہیں ان کی زندگی کی مدت باقی افراد کے مقابلے میں کئی سال کم ہو جاتی ہے، وہ کئی لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ذہنی طور پر بھی نارمل نہیں رہتے۔
ایک مغربی مصنف نے بہت سال قبل اس مہم کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ جو لوگ معاشرے میں اس فعل کی ترغیب دلا کر اسے رائج کرنا چاہتے ہیں وہ بہت بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں کیونکہ وہ اس کے مضر اثرات سے لوگوں کو آگاہ نہیں کر رہے( کیونکہ علاج کے لیے جب کوئی دوا بھی دی جاتی ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ اس کے side effects باہر لکھے جائیں خواہ01.0فی صد یا اس سے کم ہی کیوں نہ ہوں)۔
کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہےکہ اخلاق سے گری ہوئی اس پیشکش کے بعد اس ڈرامے کے ذمہ داران اور اداکاروں پر پابندی کی بجائے،جیسا کہ عوام کی طرف سے پر زور مطالبہ کیا گیا تھا، ڈرامے کا اہم کردار ادا کرنے والی اداکارہ کو 14 اگست کو منعقد ہونے والی مرکزی تقریب میں اسٹیج سیکریٹری بنایا گیا ، جہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مرکزی قیادت بھی موجود تھی۔
ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
بطور پاکستانی شہری پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہماری اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔پاکستان کسی جغرافیے کا نہیں ایک نظریے کا نام ہے۔اس کی تاریخ کلمہ توحید سے شروع ہوتی ہےاور اسی بنیاد پر ہمیں عمارت تعمیر کرنی ہے۔والدین، اساتذہ، صحافی، میڈیا کے نمائندے سب کو مل کر نئی نسل کی کردار سازی کرنی ہے۔دجالی دور کے فتنوں سے انھیں بچانا ہے۔ اس نظریے میں ہی ہماری بقا ہے، یہی ہماری پہچان، ہماری تہذیب ہماری ثقافت ہے۔آج فلسطین کے مسلمان ایمان و یقین کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور ہم آنکھیں بند کیے رو بہ زوال تہذیبوں کی نقالی میں مصروف ہیں۔ہمیں ہوشمندی کے ساتھ اس پاک وطن کو مثالی اسلامی ریاست بنانے کے لیے مل کر کام کرنا ہے تاکہ اس نعمت خداوندی کا کچھ شکرانہ ادا ہو سکے۔
٭ ٭ ٭