This Content Is Only For Subscribers
قارئین کرام!افغانستان کا غیر ملکی تسلط، لوٹ مار اور قتل و غارت سے آزاد ہونا اس ماہ کا نہیں اب تک رواں صدی کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ یہ وہ صدی ہے جس کا آغاز ہی نو گیارہ کی صورت میں دنیا پر امریکہ اور اس کے حواریوں کی مسلط کردہ نحوست سے ہوا۔ ان ’’مہذب‘‘ملکوں نے نہ صرف ایک کے بعد ایک اسلامی ممالک کو تاخت و تاراج کیا ،افغانستان سمیت ان سب ملکوں میں انسانیت کے خلاف کریہہ ترین جرائم کی تاریخ رقم کی ،بلکہ ساری دنیا میں مسلمان آبادیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔
امریکہ نے اس جنگ کے ذریعے دور جدید کے انسان پر اتنی سنگین چارج شیٹ رقم کی ہے جس کی مثال کرہ ارض پر انسانی وحشت کے تاریک دور میں بھی مشکل سے ہی ملے گی۔اپنے جیسے جیتے جاگتے انسانوں پر ڈیزی کٹر، کلسٹر بم اور ڈرون حملے، دشت لیلی کی المناک داستان، گوانتانامو کے ٹارچر سیلوں کے ذریعے اکیسویں صدی کا آغاز ہی ایسا کیا کہ پتھر کے دور کاانسان بھی منہ چھپا جائے، جاہل اور پسماندہ ، جو پیٹ بھرنے کے لیے اپنے ہی ہم جنسوں کو کھا جانا جائز سمجھتا تھا مگر اس کام کے لیےترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے لیس نہ تھا۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کی ہوس اقتدار اور ہوس مال وزر انہیں اسفل السافلین کے روپ میں لے آئی۔دنیا جن کوتعلیم اور تہذیب کی روشنی دینے والےسمجھتی ہے،ان کی تہذیب دیکھ کر انسانیت نے منہ چھپا لیا، ان کی تعلیم انہیں انسان کی طرح برتاؤ کرنا نہ سکھا سکی ،اپنے جیسے انسانوں کو انہوں نےکوئی حقیر مخلوق سمجھا اور ویڈیو گیم کی طرح ان پر ڈرونز سے بمباری کرتے رہے۔ان کی یونیورسٹیاں ان کو شرفِ انسانی کا احترام نہ سکھاسکیں، ان کی بلندو بالا عمارتیں ان کو زوالِ کردار سے نہ بچا سکیں۔
وہاں اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے مقامی لوگوں کی ایک کھیپ تیار کی جنہوں نے اپنے نیچ مفادات کی خاطر بیس سال ان کی غلامی کی۔آزمائش کے وقت میں بظاہر اپنی قوم کے مگر اندر سے دشمن سے ملے ہوئے ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:’’ان کے جثے دیکھو تو تمہیں بڑے شاندار لگیں، ان کی باتیں سنو تو سنتے رہ جاؤ، مگر حقیقت میں یہ لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ لگا دیے گئے ہیں‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ معاہدہ ہوتے ہی ملک سے فرار کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہ بچا۔اب ملک انہی کے حوالے ہے جنہوں نےگزشتہ بیس سال میں ایک دن کے لیے بھی غیروں کی غلامی کو قبول نہ کیا اور ایک دن کے لیے بھی کندھے سے اپنے ہتھیار الگ نہ کیےیہاں تک کہ ان کے عزم کے آگے وقت کا فرعون ذلیل ہو کر رہ گیا۔دنیا بھر میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی افغانستان میں ذلت آمیزشکست کی مثال سائیگون میں امریکہ کی شکست سے دی جارہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو یہاں سائیگون سے کہیں زیادہ بڑی ناکامی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اسی لیےاب اس انتہائی ذلت آمیز شکست کے بعد میڈیا کا محاذ پوری قوت کے ساتھ کھول دیا گیا ہے۔ ’’بین الاقوامی میڈیا‘‘ کے نام پہ امریکہ اور نیٹو ممالک کےپالتو خبررساں ادارے صحافتی اخلاقیات کے اعتبار سے ہر اس غلط عمل کا ارتکاب کررہے ہیں جس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔دھڑا دھڑ فیک نیوز بنائی اور چلائی جارہی ہیں،بلکہ خبر کے بغیر ہی محض خدشات کی بنا پر لمبی لمبی رپورٹیں نشر ہورہی ہیں۔خصوصاً افغان عورت کی انہیں بہت فکر ہے جسے انہوں نے بیس سال میں بیوگی یتیمی اور اولاد کی جدائی کے ایسے ناسور دیے ہیں جن کا دنیا کے کسی غم سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔اصولاًکسی ملک پر طاقت کے زور پہ ناجائز قبضہ کرنے والوں کو، وہاں کی بے قصور آبادی پر،ان کی شادی کی تقریبات پر، ان کے بچوں کی دستار بندی پر WMDs اور ڈرون استعمال کر کے لاکھوں بے گناہوں کو تہہ تیغ
کرنے والوں کو معافی نہیں ملنی چاہیے مگر طالبان نے امریکہ سمیت سب کو عام معافی دی ہے۔نہایت سادہ الفاظ میں ترجمان نے کہا کہ ہر ملک کے لوگوں کو اپنی اقدار اور اپنے اصولوں کے مطابق رہنے کا حق ہوتا ہے، ہمارا بھی یہی حق ہے۔عورتوں کے بارے میں سب خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام کے مطابق اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں گی اور کوئی امتیازی سلوک نہ ہوگا، یہ مسلمان خواتین ہیں، شریعت کے مطابق اپنے کردار پر خوشی محسوس کریں گی۔مطلب یہ کہ ہم اسلام کو اپنی ہی مسلمان عورتوں پر نافذ کررہے ہیں ،آپ کی عورتوں پر نہیں، لہٰذا آپ کے اعتراض کا جواز نہیں بنتا۔سننے والوں کی آنکھوں کے آگے وہ سارا منظر لہرا گیا جب یہی امریکہ اور نیٹو ان کی عورتوں کے ان سے زیادہ سگے بنے ہوئے تھے،یو این ہیڈ کوارٹرز نیو یارک میں طالبان کے ہاتھوں مظلوم افغان عورت سے اظہار یک جہتی کے لیے موم بتیاں جلائی گئیں، بڑے بڑے پوسٹر بنائے گئے، پھرافغان عورت کو ’’لبریٹ ‘‘کرنے کے لیے اس کے ملک پر ایسی خونخوار چڑھائی کی گئی کہ افغان عورتیں ہزاروں کی تعداد میں بیوہ اور یتیم ہوئیں، کتنی ماؤں کی گودیں اجڑیں، گھر مسمار ہوئے، گاؤں کے گاؤں، بستیوں کی بستیاں مٹ گئیں۔یہ انسانیت کے وہی ہمدرد تھے جو اس سے پہلے عراقی عوام کو لبریٹ کرنے گئے تھے اور ان کے ملک کو جہنم زار بنا کرہاتھ جھاڑتے ہوئے نکل آئے اور پھر کہا سوری ہمیں ہتھیار نہیں ملے۔ساتھ جھوٹ پر مبنی رپورٹنگ سے دنیا کو گمراہ کیا گیا ، حقائق چھپائے گئے۔اور اب اپنے عوام کے ٹیکسوں کاتین ٹریلین ڈالر فوج پر،اورکئی بلین اپنی غلامی کرنے والوں کی امدادپرخرچ کرنے کے بعد ان بہادر لوگوں کے غریب ملک کو پہلے سے بھی زیادہ خستہ حال میں چھوڑ کر جان بچا کر بھاگے۔ گوانتانامو جیسے انسانیت کُش منصوبے چلانے والوں کی ڈھٹائی ملاحظہ ہو کہ انہیں انسانیت کی فکرہورہی ہے۔
دعا ہے کہ اب افغان قوم اپنی آزادی کو برقرار رکھ پائے، اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رہے اوراپنی دینی شناخت کے مطابق ملک کی تعمیروترقی میں انہیں کامیابی حاصل ہو۔ گزشتہ بیالیس برس کی جنگ سے تھکی ہوئی قوم کو اب اچھے دن دیکھنے کو ملیں اور ایک خوبصورت مستقبل ان کی آنے والی نسلوں کا منتظر ہو آمین۔
دستِ رقیب بارِ رقابت سے جُھک گیا ترکش کے سارے تیر سَجا کر کمان میں
کَشتی بچا تو لائے ہیں عاصمؔ ہَواؤں سے پیوند سو طرح کے سہی بادبان میں
مینار پاکستان پر ہونے والا واقعہ اپنی نوعیت کا انوکھا ہی واقعہ تھا۔ یہ سب بے لگام سوشل میڈیا کی برکات ہیں۔ جہاں آزادی اظہار کی حدود و قیود اپنی معاشرت کے مطابق طے نہ کی جائیں وہاں آزادی اظہار کا ایسا ہی گلا سڑا مطلب نکلے گا۔پھر شکایت کس سے کریں؟بے راہروی کی دعوت لڑکی کی طرف سے ہو گی تو پھر نتائج بھی لڑکی ہی بھگتے گی۔البتہ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے طبقے کو پاکستان کو برا بھلا کہنے کا خوب موقع ہاتھ آیا۔ ہمارے ہاں مسلمانوں کا معاشرہ ہے اس کے باوجود عورت غلط رویوں کا شکار ہورہی ہے۔یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے دین کے اصولوں کے تحت صنفی معاملات کی تہذیب نہیں کی۔اسلام کے دیے ہوئے ضابطے عورت کی حفاظت کی واحد ضمانت ہیں۔یہ نہ صرف عورت کے دکھوں کا ازالہ کرسکتے ہیں ، بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح کا باعث بن سکتے ہیں ۔ گھروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو اسلام کے ان اصولوں کی بچپن ہی سے تعلیم دی جائے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ مخالف صنف کے معاملے میں ان کو کیا تہذیب سکھائی گئی ہے۔لڑکیاں اگر احترام کی توقع رکھتی ہیں تو خود کو احترام کے قابل بنائیں،دوسروں کو غلط رویوں کی اجازت نہ دیں،اور اپنے طور اطوار اور لباس سے وقار کا مظاہرہ کریں۔ دونوں اصناف کو اپنی حدود معلوم ہونی چاہئیں۔اس بار ۴ ستمبرعالمی یوم حجاب پر یہی پیغام ہے۔دعاؤں میں یاد رکھیےگا۔
صائمہ اسما