بتول جولائی ۲۰۲۴یاددا شت کا حسن - بتول جولائی ۲۰۲۴

یاددا شت کا حسن – بتول جولائی ۲۰۲۴

اللہ رب العزت نے انسان کو احسن تقویم پہ بنایا۔ اور اپنی ذات کی پرتیں کھولنے کے لیے ہر دور میں خود انسان تحقیق اور دریافت کے سمندر میں غوطے لگاتا رہا ہے۔
اللہ الخالق نے بھی سورہ حم سجدہ آیت 53 میں یہی فرمایا:
’’عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں؟‘‘
انسان دیگر مخلوق کے مقابلے میں بہت سی علامتوں میں ممتاز ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوتِ گویائی بخشی تاکہ وہ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر سکے اور اس اظہار کے لیے یاد داشت کا ہونا ضروری ہے۔ یاد رکھنے کی قوت جو حواس ظاہری و باطنی کے افعال کو دماغ میں محفوظ رکھتی ہے اور لا محالہ انہی کی روشنی میں انسان اپنی آئندہ زندگی کا مثبت رخ متعین کر سکتا ہے۔
یاد داشت بنیادی طور پر ایک پیچیدہ عمل ہے۔ تاہم تمام یاد داشتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ یاد داشت دراصل معلومات حاصل کرنے، محفوظ کرنے، برقرار رکھنے اور بعد ازاں بازیافت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اس میں تین بڑے عمل “اِنکوڈنگ (encoding)، ذخیرہ (Storage) اور بازیافت (retrieval) شامل ہیں۔
نئی یادوں کی تشکیل کے لیے معلومات کو ذہن میں قابلِ استعمال شکل میں تبدیل کرنا ضروری ہے، جسے ’’اِنکوڈنگ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک بار جب معلومات کامیابی کے ساتھ اِنکوڈ ہو جائیں تو آئندہ استعمال کے لیے ذہن محفوظ یا ذخیرہ (store) کر لیتا ہے۔ اس ذخیرہ شدہ یاد داشت کا زیادہ تر حصہ انسانی شعور سے باہر رہتا ہے ماسوائے جب حقیقت میں اسے استعمال کرنے کی ضرورت ہو۔ بازیافت (retrieval) کے عمل سے انسان ذخیرہ شدہ یادوں کو شعوری آگاہی میں لے آتا ہے۔
کچھ یادیں بہت مختصر، صرف چند سیکنڈ طویل ہوتی ہیں جو ہمیں آس پاس کی دنیا کے بارے میں حسیاتی معلومات دیتی ہیں۔ قلیل مدتی یادیں (short-term memories) تقریباً 20 سے 30 سیکنڈ تک رہتی ہیں۔ یہ یادیں زیادہ تر ان معلومات پر مشتمل ہوتی ہیں جن پر ہم عارضی یا غیر ارادی سی توجہ مرکوز کر رہے ہوتے ہیں۔ جیسے راہ چلتے ہوئے اردگرد کی عمارتوں، درختوں یا راہ گیروں پہ نگاہ دوڑانا۔ کچھ یادیں زیادہ طویل ہوتی ہیں جو ہفتوں، مہینوں حتیٰ کہ دہائیوں تک ذہن میں رہنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ وہ انہی طائرانہ نگاہ ڈالی ہوئی چیزوں سے اس وقت وابستہ ہو جاتی ہیں جب ان میں سے کسی چیز کے ساتھ کوئی غیر معمولی واقعہ منسلک ہو جائے۔ ان میں سے زیادہ تر طویل مدتی یادیں (Long-term memories) کبھی کبھار ہماری فوری آگہی سے عاری ہوتی ہیں لیکن جب ضرورت ہو تو ہم ان خوابیدہ یادوں کو جگا سکتے ہیں ۔مثلاً کسی سڑک پہ غیر معمولی واقعہ بظاہر ہماری یاد داشت میں نہ ہو مگر اس کی خبر اخبار میں یا ٹی وی پہ دیکھنے کے بعد وہ سب مناظر یاد آجاتے ہیں۔
1968ء میں اٹکنسن اور شفرین نے’’یاد داشت کا اسٹیج ماڈل‘‘ متعارف کروایا تھا، جس میں یاد داشت کے تین الگ الگ مراحل حسی یاد داشت (sensory memory)، قلیل مدتی یاد داشت (short-term memory) اور طویل مدتی یاد داشت (long-term memory) کا خاکہ پیش کیا گیا۔ ’’حسی یاد داشت‘‘ ابتدائی مرحلہ ہے، جس کے دوران ماحول سے متعلق حسی معلومات کو بہت ہی مختصر عرصے کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر بصری معلومات کے لیے ڈیڑھ سیکنڈ اور سمعی معلومات کے لیے 3 یا 4 سیکنڈ سے زیادہ دورانیہ نہیں ہوتا۔
اگرچہ ہماری بہت سی قلیل مدتی یادیں جلدی سے فراموش ہوجاتی ہیں تاہم یہ معلومات اگلے کسی متوقع مرحلے تک کے لیے محفوظ رہتی ہیں۔
’’طویل مدتی یاد داشت‘‘ سے مراد کسی معلومات کی ذہن میں مسلسل تکرار سے یاد داشت نقش ہوجاتی ہے۔ مثلاً بچپن میں روزانہ متعدد بار دہرائی سے زبانی یاد کی ہوئی نظمیں، سورتیں، دعائیں یا روزانہ سنی ہوئی کہانی وغیرہ۔
یاد داشت کی تنظیم فی الواقع طویل مدتی یاد داشت، معلومات تک رسائی اور بازیافت کی صلاحیت پر مبنی ہے۔ جو یادوں کو فیصلہ سازی، دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے اور مسائل حل کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ حاصل شدہ معلومات کو گروپس میں ترتیب دے کر محفوظ کیا جائے تو کارکردگی آسان ہو جاتی ہے مثلاً سودا سلف کی لسٹ بناتے ہوئے مرحلہ وار یا ترتیب وار چیزوں کو لکھنا۔ اور باورچی خانے میں ترتیب سے رکھے سامان کو یاد داشت کے پردے پہ لانا۔ اور پھر صفائی ستھرائی کا سامان اور گھر کے دیگر حصوں کی اشیاء قطار در قطار یاد آتی جاتی ہیں۔
گویا بہتر یاد داشت کے لیے پہلی چیز متعلقہ کام کی مرحلہ وار تنظیم و ترتیب ہے۔
یاد داشت کو منظم کرنے کا طریقہ سمینٹک نیٹ ورک ماڈل (semantic network model) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کوئی بھی کام کرتے وقت تحرک اور دلچسپی کا ہونا بھی ضروری ہے۔
علمی و حسی ماہرین نفسیات کے مطابق (Cognitive Psychology) سے یاد داشت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہم یاد داشت کا استعمال منطقی سوچ، منصوبہ بندی، تصور، بات چیت اور تعلقات قائم کرنے، اپنی شناخت بنانے، اور وقت اور جگہ میں خود کومنسلک کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
باہمی تعلقات کی ساری نفسیات کا تعلق اس یاد داشت سے ہے جو دوسروں کے رویے اور عمل سے ہمارے دماغ میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کا شدید منفی رویہ مسلسل یاد داشت میں ذخیرہ ہوتا رہے گا تو یہ طویل المیعاد یاد داشت ہوگی اور کبھی کبھار کا مثبت عمل جز وقتی یاد داشت رہے گا۔
ہماری یادیں عموماً ہمارے اعتقادات، اہداف، اور نظریات سے متاثر ہوتی ہیں، بالکل جیسے ایک پینٹنگ ایک فنکار کے منفرد نظریہ کی عکاسی کرتی ہے۔ جب بھی ہم ان یادوں کو دہراتے ہیں، دماغ ان کے ساتھ کھیلتا ہے۔ یاد داشت کے مختلف پہلوؤں کو مضبوط، کمزور، یا تبدیل کرتا ہے۔ یاد داشت کی تشکیل پذیری اور قابل تغیر فطرت کا مطلب ہے کہ ہم اکثر واقعات کو غلط یاد کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات بہت بڑی غلطیوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ اور مثبت کو منفی یا منفی کو مثبت گردانتے ہیں۔
ہمارے دماغ ڈیزائن کے لحاظ سے بعض اوقات بگڑی ہوئی یادوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آپس کے رشتے اور دنیا مسلسل بدل رہی ہے اس لیے یادوں کو ان تبدیلیوں کی عکاسی کے لیے ترمیم و اضافے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔
اگر آپ کسی کو جھوٹ بولتے یا خیانت کرتے پکڑتے ہیں جسے آپ قابلِ اعتماد سمجھتے تھے یا اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں ایک مزیدار کھانا کھانے کے بعد فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو جاتے ہیں تو آپ نئی معلومات کی بنیاد پر اپنی یاد داشتوں کو تبدیل یا ایڈجسٹ کرلیں گے الّا یہ کہ پھر کبھی اس منفی یاد داشت پہ مثبت یاد داشت کی چھاپ لگ جائے۔ بس زندگی اسی دھوپ چھاؤں کی یاد داشت کا نام ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے واقعات کا سامنا کر چکے ہیں جو ناخوش گوار احساسات سے جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن دماغ کا ارتقا جو ان یادوں کو ترمیم کرنے کے قابل ہے ہمیں ان یادوں کے بارے میں نئے نقطہ نظر کو شامل کر کے ان کا دوبارہ جائزہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ اس طرح ہم دردناک یادوں کو نیا رخ دے سکتے ہیں کہ وہ زیادہ قابل برداشت ہو جائیں اور ہمیں مستقبل کے لیے قیمتی اسباق فراہم کریں اور ہم بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
دماغ غلطیوں اور چیلنجز سے سیکھنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے جسے ایرر-ڈریون لرننگ (Error Driven Learning) کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ عقل مند انسان اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کو یاد رکھتا ہے اور اسے دہرانے سے گریز کرتا ہے۔ یہ سادہ اصول ان حالات کی وضاحت کر سکتا ہے جن میں ہم بہترین سیکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے مثبت سیکھا ہے اسے طویل مدت تک یاد رکھ سکتے ہیں۔
ہر بار جب ہم کسی یاد داشت کا سامنا کرتے ہیں تو دماغ اس یاد داشت کو اور مضبوط کر دیتا ہے۔ یہ ایرر ڈرایوئیون لرننگ کی ایک مثال ہے۔ دماغ اس یاد داشت کو بہتر سے بہترین کرنے میں جدوجہد کرتا رہتا ہے جب مثبت جواب مل جاتا ہے تو دماغ ان نیورونز کے اتحاد کی مرمت کر دیتا ہے جو اس یاد داشت کو محفوظ کرنے کے ذمہ دار ہیں اس طرح آئندہ مرمت شدہ یاد داشت آسانی سے سامنے آ جاتی ہے۔
انسانی تاریخ میں جو یاد داشتیں مستحکم اور پائیدار مانی گئی ہیں ان کی بنیاد انفرادی اور اجتماعی طور پہ ہمیشہ عقیدہ اور نظریہ رہا ہے۔ جب آباؤ اجداد سے منتقل ہوتے عقیدہ کی یاد داشتوں میں ترمیم ہوتی جاتی ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ عقیدہ اور نظریہ بھی تبدیل ہوتا جاتا ہے۔
آباؤ اجداد سے منتقل ہوتی تہذیب و تمدن کو بدل لینا دراصل اپنی یاد داشت کے کینوس کو بدلنا ہے۔ اور ہر آنے والا دور پرانی یاد داشت کے نقوش کو کچھ ترمیم کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ فطرتاً انسان کسی بہتر یاد داشت کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اس طرح ہر دور اس کینوس پہ ناقابل فہم یاد داشت کی تصویر بناتا جاتا ہے۔ اور بالآخر پہلے کینوس پہ بنیادی خوبصورت یاد داشت کی جگہ بد صورت غیر فطری آرٹ کی چھاپ لگ جاتی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں یاد داشت کی ابتدا جس نظریے پہ رکھی گئی تھی وہ رب العالمین کے سامنے ایک عہد’’الست بربکم‘‘ تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ وعدہ یاد داشت سے محو ہوتا گیا اور پھر نئے نئے نظریات کی یاد داشت حاوی ہوتی چلی گئی۔ احسن تقویم، اسفل السافلین کے مقام پہ آگیا تو انبیاء کرام پہلے عہد کو یاد کروانے اور بھولا سبق یاد دلانے آئے۔ جن انسانوں نے اپنی ذہن کی تختی سے یاد داشتوں کے جھاڑ جھنکار کو صاف کر کے اس لاشعور کو شعور میں منتقل کر لیا، وہی کامیاب رہے گویا کہ یاد داشت کا حسن یہ ہے کہ رب کے ساتھ اس ابتدائی مکالمے کو ہر عمل سے پہلے دہرا لیا جائے۔
یہی وہ یاد داشت ہے جو ہر اولاد آدم کے لاشعور میں لازماً محفوظ ہے، اس کا عود کر آنا بھی یقینی ہے، کسی کو اس دنیا میں آنے کے بعد جلد یا بدیر اس وعدے کی شعوری آگہی ہو جاتی ہے اور کسی کی یاد داشت اس وقت پوری جزئیات کے ساتھ ماضی کی سکرین پہ جگمگا رہی ہوگی جب اللہ الخالق احسن تقویم سے ابتدائی عہد کی باز پرس کرے گا، تب یہ کمزور یاد داشت والا انسان فریاد کرے گا:
’’اے رب مجھے ایک بار پھر اسی دنیا میں لوٹا دے، اب میں (اس عہد کو یاد رکھ کر) اچھے عمل کروں گا‘‘۔
لیکن اب کیا فائدہ۔
جس نے دنیا میں اللہ کو اور اس سے کیے ہوئے عہد کو بھلا دیا، آخرت میں اللہ اسے بھلا دے گا، اسے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا۔
٭ ٭ ٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here