اللہ رب العزت نے انسانی جسم میں اعضا کی بناوٹ اور درستی کے حوالے سے قرآن کریم میں ’’تسویہ‘‘ کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے۔
’’الذی خلقک فسوک‘‘ جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعضا کو درست اور برابر کیا۔ (انفطار)
یعنی انسانی اعضا ایک اندازے اور اٹکل کے طور پر نہیں بلکہ ہر عضو اپنی جگہ بھرپور افادیت کے ساتھ جڑا ہؤا ہے اور اس عضو کا انسانی جسم میں اسی خاص مقام میں ہونا ہی انسان کے لیے مفید اور بہتر ہے۔
انہی اعضا میں ایک بہت بڑی نعمت ’’زبان‘‘ کی نعمت ہے جو انسانی کردار کی لفظی ترجمانی کرتی ہے۔قرآن کریم سورۂ رحمٰن میں ’’علمہ البیان‘‘ کہہ کر اس نعمت کا بطور خاص ذکر فرمایا کہ رحمٰن وہ ذات ہے جس نے انسان کو قوت بیان اور قوت گویائی عطا کی ۔یہ اسی کااعجاز ہے کہ انسانی ذہن جو سوچتا ہے اس سوچ کا اظہار سیکنڈوں سے بھی کم درجے میں زبان پر الفاظ کی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف نعمتوں سے مالا مال فرمایا ہے لیکن ایک اصول قرآن کریم میں ذکر فرمایا کہ’’ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم‘‘ پھر تم سے اس موقع (میدان حشر) پر نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (تکاثر)
یعنی ایسا نہیں کہ یہ نعمت مفت میں بن مانگے ملی تو احسان فراموش بن کر جیسے چاہا اس کا استعمال کرلیا بلکہ انسان سے اس بات کا بھرپور تقاضا ہے کہ وہ اس نعمت پر عملی شکر کا مظاہرہ کرے جس کی صحیح صورت یہ ہے کہ اس نعمت کا جیسا استعمال کرنے کا حق ہے ویسا استعمال کرے۔
اسی لیے زبان جیسی عظیم نعمت دے کر اس کے تقاضے بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ زبان کے ساتھ انسان کے فقط الفاظ کا تعلق نہیں بلکہ یہ انسانی کردار کی آئینہ دار ہے اور بہت سے نیک و بداعمال کا بھرپور تعلق اس زبان کے استعمال سے ہے۔
امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں تقریباً 20 بڑے گناہوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا تعلق زبان سے ہے مثلاً جھوٹ، گالی، غیبت، طعنہ، تمسخر، چغلی، عیب جوئی، ناشکری، بدگوئی، لعنت، ملامت، فضول گوئی، شرک، کثرت ِکلام، بہتان، تکبر وغیرہ جیسی تمام روحانی بیماریوں کا زبان کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
اسی لیے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں الفاظ کی پہرہ داری کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید‘‘ انسان اپنی زبان سے جو بھی الفاظ نکالتا ہے ان الفاظ کو ایک حاضر باش فرشتہ نوٹ کرلیتا ہے۔(ق)
ایک جگہ فرمایا:
ان علیکم لحافظین، کراما کاتبین
تم پر اعمال کو محفوظ کرنے والے معزز فرشتے مقرر ہیں۔ (انفطار)
مقصد یہ ہے کہ احتیاط سے بولو کیونکہ انسانی الفاظ ہوا میں اڑ کر ضائع نہیں ہورہے، لہٰذا طویل گفتگو تو اپنی جگہ، تمہارے منہ سے نکلنے والے دو چار الفاظ بھی نوٹ کیے جارہے ہیں۔
انسان اپنی گرفت سے ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر گفتگو کے دوران کسی کے سامنے Voice Recorderرکھا جائے تو چرب زبان انسان بھی اپنے الفاظ کو تول تول کر اور بنا سنوار کر منہ سے نکالتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے’’حافظین‘‘کا ذکر فرما کر سمجھادیا کہ اگرچہ تمہارے سامنے کوئی ریکارڈر نہیں لیکن اس سے کئی گنا بڑھ کر
چاق و چوبند فرشتے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔
یہاں تک کہ حدیث کے مطابق انسان جب صبح سویرے اٹھتا ہے توتمام انسانی اعضا زبان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ’’اے زبان تم اکیلی ایک الگ حیثیت نہیں رکھتی بلکہ ہم بھی تمہارے ساتھ ساتھ ہیں لہٰذا جب تک تمہارا استعمال درست ہوتا رہے گا تب تک ہم بھی اپنا کام ٹھیک سے کرتے رہیں گے، لیکن اگر تم میں ٹیڑھ پن آگیا تو یہ کمی ہمیں بھی اپنے ساتھ لے ڈوبے گی‘‘۔(مسنداحمد)
اسی طرح سورہ یاسین میں فرمایا :یومئذ تشھد علیہم السنتہم
یعنی قیامت کے دن زبان بھی انسان کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دے گی اور بتائے گی کہ اس شخص نے میرا کس قدر ظالمانہ استعمال کیا۔
ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’جو شخص مجھے اس بات کی گارنٹی دے کہ وہ اپنی زبان و شرم گاہ کا غلط استعمال نہیں کرے گا میں ایسے شخص کو جنت کی گارنٹی دیتا ہوں‘‘۔ (بخاری)
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبلؓ سے فرماتے ہیں کہ اے معاذ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ حضرت معاذؓ سوال کرتے ہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا زبان کی وجہ سے بھی ہمارا مواخذہ ہوگا؟آپ فرماتے ہیں تمہاری ماں تمہیں گم کرے بہت سے لوگ اس زبان کی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ پڑے ہوں گے۔ (ترمذی)
اسی طرح آپ علیہ السلام نے جب مسلمان کی تعریف ذکر فرمائی تو زبان و اعضا سے تکلیف نہ پہنچانے والے کے عنوان سے فرمایا ’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ‘‘
’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان بھائی محفوظ رہے‘‘۔ (بخاری)
آپؐ اپنے ذاتی معمولات میں اپنے قرابت داروں کےساتھ کس قدر احتیاط پر مبنی معمول پر عمل پیرا تھے جس کی ایک جھلک اس روایت میں ملتی ہے، حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:
’’میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی لیکن اس طویل عرصے میں آپ نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا، یہ کیوں کیا،یہ کیوں نہیں کیا، ایسا کچھ بھی نہیں کہا‘‘۔ (بخاری)
اسی لیے مشہور تابعی حضرت طاوسؒ زبان کی حیثیت کو اس طرح ذکر فرماتے ہیں کہ’’ میری زبان ایک درندے کی طرح ہے جس کو میں نے روکا ہو&ٔا ہے، اگر میں اس درندے کو چھوڑ دوں تو یہ مجھ پر ہی حملہ آور ہوجائے گا‘‘۔
یعنی زبان کی درندگی کا شکار خود صاحبِ زبان بن جاتا ہے۔
ذیل میں ہم کچھ ایسے مختصر نکات ذکر کرتے ہیں جو زبان کے استعمال میں ملحوظ رہنے چاہییں۔
بامقصد گفتگو کی جائے
جس گفتگوکا کوئی مقصد ہی نہ ہو بلکہ بے ہنگم، وقت گزاری اور بغیر دھیان کے بات کی جارہی ہے، ایسی گفتگو اور ایسی مجالس سے اپنے آپ کو دور رکھا جائے۔
نوٹ: یاد رہے کہ بعض اوقات انسان اپنی طبیعت میں بشاشت اور تازگی کے لیے گپ شپ اور باہمی الفت و مزاح کی مجالس قائم کرتا ہے وہ اس کا حصہ نہیں کیوں کہ ایسی مجالس انسان کے بدن و ذہن کو تازگی بخشنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔
سیدھی بات
قرآن کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :
یا ایھا الذین امنواتقوا للہ وقولو قولا سدیدا۔
اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کیا کرو۔ (احزاب)
بات میں ٹیڑھ پن، طنز، طعنہ اور کئی ایک مطالب کا اندیشہ نہ ہو، کسی کو کہہ کر کسی کو سنانا، جملے کسنا، سوال کچھ جواب کچھ، ٹال مٹول اور لمبی مگر بے معنی گفتگو، یہ سب گفتگو کے غلط طریقے ہیں۔ اسی لیے فرمایا ایسی سیدھی بات کرو جس میں مقصدیت، جامعیت اور بھرپور معنویت پائی جائے۔
گفتگو میں حسن اور نرمی کا ہونا
فرمایا وقولو اللناس حسنا ’’لوگوں سے اچھی بات کرو۔‘‘ (بقرہ)
الکلمۃ الطیبۃ صدقنا ’’اچھی بات کا منہ سے نکالنا یہ بھی صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری)
یعنی جب انسان بولے تو اچھا بولے اپنے منہ سے گند نہ انڈیلے بلکہ اس کی گفتگو سے لوگوں کی طبیعت خوش ہوجائے اور مخاطب کا دل چاہے کہ یہ مزید بولے۔
ہر بات کو کہنے کا اچھا اور برا دونوں طریقے ہوتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ ’’آپ کا فون ٹھیک کام نہیں کررہا‘‘ اور کوئی کہے کہ ’’آپ کا فون گھٹیا ہے‘‘ دونوں جملوں کا معنی ایک ہے لیکن انداز بیان مخاطب کے سینے میں ایک جملہ کہہ کر بلند اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے اور دوسرا جملہ کہہ کر کم ظرفی کا۔
اسی طرح نرمی کا ذکر فرمایا کہ قولا لہ قولا لینا ’’تم دونوں فرعون سے نرمی سے بات کرو۔‘‘ (طٰہ)
وقت کے جابر اور ظالم حکمران فرعون کے پاس دو پیغمبر بھائی موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو بھیجا جارہا ہے لیکن طرزِ گفتگو میں نرمی کی تلقین کی جارہی ہے۔
نفرت انگیز گفتگو سے اجتناب
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ،بشرو ولاتنفروا
’’لوگوں میں خوشیاں بانٹو،نفرتیں مت پھیلاؤ‘‘۔ (مسلم)
ایسا نہ ہو جب بھی بولے تو مسائل کھڑے کرے اور جب بھی مسئلہ حل کرنا چاہے تو مسئلہ مزید بڑھا دے بلکہ ایسی گفتگو ہوکہ جس میں لوگوں کے لیے خیر کاپہلو غالب ہو۔
گفتگو میں نفرت، بغض، حسد اور کینے کی آگ نہ چھلکے جس کی وجہ سے فرقہ واریت، پھوٹ اور توڑپھوڑ جنم لے۔
ہم ذرا تصور کریں کتنا ہی کمال ہوگا اس گفتگو میں جس میں علوم، فنون، قرآن، حدیث، سیرت، تہذیب، تاریخ، مزاح، ادب، شاعری، معلومات عامہ یا عام و خاص مشاورت پر بات ہوتی ہو اور کسی بھی مسلمان بھائی کی ذات، کوئی گھر، فیملی موضوع نہیں بنتی۔
مختصر پُر اثر گفتگو
جب گفتگو مقصد اور ضرورت کے مطابق کی جائے گی تو وہ اتنی ہی مختصر اور پراثر ثابت ہوگی جب بات کا مدعا واضح ہو تو اسے طول دینے کی ضرورت نہیں، جو بات دو منٹ میں ہوسکتی ہے اسےپندرہ منٹ میں کرنا بے ادبی ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، اوتیت جوامع الکلم
’’اللہ نے مجھے جامع کلمات ادا کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔‘‘ (بخاری)
آپ کے ان جامع کلمات کو جوامع الکلم چہل حدیث کی صورت میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے جمع فرمایا ہے۔ مثلاً ہمیں نیت اور عمل کا تعلق بتانے میں کم از کم پانچ منٹ چاہییں لیکن حضور ؐفرماتے ہیں ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ اور بات آدھی سے کم سطر میں مکمل ہوجاتی ہے۔
زیادہ بولنا، مسلسل بولنا اور بولتے رہنا کم عقل ہونے کی علامت ہے، جس سے اپنی شخصیت کا تأثراور اوروں کا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔
اچھا سننا، اچھا بولنا
ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم اچھی گفتگو اور اچھے سے بولنے، اپنے مافی الضمیر کو بہتر انداز میں پیش کرنے کو باہمی گفتگو کا کمال سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ماہرین کے مطابق اچھی گفتگو کا راز فقط بولنے میں نہیں بلکہ بھرپور توجہ کے ساتھ سننے میں بھی ہے۔
لہٰذا آداب میں شامل ہے کہ فقط بولتے رہنا اچھا نہیں بلکہ اپنے مخاطب کو بھی موقع دینا، جب تک سوال مکمل نہ ہو سنتے جانا، بات کو بیچ سے نہ کاٹنا، بھری مجلس میں آدھا گھنٹہ گفتگو کے بہانے تقریر کرنا اور جب مخاطب بولے موبائل میں لگ جانا اور سرگوشی کرنا یہ سب کام صاحب ایمان کو زیب نہیں دیتے۔
اپنی زبان کو قابو کرنے کا طریقہ
یقیناً زبان کا بے جا استعمال بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہترین طریقہ کار سمجھایا ہے جسے
اختیار کرکے ہم اس آلے کا بخوبی استعمال کرسکتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من صمت نجا ’’جس نے خاموشی اختیار کی وہ کامیاب ہؤا‘‘۔ (ترمذی)
اپنے آپ کو خاموشی اور سکوت کا عادی بنانا اور اپنی زبان کو خود پر مالک بنانے کے بجائے اس پرمالک بن جانے کا ذریعہ ہے۔اسی لیے بڑے فرماتے ہیں ’’ایک چپ سو سکھ‘‘ لہٰذا جب تک خاموشی ہے تب تک معاملات قابو میں ہیں۔ خاموشی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایک شخص مکمل خاموش رہے بلکہ ماہرین کہتے ہیں کہ خاموش انسان کی زبان رکی رہتی ہے لیکن ذہن بہت اچھی طرح چلتا رہتا ہے۔ وہ بھرپور توجہ کے ساتھ گفتگو سنتا رہتا ہے ، خوب سمجھ سمجھ کر اپنے جواب کو مدلل کرتا ہے او ربرموقع مختصر پُر اثر بات کہہ کر اپنی خاموشی کو بہترین الفاظ کا لباس پہناتا ہے۔
٭ ٭ ٭