ہمیں وہ کبھی بوڑھی اور عمر رسیدہ نہیں لگیں ، ہر دم جواں ! پیہم رواں ! ان کے ساتھ گفتگو میں کبھی مرتبے اور عمروں کا تفاوت حائل نہیں ہوا ، انہوں نے کبھی اپنے علم و فضل کی دھاک بٹھانے کی کوشش نہیں کی ، کبھی اپنے تقوی کا رعب نہیں جھاڑا ۔ ان سے کچھ کہنے یا پوچھنے سے پہلے کوئی جھجھک اور خوف آڑے نہیں آیا ، ہمارے بےتکے سوالات کا جواب بھی ہماری ذہنی ساخت اور مزاج سے مطابقت رکھتے ہوئے بڑے دوستانہ لب و لہجہ میں ملا ۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں لاہور منتقل ہونے کے بعد خالہ جان کے ساتھ پہلا تعارف قرآن کریم کے تعلق ہی سے ہوا ۔ قریبی گھر میں درس قرآن میں شرکت کی دعوت ملی تو ہم بھی امی جان کے ہمراہ ہو لیے ۔ یہ تو یاد نہیں کیا سنا، البتہ درس دینے والی خالہ جان کا نام ذہن میں رہ گیا زہرہ عبد الوحید خان ۔ گھر میں سیدنا مودودی رحمہ اللہ سے عقیدت مندانہ تعلق کی بنا پر جب معلوم ہوا کہ یہ خالہ جان بھی ان سے قریبی تعلق رکھتی ہیں تو وہ اور بھی خاص محسوس ہونے لگیں ۔
چھوٹی بہنوں کے سکول میں داخلے کا مرحلہ آیا تو ابتدائی تعلیم کےلیے اباجان کی نگاہ انتخاب خالہ زہرہ کے اپنے گھر میں قائم کردہ ’’دبستان زہرہ‘‘ پر پڑی ۔ ہائی سکول میں جانے سے پہلے انہوں نے کچھ عرصہ اسی ادارے میں گزارا ۔ ان دنوں کی خوشگوار یادوں کا تذکرہ گاہے بگاہے گھر میں ہوتا رہتا ہے ۔
بعد ازاں اس سکول سے کئی طرح کا تعلق رہا ۔ چھوٹے سے اس سکول کا انتظام خالہ جان اور ان کے اہل خانہ نے ہی سنبھال رکھا تھا ۔ مقصد سے لگن اور محنت کا نتیجہ تھا کہ یہ ادارہ حسن انتظام ، تعلیمی معیار اور ہم نصابی سرگرمیوں کے انعقاد میں کسی دوسرے ادارے سے کم نہیں رہا ۔ خالہ جان کی تنظیمی صلاحیتوں کا اظہار فی سبیل اللہ ٹرسٹ کے تحت قائم اداروں اور دلو خورد کے مدرسے میں بھی نمایاں رہا ۔
اسلامی جمعیت طالبات کے قیام کے ابتدائی دنوں میں جن خواتین سے شفقت آمیز رہنمائی حاصل ہوئی ان میں بیگم مودودی ، محترمہ ام زبیر ، خالہ جان صفیہ اور خالہ جان زہرہ رحمھم اللہ کے نام سر فہرست ہیں ۔ ان پاکباز خواتین نے ہمیں قدم قدم چلنا سکھایا ، ان کی حوصلہ افزائی نے ہمیں میدان عمل میں دعوت کے کامل شعور کے ساتھ نامساعد حالات سے عہدہ برآ ہونے ، راہ حق پر استقامت اور داعیانہ کردار ادا کرنے کے لیے مطلوبہ صفات کو نشوونما دینے کے قا بل بنایا ۔
خالہ جان زہرہ کے ساتھ ہر ملاقات میں کچھ سیکھنے کو ملا ۔ ان کا تقویٰ ، رجوع الی اللہ کا شغف ، اتباع سنت کا اہتمام ہمارے لیے مشعلِ راہ رہا ۔ ان کا جذبہ ، مقصد سے لگن ، انتھک محنت نے ہمیشہ مہمیز کا کام دیا ۔ تیرہ بچوں کی اس ماں کو ہم نے ہر حال میں آسودہ پایا ۔اس کے چھوٹے چھوٹے بچے کسی راہگزر میں رکاوٹ نہیں بنے ، اس نے کبھی تکان اور جسمانی عوارض کی شکایت نہیں کی ، ہم نے انہیں مخالفانہ ماحول کا رونا روتے نہیں پایا ، حمل ، زچگی اور رضاعت کی مشقتیں ان کے پاؤں کی زنجیر نہ بن سکیں ۔ وہ ہر حال میں ہر میدان میں سراپا عمل رہیں ، ہر مشکل میں امید کا پیغام! وہ ہر معاملہ کا روشن پہلو دیکھنے کی عادی تھیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہر کام ان کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے یا وہ ہر طرح کے حالات سے مطابقت پیدا کرکے اپنا راستہ نکالنے کا گر جانتی ہیں ۔
انفرادی ملاقاتیں ہوں یا تربیتی پروگرام ، اجتماعات عام ہوں یا خاص ، درس و تدریس کا میدان ہو یا خدمتِ خلق کا ، وہ ہر جگہ متحرک نظر آتیں ۔ نجی مسائل ہوں یا تحریکی ، ان کے پاس ان سے عہدہ برآ ہونے کے نسخے موجود تھے جنہیں وہ بڑی فیاضی سے حاجت مندوں میں تقسیم کرنے کو تیار رہتیں ۔
وہ یقین محکم ، عمل پیہم اور محبت کی علامت رہیں ۔ حلقہ یاراں میں نرم دم گفتگو تھیں تو رزم گاہوں میں مضبوط چٹان ! ان کا موقف ٹھوس دلائل پر مبنی ہوتا ، ان کی بات دو ٹوک ہوتی مگر اپنی بات منوانے کے لیے دھونس کی قائل نہیں تھیں ۔ اختلاف رائے ان کے مزاج کو برہم نہیں کرنے پاتا تھا ۔
ہم نے ان کے رہن سہن کو ہمیشہ سادہ دیکھا ۔ وہ تکلفات اور لباس کی تراش خراش سے بے نیاز ہی رہیں ۔ ہر آن متحرک ، ہر محاذ پر سینہ سپر مگر شہرت اور خود نمائی کا شوق کبھی نظر نہیں آیا ۔ ہم نے انہیں سٹیج پر جگہ پانے کی حرص میں مبتلا نہیں پایا ۔
زندگی بھر متحرک رہنے والی ہماری خالہ جان نے خانہ نشینی اس وقت اختیار کی جب عمر نے ان کے بدن سے اپنا حصہ لے لیا ۔ گھر بیٹھے بھی دامے ، درمے، سخنے تحریکی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالتی رہیں ۔ ان سے ملنے والے آخری ایام حیات میں بھی ان کی حاضر دماغی کی گواہی دیتے ہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے انہوں نے اپنے رب کریم سے ملاقات کےلیے بقائمی ہوش و حواس رخت سفر باندھا ۔
دلوں کے اخلاص اور اعمال کی صالحیت کا حال تو وہ علیم و خبیر ہستی ہی جانتی ہے مگر سورہ الفجر کی آخری آیات میں جس نفس مطمئنہ کے شاندار استقبال کی خبر دی گئی ہے ، گمان ہوتا ہے ان میں ہماری یہ خالہ جان بھی ہوں گی ۔ ان کی نیک نفس اولاد ، ان کی لاتعداد شاگردیں ، ان سے فیضیاب ہونے والے بےشمار افراد ان کی مساعی کے گواہ ہیں ، ان کے لیے صدقہ جاریہ اور دعاگو بھی ۔
رب کریم ان کے حق میں ہم سب کی گواہیاں قبول فرمائیں ، ان کی لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے انہیں اپنی بہتری میزبانی سے نوازیں انہیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شمار کرتے ہوئے صالحین ، شہداء ، صدیقین اور انبیاء علیہم السلام کا ساتھ نصیب فرمائیں ۔
٭٭٭