ننھے منھے ہاتھوں نے مضبوطی سے اس کے دامن کو پکڑا ہوا تھا۔ صبا نے ہاتھوں کی گرفت کو ڈھیلا کرتے ہوئے انھیں چوما اور کھلونوں سے بھرا ایک شاپر اس کے حوالے کرتے ہوئے بڑی عجلت سے دروازہ بند کرتی ڈے کیئرسینٹر سے باہر نکل گئی۔ دو چار دن تو ہبہ کھلونوں سے بہل گئی لیکن اسے بھی اب اندازہ ہو گیا تھا کہ ماں اس کو یہ چیزیں دے کر شام تک کے لیے اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ صبا کے باہر نکلتے ہی وہ بے قابو ہو جاتی اور اس کی التجائی چیخیں جو وقت کے ساتھ ساتھ احتجاج میں تبدیل ہو چکی تھیں، دور تک اس کا پیچھا کرتیں۔ خواتین کارکنوں نے کچھ دن اس کے ناز اٹھائے لیکن پھر اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ یوں ہبہ نے بھی سمجھوتہ کر لیا۔
صبابھی مجبورتھی۔وہ کوئی خوشی سے اپنی لخت جگرکوڈے کیئر کے حوالےکرکےنہیں جاتی تھی۔اس کاشوہرایک معمولی سی ملازمت کرتاتھا جس سےگزاراتوہورہاتھامگربڑھتی ہوئی مہنگائی نے انھیں مستقبل کے لیے بہت کچھ سوچنےپرمجبورکردیاتھا۔اپنی بیٹی کو ہرطرح کی آسائش اور خوشی دینااس کاخواب تھاسواس نےنوکری کرلی تھی۔میکےاورسسرال میں کوئی ایسا نہ تھا جس کےپاس وہ ہبہ کو چھوڑ سکتی ایسے میں ڈےکیئرہی اسے مناسب انتخاب لگا ۔
وہ ہر روز صبح سویرے اپنی مما کے ساتھ اس آس پر گھر سے نکلتی کہ شاید وہ اس کو اپنے ساتھ رکھے گی لیکن ڈے کیئر کی عمارت دیکھتے ہی اس کا ننھا سا دل رونے لگتا لیکن وہ خاموشی سے ماں کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہوتی اور ماں کو الوداعی نظروں سے رخصت کرتی۔ اس کی آنکھوں میں بےبسی کے آنسو جھلملا رہے ہوتے ۔ اب تو اکثر صبا کے پاس اس کو نظر بھر دیکھنے کی مہلت بھی نہ ہوتی۔ بس جلدی سے وہ اس کو کمرے میں اندر کرکے تیزی سے باہر نکل کر آفس کی طرف دوڑ لگا دیتی۔ ہبہ بھی کچھ دیر افسردہ رہنے کے بعد کھیل میں مشغول ہو جاتی۔ پھرتھک کر سوجاتی۔ جب شام کے سائے لمبے ہونے لگتے تو اس کی نظریں دروازے پر جم جاتیں۔ صبا کے چہرہ کی جھلک اس کو نہال کیے دیتی اور وہ دوڑ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتی۔ صبا بھی اس کو گود میں لے کر پیار کرتی اور اسے لیے گھر کی طرف روانہ ہو جاتی۔ رات ہبہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر سوتی کہ کہیں وہ اس کو تاریک رات میں تن تنہا نہ چھوڑ جائے ۔ صبح کی روشن کرنیں جدائی کے خیال سے اسے خوفزدہ کر دیتیں اور وہ ماں کی آغوش میں گھس کر سوتی بن جاتی پر کتنی دیر! آخر نہ چاہتے ہوئے بھی ماں سے جدا ہونے کے لمحات آ پہنچتے ۔
٭
ہبہ اب بڑی ہو گئی تھی اور سمجھداربھی۔ صبح صبا کے ساتھ وہ بھی اسکول کے لیے تیار ہو جاتی اور صبا اس کو اسکول چھوڑتی ہوئی آگے روانہ ہو جاتی۔ ننھے ذہن میں اٹھتے سوالات، دل میں امڈتے جذبات، وہ معصوم باتیں جو وہ ماں سے کرنا چاہتی وہ صبا کی بے پناہ مصروفیت کے بنا پر باعث تشنہ ہی رہتے۔
ماہ وسال کایہی سلسلہ جاری رہا اور ہبہ تعلیم اور عمر کی منزلیں طے کرتی اپنی خواہش کے مطابق ہوم اکنامکس میں امتیازی نمبروں سے ماسٹرز کی ڈگری لے کر کامیاب ہوئی۔ گھر سجانے اور گھر چلانے سے اسے خاص دلچسپی تھی۔شاید گھریلو ماحول کی کمی جو اس نے سالہا سال سہی تھی اس کا اثرتھا کہ تصور میں وہ ایک پرسکون پیارے سے گھر کو دیکھتی اور خواب بنتی۔ یہی سوچ لے کر ہبہ، حاشر کی زندگی میں داخل ہوئی۔
’’حاشر! شاید آ پ کی بھی یہ خواہش ہو کہ میں آج کی تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں آپ کا ساتھ دوں پرمیں سمجھتی ہوں کہ میرے گھر کو میری زیادہ ضرورت ہے….میری توجہ میری صلاحیتوں کی…. کیا آ پ میری بات سے اتفاق کرتے ہیں؟‘‘
حاشر ایک سمجھدار مرد تھا۔اسے ہبہ کی سوچ سے اتفاق تھا۔ وہ اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ اس کی پسند کا احترام کرتے ہوئے اس نے ہبہ پر ملازمت وغیرہ کا کوئی بوجھ نہ ڈالا۔ یوں حاشر کے تعاون سے اپنے پیارے سے بیٹے کے سنگ اپنی جنت نما رہائش گاہ میں وہ خوبصورت زندگی گذار رہی تھی۔
ہبہ نے اپنے بیٹے علی کی بہت محبت اور توجہ سے پرورش کی۔ وہ چاہتی تھی کہ جب بھی اس کے بیٹے کو اس کی ضرورت ہو تو وہ اسے ہمیشہ موجود پائے۔ اس کو ماں کی محبت وقربت کے لیے صبح کو شام کا اور شام کو صبح کا انتظار نہ کرنا پڑے ۔ اپنی تمام ضروری مصروفیات پر علی کی ذات کو ترجیح دیتی تھی۔ وہ اپنی تربیت پر مطمئن اور نازاں تھی۔مگر اس کا جیون ساتھی اس خوشیوں بھری زندگی میں زیادہ دور تک اس کا ساتھ نہ دے سکا۔ایک دن د ل کا ایسا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہؤا۔ اب ہبہ کے لیے علی ہی زندگی کا عنوان تھا۔
٭
علی کی شادی کے بعد وہ اپنے نظریات اور تجربات، اپنی بہو کے گوش گزار کرنا چاہتی تھی تاکہ علی کے بچے کبھی وہ کمی محسوس نہ کریں جو وہ خود کرتی رہی تھی۔ لیکن یہ اس کی بھول تھی کہ سب اس کی جیسی سوچ اور خیالات کے مالک ہوں گے ۔
’’آخر آپ کی والدہ محترمہ کیوں چاہتی ہیں کہ میں اپنی تمام صلاحیتیں چولہے میں جھونکوں یا بچوں کے نیپیز بدلنے میں؟ گھر، گھر ہستی ان کا مشن تھا جس پر بلا روک ٹوک انھوں نے بخوشی عمل کیا لیکن ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کریں؟‘‘
ہبہ کے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ کہتی تو علیزہ ٹھیک ہی تھی۔ آخر اپنے نظریات پر وہ دوسروں سے ستائش کی متمنی کیوں تھی۔ سب کو اپنی زندگی آپ جینے کی آزادی ہے۔ وہ کون ہوتی ہے کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے والی۔ اس نے اپنے لب کھلنے سے پہلے ہی سی لیے۔ ہاں دکھ اس بات کا تھا کہ علی کو کبھی اس کی محبتوں ، قربانیوں کا کوئی احساس نہ ہؤا؟ بیوی کے سامنے ایک احتجاجی جملہ، ماں کے حق میں کوئی دلیل!
وہ گھر میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھیں لہٰذا بہو بیٹے کے معاملات میں بولنا اس نے مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ پوتے کی پیدائش پر بہو کی غیر موجودگی میں بچے کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری اس نے خود اپنے سر لےلی۔ وہ پھر سے وہ تاریخ دہرانا نہیں چاہتی تھی کہ ایک بچہ ماں کی محبت و توجہ کے لیے انتظار کی گھڑیاں گنے۔
٭
’’مما! میں نے اور علیزہ نے بیرون ملک شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضروری کاغذی کارروائی کے لیے کچھ دن کےلیے ہم دونوں کو اسلام آباد جانا ہوگا،‘‘علی ہبہ سے مخاطب تھا۔
ہبہ نے حیران پریشان نظروں سے علی کو دیکھا۔ وہ محسوس تو کر رہی تھی کہ وہ یہاں سے جانے کے لیے پر تول رہا ہے پر سب کچھ یوں اچانک ہی۔
’’آپ پریشان نہ ہوں، سب سیٹ ہو جائے گا‘‘۔،علی نے ماں کے چہرے پر پھیلے خدشات کو بھانپتے ہوئے ان کے گھٹنوں پر سر رکھتے ہوئے کہا تو ہبہ نے دل میں اٹھتے طوفان کو بمشکل دباتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی ۔
’’اللّہ تم لوگوں کے حق میں بہتر کرے بیٹا‘‘، ہبہ نے گود میں رکھے علی کے سر کو سہلاتے ہوئے دعا دی۔
٭
’’بس ہم وہاں تھوڑا سیٹ ہو جائیں تو آپ کو بھی بلا لیں گے مما‘‘، ایک ماہ بعد اولڈ ہوم کے کمرے میں موجود ماں کو تسلی وتشفی دیتے علی نے موٹا سا لفافہ ماں کو تھماتے ہوئے کہا تو ہبہ کو لگا آج پھر سے کھلونوں سے بھرے شاپر سے بہلا کرکوئی اسے تنہا چھوڑے جا رہا ہے۔ اس نے بند دروازے کو حسرت سے دیکھا جہاں شام ڈھلے کسی کے لوٹ آنے کی کوئی امید نہ تھی۔
٭ ٭ ٭