رحماء اور اس کا بیٹا فرحان بڑے شوق سے ٹی وی پر نشر ہونے والی یوم پاکستان 23 مارچ کی تقریب دیکھ رہے تھے۔ پاک فوج کی پریڈ، اسلحہ اور میزائلوں کا نظارہ، فوجی طیاروں کا ہوائی مظاہرہ سب ہی انتہائی پر شکوہ اور دل کو چھو لینے والا تھا۔ رحماء بیٹے کو 23 مارچ کے حوالے سے معلومات دے رہی تھی اور فرحان بھی جوش سے بھرا ان سب نظاروں کو دل میں اتار رہا تھا۔
پروگرام کے اختتام پر فرحان نے رحماء کا بازو ہلاتے ہوئے کہا۔’’امی! امی! مجھے بھی ایسی ہی گن چاہیے جیسے اس میں دکھا رہے ہیں‘‘۔
رحماء مسکرا دی۔
’’کیوں بیٹے آپ کے پاس تو پہلے ہی اتنی ساری گنز، کار، ٹینکر اور آرمی کی چیزیں ہیں۔ اب یہ والی گن بھی لینا ہے؟‘‘
اسے اپنے بیٹے کے شوق کا پتہ تھا۔ اسے آرمی سے متعلق چیزوں کا شوق تھا۔ ہر طرح کی بندوقیں، ٹینک، جہازوں اور ہیلی کاپٹرز کے ماڈل اور نا جانے کیا کیا چیزوں سے اس کا کمرہ سجا ہؤا تھا۔ اب یہ اور بات تھی کہ اسے بس جمع کرنے کا شوق تھا ان سے کھیلتا بہت کم تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ رحماء اکلوتے بیٹے کی کسی خواہش کو نہیں ٹالتی تھی اور اسے ہمیشہ سب سے اچھی کوالٹی کی چیز دلاتی تھی جو ظاہر ہے مہنگی بھی ہوتی تھی۔ محلے میں کسی بچے کے پاس بھی اتنی اچھی چیزیں نہیں ہوتی تھیں جیسی اس کی بیٹے کے پاس ہوتی تھی۔ لیکن یہ بھی تھا کہ وہ اپنے بیٹے پر یہی زور دیتی تھی کہ چونکہ اس کی چیزیں دوسرے بچوں کے مقابلے میں خاص ہوتی ہیں تو کسی کو ان کو ہاتھ نہ لگانے دے۔ محلے کے بچے تو آئے دن کھلونے لا کے خوب جی بھر کر مل کر کھیلتے توڑ بھی دیتے جس کا رحماء اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر خوب مذاق اڑاتی تھی۔ تو اب یہی ہوتا کہ فرحان کے لیے جو بھی کھلونا آتا وہ فورا ًالماری کی زینت بن جاتا۔
بہرحال رحماء اپنے بیٹے کا دل نہ توڑنا چاہتی تھی پھر اس کی سالگرہ بھی آنے والی تھی تو اس نے وہی گن اس کو تحفے میں دینے کا سوچ لیا اور فرحان کو بھی بتا دیا کہ وہ سالگرہ والے دن اسے یہ تحفہ دے گی۔
فرحان تو خوشی سے اچھل پڑا۔ ’’واہ مما!! پھر تو میں سب بچوں سے کہوں گا کہ میری برتھ ڈے پر سب اپنی اپنی گنز لے کر آئیں۔ پھر ہم مل کر کھیلیں گے‘‘۔ ہاں ہاں کیوں نہیں! اپنے سارے فرینڈز کو بلا لینا اور جو دل چاہے کھیلنا۔
اور آج فرحان کی برتھ ڈے تھی ۔نئی تحفے میں ملی ہوئی رنگ بکھیرتی ہوئی چمکتی دمکتی گن اس کے ہاتھ میں تھی اور وہ دوسرے بچوں کے ساتھ اس گن سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ رحماء سالگرہ کے انتظامات کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ بچے صرف کھیلنے میں ہی نہ لگے رہیں کھانے کے لوازمات بھی انجوائے کریں۔ ساتھ ساتھ بچوں پر بھی نظر تھی کہ کہیں اپنے آپ کو چوٹ نہ لگا لیں۔
’’مما!!!‘‘ لان سے فرحان کی چیخ نما آواز آئی۔ رحماء دوڑتی ہوئی باہر آئی۔ فرحان نئی گن کو آنسو بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ باقی بچے اس کے ارد گرد کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔
’’کیا ہؤا؟‘‘ وہ تڑپ کر آگے بڑھی۔ ’’ہم کھیل رہے تھے تو راحیل نے میری گن پر اپنی گن ماری تو یہ اس کی سائیڈ سے لائٹ ٹوٹ کر نکل گئی‘‘۔ فرحان نے سسکیاں بھرتے ہوئے ماں کو بتایا۔
’’اف اللہ! کیسے کھیلتے ہو تم لوگ، ایسے کوئی چیزیں توڑتے ہیں کیا؟‘‘ رحماء نے راحیل کو سخت نظروں سے دیکھتے ہوئے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔
’’آنٹی میں نے نہیں اس نے میری گن پر گن ماری تھی‘‘۔ راحیل نے اگے بڑھ کر اعتماد سے وضاحت دی۔
’’اچھا اچھا چلو، بس اب پارٹی ختم، سونے کا ٹائم ہونے والا ہے‘‘۔ رحما نے راحیل کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے پارٹی کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ایک تو یہ محلے کے سارے بچے ہی شریر تھے۔ مل جل کر کھیلنے سے ان میں اعتماد بھی بہت زیادہ تھا اور قوت برداشت بھی تھی۔ ان کے کھلونے آئے دن آتے رہتے تھے جس کی خبر اس کو فرحان سے ملتی رہتی تھی۔ سارے بچے شام کو جمع ہوتے اپنے اپنے کھلونے لے کر ان سے کھیلتے اگر ٹوٹ بھی جاتے تو انہیں خود ہی جوڑ کر دوبارہ کھیلنے میں مصروف ہو جاتے۔ کوئی کسی پر الزام نہ دھرتا اور نہ دل میں کینہ یا بغض رکھتا۔
بہرحال کچھ دن احتیاط سے اپنے کمرے میں کھیلنے کے بعد وہ گن بھی کھلونوں والی الماری میں سج گئی۔
دن گزرتے جا رہے تھے فرحان بڑا ہوتا جا رہا تھا اور کھلونوں کے تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ ان کی صفائی اور دیکھ بھال میں رحماء کا خاصاٹائم نکل جاتا تھا۔ ویسے بھی اب فرحان کی ان سے کھیلنے میں دلچسپی کم ہو گئی تھی اور ماں باپ کی پوری توجہ اس کی پڑھائی اور رزلٹ پر رہنے لگی تھی اور فرحان بھی ماں باپ کی خواہش پر انتہائی سنجیدگی سے پڑھائی میں مشغول ہو گیا تھا۔ لیکن یہ تھا کہ اب وہ تنہائی پسند ہوتا جا رہا تھا۔ اسکول کالج کے دوست وہیں کی حد تک تھے اور وہاں کی دوسری سرگرمیوں میں وہ دلچسپی نہیں لیتا تھا ۔بس راحیل ہی اس کا ایک دوست تھا وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کی شوخیاں اور خیال رکھنے کی عادت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ گئی تھی ۔وہ فرحان کی تنہائی پسندی کی عادت کو سمجھتے ہوئے خود ہی اس سے ملنے چلا آتا تھا۔رحماء اور فرحان کو اس کی آمد سے خوشی ہوتی تھی۔آرمی جوائن کرنے کے بعد سے اس کا آنا بھی کم ہو گیا تھا لیکن جب بھی وہ ملتا اور اپنی اکیڈمی کے قصے سناتا تو فرحان کے دل کو کچھ ہونے لگتا۔ خود اس کو بھی تو آرمی میں جانے کا کتنا شوق تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اندازہ ہو گیا کہ شاید وہ وہاں فٹ نہ ہو سکے۔
البتہ اس کی تنہائی پسندی ملک و قوم اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے میں مانع نہ تھی۔ ملک میں ہونے والے تمام حالات اور قوم کے رجحانات پر اس کی گہری نظر ہوتی۔ عام لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے قوم اور ملکی ابتری کی صورتحال سے متاثر ہوتا اور اپنے قوم کی ترقی کے لیے پر امید بھی تھا۔ عالمی تناظر میں امت مسلمہ کی تکلیف اسے بھی بے چین کر دیتی تو کبھی کبھی وہ فرحان سے بھی الجھ پڑتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جب امت مسلمہ غزہ و فلسطین اور کشمیر میں مسلسل درد میں مبتلا ہے تو ایسے میں مقتدر ادارے کیوں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں؟ کیوں وہ ایک موقف نہیں رکھتے ؟اور جس طرح بدی کی طاقتیں ایک ہو گئی ہیں تو امت مسلمہ کیوں اپنے وسائل بروئے کار نہیں لا رہی ہے؟ ہمارے اسلحہ و ہتھیار کے انبار آخر کس دن کام آئیں گے؟اگر ہم ایٹمی طاقت ہیں تو دشمن کو حد میں رکھنے کے قابل کیوں نہیں ہیں ؟کیونکہ صرف ایک اس کے ہونے سے ہی دشمن ہم سے لرزاں ہیں تو کیوں ہم کمزوری دکھاتے ہیں؟ایسے میں اسے اپنے ملک کے ذخیرے ،قوت،اسلحہ اور اپنی الماری میں سجے کھلونوں میں ایک ہی مماثلت نظر آتی جیسے یہ صرف نمائشی ہوں۔
وقت کا کام تو آگے بڑھنا ہے۔ اس کی اپنی ایک چال ہے۔ وقت یہ چال قوموں کی زندگی میں حالات و واقعات کو جاری و ساری رکھتی ہے ،عمریں گزر جاتی ہیں۔ ایسے میں فرحان بھی اب زندگی کے نئے مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ اب تو اس کا اپنا بیٹا حیدر بھی ماشاءاللہ چھے سال کا ہو گیا تھا۔
لیکن خود اس کا وہی حال تھا۔ انتہائی سنجیدہ مزاج لیے دیے رہنے والا تنہائی پسند۔ نئے نئے لوگوں سے ملنا ملانا، پارٹیاں کرنا اسے بالکل پسند نہیں تھا۔ کبھی کبھی رحما بھی اس کی ان عادات سے الجھ جاتی اور بہو سے نظریں چرانے پر مجبور ہو جاتی۔ ایسے میں اسےاحساس ہوتا کہ بچے کو بالکل اکیلاچھوڑ کر پھر اس کے پسندیدہ کھلونوں سے نہ کھیلنے کی وجہ سے جیسے اپنے خول میں سمٹ گیا تھا۔
وہ ابھی انہی سوچوں میں غرق تھی کہ اس کے پوتے حیدر نے اس کا بازو ہلایا۔’’دادی جان مجھے کچھ کھیلنا ہے میں کیا کھیلوں؟‘‘
’’ہاں ہاں میری جان! آپ کیا کھیلنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’مجھے وہ الماری کے اوپر رکھے ہوئے کھلونے چاہئیں کھیلنے کے لیے‘‘۔
رحما چونکی۔’’وہ کھلونے؟‘‘
’’جی بس مجھے وہی کھلونے چاہئیں‘‘۔ حیدر نے ضدی لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے اتنے عرصے سے کھلونے سجے ہوئے ہیں۔ اب تو دھول مٹی میں اٹے ہو رہے ہیں اور پھر کھلونے کھیلنے اور کچھ سیکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ میں نے بھی نہ جانے کیوں اپنے بچے کو بھی نہ کھیلنے دیا اور اب کیا اس بچے سے بھی بچا کر رکھوں گی‘‘۔’’چلیں بیٹا بابا کو بلائیں آج سارے کھلونے نکالتے ہیں پھر کھیلنا ان سے‘‘۔
’’واؤ بابا جلدی آئیں….آج ہم ان کھلونوں سے کھیلیں گے دادی جان کہہ رہی ہیں‘‘۔
فورا ًہی فرحان کمرے میں داخل ہؤا۔ ’’کیا واقعی!‘‘
جس طرح فرحان نے اشتیاق سے کہا تو رحماء بھی نظریں چرانے پہ مجبور ہو گئی۔ اسے لگا اس سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے۔
اور اب کمرے میں فرحان اور حیدر کے قہقہے گونج رہے تھے اور وہ ان کھلونوں کو لیے آگے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ لگ رہا تھا جیسے فرحان بھی اپنے بچپن کی ساری حسرت نکالنا چاہتاہو۔ رحماء نے آنکھیں بند کر کے ان کے قہقہوں کو سنا اور اطمینان سے سر کرسی کی پشت پر لگا دیا۔وہ سوچ رہی تھی،کتنی دیر بعد سمجھ میں آیا کہ یہ کھلونے تو انسان کی شخصیت کو سنوارنے کے لیے ہوتے ہیں تاکہ ان سے بچوں میں ہمت، بہادری، شجاعت، برداشت و صبر کی عادتیں فروغ پائیں، ان کی شخصیت کی مختلف ضروریات ان کے ذریعے پوری ہوں، اور یہی ان کا صحیح استعمال بھی ہے ۔ نہ کہ یہ پڑے پرانے ہوتے رہیں اور بس ان کی جھاڑ پونچھ ہی ہوتی رہے ۔
٭٭٭