نابینا رخسانہ کی کہانی
1995ء کی بات ہے ایک عورت بچوں کی دوائی لینے آئی جس کی بینائی کافی کمزور تھی۔ سات سالہ بیٹے نے ماں کا ہاتھ تھاما ہؤا تھا۔ ڈیڑھ سال کا بیٹا گود میں اور چار سالہ بچہ پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔
اس نے اپنا نام رخسانہ بتایا۔ ’’شوہر کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی ہم تو فقیر ہیں، جو صدقہ، خیرات مل جاتا ہے اس پر ہماری دال روٹی چل رہی ہے‘‘۔
’’مگر یہ تو کوئی پیشہ نہ ہؤا۔ اخراجات کے لیے محنت مشقت کرنی چاہیے‘‘۔
وہ تو جیسے یکدم پھٹ پڑی۔ ’’جی میرا بندہ ترکھان ہے۔ عزت کی روٹی کھاتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے کسی کا سامان خراب ہو گیا۔ انہوں نے اُجرت تو کیا دینی تھی دھکے دے کر نکال دیا۔ اب اس کا دل اتنا ٹوٹ گیا ہے کہ کوئی کام نہیں پکڑتا‘‘۔
میں نے فوراً بات بدلی ’’کتنے بچے ہیں؟‘‘
’’جی یہ تین بیٹے ہیں اور ان سے بڑی دو بیٹیاں ہیں وہ گھر میں ہیں‘‘۔
’’بچے پڑھتے نہیں ہیں؟‘‘
’’جب حالات اچھے تھے تو بڑی دوسری میں پڑھتی تھی چھوٹی پہلی میں… ابھی بیٹے کو داخل کرنا تھا کہ کاروبار ختم ہو گیا۔ وہ بھی گھر بیٹھی ہے‘‘۔
’’انہیں پڑھنے کا شوق ہے؟‘‘
’’جی بڑی ارم کو تو بہت شوق ہے چھوٹی اب کسی کے گھر میں کام کرتی ہے اور اس کو زیادہ شوق بھی نہیں‘‘۔
’’اچھا رُخسانہ ابھی تو تم دوائیاں لو اور گھر جائو۔ اگلے ہفتے ارم کو لے کر آنا۔ سوچتے ہیں کیا بندوبست کر سکتے ہیں‘‘۔
وہ وعدے کی پکی نکلی، اگلے ہفتہ بیٹی ارم اور چھوٹے بیٹے کے ساتھ موجود تھی۔ میں نے سب سے پہلے اسی کی طرف توجہ کی۔ دوسری ڈاکٹر مریضوں کو دیکھنے لگی تھیں۔ میں نے رخسانہ اور بچوں کو ساتھ لیا اور سٹاف روم میں آکر ایک ٹیچر کو بلوایا۔
’’مس عطیہ آپ اس بچی ارم کا دوسری کلاس کا اردو کا ٹیسٹ لیں۔ میں ادھر ہی بیٹھی ہوں ابھی مجھے رپورٹ دیں‘‘۔
’’جی اچھا‘‘ یہ کہہ کر وہ کلاس روم میں بچی کے ساتھ چلی گئی۔
اللہ کے فضل سے اس جگہ ہمارا ماحول بہت اچھا بن چکا ہے۔ سکول کے بہت اچھے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ کے جی، نرسری اور پھر پانچویں تک کلاسیں ہیں، تقریباً سات اساتذہ پڑھاتیں ہیں۔ بروز ہفتہ بچوں کو دس بجے چھٹی دے دی جاتی ہے۔ جبکہ اساتذہ جن کو ہم نے دوائیاں دینے کی تربیت دی ہوئی ہے، ان میں سے چند ایک پرچیاں بناتی ہیں، باقی ڈسپنسری میں نسخے تیار کرتی ہیں۔ کھڑکی کے پاس اکثر مسز ریحانہ رفیق بیٹھتی ہیں جو دوائی دیتی بھی ہیں اور سمجھاتی ہیں۔ نیز پرچی کے لیے مقرر کی ہوئی معمولی سی رقم بھی وصول کر لیتی ہیں۔ دو عدد آیا بھی مریضوں کو کنٹرول کرنے اور شفا خانے کی صفائی ستھرائی کیلیے موجود ہوتی ہیں۔ ایک تو مستقل سکول کی ڈیوٹی والی ہے۔ دوسری خاص شفا خانہ کے لیے رکھی گئی کہ ادھر صفائی کی بھی بہت ضرورت رہتی ہے۔
اس روز میں رخسانہ اور اس کے سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ سٹاف روم میں بیٹھی تھی۔ وہ اپنے گھریلو حالات بتا رہی تھی۔ میں نے کہا ’’اپنے شوہر سے کہو اس بارے میں سوچے کہ اگر ہمارا ٹرسٹ اس کو کچھ مالی امداد دے تو وہ تھوڑا سامان خرید کر لکڑی کی کچھ آسان چیزیں بنا کر خود ہی بیچے۔ شاید اس کا کام کچھ چل جائے۔ یوں فارغ بیٹھنے سے تو بہتر ہے‘‘۔
وہ بولی ’’اچھا جی میں ضرور پوچھ کر آپ کو بتائوں گی‘‘۔
’’تقریباً بیس پچیس منٹ میں مس عطیہ، ارم کے ساتھ سٹاف روم میں آئیں اور بتایا کہ یہ لڑکی دوسری کلاس کی پڑھائی لکھائی میں بہت اچھی ہے بلکہ گورنمنٹ کے سکول میں اس نے دوسری کلاس میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی تھی۔ حساب بھی صحیح آتا ہے!‘‘
’’بس آپ اس کو تیسری کلاس میں داخل کر لیں۔ اگرچہ یہ داخلوں کا مہینہ نہیں ہے مگر خاص طالب علموں کے لیے ہمیں قوانین میں نرمی کرنی پڑتی ہے‘‘۔ میں نے ارم کی والدہ سے کہا ’’اس کی تعلیم کے تمام اخراجات ٹرسٹ برداشت کرے گا۔ یونیفارم سے لے کر کتابوں تک… اور پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ بھی دیں گے۔ خوراک وغیرہ کے لیے‘‘۔
اگلے ہی روز سے ارم نے تیسری جماعت کی تعلیم شروع کر دی۔ میں اس بچی کے بارے میں وقتاً فوقتاً کلاس ٹیچر سے پوچھتی رہتی۔ وہ بہت شوق سے پڑھتی اور نہایت تابعدار شاگرد تھی۔ تیسری سے لے کر پانچویں جماعت تک وہ تیسری پوزیشن حاصل کرتی رہی۔
سالانہ امتحانات کے بعد ہر سال سکول کا سالانہ جلسہ منعقد ہوتا ہے جس میں انعامات دئیے جاتے ہیں، بچیاں اچھے اچھے پروگرام بھی پیش کرتی ہیں…
1998ء کا سالانہ جلسہ تھا اس میں پانچویں کلاس کے انعامات تقسیم ہو رہے تھے۔ ارم کو تیسری پوزیشن کا انعام ملا… مجھے بیحد خوشی ہوئی۔
جلسے کے بعد تمام بچوں میں کھانے کے پیکٹ تقسیم ہوتے ہیں اور ان کے عزیزوں کے لیے بھی کھانے کا بندوبست ہوتا ہے۔ مجھے ارم کی والدہ رخسانہ نظر آئی، وہ کسی کے انتظار میں برآمدے میں کھڑی تھی… اس کا چھوٹا بیٹا جو کہ اب نرسری میں تھا میرے پاس آیا۔ ’’اماں آپ کو بلاتی ہیں‘‘۔
میں رخسانہ کے پاس گئی، اس کو ارم کی مبارکباد دی، وہ نہایت خوش تھی۔ اس نے مجھے ایک تحفہ پیش کیا… لکڑی کی مصالحے ڈالنے والی صندوقچی بہت صفائی سے بنی ہوئی، میری طرف بڑھائی اور کہنے لگی یہ آپ کے لیے ہے۔ میں نے اُسے ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا۔ بہت خوشی ہوئی کہ بچوں کا باپ پھر سے اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا تھا۔
پھر میں نے شکریہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے واپس کر دی کہ ہمیں تحفے یہاں سے لینے کی اجازت نہیں ہے، تم اپنے گھر میں اس کو استعمال کرو۔
پھر کچھ سال تک مجھے ان لوگوں کی کوئی خبر نہ ملی۔ پچھلے سال (2009) ستمبر میں رخسانہ اپنے بڑے بیٹے کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر آئی۔
’’ڈاکٹر صاحب ارم کی شادی طے ہو گئی ہے!‘‘ وہ بہت خوشی سے بولی۔
’’کہاں بیاہ کر جا رہی ہے؟‘‘
’’جی پھوپھی کے ہاں ساہیوال‘‘
’’اچھا تو ہم کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟‘‘
’’جی اس کو سلائی سکھائی ہوئی ہے، مشین کرایہ پر لے کر کپڑے سیتی ہے۔ آپ شادی میں مشین دے دیں اور کچھ نقد… جو بیاہنے آئیں گے ان کو کھانا کھلا دیں گے‘‘۔
’’ٹھیک ہے دو ہفتے بعد آنا کیونکہ مشین ہمیں آرڈر کرنی ہوتی ہے اس میں کچھ وقت لگتا ہے‘‘۔
’’جی اچھا‘‘ وہ بے حد مطمئن نظر آئی۔
’’یہ بتائو تمہیں موٹر سائیکل پر کون لے کر آیا ہے‘‘؟
’’یہ جی میرا بیٹا ہے اس کو پانچ پاس کرنے کے بعد بجلی کا کام سکھایا تھا تو اب اچھی روزی کما لیتا ہے، ارم کے برتن کپڑے اسی کی کمائی سے بن رہے ہیں!‘‘
مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میرے آنسو نکل آئے (شاید میں زیادہ ہی جذباتی واقع ہوئی ہوں) میں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل حال رہے تو سب وعدے اور پروگرام پورے ہو جاتے ہیں۔
وہ دو ہفتے بعد آئی۔ ساتھ میں بڑا بیٹا تھا، اس نے سلائی کی مشین اٹھا لی، رخسانہ نے رقم پکڑی اور بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے روانہ ہو گئی۔
دلو خورد کے شب و روز
درسگاہ میں کم و بیش پچاس لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور چونکہ دوسرے شہروں سے آتی ہیں اس لیے ہوسٹل میں رہائش کا بندوبست ہے۔ نوجوان بچیاں ہوتی ہیں سو ہمیں ان کی تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی کافی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی لڑکیوں کا سکول ہے جو مڈل سے اب میٹرک تک ترقی کر چکا ہے۔ کچھ لڑکیاں پرائیویٹ ایف اے کا بھی امتحان دیتی ہیں۔
محترمہ ام راشد کی تین بیٹیاں بلامعاوضہ یہاں اساتذہ کے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔ بڑی دونوں پرنسپل اور ہیڈ مسٹریس ہیں، تیسرے نمبر پر حمیرا ہیں جو کہ درسگاہ کی انچارج ہیں۔ ان لوگوں کو گاڑی مہیا کرنا ٹرسٹ کی ذمہ داری ہے۔
شفاخانہ جمعرات کے روز کھلتا تھا۔ شروع میں ڈاکٹر زینب میرے ساتھ ڈیوٹی کرتی تھیں۔ پھر کچھ سال ڈاکٹر جمیلہ حفیظ اور ڈاکٹر ساجدہ احمد کام کرتی رہیں۔ مسز ثریا حمید بھی بہت اچھی مددگار ثابت ہوئیں۔ چند سال قبل یہ ڈسپنسری بند کرنا پڑی کیونکہ اس جگہ اب زچہ بچہ سینٹر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ زمین موجود ہے تعمیرکے لیے رقم کا بندوبست ہوتے ہی انشاء اللہ کام شروع ہو جائے گا۔
اللہ کے کرم سے کافی سال پہلے میں نے دلو خورد کی درس گاہ کے بارے میں ایک بہت اچھا خواب دیکھا تھا… صحن میں سفید چادریں بچھی ہوئی ہیں۔ محفل سیرت سجی ہے۔ ٹرسٹ کی سب بہنیں بیٹھی ہوئی درود پاک پڑھ رہی ہیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سفید گھوڑے پر سوار اوپر کی طرف جا رہے ہیں۔ میں نے سفید کپڑوں میں ملبوس ان کی پشت کا دیدار کیا۔ پھر یکدم وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ آنکھ کھلنے پر ایک عجیب سی ٹھنڈک کا احساس تھا اور ایسے محسوس ہو رہا تھا ساری فضا معطر ہے! تب سے ہم ہر سال محفل سیرت منعقد کرتے ہیں درسگاہ میں یا میرے گھر میں۔
اللہ تعالیٰ کی مدد کے غیر معمولی واقعات آپا ام راشد کو بھی پیش آتے ہیں۔ چند ماہ پیشتر جو اللہ کی خصوصی مدد انہیں ملی اس کا دلچسپ قصہ انہوں نے یوں سنایا: ’’ایک شام ہمارے ایک پرانے جاننے والے ریٹائرڈ میجر صاحب تشریف لائے اور کہنے لگے، کام مشکل ہے مگر اُمید ہے آپ انکار نہیں کریں گی‘‘۔ میں نے کہا بتائیں کوشش کروں گی مشکل حل ہو جائے۔ وہ بولے دس لاکھ روپے کل شام تک چاہئیں۔ میں ذرا سوچ میں پڑ گئی مگر پھر جلد ہی ان سے وعدہ کر لیا کہ کل آپ اسی وقت تشریف لے آئیں‘‘۔
میجر صاحب چلے گئے۔ ابھی گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ میرے منجھلے بیٹے عامر کا فیصل آباد سے فون آیا ’’میرا ایک دوست نو لاکھ روپے آپ کے ہاں صبح پہنچائے گا آپ سنبھال لیں‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘ میں نے کہا اور فون بند ہو گیا۔ صبح تقریباً دس بجے عزیز نو لاکھ کی رقم لائے اور کہا ’’چند ماہ کے لیے یہ امانت رکھ لیں‘‘۔
میرے ذہن میں میجر صاحب کا مسئلہ موجود تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کیا تین ماہ کے لیے یہ رقم استعمال کی جا سکتی ہے؟ انہوں نے بخوشی اجازت دے دی۔ اللہ کی طرف سے نو لاکھ کا بندوبست بیٹھے بٹھائے ہو گیا تھا۔ اب باقی ایک لاکھ رہ جاتا تھا۔ میجر صاحب نے تین ماہ میں قرضہ واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
میں سوچ میں پڑی تھی کہ کہاں سے بندوبست ہو گا، اچانک یاد آیا میرے بڑے بیٹے راشد نے ایک لاکھ کی رقم میرے پاس چند ماہ پہلے امانت رکھوائی تھی۔ اس کو کراچی فون کیا اور اجازت طلب کی کہ اگر وہ رقم تین ماہ کے لیے استعمال کر لیں۔ بیٹے نے بھی بخوشی اجازت دے دی۔
شام کو میجر صاحب آئے اور رقم لے کر روانہ ہو گئے۔ وعدے کے مطابق ڈھائی ماہ بعد ہی وہ پورے دس لاکھ واپس لے آئے اور ساتھ اپنے مسئلے کی وضاحت بھی کر دی۔
’’ایک زمین کا سودا ہؤا تھا۔ بیعانہ پانچ لاکھ دے دیا تھا،اب بقایا دس لاکھ مقررہ تاریخ پر نہ دیتا تو بیعانہ بھی ضبط ہو جاتا‘‘۔ پھر انہوں نے بتایا ’’میری زمین بکنے میں کچھ تاخیر ہو گئی تھی اس لیے آپ سے قرضہ لینا پڑا۔ اب بک گئی ہے اور آپ کی رقم شکریہ کے ساتھ واپس کرنے آیا ہوں‘‘۔
ام راشد نے دوسرا غیبی مدد کا واقعہ بھی سنایا:
ایک روز ان کے منجھلے بیٹے ناصر کا بچپن کا ایک دوست اپنی پریشانی کا حل تلاش کرنے آیا۔
وہ کہنے لگا: ’’ہمارا ٹینٹ سپلائی کا کاروبار ہے۔ زیادہ آرڈر آرمی سے آتے ہیں کچھ نا معلوم وجوہات کی بنا پر ہمارے آرڈر بند کر دیے گئے ہیں اس وجہ سے سخت پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔ آپ کے پاس آیا ہوں ہو سکتا ہے کوئی بہتری کی سبیل نکل آئے‘‘۔
ام راشد بتاتی ہیں کہ صرف چند روز پیشتر ہماری ایک ساتھی مسز اخلاص نے ایک کثیر رقم دی تھی کشمیر کے زلزلہ والے علاقوں میں ٹینٹ بھجوانے کے لیے اور یہ ابھی سوچ ہی رہی تھیں کہ کس سے رابطہ کرنا چاہیے؟
مشکل کشا حاجت روا رب نے مطلوبہ بندہ ان کے گھر بھیج دیا۔ اچانک پریشانی کا حل سنتے ہی وہ شخص بے حد شکر گزار ہؤا۔ ایک ماہ تک وہ کشمیر کی طرف ٹینٹ بھجواتا رہا۔
اس دوران ام راشد نے اپنے آرمی کے عزیز سے رابطہ کیا تو اس کے آرڈر بھی شروع ہو گئے۔
اس طرح کے بہت سے واقعات پیش آتے رہے ہیں اللہ پر بھروسہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
ہماری ماہانہ میٹنگ میں ام راشد اکثر یہ بات کہتی ہیں ’’جب گائوں کے کاموں کے لیے نکلیں تو اللہ کا ذکر کثر ت سے کرتے رہیں پھر دیکھیں اس کی مدد کتنی جلدی پہنچتی ہے‘‘۔
ایک دلچسپ ملاقات
بریڈ فورڈ شہر (انگلستان) میں کافی زیادہ پاکستانی رہتے ہیں۔ 1996ء اور 1997ء میں اسی شہر کے قریب اویس بیٹے کو اچھی نوکری ملی ہوئی تھی۔ مگر اس نے ابھی تک گھر نہ لیا تھا کیونکہ اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ صبح سے شام تک حلال روزی کمائے اور پھر گھر بھی سنبھالے۔ لہٰذا کچھ عرصہ تو وہ میری سہیلی شیرین حسین کے گھر ایک کمرے میں مہمان رہا، پھر بیٹے کے اصرار پر مجھے وہاں جانا پڑا۔ جو گھر اویس نے کرایہ پر لیا وہ اتفاق سے اسلامک سینٹر کی عمارت سے دس منٹ کے فاصلے پر تھا۔
اچھا موقع تھا وہاں کی خواتین کو قرآنی آیات اور اسماء الحسنیٰ کے روحانی اثرات بتانے کے لیے۔ یہ تو ربِ کریم کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ ہماری بتائی ہوئی بات میں مثبت اثرات پیدا کر دیتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس شہر میں میری کافی دوستیاں ہو گئیں۔ گلاسکو شہر کی دیندار خواتین سے تو میری پرانی دوستی ہے۔ ڈاکٹر ذکا ء اسی شہر کے باہر دفن ہیں۔ جب بھی برطانیہ جانا ہوتا ہے۔ ان کی آخری آرام گاہ پر دعاکے لیے ضرور جاتی ہوں۔
گلاسکو میں اسلامک مشن کی سربراہ بہن مسرت شبیر سے کافی دوستی ہے۔ بلکہ اب تو وہ پورے برطانیہ کی ناظمہ ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے کہا کہ جب بھی بریڈ فورڈ جانا ہو بہن نسیم طارق سے ضرور ملاقات کریں وہ شہر سے باہر رہتی ہیں۔ میں نے انشاء اللہ تعالیٰ کہا۔
کچھ ہی عرصہ بعد بہن نسیم طارق سے ملاقات کا پروگرام بن گیا۔ وہ بریڈ فورڈ کے پاس ایک چھوٹے شہر کیتھلے کے قریب ایک بہت بڑے فارم ہائوس میں اپنے کنبہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ باغوں میں گھرا ہؤا۔ نہایت خوبصورت گھر ہے۔ قرب و جوار میں پہاڑیاں اور انواع و اقسام کے درخت پودے قدرت کا بہترین شاہکار ہیں۔ نسیم طارق کو اللہ نورالسموات والارض نے چند سال پہلے شعوری ایمان کی دولت عطا کی۔ وہ حکومت کے سکول میں معلمہ کے فرائض انجام دیتی ہیں اور باقی وقت اللہ کی راہ میں صرف کرتی ہیں۔
میرے ساتھ بریڈ فورڈ سے آپا کشور محمود اور ان کی بیٹی فوزیہ بھی ملاقات کی غرض سے آئی تھیں۔ نسیم طارق کی حویلی رائیڈنگ گیٹ (Ryding gate) پہنچے تو عصر کا وقت تھا، نماز ہم گھر سے ادا کرنے کے بعد روانہ ہوئے تھے اور مغرب کی نماز گھر واپس آکر پڑھنی تھی۔ اگست کا مہینہ تھا جب دن کافی لمبے ہوتے ہیں اس لیے ہمارا اندازہ تھا کہ بات چیت کے لیے بہت وقت ہو گا۔
نہایت دلچسپ گفتگو شروع ہو گئی۔ میں نے نسیم بہن سے اور پھر انہوں نے مجھ سے زندگی میں اس تبدیلی کے محرکات دریافت کیے… چائے کے دوران جب ہماری میزبان نے چائے نہیں پی تو معلوم ہؤا کہ وہ بے شعوری کی زندگی کے قضا روزے رکھتی ہیں جب بھی موقع ملے…
ہمارے ایک سوال پر کہ وہ یوکے اسلامک مشن میں کیسے شامل ہوئیں مسز نسیم طارق نے جلدی جلدی اپنے ماضی قریب کے تجربات بیان کرنا شروع کر دیے۔ جب سے ان کے دل میں روشنی کی کرن نے جنم لیا تھا، علم حقیقی سیکھنے اور دین کی آگاہی حاصل کرنے کے راستے کھلتے چلے گئے تھے اور وہ اس منزل کی طرف اکیلے ہی سفر کرنے میں مشغول ہو گئیں۔
اسی دوران اُن کی ایک عراقی خاتون سے دوستی ہو گئی۔ اس سے قرآن پاک کی اصلاح ہوئی۔ عربی سیکھی تو ترجمہ سمجھنا آسان ہو گیا۔ ساتھ ہی ساتھ دوسروں کو بتانے کے مواقع بھی نکلتے آئے۔انھوں نے بتایا وہ گورنمنٹ اسکول میں معلمہ ہیں۔ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر جو بچیاں مقصد حیات سمجھنا چاہتی ہیں ، انھیں دین کی ضروری باتیں نہایت ہمدردی و محبت سے بتاتی ہیں۔
پچھلے سال ان کے شہر میں ’’یوکے اسلامک مشن‘‘ کی خواتین نے ’’اسلام کے بنیادی اصول‘‘ پر ایک اجتماع کیا جو انھیں بہت پسند آیا۔ اسی روز ممبر بننے کا شوق ظاہر کیا۔ بہت سی خواتین سے دوستی ہو گئی اور اب ان کو دعوت دین کے کام میںمزید لطف آنے لگا، یوں کہ صلاح مشوروں کے لیے نئی ساتھی مل گئی تھیں۔
ہماری باتیں تو ابھی نامکمل ہی تھیں، مگر وقت ختم ہو گیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم لوگ مدتوں سے ایک دوسرے کو جانتی ہیں۔ سچ ہے کہ جو راہِ حق کے متلاشی ہوتے ہیں، اُن سب کی داستان ایک سی ہوتی ہے۔
اچھی محفل میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ گھڑی پر نظر پڑی تو سورج غروب ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ ہم نے اجازت لینا چاہی۔ ہماری میزبان نے وعدہ لیا کہ آئندہ سال گرمیوں میں ان کے ہاں پورے دن کا پروگرام رکھیں گے۔اللہ کے فضل سے یہ وعدہ کافی سالوں سے پورا ہو رہا ہے۔
راہِ حق کا سفر
1982ء میں لاہور شہر کی تعلیم یافتہ دیندار خواتین نے ایک تنظیم بنائی جس کا نام پاک انجمن خواتین اسلام تھا۔ مقصد دین اسلام کی نشرواشاعت اور عوام الناس میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔ بیگم نجمہ جہانگیر خان، بیگم نجم منور علی، آپا نثار فاطمہ اور بیگم مظہر الٰہی اس کی عہدیدار تھیں۔ اب یہ سب خواتین اگلے جہاں کو رخصت ہو چکی ہیں جبکہ تنظیم کے ممبران میں محترمہ خورشید نیازی، ڈاکٹر طاہرہ صدیق، نسرین غلام قادر، مسز تحسین قاضی اور میرے جیسی چند اور خواتین بھی شامل تھیں۔
ان دنوں میرا زیادہ وقت گھر میں گزرتا تھا عصر کے بعد سورہ محمد اور سورہ فتح پڑھا کرتی تھی۔
1983ء میں پاک انجمن نے بین الاقوامی خواتین کانفرنس کا اسلام آباد میں بندوبست کیا۔ صدر ضیاء الحق کا دور تھا ہر قسم کے انتظامات نہایت عمدہ تھے۔ مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ رات اسلام آباد ہی میں گزارنی تھی۔ آپا نعیمہ اور محترمہ خورشید نیازی کے ساتھ اسی موقع پر خوب دوستی ہو گئی۔
پاک انجمن نے لڑکیوں کا ہائی اسکول شروع کیا اور کچی آبادی میں ڈسپنسری بھی جو ابھی تک کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔
میری دلچسپی دیہات میں کام کرنے میں تھی اس لیے ہم تینوںخواتین نے کوٹ جہانگیر خان میں میڈیکل کیمپ لگانا شروع کر دیا۔
ان دنوں فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی میری سہیلیاں پروفیسر یا ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدہ پر تھیں ان سے کبھی نہ کبھی ملاقات رہتی تھی۔ ڈاکٹر سعدیٰ مقصود اور ڈاکٹر ماہ لقا رانا نے شوق ظاہر کیا۔ ’’کیوں نہ کچھ قرآن کی تعلیم حاصل کی جائے ۔ اکثر ساڑھے دس سے گیارہ بجے تک لیکچرز کا وقفہ ہوتا ہے۔ ثمین تم آجایا کرو‘‘۔ یہ ڈاکٹر سعدیٰ کے الفاظ تھے۔
تھوڑا سوچ کر جواب دیا۔ ’’اگرچہ میں عالمہ تو نہیں ہوں مگر جتنا سیکھا ہے اس قدر بتانا میری خوش نصیبی ہو گی‘‘۔
اس طرح ہفتہ میں ایک دن کمیونٹی میڈیسن کے ایک کمرہ میں بیس منٹ کا سبق پڑھتے اور پندرہ منٹ باہمی بات چیت اور چائے ہوتی۔ سب کو یہ محفل بہت پسند تھی جو بھی ڈاکٹرز اس وقت فرصت پاتیں شامل ہو جاتی تھیں۔ نگہت، (ڈاکٹر ساجدہ عبداللہ کی بھانجی) بھی بہت شوق سے باتیں سنتیں۔
میرے لیے بھی فائدہ مند تھا گھر میں توجہ سے تیاری کرتی اور وہاں اچھی محفل میں پرانی سہیلیوں سے ملاقات بھی ہو جاتی۔
بس شیطان کو یہ اچھا پروگرام پسند نہ آیا۔ کوئی عجیب سا فتنہ کھڑا ہؤا اور یہ سلسلہ بند ہو گیا۔
1984ء میں ایک پرانی سہیلی ڈاکٹر خالدہ جاوید کا فون آیا۔ ’’میرے ہاں فاطمہ جناح کی ڈاکٹرز کالنچ ہے تم ضرور شامل ہونا‘‘۔ میرا جواب تھا ’’لنچ سے پہلے دس منٹ ایک قرآنی آیت اور دعا پروگرام میں رکھو گے تو آئوں گی‘‘۔
اس نے جواب دیا ’’ہاں ضرور بلکہ تم نے ہی بتانا ہے‘‘۔ ہمیشہ میرے دل میں یہ بات کھٹکتی تھی اگر کسی جگہ اکٹھے ہوں میڈیکل کی باتیں سوشل باتیں ہوں مگر دین کی کوئی بات بھی نہ ہو۔
مجھے آج تک یاد ہے … سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 152پڑھی جس کا ترجمہ ہے ’’پس یاد کرو تم مجھ کو میں تم کو یاد رکھوں گا۔ اور میری نعمت کی شکر گزاری کرو اور میری ناسپاسی مت کرو‘‘۔
اس لنچ گروپ کی ابتدا ڈاکٹر تسنیم عامر رضا نے کی کلاس فیلوز سے رابطہ رکھنے کے لیے زیادہ تر ان کی ہم جماعت یا ایک سال جونیئر اور ایک سال سینئر ڈاکٹرز ہیں۔
اسی گروپ سے ایسی ڈاکٹرز تیار ہوئیں جنھوں نے مریضوں کے لیے فری ٹائم دینا شروع کیا۔
1985ء میں برطانیہ اور امریکہ کی سیر
جب ہم پاکستان شفٹ ہو رہے تھے تو اویس اور عائشہ مجھ سے اکثر پوچھا کرتے تھے۔ ’’آپ ہمیں سکاٹ لینڈ پھر کبھی دکھائیں گی‘‘۔ تو ہمیشہ انھیں مثبت جواب دیتی تھی۔
چند سالوں میں دونوں یہاں کے سکولوں میں اچھے سیٹ ہو گئے بلکہ کلاس میں پوزیشن بھی لیتے تھے۔ اللہ کا کروڑبار شکر ہے کبھی ٹیوشن کی ضرورت نہ پڑی۔
1985ء میں گرمیوں کی چھٹیاں پاکستان سے باہر گزارنے کا پروگرام بنا۔ چھوٹا بھائی ڈاکٹر اظہر مجید ان دنوں اپنی فیملی کے ساتھ کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے پرزور اصرار پر پہلے امریکہ جانے کا پروگرام بنا۔ رمضان المبارک جولائی میں تھا روزے بھی ان کے ہاں رکھے۔ دونوں میاں بیوی نے بے حد خاطر مدارت کی سیریں کرائیں اور شاپنگ بھی اپنے پاس سے کرائی۔
اگست کا مہینہ برطانیہ میں گزارا۔ پہلے چند روز بھائی آصف کے پاس لندن رکے۔ اگلے دو ہفتہ کے لیے گاڑی کرایہ پر لی۔ میرے پاس برطانیہ کا گاڑی چلانے والا لائیسنس تھا اس لیے کوئی دقت نہ ہوئی۔ اویس بڑی سمجھداری کے ساتھ راستہ بتاتا تھا۔ اس نے ایف ایس سی کا امتحان دیا ہؤا تھا۔
سکاٹ لینڈ میں ہماری میزبان مسز فرخندہ ریاض مبارک تھیں ان دنوں ان کی بڑی بیٹی مسز روحی طارق بھی لاہور سے گلاسگو والدین کے پاس گرمیاں گزارنے آئی تھیں۔ دونوں نے مل کر بے اندازہ خاطر و مدارت کی۔بہت سی پرانی سہیلیوں نے دعوتیں کیں۔ ان میں مسز رشیدہ خورشید، مسز شمیم اعظم اور مسزا شرف اور ڈاکٹر نیلوفرخان پیش پیش تھیں۔
اتنی دلچسپ چھٹیاں گزارنے کے بعد تازہ دم ہو کر ہم تینوں پھر سے لاہور میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔اویس بیٹے نے لاہور یوای ٹی یونیورسٹی میں الیکٹرک انجینئرنگ میں داخلہ لیا تھا۔ اس سے وعدہ کیا تھا وہ اچھے نمبروں سے پاس کرے تو اس کو مزید تعلیم کے لیے باہر بھیجوں گی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے وعدہ پورا کرا دیا۔ اس نے نہایت اعلیٰ نمبروں سے بی- ایس- سی کا امتحان پاس کیا تھا۔ امریکہ میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے ایم ایس سی کر لی تو میگل یونیورسٹیمیں پی ایچ ڈی میں داخلہ ہو گیا۔
مانٹریال کینیڈا کا سفر
دسمبر1991ء اور جنوری1992ء میںچھ ہفتوں کے لیے اویس سے ملنے مانٹریال گئے اس شہر میں شدید سردی پڑتی ہے۔ برفانی ہوائیں چلتی ہیں۔ زیر زمین ایک پورا شہر آباد ہے جو کہ قابل دید ہے۔
کینیڈا سے واپسی پر چند روز لندن بھائی آصف کے پاس رکے۔ وہاں اسلامک مشن کے پروگراموں میںشامل ہونے کا موقع ملا۔
لندن میں سائوتھ ہال کے علاقہ میں ایک اجتماع میں سورہ الم نشرح کی تشریح بتانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ سب کو اچھا لگا مگر مسززاہدہ اشفاق تو اتنی متاثر ہوئیں کہ میرے ساتھ اکیلے پندرہ بیس منٹ اس موضوع پر گفتگو کرتی رہیں… ان سے دوستی پکی ہو گئی۔ پچھلے سالوں میں مسززاہدہ اشفاق اور ان کی نومسلم سہیلی صائمہ نے کونسلنگ کے کورنس لندن یونیورسٹی کے ایک شعبہ سے کیے ہیں اور اس طرح وہ ڈیپریشن میں مبتلا پریشان حال خواتین کی خدمت کر رہی ہیں۔
1991ء ماہ جولائی میں والد صاحب انتقال کر گئے۔ نہایت مخلص انسان تھے۔ اولاد کی تربیت میں بہت محنت کی اور پھر اگلی نسل کو بھی اچھی باتیں بتایا کرتے تھے۔ نانا جان کی صحبت میرے دونوں بچوں کو پسندتھی ۔خاص طور پر انھیں اپنی گاڑی میں گھر لے کر آتی تاکہ کچھ خدمت کا موقع ملے۔ اویس اور عائشہ کو علامہ اقبال کے اشعار زبانی یاد کراتے اور تشریح بیان کرتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں بلند درجات عطا کرے۔
1993ء کا سال اویس بیٹے نے لاہور میں گزارا۔ پنجاب کالج میں لیکچرر کی سروس مل گئی تھی مگر سال پورا کرتے ہی اسے لندن میں ایک جاب مل گئی۔ اس دوران عائشہ بیٹی کا میڈیکل میں داخلہ ہوچکا تھا وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گئی تھی۔
اسلامک مشن کی کانفرنس
جب بھی لندن جانا ہوتا یوکے اسلامک مشن کی خواتین کو ضرور اطلاع کرتی۔ 1995ء میں اویس نے اصرار کیا ’’میرے پاس آئیں میں دو کام نہیں کر سکتا نوکری اور گھر سنبھالنا میرے بس کی بات نہیں‘‘۔ اگر شادی کے لیے کہا تو جواب دیتا پہلے عائشہ کی کریں حالانکہ وہ اس سے ساڑھے تین سال چھوٹی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی گلاسگو کی ناظمہ محترمہ مسرت شبیر کو آمد کی اطلاع کر دی تھی۔ چند روز بعد اس کا فون آیا ’’بریڈ فورڈ میں سالانہ کانفرنس ہو رہی ہے۔ صدارت کے لیے جو خاتون پاکستان سے مدعو تھیں ان کا ویزہ نہیں ملا اس لیے آپ یہ کام سر انجام دیں‘‘۔
جواباً میں نے کچھ پس و پیش کی اتنے بڑے اجتماع میں جہاں اندازاً پانچ سو خواتین ہوں گی کبھی صدارت نہیں کی مگر ان لوگوں نے کوئی عذر نہیں سنا بلکہ یہ کہا گیا ’’توحید کے موضوع پر آپ انگلش میں تقریر کریں گی‘‘۔
ایک ہفتہ کے اندر سب تیاری کی۔ اکثر اتوار کا دن ہی رکھا جاتا ہے۔ ساتھ جانے کے لیے اویس بیٹے کو راضی کیا۔
اللہ کے فضل سے توحید کے موضوع پر بہت لیکچر سن رکھے تھے اور مطالعہ بھی کافی تھا اس لیے آدھا گھنٹہ بولنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہوئی سامعین نے بہت شوق اور غور سے سنا۔
بریڈ فورڈ میں حاجی اسماعیل (اس وقت ناظم تھے) اور ان کی بیگم عنایت بی بی کھلے دل سے چندہ دیتے تھے۔ ان کے اصرار پر ہم دونوں نے انھیں کی میزبانی کا لطف اٹھایا۔
اسی سال کے اگست میں لندن شہر کے ایک اجتماع میں مسز ریحانہ خان سے ملاقات ہوئی۔ سورہ فاتحہ کی تشریح انھیں بہت پسند آئی۔ وہ کئی سال شیفیلڈ میں گزار چکی تھیں اور حال ہی میں لندن شفٹ ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنی پاکستانی ساتھیوں سے مل کر شیفیلڈ میںپاکستان ہائوس بنایا تھا وہاں یومِ پاکستان منانے کے لیے ہمیں ساتھ لے جانا چاہتی تھیں۔ عائشہ بیٹی کا ہائوس جاب پورا ہو چکا تھا وہ بھی ہمارے پاس آ گئی تھی۔ مسز ریحانہ خان کے پروگرام میں ہم دونوں شامل ہوئے۔ وہاں نو مسلم خواتین سے بھی ملاقات ہوئی۔ مسزریحانہ خان سے دوستی آج تک قائم ہے بلکہ وہ ہمارے گائوں کے کاموں میںکافی مالی امداد فراہم کرتی ہیں۔
1996ء میں عائشہ کا نکاح ڈاکٹر خالد بشیر سے ہؤا۔ وہ جناب قاضی بشیر احمد اور ڈاکٹر رفعت بشیر کے صاحبزادے ہیں۔بہن کے نکاح میں شرکت کے لیے اویس عمرہ کرتے ہوئے لاہور آئے۔
اسی سال میری لاہور کی ایک نومسلم (سکھ سے مسلمان ہوئی تھیں) سہیلی نصرت کوٹیا کے ہاں ایک بڑی عمر کے عالم دین تشریف لائے اس نے مجھے بھی فون کیا ’’اگر کچھ پوچھنا ہے تو آجائو‘‘۔ میں نے عصر کی نماز کے بعد جانے کا پرورام بنایا اور ان سے یہ سوال پوچھا … ’’پاکستان جب سے بنا ہے کوئی نہ کوئی مصیبتیں آجاتی ہیں کیا پڑھیں کہ یہ اسلامی فلاحی مملکت بن جائے؟‘‘
انھوں نے جواب دیا۔ فجر اور عصر کی نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے یہ دو دعائیں پڑھیں (ایک مرتبہ) قرآن و حدیث سے ہیں۔
۱- حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلِ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر۔
ترجمہ: ’’اللہ ہمارے لیے کافی ہے وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ کیا ہی اچھا آقا اور کیا ہی اچھا مددگار ہے‘‘۔
۲- حدیث کی دعا:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔
’’اے اللہ ہم تجھے اُن کے (سامنے) منہ در منہ کرتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں‘‘۔
اس وقت یاد آیا آپا جی بنت الاسلام نے 1988کے الیکشن سے پہلے یہ دونوں دعائیں چھوٹے کاغذوں پر لکھی ہوئی تمام شاگردوں کو دیں اور کہا اس کو بہت بانٹو تاکہ پاکستان کو اللہ آزمائشوں سے نکالے۔
٭…٭…٭
بہترین تحریر ، کتنے محنتی اور اپنے مقصد کی کامیابی کے لیے کام کرنے والے لوگ تھے