This Content Is Only For Subscribers
آج بلوچستان کے ‘نیلگ ‘ ڈیم کے زیریں راستوں سے پہلی دفعہ بہنے والے بارشی پانی کے ریلےاپنے ساتھ خوف ،دہشت اور مایوسی کے اس گند کو بھی بہا کر لے گئے جس نے پچھلے کئی سالوں سے مکران کے دشت کےاس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہؤا تھا۔
چار سال قبل جب ہمارے مشاورتی ادارے ’’رحمان حبیب کنسلٹنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کے انجینئرز سروے کے لیے اس علاقے کی طرف نکلنا چاہ رہے تھے تو پہاڑوں پر موجود بھائی لوگوں کی طرف سے انہیں اس علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ مقامی اکابرین کی منت سماجت کے بعدانہیں صرف دو گھنٹے میں اپنا کام مکمل کر کے وہاں سے نکلنے کو حکم دیا گیاتھا۔
یہ خبر ہمارے مین سٹریم میڈیا تک رسائی نہیں پا سکی کیونکہ ان کی ترجیح صرف سیاسی سرکس لگانا ہے۔نیلگ کے آس پاس کے علاقے کی سب سے بڑی نعمت پینے کےپانی تک بروقت رسائی ہے۔اس سے اگلی عیاشی ان کے جانوروں کے لیے پینے کا پانی میسر ہوجانا ہے اور مالک کی بہت مہربانی ہو تو اپنی ضرورت کا اناج کاشت کرنے کے لیے پانی مل جاتا ہے اور وہ بھی ہر سال نہیں۔اور اوپر سے بھائی لوگ آکر پہاڑوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔
خشک پہاڑوں اور پتھروں سے اٹے اس علاقے میں جولائی کے ان دنوں میں موسم بہارہوتا ہے جب آسمان پورا سال اس علاقے کی بے بسی دیکھنے کے بعد اپنے آنسو قابو نہیں کر پاتا اوراچانک قدرت کی آنکھ سے آنسو ؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ ندی نالے مالک کی مہربانی سے بپھر جاتے ہیں اوریہی پورے سال میں وہ ایک یا دو دن ہوتے ہیں جب اس علاقے کی زمینوں کو پانی جیسی عیاشی نصیب ہوتی ہے۔
ان حالات میں محکمہ آب پاشی بلوچستان کے سر پھرے انجینئرز نے جب اس علاقے میں ڈیم بنانے کا منصوبہ پیش کیا تو یہ اسے سائٹ تک رسائی کی مشکلات اور علاقے میں سیکیورٹی کی صورت حال کے پیش ِ نظر ایک ناممکن حد تک مشکل منصوبہ سمجھا گیا۔تاہم پراجیکٹ ڈائیریکٹر عمران درانی کی قیادت میں’’ ‘100ڈیم منصوبہ‘‘کی پوری ٹیم ڈٹ گئی۔
ہمارےمشاورتی ادارے کےڈیزائن انجینئرز نے جب لاہور سے مکران کے اس دور دراز علاقے میں جاکر سروے اور ڈیزائن کا کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے ایک پاگل پن قرار دیا گیا۔تاہم عمران درانی اور ان کے نائب ابراہیم مینگل اور صفی اللہ صاحب ہمارے ادارے کے انجینئرز کی گاڑیاں خود ڈرائیو کر کے اس علاقے میں لے گئے اور کہا کہ پہلی گولی ہم اپنے سینے پر کھائیں گے۔یہ وہ خاموش ہیرو ہیں جنہیں’’ ‘فیلنگ پراؤڈ‘‘ جیسے سطحی سٹیٹس لگانے کا خیال نہیں ہوتا – یہ خاموشی اور لگن سے اپنا کام کئے جاتے ہیں۔بنا کسی لائک یا کمنٹ کے۔
سروے اور ڈیزائن کا کام مکمل ہونے کے بعد کہا گیا کہ اتنے مشکل علاقے میں کوئی ٹھیکیدار کام کر نے نہیں آئے گا۔نہ توسائٹ تک رسائی کے راستے میسر ہیں اور نہ ہی دور دور تک سیمنٹ سریے کے ملنے کا امکان ہے – کہتے ہیں جب نیت کام کرنے کی ہو تو اللہ کی ذات سبب بنا ہی دیتی ہے۔ اچھا کنٹریکٹر بھی مل گیا اور اس نے یہ ڈیم وقت پر مکمل بھی کردیا۔ پچھلے تین سال کے عرصے کے دوران ہمارے انجینئرز متعدد دفعہ تعمیر کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے حل کے لیے سائٹ پر جاتے رہے۔ بھائی لوگوں کو بھی انسانی ضرورت کے تحت پانی کی ضرورت تھی سو انہوں نے بھی اپنی ایک آنکھ بند کرلی۔
مقامی لوگوں کے دریائے نیلگ پر صدیوں سے قائم پانی کے حقوق اور مقامی نظام کو جب ڈیم اور نہری نظام کے ڈیزائن کا حصہ بنایا گیا تو ہر قبیلے نے بڑھ چڑھ کر اس منصوبے کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا۔
اور جب آج آسمان نے انگڑائی لی اور اپنا دکھڑا رو رو کر بیان کیا تو سب ندی نالے اس قیمتی پانی کا ایک ایک قطرہ اور ایک ایک بوند سنبھال کر ’’نیلگ‘‘ڈیم کی جھیل میں لے آئے۔صدیوں سے خشک کھڑے پہاڑوں کو پانی کا قرب جنت میں ستر حوروں کی قربت سے بھی زیادہ مدہوش کر گیا۔پانی کی بہتات کی وجہ سے ڈیم کے زیریں دروازے کھولنے پڑے جن سے نکلنے والے پانی کا شور ایک ڈیم انجینئر کے لیے لیبر روم سے آنے والے نومولودکی آواز سے بھی زیادہ پرلطف اور جاں آفرین تھا۔
نیلگ ڈیم بن چکا ہے اور پانی سے بھر چکا ہے۔ اس جھیل میں ذخیرہ ہونے والا پانی پرامن مستقبل کے لامحدود امکانات کو بھی اپنے ساتھ ذخیرہ کئے ہوئے ہے۔اس جھیل پر اب مرغابیاں اتریں گی۔ کشتی رانی ہو گی۔اس کے پانیوں سے زرعی زمینیں اناج اگائیں گی –مالک کی مخلوق کی پیاس بجھے گی۔ نہ جانے کتنے بچے بھائی لوگ بننے سے بچ جائیں گے۔اور یہ ساری کامیابی ایک کارتوس چلائے بغیر حاصل ہوئی ہے۔
فیض دشتی اپنے دوستوں کے ساتھ اگلے سال جھیل پرمچھلی کے شکار کا پروگرام بنائے بیٹھا ہے۔اس کا دوست امتیاز بھی چاندنی رات میں جھیل کنارے کیمپنگ کرنے کا پروگرام بنارہاہے۔بھائی لوگ بھی پہاڑوں سے اتر اتر کر پانی میں ہاتھ پاؤں دھو دھو کر خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔
لیکن……سائٹ کیمپ میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ کیمپ اکھاڑا جا رہا ہے۔ سائٹ انجینئرز اپنے بیگ تیار کرکےباہر رکھ رہے ہیں۔ –آج سے چار سال قبل وہ جب یہاں پہلی دفعہ پہنچے تھے تو یہ علاقی کتنا بنجر ویران اور خاموش تھا۔ لگتا تھا فرشتے اس علاقے کو بنانے کے بعد اسے بھول گئے تھے –کتنی مشکل سے پہاڑوں کو کاٹ کر تعمیراتی سامان کو لانے کے لیے رستے بنائے گئے تھے۔کیسے میلوں دور سے پینے کا پانی بھر کر لایا جاتا تھا۔کبھی کبھار رات کو بھائی لوگ پہاڑوں سے راکٹ فائر کرکے تھوڑا بہت شغل میلہ کرتے تو زندگی کا احساس ہوتا۔
ڈیم بن چکا ہےاور اس کی جھیل بھر چکی ہے۔ جھیل کا بھرنا جہاں ایک ڈیم انجینئر کے لیے ایک تمغہ حسن کارکردگی ہوتا ہے وہیں یہ وچھوڑے کا اعلان بھی ہوتا ہے۔کسی بھی ڈیم کی جھیل بھرتے ہی سب سے پہلے ڈیم انجینئر کو کہتی ہے کہ تم ابھی تک یہاں کیا کر رہے ہو –۔ تمہارا کام تو مکمل ہوا۔ لوگوں کو اب اس جھیل پر شغل میلہ کرنے دو۔ جاؤ جا کر کسی اور ویرانے میں نیا ڈیم بنانے کی جگہ تلاش کرو۔تب وہ اس جمع شدہ کم ظرف اور خود غرض پانی پر ایک الوادعی نظر ڈالتا ہے اور اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑتا ہے۔ وہ بے چارہ تو ’’فیلنگ سیٹ اسفائڈ‘‘کا سٹیٹس بھی نہیں لگا سکتا کیونکہ اس علاقے میں نہ تو بجلی ہوتی ہے اور نہ ہی موبائل سگنل۔
عمران درانی صاحب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ان کی جگہ ایک اور مستعد پراجیکٹ ڈائریکٹرشعیب ترین صاحب سنبھال چکے ہیں۔ ہماری ٹیمیں آج بھی ’’سو ڈیم پراجیکٹ‘‘ کے انجینئرز کے ساتھ بلوچستان میں مالک کی دھرتی کے بھلائے گئے حصوں تک پہنچنے میں مصروف ہیں۔آج کا دن ان سب ہیروز کے لیے پاکستان میں ‘’’ایمیزون‘‘ آنے کی خوشی سے بھی زیادہ بڑی خوشی کا دن ہے کیونکہ مالک کی مہربانی سے آسمان بڑے عرصے بعد ایک دفعہ پھر کھل کر برسا ہے اور ابھی تازہ تازہ مکمل ہونے والے پانچ سے زیادہ ڈیموں میں پانی بھر گیا ہے۔
تربت کا ’’سوراپ ڈیم‘‘بھر گیا ہے۔خاران کا’’بناپ ڈیم‘‘ کی جھیل بھر چکی ہے۔قلعہ عبداللہ میں ’’کڈنی ڈیم‘‘ بھر چکا ہے اور ایک مقامی اچکزئی دوست نے اس جھیل میں سے مچھلیاں بھی شکار کرلی ہیں جس کا فوٹو بنا کےاس نے ہمیں پہنچایا ہے۔ یہ فوٹو ہماری پوری ٹیم اور محکمہ آب پاشی بلوچستان کے قابل قدر انجینئرز کے لیے تمغہ حسن کارکردگی سے بڑھ کر ہے۔ہزاروں لاکھوں لائکس اور کمنٹس سے بھاری ہے۔کوہلو کے ڈیم بھی پانی سے پر ہیں۔
مالک نے اتنا کرم کیا ہے مکمل ہونے کے پہلے سال ہی ڈیموں کے سپل وے چل پڑے ہیں حالانکہ آج سے پانچ سال پہلے اس منصوبے کا پی سی ون منظور کرتے ہوئے اسلام آباد کے پلاننگ کمیشن کی ٹھنڈی مشینوں کے سامنے بیٹھے بابو ناک بھوں چڑھا رہے تھے کہ اوّل تو
یہ ڈیم بلوچستان میں زمین پر بنیں گے ہی نہیں اور اگر بن بھی گئے تو ان میں کئی سالوں تک پانی نہیں بھرے گا، یونہی ملک اور قوم کا پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ محکمہ آب پاشی کی صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھائے گئے مگر آج ان ڈیموں کے سپل وے سے بہتا پانی اپنے ساتھ ان سارے شکوک وشبہات کو بھی بہا کر لے گیا ہے۔سپل وے چلنے کا مطلب ہے کہ بارش کا پانی ڈیم کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے بڑھ کر ہے اور یہ پہلے سال ہی ممکن ہو گیا ہے، الحمدللہ۔
مجھے پتہ ہے کی یہ پوسٹ چند لوگوں تک پہنچ پائے گی۔ ٹویٹر پر یہ خبر ٹاپ ٹرینڈ نہیں بن سکے گی۔مین میڈیا کے پرائم ٹائم کے کسی ٹاک شومیں جگہ نہیں بنا پائے گی۔کو ئی قومی سطح کا لیڈر اس پر پریس کانفرنس نہیں کرے گا۔سپل سے نکلتے پانیوں پر کوئی ٹک ٹاک ویڈیو نہیں بنائے گا۔
اس ویک اینڈ پر جب سار لاہور ’’ایمپوریم‘‘ میں عید کی شاپنگ کر رہا ہوگا تو لاہور سے گئے ہماری ٹیم کے یہ لوگ محکمہ آب پاشی کے شیر جوانوں کے ساتھ بلوچستان کی دھرتی کے بھلائے گئے کچھ اور ویرانوں میں ڈیم بنانے کے لیے ’’سو ڈیم پراجیکٹ‘‘ کے اگلے مرحلے پر کوئٹہ میں سر جوڑے بیٹھے ہوں گے – ۔
اس پراجیکٹ میں شامل سارے لوگ وہ ہیں جن پر’کرم‘کر دیا گیاہے۔مالک نے چن چن کر انہیں اپنی مخلوق کی پیاس بجھانے کے کام سے روزی کمانے پر لگا دیا ہے –کتنے خوش نصیب ہیں یہ سب۔ کتنے کرم کی روزی کمانے والے ہیں۔
٭ ٭ ٭