5اور 6 جون،2024 کی درمیانی شب تقریبا ً بارہ بجے میری بھانجی ڈاکٹر آمنہ آفتاب کی کال نے چونکا دیا۔ اگرچہ میں ابھی تک جاگ ہی رہی تھی ،پھر بھی بے وقت کال دیکھ کر بے اختیار منہ سے نکلا ’’یا اللہ ! خیر‘‘۔دوسری طرف سے آمنہ نے پہلے خیریت پوچھی اور پھر تحمل سے گویا ہوئیں ’’خالہ! لاہور سے ایک خبر آئی ہے….صائمہ باجی کے میاں نسیم ظفر بھائی کا انتقال ہو گیا ہے‘‘۔
خبر بہت اچانک اور غیر متوقع تھی۔ ہمیں بیماری کا بھی پتہ نہیں تھا۔’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ میرے منہ سے یہی الفاظ ادا ہوئے۔ اور پھرچند ضروری تفصیلات کے تبادلے کے بعد ہم نے کال کا سلسلہ منقطع کردیا۔اس کے بعد لاہور جانے اور لاہور سے واپسی تک ،بلکہ اب بائیس روز گزر جانے کے بعد بھی مختلف اوقات میں ماضی کے واقعات بسا اوقات ایک فلم کی طرح ذہن کے پردوں پر گردش کرتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹرصائمہ شاہد (قلمی نام صائمہ اسماء)میرے عزیز اور محترم بھائی ڈاکٹر مقبول احمد شاہد اور بھابی ( باجی ثریا اسماء) کی اکلوتی بیٹی ،مجھ سے دس بارہ سال چھوٹی ہیں۔تین بڑے بھائیوں کی اکلوتی، چھوٹی اور لاڈلی بہن ۔یوں تو صائمہ تینوں بھائیوں سے چھوٹی ہیں لیکن سب بھائی بچپن ہی سے انہیں ’’بجیا ‘‘کہہ کر بلاتے ہیں۔
ہماری خالہ ڈاکٹر فیروزہ یاسمین مرحومہ کہا کرتی تھیں،میں اگر اپنے خاندان میں دور دور تک نظر دوڑاؤں تو مجھے مقبول فیملی سب سے زیادہ آسودہ اور خوش نظر آتی ہے، ماشاءاللہ ! جسے happy family کہا جا سکتا ہے۔چند روز پہلے جہانیاں آپا ظہورہ سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بھی بے ساختہ یہی بات کہی۔ ’’سکھی تھے ماشاءاللہ ! مقبول اور ان کے گھر والے۔اب جو دکھ دکھایا ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ بہت بڑا دکھ ہے‘‘۔
واقعی بھائی جان کے گھرانے پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم رہا ہے اور اس میں یقینا ً اللہ تعالیٰ کی عنایت کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے طرزِ زندگی کا بھی عمل دخل ہوگا کہ انہوں نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا استعمال اللہ ہی کی مرضی کے مطابق کیا۔ والدِ محترم (چوہدری نذیر احمد مرحوم)کی خواہش اور ان کے خوابوں کے مطابق عملا ً تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارتے رہے۔دین اور دنیا دونوں میدانوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نظریات کے مطابق دینی و دنیوی زندگی کو یکجا کرکے دکھایا۔
جب (1962 میں )بھائی جان اور باجی کو اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹے سے نوازا تو میں تو بہت چھوٹی تھی لیکن اپیہ (باجی شاکرہ ) نے مجھے یہ بات بتائی کہ اس وقت بھائی جان سوئٹزر لینڈ میں تھے ،انہوں نے وہاں سے باجی (ثریا اسماء )کو خط لکھا جس کےآخر میں علامہ اقبال کا یہ شعر درج کیا۔
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
اس کے بعد لکھا ،رومی آ چکا ہے (ماشاءاللہ) رازی اور غزالی ابھی آئیں گے(ان شاء اللہ)۔ لہٰذا بڑے بیٹے کانام تو ابوبکر رکھاگیا لیکن عُرف’’ رومی‘‘ پڑ گیا جو ابھی تک عُرفِ عام ہے۔شاید قبولیت کی گھڑی تھی یا بھائی جان کی کسی ’’آہِ سحر‘‘کانتیجہ کہ اللہ تعالیٰ نے بھائی جان کے خوابوں کے مطابق انہیں دو اور بیٹوں سے نوازا۔فاروق شاہد (رازی) اور خبیب شاہد( غزالی) اور پھر اتنا تو مجھے بھی یاد ہےکہ جب ننھی صائمہ اس دنیا میں تشریف لائیں اور انہوں نے اپنی پیاری پیاری توتلی زبان میں بولنا شروع کیا توا نہیں غزالی کہنا نہیں آتا تھا چنانچہ غزالی صاحب’’جولی‘‘ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمارے بھتیجوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کیے۔دو بیٹے ڈاکٹر اور ایک انجنئیر کی حیثیت سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔اچھی تربیت پائی۔ ہمارے بھائی جان کی طرح سب نے اپنے اپنے میدانِ عمل میں محنت ، خلوص،دیانت داری اور جانفشانی سے کام کیا۔ دنیا میں بھی نام پیدا کیا۔ دین داری میں بھی اعلیٰ درجے پر رہے اور اس آیت کا مصداق بنے رہے۔
وَابْتَغِ فِیمَا آتٰکَ اللّہُ الدَّارَ الآخِرَۃَ وَلاَ تَنْسَ نَصِیبَکَ مِنَ الدُّنْیَا۔
(اور جو(مال) تمہیں اللہ نےعطاکیا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کرو اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھولو۔28:77)
گویا تمام دنیوی نعمتوں کا استعمال اللہ ہی کے بتائے ہوئے طریقےسےکیا جائےتاکہ ان ہی کے ذریعے آخرت کمائی جا سکے۔
والدِ محترم کے حوالے سے بھی دو باتیں یاد آرہی ہیں۔ان کا بھی سرِ دست تذکرہ ہو جائے۔ایک تو یہ کہ ہمارے ابا جان انڈوں کا حلوہ بہت شوق سے کھاتے تھے۔ بھائی جان مقبول کے بچوں نے اس ڈش کا نام ہی ’’داداوالا انڈۂ‘‘ رکھا ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ ایک مرتبہ اباجان ملتان سے لاہور گئے ہوئے تھے ۔ بھائی جان انہیں اپنے ساتھ مری ،ایوبیہ وغیرہ لے گئے۔ انہوں نے پہلی بار(بلکہ شاید زندگی میں ایک ہی بار)چئیر لفٹ کی سیر کی۔ واپس ملتان جا کر انہوں نے امی جان کے سامنے بڑے واضح الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچا۔ (اظہارِ بیان پر انہیں قدرت حاصل تھی) بولے : ’’بس جی! وہ ایک کرسی سی ہوتی ہے جو پیچھے سے آتی ہے اور بندے کو اٹھا کر لےجاتی ہے ‘‘۔
صائمہ کی شادی تینوں بھائیوں سے پہلے ہی بہت چھوٹی عمر میں ہو گئی جب انہوں نے ابھی بی اے کیا تھا ۔شادی کے بعد بھی علمی وتحریکی مصروفیات جاری رہیں۔شاعری اور نثر نگاری میں کمال مہارت رکھتی ہیں۔ اور اب تو صحافت میں ایم اے اورپی ایچ ڈی بھی کر چکی ہیں۔ بھائی جان ایک مرتبہ اسلام آباد آئے تو مجھے صائمہ کی شاعری کی کتاب ’’گلِ دوپہر‘‘ دی جو اُنہی دنوں شائع ہوئی تھی ۔ اور ساتھ ہی کہنے لگے ’’صائمہ کی شاعری بہت گہری ہوتی ہے‘‘۔واقعی بھائی جان کی بات سو فیصد صحیح ہے۔ مجھے ان کی کتاب میں جو نظم سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہی ہے جس کا عنوان ہے ’پورچو لاکا‘ ( گلِ دوپہر)’’ماہنامہ‘‘چمنِ بتول‘‘کے پھولوں کو نکھارنے میں بھی صائمہ کا کردار بے مثال ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین شریک حیات سے نوازا۔عزیزم نسیم ظفر صاحب ( جنہیں مرحوم لکھنے پر ابھی قلم آمادہ نہیں ہو رہا) ماشاء اللہ بہترین اخلاق اور اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔صائمہ کے ساتھ ان کی رفاقت کے 36 سالوں کی بے شمار یادیں صائمہ کے لیے سرمایہ حیات بنی رہیں گی۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائیں اور ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں۔نسیم ظفر صاحب کے آنگن کے چھوٹے بڑے پھول’’ نسیم سحر ‘‘کی مہک سے ہمیشہ معطر رہیں۔صائمہ اب ماشاءاللہ تین ننھے منے بچوں کی دادی بن چکی ہیں لیکن ہماری نظرمیں وہی ’’چھوٹی سی بجیا ‘‘ ہیں ۔اللہ تعالیٰ انہیں آزمائش کی اس گھڑی میں صبرِ جمیل عطا فرمائیں،آمین۔
1975 میں جب ہماری اکلوتی اور پیاری ممانی جان (جو نہایت عظیم خاتون تھیں) کا کار کے حادثے میں انتقال ہوا تو میری ہوش میں یہ خاندان کے لیے پہلا عظیم صدمہ تھا۔ امی جان بھی کافی عرصہ پریشان اور اداس رہتیں اور اکثر رونے لگتیں۔ اُس وقت ابا جان نے اُنہیں دلاسا دیا اور ہمیں بھی سمجھایا کہ یہ زندگی کا نظام ہے۔ ہم سب بھی ایک سفر میں ہیں اور اُسی منزل کی طرف جا رہے ہیں جہاں وہ ہم سے پہلے چلی گئی ہیں۔ لہٰذا ایسے حالات میں ہمیں جلد از جلد نارمل زندگی کی طرف پلٹنے کی کوشش کرنا چاہیے۔اس کے ایک سال بعد ہی اباجان بھی ہم سے جدا ہو کر سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے۔ تب ان کی سمجھائی ہوئی باتوں نے ہمیں صبر کا دامن تھامنے میں بہت سہارا دیا۔اور اب تو زندگی کا اتنا طویل سفر طے کرنے کے بعد زندگی اور موت کا فلسفہ اچھی طرح سمجھ میں آ چکا ہے۔ بقولِ اقبال :
موت کو سمجھا ہے غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
آخر میں صائمہ کے بچوں کے بچپن کا ایک واقعہ درج کر رہی ہوں جو کئی سال پہلے باجی کی زبانی میں نے سنا تھا۔ یہ سب لوگ کسی شادی میں گئے ہوئے تھے۔ رات کا وقت تھا۔تقریب ختم ہوئی تو وہاں موجودملازموں نے لان میں کرسیاں اوپر نیچے رکھنا شروع کردیں۔ صائمہ کے شریر بچے ان کرسیوں پر چڑھ کر کھیلنے لگے ۔تھوڑی دیر بعد معلوم ہواکہ چھوٹے غازی صاحب غائب ہیں ۔ کچھ تلاش کے بعد دیکھا تو غازی میاں سب سےاوپر والی کرسی پر خاصی بلندی پر تشریف فرما تھے۔ صائمہ نے انہیں آوازیں دے کر نیچے بلایا توصائمہ کی خالہ جان نے دلچسپ الفاظ میں تبصرہ کیا:
’’صائمہ! جب بچوں کے نام ایسے رکھو گی….حمزہ ،سیاف،غازی ….تو پھر وہ یہی کچھ کریں گے‘‘۔ پھر کچھ عرصہ بعد ان بچوں میں ایک اوربیٹے، اشھب کا اضافہ ہو گیا۔یہی شریر بچے اب ماشا ءاللہ اتنے سمجھ دار ہو چکے ہیں کہ صائمہ کی زبانی حمزہ کی بات سن کر میں اور آپا شکورہ بہت حیران ہوئے۔ صائمہ نے بتایا کہ نسیم صاحب کے انتقال سے چند گھنٹے پہلے جب انہیں آئی سی یو میں لے جایا گیا تو میں نے حمزہ سےپوچھا :’’تم نے کبھی تصور کیا ہے ابو کے بغیر رہنے کا….؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں کہ گھر کیسے چلانا ہے‘‘تو اس نے کمال حوصلے اور اعتماد کے ساتھ جواب دیا :’’آپ کا کیاخیال ہے اس سے پہلے ابوچلا رہے تھے؟‘‘اس چھوٹے سے جملے میں جو بڑا جواب تھا،جوگہرائی تھی،تربیت کے جو اثرات تھے۔۔۔ انہیں میں اور آپا شکورہ دونوں ہی محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے۔واقعی اللہ سے بڑھ کر کون کارسازہے!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان چاروں بچوں کو بھی اپنے والد کی خوبیوں کو اپنانے کی توفیق دیں اور والدہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والد چوہدری نذیر احمد صاحب (مرحوم)کی تمام اولاد اور ان کی آئندہ نسلوں کو صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائیں اور جنت میں اسلافِ صالحین سے ملادیں ، آمین۔
٭ ٭ ٭