/حمیرا بنت فریدپرائے اپنے - حمیرا بنت فرید

پرائے اپنے – حمیرا بنت فرید

سرسبز،اونچے اونچے پہاڑوں سےگھری، رنگ برنگے پھولوں سے لدی وادی میں اپنی سہیلیوں کے سنگ جھولا جھولتے اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ آسمان کو چھو لے گی کہ اچانک جھولا بہت تیز ہو گیا۔
’’روکو، روکو میں گر جاؤں گی، بہت زور کی چوٹ لگ جائے گی‘‘، آ ٹھ سالہ عندلیب خواب میں روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔
’’ہوش میں آؤ عندلیب، اٹھو جلدی، ہمیں یہاں سے فوراً نکلنا ہے‘‘۔
شبیر کی آواز پر اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں۔ ہر طرف شور وغل تھا۔ ہر شےجیسے ہل رہی تھی۔ گھر، دیواریں، آس پاس کے درخت کسی مدہوش نشئ کی طرح جھومتے اور گرتے چلے جا رہے تھے۔
’’یہ سب کیا ہو رہا ہے بابا‘‘ عندلیب نے خوف سے پھیلی آ نکھوں سے شبیر کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
جواب دینے کی مہلت کہاں تھی، ایک لمحہ ضائع کئے بغیر شبیر اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے دروازے کی طرف تیزی سے مڑا اور بھاگتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ صرف دو منٹ بعد ہی دھماکے کی آواز کے ساتھ گھر زمین بوس ہو چکا تھا۔
شبیر عندلیب کا ہاتھ پکڑے ایک انجانی منزل کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا۔ بیوی اور بیٹوں کو گھر سے نکال کر بھاگنے کی تلقین کرتے ہوئے وہ عندلیب کی طرف بڑھا تھا،اس بات سے انجان کے وہ کن راہوں کے مسافر تھےوہ زندہ بھی تھے یا….اس کے آگے وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا ۔ زمین اب بھی وقفے وقفے سے ہچکولے لے رہی تھی۔ خوبصورت ودلکش وادی اس وقت ملبے کا ڈھیر بنی تھی ۔ قیامت کا منظر تھا۔ خوف و ہیبت سے عندلیب کی زبان گنگ تھی۔وہ اپنے بابا کے ساتھ بس دوڑتی ہی چلی جا رہی تھی ۔ اس کا حلق خشک اور ٹانگیں شل ہو چکی تھیں ۔ وہ چند لمحے سانس لینے کے لیے رکی۔ شبیر اس سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ یکایک زور کی گھڑگھڑاہٹ ہوئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے بپھری ہوئی زمین اپنے اوپر لدا بوجھ اتارکر پھینک دینا چاہتی ہو۔ ایک دو منزلہ بظاہر مضبوط عمارت اسی غیظ وغضب کا نشانہ بنتی ہوئی پل بھر میں کسی کھلونے کی مانند ٹوٹ کر بکھرتی چلی گئی۔ شبیر بھی اسی منظر میں کہیں گم ہو چکا تھا۔
’’بابا‘‘، عندلیب کے حلق سے ایک دلخراش چیخ نکلی اور وہ ہوش وحواس سے بیگانہ ہو گئی۔
٭
ہوش آنے پرعندلیب نے خود کو ایک ہال نما کمرے میں پایا۔ اس کو اپنے گرد ہر سو اداس آنکھیں جن میں خوف کے لہراتے سائے اور ویران چہرے نظر آئے۔ عندلیب کے سر پر پٹی بندھی تھی اور ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، ایک ہاتھ بھی پٹیوں میں جکڑا ہؤا تھا۔ بابا اور گھر یاد آیا تو وہ بے اختیار سسکنے لگی۔ اس کو جاگتا دیکھ کر سفید یونیفارم میں ملبوس ایک نرس اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’کیا نام ہے بیٹا تمھارا‘‘، اس نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تو ہمدردی سے بولے گئے الفاظ نے جیسے ضبط کے تمام بندھن توڑ ڈالے ۔ نرس نے دلاسے دے کر بمشکل اسے چپ کرایا ۔
’’بیٹا اپنے بارے میں بتاو،تمھارے والد کا کیا نام ہے؟ تمھارا گھر کس علاقے میں ہے؟‘‘
’’عندلیب شبیر‘‘ کے نام سے اس کا اندراج کر دیا گیا۔ اس کے گھر والوں کا کچھ بھی نہ پتہ چل سکا۔ جلد ہی شبیر کے انتقال کی تصدیق ہو جانے کے بعد اسے لاوارث قرار دے دیا گیا۔ قدرت کے کھیل نرالے۔ عندلیب کو دوسرے شہرمیں ایک بےاولاد جوڑے کی خواہش پر ان کے حوالے کر دیا گیا۔ گم صم معصوم، گڑیا جیسی بچی نے جلد ہی سرفراز اور شمع کے دل میں جگہ بنا لی۔ اولاد کے لیے ترسے ہوئے اس جوڑے نے اپنی تمام محبت اور شفقت اس پر نچھاور کر کے اسے دوبارہ زندگی کی طرف لوٹا دیا۔ نئے رشتے اور نئے ماحول میں اس نے بھی جلد ہی خود کو ڈھال لیا ۔ شمع اور سرفراز نے اسے کبھی والدین کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ اس کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دی ۔ اسے زندگی میں ہر چیز میسر تھی لیکن پھر بھی کبھی ایک انجانی سی اداسی اس کے وجود کو گھیر لیتی۔ سوتے سوتے گھبرا کر اٹھ بیٹھتی۔ ذہن میں ماں، باپ اور بھائیوں کی دھندلی سی شبیہ اس کو بے کل کیے دیتی۔ اس کو اداس اور غمگین دیکھ کر شمع اور سرفراز فوراً ہی اس کی دلجوئی میں لگ جاتے اور وہ پھرسے ان کے سنگ زندگی کی رونقوں کی طرف مائل ہو جاتی۔ ماہ وسال یونہی گزرتے گئے اور عندلیب نے ان کی محبت بھری چھاؤں میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ زندگی نے اسے وہ کچھ دیا جو شاید اس کے اپنے والدین بھی نہ دے پاتے لیکن اتنا سب حاصل ہونے کے باوجود دل میں ایک کسک تھی جو کسی طرح نہ مٹتی تھی۔
٭
’’سرفراز! عندلیب کا یونیورسٹی میں آخری سال ہے۔ مجھے یہ خیال بار بار ستاتا ہے ،کہیں اس کے لیے آنے والے رشتے حقیقت جان کر ہماری بچی کو مسترد نہ کر دیں‘‘، شمع واقعی بہت پریشان تھیں ۔
’’دیکھو جب اللّہ تعالیٰ نے اس انجان بچی کی اسقدر محبت ہمارے دل میں ڈال دی توان شاءاللہ ان لوگوں کے دل میں بھی ڈال دے گا جہاں اس کا نصیب لکھا ہے‘‘، سرفراز کے تسلی دلوانے پر ان کو کچھ ڈھارس مل جاتی۔
٭
اریب کے والدین نے جب عندلیب کا رشتہ دیا تو شمع نے دھڑکتے دل سے عندلیب کی ماضی کی کہانی ان کے گوش گزار کی۔
’’دیکھیں بہن ، بچی اپنے بچپن میں ویسے ہی ایک سانحہ سے گزر چکی۔ آپ لوگوں نے اسے اپنائیت دے کراس کی تعلیم و تربیت کی۔ اب آگے کی ذمہ داری ہمیں اٹھانے دیں، اللّہ نے چاہا تو آپ کواور عندلیب کو کوئی شکایت کا موقع نہیں ملے گا‘‘۔
اریب کی والدہ نے شمع کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر یقین دلایا تو انھیں محسوس ہؤا جیسے ان کے سر پر سے منوں مٹی بوجھ ہٹ گیا ہو۔
پردے کے پیچھے کھڑی عندلیب بھی نظریں جھکائے مسکرا دی۔
٭
تعلیم مکمل ہوتے ہی اریب کو عندلیب کا ہمسفر بنا دیا گیا ۔ اریب پڑھا لکھا سلجھا ہؤا انسان تھا۔ عندلیب اس کے سنگ مطمئن اور مسرور تھی۔
’’کتنا حسن ہے یہاں‘‘، سیر وتفریح کی غرض سے پہاڑی علاقے کی تازہ ہوا اپنے اندر سموتے ہوئے عندلیب نےگہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
چاروں طرف ہریالی، اونچے اونچے درخت، بلند وبالا پہاڑ جو برف کی دبیز چادر اوڑھے نظر آرہے تھے، ٹھنڈا شفاف پانی کا بہتا ہؤا چشمہ!
’’ سبحان اللہ، اللّہ کی قدرت ہے سب‘‘، اریب بھی محظوظ ہو رہا تھا۔
سب کچھ کتنا اچھا لگ رہا تھا لیکن عندلیب کے دل میں ایک نامعلوم سی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ ماضی کی دفن یادوں نےذہن کے کسی کونے سے پھر سراٹھایا تھا۔ اس کا اپنا گھر، اپنا علاقہ بھی تو اتنا ہی خوبصورت تھا۔
دل میں برسوں دبی خواہش آج عندلیب کو بے چین کر گئی۔ وہ اپنے کھوئے ہوئے رشتوں کو ڈھونڈنا چاہتی تھی۔ وہ اس گھنی چھاؤں کی ٹھنڈک کو پھر سے محسوس کرنا چاہتی تھی جس نے برسوں پہلے اپنے سایہ سے محروم کر کے اسے تپتی دھوپ میں لاکھڑا کیا تھا۔ وہ دبی چنگاری آج اچانک بھڑک اٹھی تھی۔ اس نے اپنے حال دل سے اریب کو مطلع کرتے ہوئے ملتجی نگاہوں سے اس کو دیکھا ۔ اریب بھی اپنی نئی نویلی دلہن کی خواہش کو رد نہ کر سکا اورعندلیب کے کھوئے ہوئے رشتوں کو ڈھونڈنے میں اس کا ساتھ دینے کے لیے اس کے سنگ ہو لیا۔
اپنی سرزمین پر قدم رکھتے ہی عندلیب جیسے ماضی میں کھو سی گئی۔ آج اس کو سب شدت سے یاد آ نے لگے تھے۔ اپنا گھر، خاندان، محلہ، سہیلیاں….لیکن اس کی یاداشت میں جو کچھ تھا، وہ تو سب کہیں کھو چکا تھا۔ سب کچھ بدل چکا تھا۔ جدید عمارتیں اور نئے طرز کے مکان۔ وہ شناسائی کی امید پر آتے جاتے چہروں کو بغور دیکھتی جا رہی تھی۔ لوگوں سے پوچھتے، معلوم کرتے شام کے سائے گہرے ہونے لگے، اریب بھی اب تھکن سے چور تھا لیکن عندلیب کہاں ہار ماننے والی تھی۔ ایک آس دل میں بسائے وہ آگے ہی آگے بڑھتی ہی چلی گئی۔
بورڈ پر ایک نام پڑھتے ہی ذہن میں ایک بجلی سی کوندی۔
’’اریب دیکھو یہی ہے علاقہ، ہم آخر کامیاب ہو ہی گئے‘‘، عندلیب کے چہرے پر دمک اور آواز میں لرزش تھی۔
سامنے ایک دکان پر نظر پڑتے ہی اس کے قدم ڈگمگائے، اریب نے سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ یقیناً گر پڑتی۔
’’چاچا فضل الدین! ‘‘بوڑھے دکاندار کو پہنچاتے ہوئے وہ اس طرف لپکی۔
’’آ پ فضلو چاچا ہیں نا‘‘ لہجے میں بیتابی،لبوں میں کپکپاہٹ، نگاہوں میں امید کے دئیے ٹمٹما رہے تھے۔
’’جی بیٹا، پرآ پ ؟‘‘،چاچا فضل نے عینک درست کرتے ہوئے اسے پہنچاننے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا‘‘۔
’’چاچا میں عندلیب، شبیر صاحب کی بیٹی ۔ ہم اسی محلے میں رہتے تھے۔15 سال پہلے جب زلزلہ آ یا تو میں اپنے گھر والوں سے بچھڑ گئی اور دوسرے شہر پہنچا دی گئی۔ آپ کو میرے گھر والوں کا کچھ پتہ ہے‘‘،عندلیب نے بیتابی سے پوچھا۔ اس کا انگ انگ سوالیہ تھا۔
’’شبیر کی بیٹی؟‘‘ چاچا فضل نے دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا۔’’اوہ اچھا ہاں ہاں شبیراحمد، وہ اور اس کی بیوی تو ہلاک ہو گئے تھے اور بچے لاپتہ ۔ تو تم شبیر کی بیٹی ہو۔ شکر خدا کا تم زندہ وسلامت ہو۔ تمھارا تایا ہاں البتہ قریب ہی رہتا ہے‘‘۔
’’کہاں، آ پ مجھے وہاں لے چلیں پلیز‘‘،خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات سے کپکپاتی آواز میں عندلیب نے منت کی۔
’’آ آ اچھا آؤ میرے ساتھ ‘‘ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد انھوں نےاس ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔
ایک حویلی نما گھر کے گیٹ کے آ گے رک کر فضلو چاچا نے اطلاعی گھنٹی بجائی۔ایک ملازم نے دروازہ کھول کر ان کو اندر بٹھایا۔
’’آپ لوگ بیٹھیں میں ذرا اندر اطلاع کر آؤں ’’، فضلو چاچا کہتے ہوئے اندر چلے گئے ۔
عندلیب بےچینی سے باہر انتظار کرنے لگی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جا کر تایا جان سے ملے اور وہ اپنا دست شفقت اس کے سر پر رکھیں ۔اپنے وطن میں ان کے سوا اس کا اب بچا ہی کون تھا۔ دل کی کیفیت عجیب تھی۔ ایک طرف برسوں بعد کسی اپنے سے ملاقات کا اشتیاق و اضطراب، دوسری طرف دھڑکتا دل جو ماں باپ کی حقیقت جان کر پھوٹ پھوٹ کر رونے کو تیار تھا۔ اپنے آپ کو بڑی مشکل سے سنبھالے وہ باہر انتظار کرنے لگی۔
’’یہ ہمارے مہمان ہیں ، میں ان کی عزت کرتا ہوں۔ یہ لوگ جب تک چاہیں یہاں بخوشی رک سکتے ہیں پر آپ جانتے ہیں فضل دین کہ ہم اپنی روایات کے خلاف نہیں چل سکتے۔ خاندان سے ایک مرتبہ، چاہے کسی بنا پر بھی، باہر نکل جانے والی لڑکی اس خاندان کا حصہ دوبارہ کبھی نہیں بن سکتی‘‘۔
باہر سکتے کے عالم میں کھڑی عندلیب نے تایا کی رعب د ارآواز میں یہ الفاظ صاف سنے۔
’’ہم بہت مجبور ہیں، آپ یہ پیغام ان تک پہنچا دیں‘‘، آواز بھرائی ہوئی تھی۔
اس سے پہلے کہ ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ کر بکھرتے، اریب کا ہاتھ تھامے، عندلیب فضلو چاچا کے لائے پیغام کو سننے سے پہلے ہی حویلی سے باہر نکلنے کے لیے قدم بڑھا چکی تھی۔وہ کبھی نہ لوٹنے کے لیے یہاں سے دور، بہت دور چلے جانا چاہتی تھی ۔٭

 

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here