ڈاکٹر بشریٰ تسنیمنیکی قبول ہونے کا معیار - ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

نیکی قبول ہونے کا معیار – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

بندوں کے ساتھ خیر خواہی سب سے بڑی نیکی ہے اور یہ نیکی ایک دوسرے پہ فرض ہے ۔ ایمان لانے کے بعد حقوق العباد کی ادائی ہی آخرت میں انسان کی نجات کا باعث ہو گی ۔
یہ ایک عجیب امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے ہی دراصل اللہ تعالیٰ نے عبادات فرض کی ہیں کیونکہ روحانی طور پہ مضبوط انسان ہی حقوق العباد کا مشکل پرچہ حل کر سکتا ہے ۔
دنیا میں انبیاء انسانوں کی خیر خواہی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ، اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اپنی بارگاہ میں برگزیدہ فرمایا پھر یہ مشن سونپا اور اکثر انبیاء کرام علیھم السلام کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی نگہبانی کے ذریعے ایسی جانفشانی صبر و تحمل کی صفت پیدا کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت سے اس ذمہ داری کو کما حقہ نبھانے میں کامیاب قرار پائے اگرچہ انسانوں کی قلیل تعداد ہی انبیاء کرام علیھم السلام کی ہم راہی کا شرف حاصل کر سکی۔
سیدنا نوح علیہ السلام کی زندگی کے نو سو پچاس سال انسانوں کو خیر وبرکت کے راستے کی طرف بلانے پہ لگے ۔ مگر اتنی قلیل تعداد نے ان کی دعوت پہ لبیک کہا کہ جو ایک کشتی میں سوار ہو سکیں ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات کاملہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں گزری چند افراد کے سوا کسی نے ان کی دعوت قبول نہ کی ۔
اسی طرح قوم ثمود اور عاد نے اللہ تعالیٰ کے پیغامبر کی بات مان کر نہ دی ۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم ایک گستاخ ، ضدی اور نافرمان قوم تھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی کی توہین کی اور تاریخ عالم بتاتی ہے کہ کچھ قوموں نے انبیاء کو قتل کر دیا اور دنیا کے سب سے مکرم انسانوں کو بندوں نے جادوگر، دیوانہ اور جھوٹا کہا ۔
انسانوں کے اس رویہ سے انبیاء کرام مایوس نہیں ہوئے برائی کے بدلے میں اچھائی کا مظاہرہ کیا ۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو مہلت دی ہر نبی نے آخری وقت تک اپنا فرض ادا کیا ۔
خاتم النبیین سیدنا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مشن ابھی بھی جاری و ساری ہے ۔
خوش بخت ہیں وہ لوگ جو انبیاء کے مشن کا پرچم تھامے ہوئے ہیں ۔
اس مشن میں کامیاب ہونے کے اصول و قواعد نہیں بدلے گئے کیونکہ پیغام میں بھی کوئی ردوبدل نہیں ہؤا، انسانیت کی خیر خواہی کی لگن ویسی ہی ہے تو جواباً اسی طرح کا منفی ردعمل بھی موجود ہے ۔ وہی پیغام پہنچانا جن کو مطلوب و مقصود ہے تو قبول کرنے والے بھی اتنے ہی محدود ہیں ۔
کبھی شعب ابی طالب کی گھاٹی امتحان گاہ بنتی ہے تو کبھی تنہا طائف کی وادی میں بندوں کی خیر خواہی کے بدلے پتھر کھانے کی آزمائش اجاتی ہے ۔
غرض جو اللہ کے بندوں کی جس قدر خیر خواہی چاہتا ہے نالائق انسان منفی رد عمل دکھا کر حلم و برداشت کا امتحان لیتے ہیں ۔ اور خود بڑے دن کی مصیبتوں کا خوف نہیں کھاتے۔
یہ کٹھن سفر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے ہوتا ہوا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک جا پہنچتا ہے ۔ ائمہ کرام حنبل، شافعی و ابو حنیفہ رحمھم اللہ اجمعین کی استقامت کی کڑی سید احمد شہید ، سید قطب، امام حسن البنا اور سید مودودی رحمھم اللہ سے جا ملتی ہے ۔ اور ہم اس خطے کے بارے میں جانتے ہیں جہاں کے لوگ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حقیقی معنوں میں قیامت تک جہاد کرتے رہیں گے وہ شیخ یاسین سے ہوتے ہوئے اسماعیل ہنیہ تک ہمارے سامنے ہیں ۔
کیا ہم ان کی شہادتوں سے آنکھیں بند کر سکتے ہیں ؟ کیا ان کی اس عظیم الشان قربانیوں کا اعتراف کر رہے ہیں ؟ یا ہمارا ردعمل دیکھی ان دیکھی یا سنی ان سنی والا ہے۔ سوچنا تو بنتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم کس گروہ میں شامل ہیں ۔
ہم دنیا کے ہر خطے سے فرزندان توحید کی حق کے لیے جان دینے کی خبریں سن رہے ہیں۔ قاتل کہیں مشرک ہیں تو کہیں یہود ۔ یہ دونوں تو ہمارے مستند دشمن ہیں ان سے تو یہی توقع کی جا سکتی ہے ۔امت کے حقیقی خیر خواہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں اس جان لیوا صدمے سے دوچار ہیں کہ کلمہ گو ہی راستے کی دیوار بن رہے ہیں ۔ امت مسلمہ کے ایک مبارک خطے میں جو خون ریزی ہو رہی ہے اس پہ مسلمان حکمرانوں کی خاموشی انہیں مدینہ طیبہ کے منافقوں سے جا ملاتی ہے ۔
دنیا دو حصوں میں تقسیم ہونے کے قریب ہے جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے انسانوں کی فلاح چاہنے والے اور ان کی راہ میں رکاوٹ بننے والے چھانٹ کر الگ الگ کر دیے جائیں گے ۔ اور وہ دن بھی قریب ہی آ لگا ہے جب رب العالمین کی طرف سے ندا آئے گی:
’’اور اے مجرمو، آج تم چھَٹ کر الگ ہو جاوٴ‘‘۔( یسین)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ :
کیا یہ امتحان اس راہ کی کامیابی کا استعارہ ہیں؟
یقیناً ، ایسا ہی ہے ،ابتدائے آفرینش سے اللہ عزوجل کا یہی اصول ہے۔
جو شہادت حق کی جتنی اونچی مسند پہ ہوگا اس کو کندن بنانے کے لیے دنیا کے بندے ہی آگ کے الاؤ تیار کریں گے یہی ہمارے لیے پیمانہ ہے اپنے ایمان کو جانچنے کا ۔
جیسا کہ ہم نے جانا کہ حقوق العباد کی ادائی کا بلند ترین درجہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کوجہنم سے بچانا ہے ۔چونکہ یہ ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے تو اسی لحاظ سے مال، وقت ، صلاحیتوں کا امتحان بھی ہوگا ۔ اور بندوں کی طرف سے منفی ردعمل پہ اپنے ایمان کی جانچ پڑتال بھی ہوگی ۔ کیا ہم اس اعلیٰ معیار کی نیکی کا عزم کرکے ممکنہ منفی ردعمل پہ حسن اخلاق کے نبوی معیار پہ قائم رہ سکتے ہیں؟
ہم اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات کا ہی جائزہ لے لیتے ہیں ۔ اعزہ و اقربا کے ساتھ ادنیٰ معیار کی نیکی کرکے ہی ہمارے ایمان کا پیمانہ ڈگمگانے لگتا ہے ۔۔
جی ہاں! ہم نے خیر خواہی کر لینے کے ساتھ جواباً جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں وہ تو پوری ہی نہ ہوئیں ۔ صدمہ ہی نہیں جاتا کہ جس کے ساتھ ہم نے بھلائی کی اس نے قدر ہی نہ کی ۔ بار بار شکریہ ادا کیا نہ ہی تعریف کی ۔
دل میں خیر خواہی کا جذبہ کم ، چونکہ تعریف سننے کی تمنا فزوں تر تھی اسی لیے تو دل میں کدورت آئی ،نتیجتاً ایمانی کیفیت پہ غبارآنا ہی تھا۔
مثلاً ہم نے سوچا پورے خلوص نیت سے کہ بحیثیت بہو یا ساس کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بہتر طریقے سے نبھائیں گے حلم و برداشت سے کام لیں گے ۔ اللہ رب العزت کی طرف سے اس نیت کے خالص ہونے کا پیمانہ جانچا بھی تو جائے گا ۔ ہو سکتا ہے ساس نے جس نیک نیتی سے بہو کی پذیرائی کی ہو ممکن ہے بہو اس سے بالکل مختلف سوچ لے کر آئی ہو۔ ہر بھلائی کو وہ ڈرامہ سمجھے اور ہر خیر خواہی کی ناقدری کرے ۔اسی طرح ممکن ہے بہو ایک سلجھے ذہن کے ساتھ سسرال میں معاملات کو نبھانے کی کوشش کرے مگر ساس کی نظر میں سب مکر و فریب ہو ۔
اس صورت حال میں نیکی نیتی سے بھلائی کرنے والا تو چکرا کر ہی رہ جاتا ہے۔
ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ نیکی اور بھلائی میں نیت جتنی خالص ہوگی دو باتوں کا ظہور اسی لحاظ سے لازمی ہوگا۔
پہلی بات شیطان خالص نیت میں کھوٹ ملانے کی پوری کوشش کرے گا، وسوسے ڈالے گا ۔ نیکی کی نیت کو عمل میں ڈھالنے نہیں دے گا ۔ اگر ہم اس کی طرف سے پھینکے گئے کسی جال میں بھی نہ پھنسے اور نیکی کر ہی لی تو دوسرے فریق کے دل و دماغ میں کجی اور منفی ردعمل کا بیج ڈالے گا ۔ فریقین کے نفسانی جذبات کی کشمکش شروع ہو جائے گی اوریہیں سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نظر میں خود کو بہتر اور اچھا ثابت کرنے کا دور شروع ہو جاتا ہے ۔ جس فرد کو یاد رہتا ہے کہ :
’’(اللہ تعالیٰ نے) زندگی اور موت کو اس لیے ایجاد کیا کہ پرکھا جا سکے کہ (فریقین میں سے) کون زیادہ اچھے عمل کرتا ہے‘‘۔ ( الملک :2) تو اس کے دل میں بھلائی کرنے کی شمع روشن رہتی ہے ۔
جب نیکی کی ابتدا کرنے والا اپنی خالص نیت پہ استقامت دکھاتا اور عمل صالح کو ضائع ہونے سے بچانے کا تہیہ کر لیتا ہے اور وہ کلیہ یاد رکھتا ہے کہ:
’’برائی کو اس طریقہ سے دفع کرو جو بہترین ہو جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں‘‘ (المؤمنون : 96 )
تو وہ تزکیہ نفس کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے ۔اس کے بعد کندن بننے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ اسے اس بھلائی کے بدلے میں ناقدری کا عذاب سہنا پڑتا ہے ۔ کیا انبیاء کی حیات مبارکہ میں یہی کچھ نہیں ہے؟
ہم تو کسی کے ساتھ بھلائی کریں تو چاہتے ہیں کہ دوسرا ہمارا غلام ہی ہو جائے ۔
اگر نیکی کا معیار نیت کے خالص ہو نے سے ثابت ہوتا ہے تو خالص نیت پہ استقامت، بھلائی کے جواب میں ناقدری سہنے سے ملتی ہے اور یہی ایمان کا پیمانہ جانچنے کا ربانی طریقہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تو ضرور آزمانا ہے کہ مقبول نیکی کے مطلوبہ معیار تک پہنچتے ہو یا نہیں ۔
ث ’’اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھُوٹے کون‘‘ (العنکبوت: 3)
اور سچ اور جھوٹ کا فوری فیصلہ انسان کے اس رد عمل سے سامنے آجاتا ہے جب اس کی نیکی کا بدلہ اس کی خواہش نفس کے عین مطابق نہیں ملتا ۔
جب آپ کی نیت خالص ہو اور بندوں کے ساتھ خیر خواہی میں ہر ممکن کوشش کی جا چکی ہو اور جوابا سوائے بد گمانی، بد زبانی ، بد سلوکی اور ناقدری کے کچھ حاصل نہ ہورہا ہو ، پھر بھی آپ اللہ عزوجل کی رضا کا احساس زندہ رکھیں گے تو یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نیکی کو معیاری نیکی کا اعزاز بخش دیا ہوگا ۔ جس نیکی کا لوگ مذاق اڑائیں جس کے جواب میں برائی سے پیش آئیں حسد اور ناقدری کریں وہی نیکی قبولیت کا درجہ پاتی ہے اور نیکی کرنے والا جب اخلاقی طور پہ کندن بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسی عظیم الشان قدر کرتا ہے کہ آخرت کی سرخ روئی سے پہلے دنیا میں بھی اس کا نام روشن کر دیتا ہے ۔
کیا ہم بھول گئے کہ انبیاء کرام علیھم السلام کی سب سے زیادہ ناقدری کی گئ اور انہوں نے بندوں سے خیر خواہی کا مشن نہ چھوڑا اور جوابا برائی کا معاملہ کبھی نہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رضا کا اعزاز عطا فرمایا اور ابدی و سرمدی کامیابی سے ہمکنار کیا۔
اگر ہم روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں نیکی اور ایمان کا معیار بر قرار نہیں رکھ سکتے تو انبیاء کرام علیھم السلام کے مشن کو لے کر اٹھنے کے دعوے دار کیسے ہو سکتے ہیں ؟
انبیاء کرام کے کامیاب مشن کی مثالیں دیکھنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں شب و روز ہمیں شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے ان شہیدوں کا لہو جن کی جاں فشانی اور قربانی کا کوئی قدرداں نہیں اور وہ اپنے رب پہ توکل کا مینارہ نور ہیں ۔ وہ خوشی اور سرور سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ:
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے
٭٭٭