’’تبریز! میں کہتی ہوں کہ رُکو!‘‘امی جان نے تیکھے لہجےمیں گیٹ کی طرف بھاگتےہوئے تبریز میاں کوپکارا۔
’’نہیں نہاؤں گا،نہیں نہاؤں گا!!!‘‘تبریز میاں نےزورسے کہااورگیٹ پار کرکےیہ جاوہ جا۔امی جان پیچھےسےپکارتی رہ گئیں اورتبریزمیاں میدان کی طرف بھاگ گئے۔
دراصل تبریز میاں کئی دن سے نہائے نہیں تھے۔ سردیوں کے دن تھے،اور سردی میں نہانے سے تو اُنہیں بہت ڈر لگتا تھا۔امی جان جب بھی نہانےکو کہتیں تو وہ کوئی نہ کوئی بہانا بنادیتے،اگر بہانہ کام نہ آتا تو بھاگ جاتے، مگر جسم پر پانی بہانا گوارا نہ کرتے۔
’’چھی! کتنی گندی بدبو اُٹھ رہی ہے تمہارے جسم سے! ‘‘ہاشم نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔
’’اور تمہارے بالوں میں خشکی بھی بہت ہے۔ نہاتے نہیں ہو کیا؟ ‘‘عبداللہ نے کہا۔
تبریز میاں شرمندہ سے ہوگئے۔
وہ گھر سے بھاگ کرکھیل کے میدان میں آ گئے تھے، جہاں ان کے دوست کرکٹ کھیلنے کے بعد ایک جگہ بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔
’’نہیں، کون سردی میں نہائے!‘‘تبریز میاں نے یوں کپکپا کر کہا، جیسے ان پر ٹھنڈے پانی کی پوری بالٹی ڈال دی گئی ہو۔
’’اچھا۔ اتنے ڈرپوک ہو کہ پانی سے ڈرتے ہو۔ ہاہاہا! ‘‘شاہ میر ہنسنے لگا۔
’’کتنے دنوں سے نہیں نہائے تم؟ ‘‘ عبیر نے پوچھا۔
’’شاید……شایدایک ماہ سے! ‘‘تبریز میاں نےکچھ خجل ہوکر کہا۔
’’ارےےے! ایک ماہ سے!!!‘‘سب ہنسے۔ تبریز میاں شرمندگی سے ادھر اُدھر جھانکنےلگے۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے’’اللہ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ ہر سات دن میں ایک دن ضرور غسل کرے۔‘‘(بخاری شریف، حدیث نمبر 898.12) جبکہ تمہیں ایک مہینہ ہوگیا ہے نہائے ہوئے!‘‘ عاشر نے تبریز میاں کو جتایا۔
تبریز میاں چونکے۔
’’اچھا؟‘‘پھر جلدی سےبولے:”میں چلتاہوں ۔پھرملیں گے۔“انھوں نےقدم آگے بڑھا یا ۔
”کہاں جارہےہو؟۔“عبداللہ نےآوازدی ۔
”میں گھر جارہا ہوں،مجھے نہانا ہے نا!‘‘تبریز میاں نے پلٹ کرکہا اور گھر والے راستے کی طرف ہولیے۔وہ جلد از جلد گھر پہنچ کر نہانا چاہتے تھے۔
٭ ٭ ٭