بتول جولائی ۲۰۲۴نٹ کھٹ زندگی - بتول جولائی ۲۰۲۴

نٹ کھٹ زندگی – بتول جولائی ۲۰۲۴

’’شازمہ بازار جارہی تھی۔ ہانیہ بھی تیار ہوگئی اسے کچھ کتابیں خریدنی تھی۔ منال سے ساتھ چلنے کا پوچھا تو اس نے منع کردیا‘‘۔پھپھو میرا موڈ نہیں ہے ۔ ویسے بھی میں کون سا الگ پڑھتی ہوں۔ ہانیہ کے ساتھ ہی تو پڑھتی ہوں۔ اس کو پتہ ہے کون سی کتابیں لینی ہیں۔
’’چلو جیسے تمہاری مرضی، عماد حماد گھر پہ ہی ہیں۔ میں جلدی آنے کی کوشش کروں گی لیکن اگر دیر ہو جائے تو نوڈلز رکھے ہیں۔دونوں کو بنا کے دے دینا خود بھی کھالینا‘‘۔
’’پھپھو مجھے چکی بنانی ہے‘‘اسے باہر نکلتا دیکھ کے منال نے جلدی سے کہا۔
’’وہ کیا ہوتی ہے‘‘؟ شازمہ نے اسے ناسمجھی سے دیکھا۔
’’وہ جسے ’’پّت‘‘ بھی کہتے ہیں گڑ کی بنتی ہے‘‘۔
’’اچھا! تمہیں آتی ہے بنانی؟‘‘ شازمہ نے بیگ میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں کبھی بنائی تو نہیں مگر امی کو بناتے ہوئے دیکھا ہے اور ابھی نیٹ پہ دیکھ کے بھی ترکیب سیکھی ہے‘‘۔
’’گڑ تو کافی سارا رکھا ہؤا ہے۔ جب میں واپس آؤں گی تب بنالینا میں بھی تمہاری ہیلپ کرادوں گی‘‘۔ شازمہ اسے اکیلے کوئی تجربہ کرنے کی اجازت کیسے دیتی ابھی ہانیہ کا دودھ والا کارنامہ تازہ ہی تھا۔
’’ آجاؤ گیٹ بند کرلو‘‘۔
’’اچھا جی‘‘ منال شازمہ کے پیچھے چل پڑی۔
بازار میں کافی دیر لگ گئی۔ کتابیں لینے کے بعد ہانیہ نے اپنے اور منال کے لیے کچھ اسٹیشنری لی۔ پھر ہانیہ کو بھوک لگنے لگی۔ اس نے ہانیہ کو برگر کھلا کے منال کے لیے پیک کرا لیا۔ ابھی کوئی رکشہ دیکھ ہی رہے تھے کہ عماد کا فون آگیا۔
’’امی ہم لوگ اکیڈمی جا رہے ہیں۔ منال گھر پر اکیلی ہے آپ لوگ جلدی آجائیں‘‘۔
’’بس بیٹا واپسی کے لیے نکل ہی رہے ہیں تم چلے جاؤ ہم جلد ہی پہنچ جائیں گے‘‘۔
شازمہ گھر پہنچی تو مین گیٹ کھلا ہؤا تھا۔
’’کیا بات ہے بچوں کی۔ یا تو اتنی فکر کہ جانے سے پہلے فون کر کے بلایا یا اتنی بے فکری کہ دروازہ ہی کھلا چھوڑ گئے‘‘۔ شازمہ افسوس سے سر ہلاتی ہوئی اندر آئی۔ ہانیہ تو اپنے کمرے میں چلی گئی۔ شازمہ کو کچھ جلنے کی بو آئی تو وہ باورچی خانہ کی طرف آگئی۔ اندر کا منظر دیکھ کے حیران رہ گئی۔ منال اطمینان سے دونوں ہاتھ کمر پہ رکھے، چیونگم چباتے ہوئے ٹکٹکی باندھے چولہے کو تک رہی تھی۔ جہاں دیگچی میں رکھا ملغوبہ بری طرح جل چکا تھا اور کچن میں ہلکا ہلکا دھواں بھرنا شروع ہو گیا تھا۔
’’منال کیا کر رہی ہو؟‘‘ شازمہ نے آگے بڑھ کر چولہا بند کیا اور باورچی خانہ کی کھڑکی کھولی۔
’’پت پکا رہی ہوں پھپھو‘‘۔
’’پکا رہی ہو یا جلا رہی ہو‘‘ اس نے دیگچی اٹھا کر سنک میں رکھی اور نل کھول دیا۔
’’کیا مطلب یہ جل گئی؟‘‘ منال نے صدمہ سے پوچھا۔
’’تمہارا دھیان کدھر ہے تم کو نہیں پتہ چلا کہ جل رہی ہے‘‘۔
’’پھپھو نیٹ پر تو بتایا تھا کہ گڑ کو اتنا پکانا ہے کہ تار بن جائے‘‘۔
’’ہاں تو تار بنانے کا کہا تھا تار کول بنانے کا نہیں‘‘۔ شازمہ نے تاسف سے اسے دیکھا۔
’’ گُڑ کمر پہ ہاتھ رکھ کےنہیں پکتا مستقل چمچہ چلانا پڑتا ہے‘‘۔
’’میں پہلی دفعہ بنارہی تھی۔ مجھے پتاہی نہیں تھا۔‘‘ منال کے لہجے میں شرمندگی تھی۔
’’ جب ہی تو کہا تھا میرے آنے کے بعد بنالینا‘‘۔ شازمہ اسے خجالت سے نکالنے کے لیے مسکرادی۔
’’میں نے سوچا آپ کو سر پرائز دوں گی‘‘۔
’’خیر سرپرائز تو تم نے دے ہی دیا۔‘‘اس نے جلی ہوئی دیگچی کی طرف اشارہ کیا۔
’’سوری پھپھو! میں نے اتنا نقصان کر دیا۔ آئندہ میں کوئی تجربہ نہیں کروں گی۔‘‘ منال ہنوز شرمسار تھی۔
’’کیوں نہیں کروگی۔ انسان تجربات سے ہی سیکھتا ہے۔ شروع شروع کوئی کام کرو تو وہ عموماً خراب ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ ہی آتا ہے۔ تم دل چھوٹا نہیں کرو‘‘۔
’’پھپھو میں اور ہانیہ کتنی گڑبڑ کرتے ہیں مگر آپ ہمیں ڈانٹتی نہیں ہیں۔جب کہ کتنی دفعہ تو ہمیں خود بھی لگتا ہے کہ ہمیں ڈانٹ پڑنی چاہیے تھی‘‘۔
’’بیٹا ابھی تم لوگ چھوٹی ہو، سیکھنے کے عمل سے گزر رہی ہو۔ اگر ہرغلطی پر ڈانٹوں گی تو تم لوگوں کا دل کچھ بھی نیا سیکھنے سے اچاٹ ہو جائے گا۔ ہاں جب سب کچھ سیکھ کر پرفیکٹ ہوجاؤگی پھر جان بوجھ کر غلطیاں کروگی تب خوب ڈانٹوں گی‘‘۔ شازمہ نے منال کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔ ’’جاؤ ہانیہ کے پاس جاکر دیکھو وہ کیا کیا لائی ہے۔ تمہارے لیے بر گر بھی ہے جاکے کھالو‘‘۔
’’جی پھپھو!‘‘ منال ہانیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
شازمہ مسکراتے ہوئے دیگچی دھونے لگی۔ شازمہ نے خود جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو بہت دقتوں کا سامنا کیا تھا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ جو اس نے جھیلا وہ اس کی بہوئیں بھی جھیلیں۔ تب ہی وہ ان پہ کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتی تھی۔ البتہ بچیاں خود ہی اپنے شوق میں کچھ کرنا چاہتیں تو کام بگڑ جاتا پر وہ نظر انداز کردیتی۔ اسے معلوم تھا کہ جب لڑکی نئے گھر میں قدم رکھتی ہے تو نا تجربہ کار ہوتی ہے۔ گھر کے بڑوں کو اسے وقت دینا چاہیے۔ ان کی غلطیوں کا مقابلہ اپنی تجربہ کاری سے کرنا نری بے وقوفی ہوتی ہے۔ بار بار غلطی کی نشاندہی کی جائے تو لڑکیوں کے دل مرجھا جاتے ہیں اور شازمہ کو اپنی بچیاں زندہ دل کھلی کھلی ہی چاہیے تھی مرجھائی ہوئی نہیں۔
امتحانات کاکچھ بتا نہیں چل رہاتھا کہ کب ہوئی گے اور یہ بھی پتا نہیں چل رہا تھا کہ امتحان ہونے بھی ہیں یا اس سال بھی بغیر امتحان کے آگے بڑھا دیا جائے گا۔ منال تو جب پڑھنے بیٹھتی یہ ہی دعائیں مانگتی کہ ایگزیم کینسل ہوجائیں۔ اور ہانیہ اس کے اٹھے ہوئے دعا والے ہاتھوں میں اپنا منہ گھسا کے بولتی ’’نہیں! اللہ تعالیٰ آپ اس کی بات نہیں مانے گا۔ پلیز ایگزیم کینسل نہیں کرائے گا۔ مجھے بورڈ کے ایگزیم دینے ہیں مزہ آئے گا‘‘۔عجیب لڑکی تھی جسے امتحان میں مزہ آتا تھا۔
شازمہ ہنستی ان کی حرکتوں پہ’’تم اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگا کرو نا اس کی دعا میں اپنی دعا کیوںملاتی ہو؟‘‘
’’خالص دعائیں جلدی قبول ہوتی ہیں۔ اس لیے میں اس کی دعا میں ملاوٹ کر دیتی ہوں‘‘۔ ہانیہ کی منطق نرالی تھی۔ شازمہ سر دھنتی۔ ’’امتحان ہوں یا نا ہوں کچھ پڑھ لو مسخریو‘‘ دونوں کھی کھی کرتی رہتیں دو چار منٹ میں ہی پڑھائی کو لپیٹ کے رکھ دیا جاتا اور گپیں شروع ہوجاتیں۔ منال کو پڑھنے کا شوق نہیں تھا اور ہانیہ کو ضرورت نہیں تھی۔
اللہ اللہ کر کے امتحان کی تاریخ آہی گئی۔ ہانیہ دل لگا کے اور منال دل چرا کے پڑھائی میں جت گئی۔ امتحان دینے کے لیے شازمہ نے دونوں کو کراچی بھیج دیا کیونکہ ان کا سینٹر کراچی میں ہی پڑا تھا۔ مہینہ بھر بعد واپس آئیں تو سب نے شکر ادا کیا۔ ان کے پیچھے گھر میں سناٹا ہوگیا تھا۔ شازمہ نے ان کی پسند کے کھانے تیار کیے۔ حماد عماد کو سونے کے لاکٹ بھی دلا کے لائی اپنی اپنی بیویوں کو سر پرائز دینے کے لیے۔ دونوں نے منہ دکھائی میں بھی کچھ نہیں دیا تھا لاک ڈاؤن کی وجہ سے۔ دوسرے دن منال اور ہانیہ نے شازمہ کو اپنے لاکٹ دکھائے دونوں بہت خوش تھیں۔ شازمہ نے ڈھیر ساری دعائیں دیں اور ان کے ہنستے چہروں کی نظر اتاری۔
دونوں کو رزلٹ کا بے صبری سے انتظار تھا آخر کار رزلٹ آہی گیا۔ منال بی گریڈ سے پاس ہوئی تھی اور پورے گھر میں خوشی سے چیختی پھر رہی تھی کہ وہ پاس ہوگئی جبکہ ہانیہ کے ستانوے فی صد نمبرتھے پھر بھی شازمہ کو وہ کچھ رنجیدہ لگی۔
’’اتنا اچھا رزلٹ آیا ہے پھر بھی خوش نہیں ہو کیا ہوگیا؟‘‘
’’سنیعہ کی نائٹی ایٹ پرسٹیج آئی ہے۔‘‘ ہانیہ نے اپنی خالہ کی بیٹی کا نام لیا۔دونوں ایک ہی کلاس میں تھیں۔
’’تو کیا ہؤا بیٹا! دنیا میں سب اپنے اپنے حصہ کی خوشیاں سمیٹتے ہیں۔ کسی کی کامیابی پر اداس ہونا یا جلنا بری بات ہے‘‘۔ شازمہ نے آرام سے سمجھایا۔
’’نہیں مجھے اس کے زیادہ نمبر سے جلن نہیں ہے میری بلا سے وہ پورے ہنڈریڈ پرسنٹ لے آتی‘‘۔
’’پھر کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’وہ مجھے چڑائے گی‘‘ہانیہ منہ لٹکا کے بولی۔
’’ارے وہ کوئی چھوٹی بچی ہے جو چڑائے گی۔ میٹرک پاس میچور لڑکی ہے ایسی بچکانہ حرکت کیوں کرے گی؟‘‘ شازمہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’کیونکہ وہ کلاس میں سیکنڈ آتی تھی اور میں ہمیشہ فرسٹ آتی تھی۔ میں اس کو ہر دفعہ چڑاتی تھی‘‘۔
اوہ! شازمہ کیسے بھول گئی تھی کہ اس کو میٹرک پاس میچور لڑکی نہیں بلکہ چھوٹی بچی ہی ملی تھی۔
’’ایسا کرنا حماد نے جو تم کو گولڈ کا لاکٹ دیا تھا، تم وہ دکھا کے سنیعہ کو چِڑا دینا‘‘۔ شازمہ نے شرارت میں بچکانہ مشورہ دیا۔
’’وہ تو میں اس کو کب کا چِڑا چکی‘‘۔ ہانیہ نے گویا اپنا کارنامہ بیان کیا۔ شازمہ کی ہنسی نکل گئی ’’اوہ خدایا! لڑکی تم اس کو اتنا چڑا چکی ہو تو تھوڑا چڑانا سنیعہ کا بھی حق بنتا ہے تم تھوڑا چِڑ لینا۔ اب اپنا موڈ ٹھیک کرو۔ تم دونوں کے پاس ہونے کی خوشی میں کیک بناتے ہیں۔ شام کو پارٹی کریں گے۔ میں شازر اور عماد حماد کو فون کر دیتی ہوں شام کو جلدی آئیں۔ تم طلال کو بھی کال کر کے کہہ دو ٹیوشن کی چھٹی ہے، بلکہ ایسا کرو طلال کو بھی بلالو پارٹی میں‘‘۔
’’جی چاچی‘‘ ہانیہ تابعداری سے کہتی ہوئی اٹھ گئی۔
شازمہ عماد، حماد کو فون کرنے لگی۔ شام میں ہانیہ اور منال سیاہ اورروپہلی میکسی پہن کر بہت پیارا تیار ہوئی تھیں۔ دونوں کی ایک جیسی میکسی تھی جو شازمہ نے دونوں کو تحفہ دی کی تھی۔ اس نے کب سے رزلٹ کے لیے لا کے رکھی ہوئی تھی۔ دونوں تیار ہوکے شازمہ کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ اب کراچی میں باری باری سب کو وڈیو کال کر کے اپنی تیاری بھی دکھا رہی تھیں ساتھ تحفے کی فرمائش بھی کر رہیں تھیں۔ گھر کے تینوں مردوں کو بھی جانے کتنی دفعہ کال کر کے یاد دلا چکی تھیں کہ تحفےکے بغیر آئے تو گھر میں گھسنے نہیں دیا جائے گا۔اچانک ہی شازمہ کو کوئی خیال آیا تو ہانیہ سے بولی۔
’’بیٹا تم نے صرف طلال کو بلایا ہے۔ صباحت گھر میں اکیلی ہوگی اس کو بھی کہہ دیتیں‘‘۔
’’ہاں پھپھو صباحت آنٹی کو بھی بلالیں ایک اور گفٹ بڑھ جائے گا‘‘۔منال نے چہک کے کہا۔
’’ندیدی ہو پوری، لاؤ فون دو میں کال کروں‘‘۔ شازمہ نے کہا ہی تھا کہ دروازہ پہ گھنٹی بجی۔منال دیکھنے چلی گئی۔ واپس آئی تو صباحت اور طلال ہمراہ تھے۔
’’بھئی معذرت میں بغیر بلائے چلی آئی۔طلال گفٹ لانے کی ضد کر رہا تھا۔ اب اتنے ارجنٹ بلایا تھا کہ میں اکیلی گفٹ دلانے کہاں جاتی۔ اس لیے گھر میں ہی کھیر پکا کر دینے آگئی۔ یہ دو پیالے کھیر کے تحفہ سمجھ لیں۔ ایک مس کا اور ایک منال بھابھی کا‘‘۔ صباحت نے ہاتھ میں پکڑے دو پیالے میز پر رکھے اور دونوں کو گلے لگایا۔
’’ارے آنٹی گفٹ کی کیا ضرورت تھی آپ ایسے ہی آجاتیں ہمیں خوشی ہوتی ۔آپ نے اتنی زیادہ محنت کی‘‘۔ہانیہ نے کھیر کی طرف اشارہ کیا۔
’’ہانیہ صحیح کہہ رہی ہے آنٹی۔ اس تکلف کی کیا ضرورت تھی آپ کا اپنا ہی گھر ہے۔ ویسے بھی پھپھو آپ کو فون کرنے ہی والی تھیں کہ آپ نے خود ہی آکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا‘‘۔ منال نے اپنی جانب میں آدابِ میزبانی نبھائی تھی مگر صباحت کا چہرہ خفت سے سرخ ہوگیا۔
اف یہ لاک ڈاؤن میں پڑھے ہوئے بچے! شازمہ سر پیٹ کےکھڑی ہوئی۔ ’’صباحت اس کا مطلب ہے ماحول میں رنگ بھر دیا۔ شکر کرو یہ طلال کو نہیں پڑھا رہی ورنہ طلال نے بھی تم کو ایسے ہی شرمندہ کرانا تھا‘‘۔ شازمہ نے ہاتھ پکڑ کے صباحت کو صوفہ پر بٹھایا اور منال کو ہلکا سا گھور کر بولی ’’رنگ میں بھنگ کا مطلب ہے پارٹی خراب کردی‘‘۔
’’ارے نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔آپ کے آنے سے پارٹی خراب کیسے ہوسکتی ہے۔ آپ تو ویسے بھی میری پسندیدہ کھیر لائی ہیں۔ سوری آنٹی پتا نہیں کیا بول دیا میں نے‘‘۔ منال گھبرا کر وضاحت دینے لگی۔ صباحت نے مسکرا کے اثبات میں سر ہلا دیا۔
گھر کے حضرات بھی خوب لدے پھندے تشریف لے آئے۔ پارٹی بہت زبردست رہی۔ حماد عماد نے سب پر خوب اسنو اسپرے برسایا۔ طلال اک اک پل ہانیہ کے موبائل میں قید کرتا رہا۔ رات کو سب کچھ سمیٹ کر جب سب لاؤنج میں بیٹھے تو ہانیہ سارے تحائف اٹھا لائی اور دونوں بےصبری سے ان کی پیکنگ کھولنے لگیں۔
حماد دونوں کے لیے ایک جیسی گھڑی لایا تھا اور عماد دونوں کے لیے پرفیوم۔ جب منال نے شاہ زر کےتحفے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو شاہ زر نے اسے پیچھے کرلیا۔
’’مجھے لگ رہا ہے میں کچھ غلط لے آیا۔اس کو رہنے دو۔ میں پیسے دے دوں گا تم دونوں اپنی مرضی کا کچھ لے آنا‘‘۔
’’کیوں چاچو اپنی مرضی سے تو ہم سب کچھ ہی لاتے ہیں اس میں کیا مزہ؟ اصل مزہ تو گفٹ میں آتا ہے‘‘۔
’’جی انکل ہمیں یہ ہی چاہیے ہمیں معلوم ہے اس میں جو بھی ہوگا اچھا ہی ہوگا‘‘۔ منال نے ہانیہ کی تائید کی۔
’’ اچھا تم لوگ ضد کر رہی ہو تو یہ ہی لے لو‘‘۔ شاہ زر نے دونوں ڈبے ان کی طرف بڑھا دیے۔ منال اور ہانیہ نے اپنے گفٹ کھولے تو سب کی ہنسی نکل گئی۔ اس میں بولنے والی گڑیا تھیں۔
’’شاہ زر یہ آپ نے ان کے ساتھ مذاق کیا ہے یا سچ مچ یہ لائے ہیں‘‘۔ شازمہ نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’بھئی مجھے شاپنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ہمیشہ بچوں کا سارا سامان تم ہی لاتی ہو ۔میں نے اپنے ایک کولیگ سے کہا میرے ساتھ مارکیٹ چلے چلو میری بچیاں پاس ہوئی ہیں۔ مجھے ان کے لیے گفٹ لینا ہے۔اس نے پوچھا ہی نہیں بچیاں کتنی بڑی ہیں۔ اس کو یہ اچھی لگیں تو میں نے لے لیں‘‘۔شاہ زر نے کندھے اچکا کے کہا۔
’’یہ کیا بات ہوئی۔ خود ہی اتنا تو بتا سکتے تھے کہ شادی شدہ بچیاں ہیں‘‘۔
’’رہنے دیں نا پھپھو آپ انکل کو کچھ نہ کہیں یہ گڑیاں ہمیں پیاری لگ رہی ہیں‘‘۔
’’جی چاچی دیکھیں یہ گڑیا بولتے ہوئے کتنی معصوم لگ رہی ہے۔ ہم کبھی کبھی ان سے کھیل لیا کریں گے‘‘۔ ہانیہ نے بچوں کی طرح اشتیاق جتایا۔
’’ہاں بیٹا جی مجھے تم دونوں کی صلاحیتوں پر پورا اعتبار ہے۔ یہ تو پھر بھی بولنے والی گڑیا ہیں ۔ اگر تم دونوں کو جھنجھنا بھی لا کر دے دیا جائے تو تم اس سے بھی کھیل لوگی‘‘۔ شازمہ نے شرارت سے کہا تو سب بے ساختہ ہنس دیے۔
اشفاق، شاہ زر کے دفتر کا ساتھی تھا۔ بہت اچھی سلام دعا تھی۔وہ اپنی بیگم کے ہمراہ بھتیجے کی شادی میں شرکت کرنے گاؤں جارہا تھا ۔ اس کو جانے کیا سوجھی وہ شاہ زر کے سر ہوگیا۔ ’’ تم بھی بھابھی کو لے کے ساتھ چلو۔ بائے روڈ جائیں گے اپنی گاڑی میں۔ مزہ آئے گا تھوڑی آؤٹنگ ہوجائے گی‘‘۔
’’ بچوں کو چھوڑ کے اکیلے کیسے جا سکتے ہیں‘‘۔ شاہ زر نے عذر تراشنا چاہا پر وہ نہ مانا۔
’’شادی شدہ بچے ہیں گھر سنبھال سکتے ہیں. صرف ایک ہفتہ کی ہی تو بات ہے‘‘۔ اس نے شاہ زر کو قائل کر کے ہی دم لیا۔ شازمہ کو پتہ چلا تو وہ گھبرا گئی۔ ’’بچیاں کیسے گھر سنبھالیں گی۔اپ اکیلے ہی چلے جائیں‘‘۔
’’تمہیں پتہ ہے میں تمہارے بغیر کہیں نہیں جاتا یہ تو تم ہی بے مروت ہو جو مجھے چھوڑ چھوڑ کے اکیلے میکے چلی جاتی ہو‘‘۔
’’توبہ کریں شاہ زر اتنے سالوں میں بمشکل تین یا چار دفعہ آپ کے بغیر گئی ہوں گی وہ بھی کسی بہت ہی خاص موقع پر جب جانا ضروری تھا۔ ورنہ تو ہمیشہ آپ کودفتر سے چھٹیاں ملنے کا انتظار کیاہے۔ اور پہلے آپ یہ بتائیں کہ اتنی آسانی سے آپ کو ایک ہفتے کی چھٹی کیسے مل گئی‘‘۔
’’اشفاق کے بھتیجے کی شادی باس کے سسرال میں ہورہی ہے۔ دونوں رشتہ دار بن رہے ہیں۔ اشفاق نے اپنے ساتھ ساتھ میری چھٹیوں کی بات بھی خود ہی کی ہے۔ اب چھٹیاں مل گئی ہیں اور میں نے حامی بھی بھر لی ہے تو تمہیں میرے ساتھ چلنا ہی پڑےگا‘‘۔ شاہ زر نے قطعیت سے کہا تو شازمہ کو خاموش ہونا پڑا۔
شازمہ نے تین دن کا کھانا پکا کے فریز کردیا۔ اس کا بس چلتا تو پورے سات دن کا رکھ جاتی، مگر بچیوں نے تسلی دی ہم خود کرلیں گے، آپ فکر نہ کریں۔ وہ بچوں کو ڈھیر ساری تاکید کر کے رخصت ہوئی۔
شازمہ نے پہلی دفعہ گاؤں کی شادی میں شریک ہوئی تھی۔ پورے رسم ورواج ڈھول باجوں والی، ورنہ اس کے خاندان میں تو سادگی سے شادی ہوتی تھی۔ وہ شاہ زر کے ساتھ دو تین دفعہ اشفاق بھائی کے گھر گئی تھی۔ اس لیے ثانیہ بھابھی کے ساتھ اچھی بات چیت تھی۔ اب یوں ساتھ سفر کرنے اور شادی میں شرکت کرنے میں کافی دوستی بھی ہوگئی تھی۔ شازمہ بہت لطف اندوزہو رہی تھی۔ بچوں کو بمشکل خیریت کا فون ہوتا۔سگنل کا بہت مسئلہ تھا۔ ایک ہفتہ کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا۔ واپسی کے لیے نکلنے سے پہلے شاہ زر نے بچوں کو فون کردیا تھا۔ تقریبآ آٹھ گھنٹوں کا راستہ تھا۔ جب گھر پہنچے تو رات کے نو بج رہے تھے۔ شاہ زر نے اترتے ہوئے اشفاق کو چائے کی دعوت دی۔
’’نہیں بھئی اب تو کھانے کا وقت ہو چکا ہے۔ گھر جاکے فریش ہوکر کھانا ہی کھائیں گے‘‘۔ اشفاق نے منع کیا پر شاہ زر کو یوں سوکھے منہ دروازے سے واپس بھیجنا اچھا نہ لگا۔
’’ آجاؤ یار ایسے اچھا تھوڑی لگتا ہے۔ بھابھی بھی ساتھ ہیں۔ ایسے باہر کے باہر جانے نہیں دوں گا۔ چائے کھانا جو نصیب میں ہوگا مل کے کھالیں گے‘‘۔ شاہ زر اصرار کر رہا تھا اور شازمہ کا دل ڈر رہا تھا۔ جانے بچیوں نے کیسا کھانا پکایا ہوگا۔ واپسی کا علم ہے تو کھانا تو تیار ہی ہوگا۔ اتنا تو اسے بچیوں پر بھروسہ تھا لیکن ذائقہ جانے کیسا ہو۔ ابھی تک انھوں نے خود سے پورا کھانا نہیں پکایا تھا۔ شازمہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اس کی بہوؤں کو پھوہڑ سمجھے۔ شاہ زر نے انہیں منا ہی لیا۔ ثانیہ بھابھی گاڑی سے اتر گئیں اور اشفاق بھائی گاڑی پارک کرنے لگے۔ شازمہ دل میں دعائیں کر رہی تھی کہ اللہ کرے گھر صاف ہو کہیں بےعزتی نہ ہو جائے۔ دونوں جہاں چپس، پاپڑ کھاتیں ریپر وہیں پھینک دیتیں۔ شازمہ کے ٹوکنے پر سمیٹ دیتیں۔ سمیٹ کے پھر پھیلا دیتیں۔ شازمہ کچھ گھبراتے ہوئے ثانیہ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئی پر پہلے ہی قدم پر جھٹکا لگا۔ ماشاءاللہ سے گھر چم چم کر رہا تھا۔ سب نک سک سے تیار تھے۔ کسی دعوت کا ماحول لگ رہا تھا۔ بیٹے بہوئیں بہت گرم جوشی سے مہمانوں سے ملے۔ شازمہ کو بہت خوشی ہوئی۔ اس نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ ابھی کھانے کا مرحلہ باقی تھا۔ اس نے کچن میں جانا چاہا تو منال نے روک دیا۔ ’’ پھپھو کھانا بالکل تیار ہے۔ ہم دستر خوان لگا رہے ہیں۔ آپ مہمانوں کے پاس بیٹھیں‘‘۔کھانے میں چکن کڑھائی اور بریانی تھی۔ میٹھے میں بازار کی گلاب جامن۔ کھانا بہت مزیدار تھا۔ بہت ہی خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ جب ثانیہ نے اس کی بہوؤں کی تعریف کی تو شازمہ نہال ہوگئی۔ کچھ حیران بھی تھی۔ ایک ہفتہ میں دونوں اتنی سگھڑ کیسے ہوگئیں تھیں پر شازمہ کا یہ بھی ماننا تھا کہ جب سر پہ پڑتی ہے تو سارے کام ہو ہی جاتے ہیں۔ بہرحال وہ آج دونوں کی کارکردگی سے مطمئن تھی۔
کھانے کے بعد وہ لوگ زیادہ دیر رکے نہیں، تھکے ہوئے تھے جلدی چلے گئے۔ شازمہ نے بچیوں کو بہت پیار کیا۔ ان کی محنت کو سراہا۔ دونوں تھکی ہوئی لگ رہی تھیں پھر بھی باورچی خانہ صاف کرنے جارہی تھیں۔ شازمہ نے روک دیا۔ ’’تم لوگ تھک گئی ہو گی جاؤ آرام کرو باورچی خانہ میں دیکھ لوں گی‘‘۔
’’چاچی آپ بھی تو تھک گئیں اتنا لمبا سفر کر کے آئیں ہیں‘‘۔ہانیہ تھوڑی جزبز تھی جبکہ منال تو نیند میں جھومتی فوراٌٖ ہی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
’’ارے کوئی پیدل تھوڑی آئی ہوں۔بیٹھ کے آئی ہوں۔ تم فکر نہ کرو، جا کے سوجاؤ‘‘۔
شازمہ دونوں کو کمروں میں بھیج کےباورچی خانہ میں آگئی۔ اتنی دیر سے دونوں کا سگھڑاپا ہضم نہیں ہورہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی ہاضمہ لمحہ بھر میں ہودوست گیا۔
سنک پہ برتنوں کا ڈھیر لگا تھا۔ کھانے والے برتنوں کے علاوہ پکانے والے برتن بھی پڑے تھے۔ ایک دیگچی بری طرح جلی رکھی تھی۔ کڑاہی کا مصالحہ جلنے کے بعد یقیناً دوسری پتیلی میں دوبارہ بگھار کے کڑاہی بنائی گئی تھی۔ چولہے کے پیچھے دیوار پر گھی کی چھینٹیں تھیں ۔ سلیپ پر پیاز کے چھلکے پڑے تھے۔ فرش پر شاید گھی گرا تھا جسے پرانے کپڑے سے پونچھ کر کپڑا فریج کے نیچے کردیا گیا تھا۔
اس کی آنکھوں نے فقط چند ثانیے یہ پھیلاوا دیکھا۔ دوسرے ہی پل اس کو دونوں بہوئیں وہاں کام کرتی نظر آرہی تھیں۔ پٗرجوش، مگن ،کچھ گھبراتی، کچھ کھلکھلاتی۔ پہلی دفعہ ساس سسر کے لیے کچھ بنارہی تھیں ۔ ان کے چہرے پہ خوشی تھی۔ کچھ کر دکھانے کی لگن تھی۔ اپنے کیے کام خود ہی بگاڑ دیتیں۔ بوکھلا جاتیں۔ پھر سے سنوارنے کی کوشش کرتیں۔کوشش! جانے کیوں لوگوں کو صرف غلطیاں نظر آتیں ہیں اس کے پیچھے کی کوشش نہیں۔
اس نے فرش پر الٹی پڑی ہوئی چپلوں کو سیدھا کر کے پیر میں ڈالا۔ کڑاہی اور بریانی مصالحہ کےڈبے کوڑا دان میں پھینکے۔اس کو اپنی بہوؤں کے ساتھ کوئی بھی روایتی رویہ اپنا کے اپنے رشتے کو بدنام نہیں کرنا تھا۔اس کا یقین تھا کہ دنیا کا ہر رشتہ خالص ہو سکتا ہے اگر تھوڑا دل بڑا کر لیا جائے۔ آج اس کی بہوؤں نے غیروں کے سامنے اس کی عزت رکھ لی تھی۔ اس کےلیے اتنا ہی بہت تھا۔ آج اتنا کرلیا تھا کل مزید سیکھ جائیں گی۔ وہ ماں تھی اور اسے ماں ہی رہنا تھا۔وہ ہی ماں جو ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی غلطیاں چھپا لیتی ہے۔ شازمہ مسکراتے ہوئے کچن سمیٹنے لگی۔٭

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here