۲۰۲۴ بتول فرورینٹ کھٹ زندگی - عینی عرفان

نٹ کھٹ زندگی – عینی عرفان

ڈھلتے سورج کی نرم شعاعیں کھلے صحن میں فرحت افزا احساس بکھیر رہی تھیں۔ سہہ پہر کے سکون میں گھونسلوں میں لوٹتی چڑیوں کی الوداعی چہچہاہٹ کا ہلکا سا ارتعاش پنہا ں تھا۔ اپنی جلترنگ میں تھرکتی خوشی لمحہ بھر کو منڈیر پہ ٹکی اور اندر کا منظر دیکھ کے مبہوت رہ گئی۔سامنے کمرے کے وسط میں بےفکر زندگی کھلکھلارہی تھی۔اس کی مدھر ہنسی نے کانوں میں رس گھولا تو خوشی نے چپکے سے زندگی کی ہزاروں بلائیں لے لیں۔
’’امی! پانی لادیں‘‘ عماد نے کھانستے ہوئےبمشکل آواز لگائی۔ لیپ ٹاپ چلاتے ہوئے مستقل اس کا منہ بھی چل رہا تھا۔سامنے موجود پلیٹ میں چپس ختم ہونے کے قریب تھی کہ اس کواچھو لگ گیا۔
شازمہ ابھی آٹا گوندھنے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے آٹے میں لتھڑے ہاتھوں کو بے بسی سے دیکھا۔
’’حماد دیکھ رہے ہو بھائی کو اچھو لگ گیا۔ ذرا اٹھ کے پانی نہیں دے سکتے…. بس ہر وقت موبائل میں مگن رہنا ہے‘‘۔
حماد نے ماں کی آواز پہ یوں چونک کر دیکھا جیسے اس کو پتہ ہی نہ ہو عماد کھانس رہا ہے۔ وہ ایکدم اٹھا اور ایمرجنسی ایمرجنسی کی آوازیں لگاتا ہوا کچن کی طرف بھاگا۔ کولر سے پانی بھرا اور جس رفتار سے آیا تھا اسی رفتار سے واپس عماد کی طرف دوڑا۔ عین عماد کے سر پر جا کر رکا اور پانی غٹر غٹر خود ہی چڑھاگیا۔
شازمہ جھنجلاگئی۔ ’’ہر وقت شرارت…. کبھی بندہ سنجیدہ بھی ہوجاتا ہے۔ اتنے بڑے ہوگئے بچپنا ہی ختم نہیں ہورہا‘‘۔
عماد اب تک کھانس رہا تھا اس نے خود ہی اٹھ کر آٹے والے ہاتھوں سے پانی بھرا اور جلدی سے جا کے عماد کو دیا۔ ’’اگر کوئی تکلیف میں ہے تب تو تم اپنا یہ مسخرہ پن چھوڑ سکتے ہو ۔ذرا سا احساس نہیں ہے‘‘اس نے حماد کو ڈپٹا تو وہ دانت نکالنے لگا۔
’’امی اس کو کوئی اچھو نہیں لگا تھا۔ پانی منگوانے کےلیے ڈرامہ کر رہا تھا‘‘۔
’’سچ میں!‘‘ شازمہ نے بے یقینی سے عماد کی طرف دیکھا تو اس نے ہنستے ہوئے گلاس میں بچا ہؤا پانی حماد کی طرف اچھال دیا۔
’’توبہ ہے کتنے نکمے ہو تم دونوں اتنے بڑے ہوگئے پر ذرا سا پانی اٹھ کر نہیں پی سکتے۔ دیکھ رہے تھے میں آٹا گوندھ رہی ہوں پھر بھی پریشان کرنا‘‘۔
’’جب ہم اتنے بڑے ہوگئے تو ہمارے ہاتھ پیلے کرکے اپنے کندھوں کا بوجھ سرکا کیوں نہیں دیتیں۔آپ کی بہوئیں خود ہمارے کام کرلیں گی۔ آپ صرف ابو کے کام نبٹائے گا‘‘۔ عماد نے کہا تو شرارت سے ہی تھا مگر کون نہیں جانتا تھا کہ عماد کو بچپن سے ہی شادی کا کتنا شوق تھا۔ اب تو پھر شادی کی عمر ہوگئی تھی۔
’’ماشاءاللہ یہ نہیں کہہ رہے کہ بہوئیں آئیں گی تو آپ آرام کرے گا سب کام بہوئیں کریں گی۔ اپنا اور اپنےمیاں کا کام میں خود ہی کرتی رہوں شاباش ہے‘‘۔ شازمہ نے عماد کو گھورا تو حماد بھائی کی مدد کو کود پڑا۔
’’امی اگر آپ اتنی سی عمر میں بیٹھ کر کھائیں گی تو بڑھاپا جلدی آئے گا۔ اچھا ہے ہاتھ پاؤں چلتے رہیں، ہمیشہ جوان رہیں گی آپ کے خیال سے ہی کہہ رہے ہیں‘‘۔
’’ہاں جتنے خود نکمے ہو اتنی ہی نکمی بیویاں لانا۔ شوکیس میں سجا کے رکھنا اور جب باہر جاؤ تو کمرہ بند کر کے جانا کہیں ماں ان سے کوئی کام نہ کرالے‘‘۔ شازمہ نے آٹے والے ہاتھ سے ہی ایک ایک کشن اٹھا کر دونوں کو مارا اور واپس کچن کی طرف چل دی۔
’’صلاح اچھی ہے ہم عمل کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ حماد نے ہانک لگائی تو شازمہ مسکرادی۔ پیچھے دونوں نے اسی کشن سے دھینگا مشتی شروع کر دی تھی۔
٭٭٭
شازمہ کو ہمیشہ ہی گلہ رہا کہ اس کی شادی پنگھوڑے میں کردی گئی۔ اس کو نوعمری کی بےفکر زندگی برتنے کا موقع ہی نہ ملا۔ کہیں سے سن لیا تھا کہ پنگھوڑا جھولے کو کہتے ہیں۔ امی نے لاکھ سمجھایا کہ پنگھوڑا بچوں کا ہوتا ہے پر اس کی گاڑی اٹک گئی تھی۔ ’’ہاں تو میں جھولے کی ہی پینگیں لے رہی تھی جب ساس دیکھنے آئیں وہ میرا پنگھوڑا ہی ہؤا‘‘۔
’’چلو ہم سے غلطی ہوگئی معاف کردو۔اب تم یہ غلطی مت دہرانا۔ اپنی اولاد کی خوب پکی عمر میں شادی کرنا‘‘ امی جھنجھلا کے ہاتھ جوڑ دیتیں۔
’’ارے واہ میں کیوں نئی ریت قائم کروں ؟دیکھیے گا میں بھی پنگھوڑے سے ہی بہوئیں اٹھا کے لاؤں گی۔ کم ازکم بہوؤں کو ساس کے درد کا احساس تو ہوگا‘‘ اس نے باقاعدہ شاہ زر کوگھور کے کہا تو شاہ زر چڑ گیا ۔ ان کی چونچیں لڑنے لگیں اور فرخندہ بیگم سر پیٹ کے رہ گئیں۔
کلثوم سراج جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں۔ان کے چار بچے تھے۔ سب سے بڑا دل شیر تھا۔اس کے بعد صدف اور فرحانہ تھیں۔ تینوں کی ہی شادی مناسب وقت میں کردی گئی تھی۔ شاہ زر اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا، بمشکل اکیس سال کا ہؤا تھا کہ ماں کو اس کی بھی شادی کی فکر ستانے لگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی زندگی میں ہی سب اولاد کو اپنے گھر کا کردوں ورنہ ماں باپ کے بعد بچے رل جاتے ہیں۔ اب اکیس سال کے بیٹے کے لیے سولہ سال کی لڑکی ڈھونڈنا تو حق تھا ان کا۔ شازمہ نہم جماعت میں تھی جب رشتہ آیا۔ اس کے والدین نے دسویں جماعت مکمل ہونے تک رکنے کی درخواست کی مگر شاہ زر کی اماں کو چھوٹی سی دلہن چاہیےتھی۔ان کا اصرار فوری شادی کی وجہ بنا۔ رشتہ اچھا تھا شازمہ کے والدین انکار کرنا نہیں چاہتے تھے ویسے بھی ان کا اعتقاد مضبوط تھا کہ اگر پہلے رشتہ پہ ناشکری کرو تو بیٹی بیٹھی رہ جاتی ہے۔سو پڑھائی کو خیر باد کہہ کر شازمہ کم عمری میں ہی سسرال سدھاری۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی شاہ زر کی نوکری حیدر آباد لگ گئی۔ اماں بیٹے کو اکیلا بھیجنا نہیں چاہتی تھیں۔ انہوں نے بہو کو بیٹے کے ساتھ ہی دعاؤں کے سائے میں رخصت کیا۔
شازمہ کو شادی کے بعد عیش کرنے کے لیے صرف ایک مہینہ ملا تھا جو اس نے سسرال میں گزارا۔ حیدرآباد آتے ہی شازمہ اور شاہ زر دونوں کے سر پر ذمہ داریوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ دونوں نہ صرف کم عمر تھے بلکہ اناڑی بھی تھے۔ شروع میں خوب لڑائیاں ہوئیں شاہ زر گھر آتا تو گھر کی ہر چیز تلپٹ ملتی۔
’’یہ کیا حالت بنا رکھی ہے گھر کی۔ جیسا صبح چھوڑ کے گیا تھا ویسا ہی پڑا ہے۔ ایک چیز اِدھر سے اُدھر نہیں کی‘‘۔ شاہ زر دفتر سے واپسی پہ گھر کی بکھری حالت دیکھ کے اوبھ گیا۔
’’آپ خود تو پورا گھر اِدھر اُدھر کر کے گئے تھے پھر مجھے کیا ضرورت تھی مزید اِدھر سے اُدھر کرنے کی‘‘۔ شازمہ کی لاپروائی عروج پہ تھی ۔شاہ زر بھنا گیا۔
’’تم سارا دن کر کیا رہی تھیں؟‘‘
’’کھانا پکا رہی تھی۔ آپ منہ ہاتھ دھو کے آجائیں میں کھانا لے کے آتی ہوں‘‘
شازمہ کچن کی طرف بڑھ گئی وہ بھی شکر ادا کرتا ہؤا اس کے پیچھے ہی آگیا۔
’’شکر ایک کام توڈھنگ کا کیا۔کیا پکایا ؟‘‘
کچن کی حالت دیکھ کے اس کی زبان کو بریک لگ گئی۔ کھانا پکا کر گویا کوئی کارنامہ انجام دیا گیا تھا۔ پورا کچن تلپٹ تھا۔وہ خود بھی گھی مصالحوں سے بھری تھی جس پہ شاہ زر نے اب غور کیا۔
جانے کون سی دعوتِ شیراز کا انتظام کیا گیا تھا جو یہ حالت تھی۔
’’میں نے سوچا روز دال سبزی دیکھ کے آپ کو غصہ آجاتا ہے تو آج کچھ خاص پکالوں۔صبح سے مختلف چینلز پہ کوکنگ شو دیکھ رہی تھی۔ سب ہی عجیب الٹے سیدھے کھانے پکا رہے تھے۔ صرف دو ترکیبیں کچھ ڈھنگ کی لگیں تو وہ میں نے کاپی پہ لکھ لیں‘‘ شازمہ نے گویا احسان جتایا۔ شاہ زر کو کچھ تسلی ہوئی کہ چلو آج کچھ اچھا کھانے کو ملے گا۔
’’تو کیا پکایا پھر‘‘ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’انڈوں کا خاگینہ‘‘ شازمہ نے کڑھائی کا ڈھکن اٹھا کے انڈوں کا ملغوبہ دکھایا۔ شاہ زر کو چند لمحوں کے لئے سکتہ ہی ہوگیا۔
’’اب دیکھیں نہ یہ دال ہے نہ سبزی، داد دیں میرے انتخاب کو۔ اب آپ امی سے یہ شکایت نہیں کرسکیں گے کہ آپ کی بیٹی روز روز دال پکالیتی ہے‘‘ شازمہ فخر سے بتا رہی تھی شاہ زر کا دل چاہا اپنے بال نوچ لے۔
شازمہ پھوہڑ نہیں تھی۔ وہ کام کرنے سے جی نہیں چراتی تھی مگر اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کو کوئی سکھانے والا نہ تھا۔ وہ شاہ زر سے مدد کی توقع کرتی مگر شاہ زر گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگاتا۔ روز دونوں اپنی اپنی ساسوں کو شکایت کا فون کرتے۔ وہ دونوں اتنی دور بیٹھ کر کیا کرسکتی تھیں۔ کبھی ایک کو سمجھاتیں تو کبھی دوسرے کو۔ ہلکا پھلکا ڈانٹ دیتیں، کبھی زبردست غصہ آجاتا تو کبھی بے ساختہ ہنس دیتیں۔ دونوں ہی سمجھاتیں کام آتے آتے ہی آتا ہے۔ تھوڑا وقت صبر کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا مگر وقت بھی ان دونوں کو شاید رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔ شازمہ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ شاہ زر کو بھی اماں کے روز روز سمجھانے سے تھوڑا احساس ہؤا۔ پہلے سے ہی کچھ نہ کچھ کھانے پکانے کا شوق تھا۔ شرافت سے کوکنگ کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ شازمہ بھی باقی گھر کے کام دھیان سے کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
شادی کے ٹھیک آٹھویں ماہ جڑواں عماد اور حماد اس کی گود میں تھے۔ وہ ماں کو ستانے کے لیے اتنے اتاولے تھے کہ پورے وقت کا انتظار بھی نہ کرسکے۔ دیکھنے میں چھوٹے بلّی کے بچے جتنے مگر آواز اتنی اونچی کہ سات محلّوں تک آواز جائے بلکہ شازمہ کو تو لگتا اس کے بچوں کی آواز کراچی تک جاتی ہے کہ جب وہ روتے ان کی دادی یا نانی کا فون آجاتا۔ وہ بھی شکر ادا کرتی ان کے ٹوٹکوں سے ہی کچھ افاقہ ہوتا ورنہ تو اس کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔ اماں تو ایک منٹ میں عماد کے رونے کی آواز سے ہی بھانپ جاتیں۔
’’اس کے پیٹ میں درد ہے پوترا گرم کر کے پیٹ کی سکائی کرو‘‘۔
’’کیسے گرم کروں توے پر رکھ کر‘‘وہ ہونقوں کی طرح پوچھتی۔
’’بیوقوف استری سے گرم کرو‘‘ سر پیٹ کر جواب دیا جاتا خیالوں میں اماں اپنی بہو کو توے پہ پوترا سینکتے ہوئے سوچتیں تو ان کوابکائی آجاتی۔
جب پریشانی سے برا حال ہوتا تو امی کافون آجاتا۔ ’’ناک سے دودھ نکال دیتے ہیں کیا کروں‘‘ وہ رونکھی آواز میں سوال کرتی۔
’’فیڈ کرانے کے بعد بیس منٹ تک کمر سہلا کے ڈکار دلاؤ‘‘۔ امی کا مشورہ اسے ایک آنکھ نہ بھاتا۔
’’اف بیس منٹ ایک کو بیس منٹ دوسرے کو ….چالیس منٹ تو ان کے ڈکار میں ہی نکل جائیں گے ‘‘۔
ہاں تو تمہیں کونسی دیگیں چڑھانی ہیں۔ وہ آئےگا تھکا ہارا آکر مہارانی کے لئیے کھانا پکائےگا‘‘۔ امی اس کے ٹھنک کے کہنے پہ چڑ جاتیں تو فوراً طعنوں پہ اتر آتیں۔
’’ایک تو مجھے یہاں اکیلا پھینک دیا۔ نہ کوئی ہاتھ بٹانے والا نہ خدمت کرنے والا….لڑکیوں کا پہلا چھلا ایسے گزرتا ہے کیا…. اوپر سے طعنے دیتی رہتی ہیں لگتا ہے میری ماں نہیں دشمن ہیں‘‘ وہ غصہ میں فون کاٹ دیتی۔
ایک دن بڑا ہی گھبرا کے اماں کو فون ملایا’’حماد کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔ میں نے تو بس ذرا سا شہد چٹایا تھا۔ کہیں شہد زہریلا نہ ہو۔ کیاکروں‘‘۔
’’توبہ ہے لڑکی سوچ سمجھ کے تو بولا کرو۔ کوئی شہد زہریلا نہیں تھا۔ حماد کے سر میں جوں آگئی ہوگی اس لیے منہ سے جھاگ نکال رہا ہے‘‘۔
’’اچھا تو اماں اپنے بال کٹوالوں‘‘ بڑے ہی شوق سے پوچھا گیا۔
’’وہ کس خوشی میں‘‘ اماں کو اچنبھا ہؤا۔
’’حماد کے سر میں جوں میرے بالوں سے ہی گئی ہوگی نا‘‘۔
’’بی بی سر میں جوئیں ہوجاتی ہیں تو بالوں کی صفائی کرتے ہیں یا بالوں کا صفایا کرادیتے ہیں‘‘ خاطر خواہ ڈانٹ پڑ گئی تو منہ بسور کر فون رکھ دیا۔
کم عمری، ناتجربہ کاری، شازمہ جڑواں بچوں کو سنبھالنے میں پاگل ہو رہی تھی۔ شاہ زر کو کچھ دیر پکڑانا چاہتی تو وہ بدک جاتا۔
’’یہ اتنے چھوٹے ہیں مجھے ڈر لگتا ہے بس تم ان کو سنبھال لو تمھارے بدلے کے سارے کام میں کردوں گا‘‘۔
’’مجھے کچھ دیر سونا ہے شاہ زر‘‘ اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔
’’تو میں تمھارے بدلے کا سو بھی جاتا ہوں‘‘ اس کو شاہ زر کی شرارت ایک آنکھ نہ بھائی۔خودساختہ ناراضی ختم کر کے پھر امی کو فون کیا۔
’’ آپ کے نواسے ساری رات جاگتے رہتے ہیں۔ سوتے ہی نہیں ہیں۔ چین سے دو گھڑی سونے کو ترس گئی ہوں‘‘۔
’’دن میں جگا کےرکھا کرو تو رات میں کم از کم پانچ گھنٹے آرام سے سوئیں گے‘‘۔
’’کیسے جگاؤں دن میں‘‘ امی کا مشورہ کچھ خاص پسند نہیں آیا تو بددلی سے پوچھا۔
’’پیر کے تلوے پر انگلی سے مارا کرو جاگ جائیں گے‘‘ امی نے رسان سے کہا۔
’’اتنے سے بچوں کو ماروں‘‘حیرت بھری چیخ گونجی۔
’’کوئی ڈنڈے سے مارنے کو نہیں کہہ رہی انگلی سے پیر کھٹکھٹایا کرو‘‘۔
’’اچھا‘‘ اس نے ایسے تابعداری سے کہا جیسے سب سمجھ آگیا ہو۔ دوسرے دن خوشی خوشی اپنا کارنامہ بتانے کے لیے فون کیا۔
’’پتہ ہے کل میں نے خوب مارا‘‘فخر سے بتایا گیا۔
’’آئے ہائے اتنے سے بچوں کو مارا!‘‘ ان کا کلیجہ لرز گیا۔
’’نہیں نا اپنے آپ کو مارا۔ بچے روئے جارہے تھے صرف گود میں آکر چپ ہورہے تھے۔شاہ زر کو کچھ خیال ہی نہیں آرام سے سوتے رہے۔میرا نیند اور غصہ سے اتنا برا حال ہورہا تھا۔ میں اپنے آپ کو مارنے لگی۔ شاہ زر ڈر گئے۔ دونوں بچوں کو لے کر باہر چلے گئے۔ میں دو گھنٹے کے لیےسوگئی۔ اب انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے روز سونے سے پہلے دو گھنٹے کے لیے بچوں کو سنبھالا کریں گے‘‘۔
’’یہ بات تم آرام سے بھی منواسکتی تھیں اتنا پاگل پنا کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘ امی نے برہمی سے کہا۔
’’مجال ہے جو میری عقلمندی کی تعریف کردیں‘‘ اس نے جل بھن کر فون رکھ دیا۔
آہستہ آہستہ بچوں کے سونے جاگنے کی روٹین سیٹ ہونے لگی۔
کراچی میں اسکول کی چھٹیاں ہوئیں تو شاہ زر کے اماں اور بہن بھائی ملنے آئے۔ بچوں کےلیے سب ہی بہت خوبصورت تحائف لائے تھے۔ دوسرے ہی دن شازمہ کے امی ابو بھی اچانک بغیر بتائے آگئے۔ ڈھیر سارے تحفے، کھلونے، دعائیں ، پیار ، سب ہمراہ تھے۔ خوشیوں سے گھر بھر گیا۔ شازمہ ماں سے ناراض تھی کہ وہ چھلا گزرنے کے بعد آئی تھیں۔ لیکن شکیلہ بیگم کی بھی مجبوری تھی کہ ان کے میاں آفاق احمد دل کے مریض تھے وہ ان کو اکیلا چھوڑ کے نہیں آسکتی تھیں اور بیٹے کے امتحان چل رہے تھے، وہ دونوں آتے تو بیٹا اکیلے کیسے رہتا ۔بڑی مشکل سے انہوں نے ڈیڑھ مہینہ گزارا تھا ورنہ ان کا بس چلتا تو وہ اڑ کے آجاتیں۔ ناراض بیٹی کو منانا کون سا مشکل تھا انہوں نے منٹوں میں منالیا تھا۔ شازمہ کتنی دیر تک ماں کی گود میں سر رکھ کے لیٹی رہی۔ انہوں نے اس سے دنیا جہان کی باتیں کیں۔ اجمل کے لیے لڑکی پسند کرلی تھی۔ ان کے محلے کی ہی بچی تھی۔ شازمہ بھی سائرہ کو اچھی طرح جانتی تھی۔ وہ بھائی جان کی شادی کا سوچ کے بہت خوش ہوئی۔ شکیلہ بیگم نے موقع غنیمت جان کے شازمہ کو تحمل سے سمجھایا کہ بچوں اور گھر کو ساتھ ساتھ کیسے لے کر چلنا ہے۔ ان کو احساس تھا کہ اس پہ کم عمری میں ذمہ داریاں پڑ گئی تھیں۔ اسے شادی سے پہلے بھی گھر داری سیکھنے کا وقت نہ ملا تھا۔ شازمہ چپ چاپ سنتی رہی۔ ماں بننے کے بعد اس میں بردباری آرہی تھی۔ وہ خود بھی اپنے بچوں کی تربیت بہتر طور پر کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے ماں کی ساری ہدایات ماننے کا پکا ارادہ کیا مگر ساتھ ماں سے شکوہ بھی کردیا۔
’’بڑے بزرگ کہتے ہیں بچے جلدی جلدی ہونے چاہئیں، سب بہن بھائی ساتھ ساتھ پل جاتے ہیں مگر آپ نے اس سے بھی دور کا سوچا۔آپ نے سوچا بیٹی کو پنگھوڑے میں ہی بیاہ دیتی ہوں خود ہی اپنے بچوں کے ساتھ کھیل کود کر جوان ہوجائے گی‘‘۔
شکیلہ بیگم کھلکھلا کر ہنس دیں۔ کلثوم بھی چپکے چپکے مسکراتی رہیں۔ ان کو اپنی یہ بہو بہت معصوم سی لگتی تھی۔ اس کی معصومیت دل موہ لیتی۔ سب خوشی خوشی رخصت ہوئے۔
چھلا پورا ہوتے ہی شازمہ نے کچن سنبھال لیا۔ وہ دل سے شاہ زر کی احسان مند تھی کہ اس نے شازمہ کا پورا ساتھ دیا مگر شاہ زر ان آٹھ ماہ پر مشتمل احسان اگلے اٹھارہ سال تک جتا جتا کر اس کا کلیجہ خاک کرنے والا تھا۔ شاہ زر نے ایسی نظر پھیری کہ پھر کبھی پلٹ کے کچن میں قدم رنجہ نہیں فرمایا مگر ہر دو چار دن بعد اپنا احسان جتانا نہیں بھولتا تھا۔
وہ چھوٹے کمزور سے بچے ماشاءاللہ سے ایک سال میں ہی خوب صحت مند گولو مولو ہوگئے۔ اس نے ان کو کھڑا کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنا وزن سہار ہی نہیں پاتے۔ نئی پریشانی کے ساتھ اماں کو فون کھڑکایا گیا۔
’’صحت مند بچے عموماً دیر سے چلتے ہیں پہلے بولنا سیکھتے ہیں۔ تم ان کو پہلے اللہ بولنا سکھاؤ پھر چھوٹے موٹے لفظ سکھانا‘‘۔
ساس کی بات سن کر اسے تسلی ہوئی۔اس نے ان کو پہلے بولنا سکھانے کی ٹھان لی۔ اب اس کو کیا پتا تھا آگے چل کر یہ ننھی زبانیں کس قدر اس کے کان کھانے والی ہیں۔ بچے بے معنی آوازیں نکالتے تھے۔ اس کی ذرا سی کوشش سے اللہ بولنا سیکھ گئے۔ وہ خوشی سے نہال ہوگئی ،اس نے کراچی فون کھڑکا کھڑکا کے سب کو بچوں کی آواز سنائی۔ سب اس کے بچپنے پہ ہنستے رہے۔ شازمہ کو یہ کام بڑا دلچسپ لگ رہا تھا۔
اس دن وہ بچوں کو امی بولنا سکھا رہی تھی کہ پڑوس سے صباحت چلی آئی۔ نہ جانے کیوں اسے صباحت سے چڑ محسوس ہوتی۔ کچھ ہی عرصہ پہلے پڑوس میں شفٹ ہوئی تھی۔ دس سال ہوگئے تھے اس کی شادی کو اللہ نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا۔ جب شازمہ کو پتہ چلا تو اسے افسوس ہؤا اس نے خود ہی کہا تھا کہ ’’میرے بچے بھی تمہارے بچوں کی طرح ہیں تم جب چاہے ان سے ملنے آجایا کرو‘‘ صباحت عموماً شام کو آجاتی۔ بچوں کو کافی دیر سنبھال لیتی۔ شازمہ اپنے کتنے ہی رکے ہوئے کام نبٹالیتی پر مسئلہ یہ تھا کہ دھان پان نازک سی صباحت، شازمہ کو بڑے اہتمام سے شازمہ باجی بولتی۔ شازمہ کی جان جل جاتی سارے حساب کتاب جمع تفریق کر کے دیکھ لیے تھے۔اگر وہ بھی شازمہ کی طرح پنگھوڑے میں بیاہی گئی تھی تو بھی وہ صباحت کی باجی نہیں لگتی تھی۔ اس بےتکی عادت کی وجہ سے اسے اچھی خاصی معقول خاتون سے چڑ ہونے لگی تھی۔
اس نے شازمہ کو امی سکھاتے ہوئے دیکھا تو بولی ’’ شازمہ باجی آپ انہیں امی بولنا کیوں سکھا رہی ہیں۔ مما پاپا سکھائیں ماڈرن لگے گا‘‘۔
’’ماتا پتا سکھادوں؟ زیادہ ماڈرن لگے گا‘‘ شازمہ نے بظاہر سنجیدگی سے پوچھا تھا پروہ کھسیاگئی۔ اسے لگ تو رہا تھا کہ شازمہ باجی اس سے کچھ ناراض ہیں مگر وجہ سے لاعلم تھی۔ ہائے رے معصومیت۔
کراچی میں اجمل کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ شکیلہ بیگم اکیلے کیسے سب تیاریاں کرتیں۔ انہوں نے شاہ زر کو فون کرکے درخواست کی کہ شازمہ کو دو ماہ کےلیے کراچی بھیج دیا جائے۔ اجمل اس کا اکلوتا بھائی ہے سب تیاریاں اس کو ہی کرنی ہیں۔ دو ماہ کا سن کے تو شاہ زر کی جان ہی نکل گئی۔ وہ اتنے دن اکیلا کیسے رہ سکتا تھا۔ ساس کو فون پہ تو کچھ نہ بول سکا پر بعد میں شازمہ سے الجھنے لگا۔
’’ میں دو مہینے اپنے بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور مجھے اتنی لمبی چھٹی بھی نہیں مل سکتی تو میں ساتھ بھی نہیں چل سکتا۔ تم آنٹی سے خود ہی کہہ دو کہ تم شادی سے ایک ہفتہ پہلے آؤ گی‘‘۔
’’امی اکیلی ہیں وہاں ان کی کوئی دوسری بیٹی یا بہو بھی نہیں ہے۔ ابو کی بھی طبیعت خراب ہے۔ کیا میرا فرض نہیں کہ ایسے وقت میں ان کا ساتھ دوں۔ آپ کو بس اپنے بچوں کا خیال ہے۔ میں بھی تو ان کی بچی ہوں ان کا کوئی حق نہیں مجھ پہ؟ اگر اتنا ہی اپنے بچوں کا خیال ہے تو ایسا کریں آپ ان کو رکھ لیں میں اکیلے چلی جاتی ہوں‘‘۔آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر کے شازمہ نے پوری تقریر ہی کردی۔
’’ارے میں اکیلا خود کو نہیں سنبھال سکتا بچوں کو کیا سنبھالوں گا۔میرا کھانا پینا، لانڈری، گھر کی صفائی، استری درجنوں کام ہوتے ہیں گھر کے وہ کون کرے گا‘‘۔
’’مجھے پتہ تھا بچوں کا تو بہانہ ہے ورنہ آپ کی جان تو گھر کے کاموں کی وجہ سے جا رہی ہے۔ اور یہ وہ ہی کام ہیں نا غالباً جس کے لیے آپ مجھے کہتے ہیں کہ تم کرتی کیا ہو سارا دن‘‘ شازمہ باقاعدہ کمر پہ ہاتھ رکھ کے لڑنے کھڑی ہوگئی۔
شاہ زر اس سے تادیر بحث کرتا رہا پر اکیلے گھر پہ رہنے کے لیےراضی نہ ہؤا۔ شازمہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا مسئلہ فون پہ اماں کے سامنے رکھا۔ کلثوم نے دونوں کی بات تحمل سے سنی دونوں ہی حق پہ تھے۔ شازمہ کا اکلوتا بھائی تھا۔ اس کی شادی کے انتظامات میں ماں کا ہاتھ بٹانا شازمہ کا فرض تھا۔ دوسری طرف شاہ زر بھی غلط نہیں تھا۔ ان کو پتہ تھا کہ ان کا بیٹا کتنا لاپروا ہے وہ اکیلا اتنے دن گھر نہیں سنبھال سکتا۔ انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ شاہ زر ، شازمہ اور بچوں کو چھوڑنے کراچی آئے اور واپسی میں ان کو اپنے ساتھ لے جائے وہ دو ماہ بیٹے کے ساتھ رہ کے اس کا خیال رکھ لیں گی۔ شادی کے دنوں میں شاہ زر دفتر سے چھٹی لےکے اماں کو کراچی لے آئے اور شادی میں شرکت کرکے شازمہ کو واپس لے جائے۔
دونوں ہی اماں کی اس بات پہ راضی ہوگئے۔ شازمہ نے خوشی خوشی رختِ سفر باندھ لیا۔
(جاری ہے )
٭ ٭ ٭

 

 

رستہ نہ بھٹک جانا

رستہ نہ بھٹک جانا
آنکھوں کو کھلا رکھنا
تنہا نہ چلو ہمدم
ہمراہی سدا رکھنا
شیطان صفَت ہردم
تاک میں ہوتے ہیں
دھوکے میں نہ آجانا
تم یادِ خدا رکھنا
بچ بچ کےچلو راہی
غفلت میں نہ پڑ جانا
رستے پہ نظر رکھنا
خوابوں میں کبھی آؤ
یہ دل کی تمنا ہے
کیا خوب تمنا ہے
ملنے کی دعا رکھنا
بس یادِ خدا رکھنا
ایماں کا تقاضا ہے
آنکھوں سے نہاں بےشک
پر دل میں بسا رکھنا
(اختر نظامی)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here