نکاح جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں رکھا گیا تھا۔ صبح اٹھتے ہی سب مرد نہا دھو کے نکاح میں جانے کے لیے تیار ہورہے تھے اور جسے اصل میں تیار ہونا تھا وہ پورے گھر میں بولایا بولایا پھر رہا تھا۔ علی کا نکاح کا جوڑا ہی نہیں مل رہا تھا ۔
ایک ایک جگہ چھان لی گئی پر جوڑا نہ ملا ۔سب نے مشورہ دیا کہ کوئی اور کپڑے پہن کے چلے جاؤ پر علی کمرے میں سر منہ لپیٹ کے پڑگیا۔
’’میرا ڈزائنر جوڑا ہے مجھے وہ ہی پہن کے جانا ہے ورنہ میں نہیں جاؤں گا‘‘۔ علی بچوں کی طرح روٹھ کے بیٹھا تھا۔
’’یہ کیا بچپنا ہے علی…. کسی پڑوسی کا نکاح تھوڑی ہے جو تمہارا موڈ خراب ہوگا تو تم نہیں جاؤ گے اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ابھی بھائی جان غصہ کرتے ہوئے آجائیں گے۔ اٹھو ،کوئی بھی دوسرا سوٹ پہن کے چلے جاؤ، اتنے سارے کپڑے ہیں تمہارے پاس‘‘۔ شازمہ علی کے سر پہ کھڑی منتیں کر رہی تھی پر وہ منہ پھلائے پڑا تھا۔
’’میں نے اتنے شوق سے بنوایا تھا ۔ایک تو پہلے سے کسی کو خیال نہیں آیا کہ دولہا کے کپڑے استری کر کے رکھ دے اب آخر وقت میں جوڑا ہی غائب ہے۔ رات کو اگر شیروانی نہ ملی تب بھی کہہ دے گا کوئی بات نہیں نائٹ سوٹ میں چل کے دلہن لے آؤ کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔ علی نے تپے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’علی! بھائی جان نے اگر تمہیں یوں پڑے دیکھ لیا نا تو تمھاری خیر نہیں ، رات کا تو پتہ نہیں پر ابھی وہ تمہیں اسی حلیہ میں اٹھا کے لے جائیں گے‘‘۔
’’ایویں لے جائیں گے، جب خود نیا جوڑا پہن کے تیار پھر رہے ہیں تو نکاح بھی خود کر لیں مجھے نہیں جانا‘‘۔
’’حد ہوتی ہے علی کیااول فول بک رہے ہو، رکو میں کرتی ہوں کچھ‘‘۔شازمہ پریشان سی وہاں سے چلی گئی۔
’’ایک تو اس خاندان میں سب کو ہی چھوٹے چھوٹے بچوں کی شادی کرنے کا شوق ہے ذرا میچور تو ہونے دیا کریں۔ بتاؤ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ناراض ہونے کی‘‘۔ شازمہ بڑبڑاتی ہوئی منال کے پاس آئی۔ اس لمحہ وہ بھول گئی تھی کہ یہ شوق رکھنے والوں میں وہ خود پہلے نمبر پہ آتی ہے۔
’’تم مجھے عماد کا بارات میں پہننے والا جوڑا دو میں علی کو دکھاتی ہوں، وہ علی کے جوڑے سے ملتا جلتا ہی ہے شاید وہ مان جائے‘‘۔
’’جی پھپھو دیتی ہوں‘‘۔ منال نے جوڑا ڈھونڈنے کے چکر میں پورا بیگ الٹ دیا۔ اجلے میلے سب کپڑے ایک ہی بیگ میں ٹھونسے ہوئے تھے۔
’’پھپھو علی کا جوڑا یہ رہا‘‘۔ منال مسرت سے چیخی۔
’’میں نے علی کے کمرے سے اپنے کپڑے سمیٹے تھے تو شاید اس کا جوڑا بھی ساتھ ہی بیگ میں رکھ لیا ہوگا‘‘۔
منال نے علی کا برانڈڈ سوٹ گول مول کر کے ٹھونسا ہؤا تھا ۔ شازمہ نے سر پیٹ لیا۔ ’’اس سے پہلے کہ علی کی اس پہ نظر پڑے اور وہ بھیں بھیں کر کے رونا شروع کردے اس پہ استری کر کے دو‘‘۔ شازمہ نے ڈپٹ کے کہا تو منال استری کرنے بھاگی۔
شازمہ منال کا پھیلایا ہوا بیگ سمیٹنے لگی۔
نکاح بخیر خوبی انجام پاگیا تو سب نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ ’’بھائی اگر آپ کا جوڑا نہ ملتا تو کیا آپ سچ مچ نکاح نہ کرتے‘‘۔ منال نے علی کو مشکوک نظروں سے گھورا۔
علی کے تو دانت ہی اندر نہیں جارہے تھے۔’’کیا تمہیں پاگل لگتا ہوں، میں تو صرف بھرم دکھا رہا تھا تاکہ سب میرا جوڑا ڈھونڈیں ورنہ الماری میں نیا آسمانی رنگ کا جوڑا استری ہؤا لٹکا تھا وہ پہن جاتا‘‘۔
’’توبہ ہے کتنے ڈرامے باز ہیں آپ، سب کی جان نکال دی۔ خاص طور پہ پھپھو کی، اتنا پریشان ہوگئی تھیں وہ‘‘۔
’’جب ہی تو مما بھائی کو منانے نہیں آئیں، انہیں بھائی کی سب نوٹنکیاں پتہ ہیں‘‘۔ آئمہ نے پیچھے سے لقمہ دیا تو تینوں بہن بھائی ہنسنے لگے۔
شازمہ نے بارات کے لیے منال اور ہانیہ کی پارلر میں بکنگ کروائی ہوئی تھی۔ آئمہ بھی ان دونوں کے ساتھ ہولی۔ عماد تینوں کو پارلر چھوڑ کے علی کو سیلون لے گیا۔ منال نے کہا تھا کہ پارلر میں وقت لگے گا ہم تیار ہو کے کال کر دیں گے۔علی تیار ہو کے عماد کے ساتھ گھر بھی آگیا تھا پر لڑکیاں ابھی تک تیار ہی نہیں ہوئی تھیں۔
علی فون پہ فون کر کے منال کا دماغ کھارہا تھا ،پھر شازمہ کے سر ہوگیا ۔’’آخر پارلر والی ایسے کون سے سرخاب کے پر لگا رہی ہیں جو وہ تیار ہی نہیں ہو کے دے رہیں، آپ کو پتہ ہے نا اب دس بجے ہال بند ہوجاتے ہیں ہمیں آٹھ بجے تک پہنچنا ہے۔آپ کال کر کے پوچھیں نا‘‘۔
’’توبہ ہے علی! بھیج دیا میں نے حماد کو پارلر، وہ بچیوں کو لے کر سیدھا ہال ہی چلا جائے گا۔ ویسے دوپہر کو تو تمہیں نکاح ہی نہیں کرنا تھا، اپنے باوا کا نکاح کرانے پہ تلے تھے، اب اتنے اتاولے کیوں ہورہے ہو‘‘۔
’’آپ نے وہ نہیں سنا پھپھو کہ نکاح دو دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے‘‘۔ علی نے دانت نکالے۔
’’اگر محبت نکاح کے بعد ہوئی ہے تو جو سازشیں نکاح سے پہلے کی جارہی تھیں اس کا کیا جواز ہے‘‘۔
عماد نے علی کے کان میں سرگوشی کی تو اس نے اپنا پیر عماد کے پیر پہ مارا ۔
’’آہ! داماد ہوں میں اس گھر کا، عزت کرو میری ورنہ ابھی بھانڈا پھوڑ دوں گا‘‘۔
عماد نے دانت پیستے ہوئے دھمکی دی تو علی نے ہاتھ جوڑ دیے۔’’معاف کردے بھائی کیوں پٹوائے گا سب کے سامنے‘‘۔ عماد علی کی پتلی ہوتی حالت دیکھ کے ہنس دیا۔
لاریب ، علی سے دو سال جونئیر تھی۔ دونوں ایک ہی اکیڈمی میں پڑھتے تھے۔ علی کافی عرصہ سے لاریب کو پسند کرتا تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ ان کے خاندان میں آپس میں شادیاں کرنے کا رواج ہے۔ کوئی بہت سختی نہیں تھی کہ جینے مرنے کا مسئلہ ہو پر ترجیح اپنوں کو ہی دی جاتی۔ البتہ پورا خاندان ہی لڑکا لڑکی کی خود سےپسند کی شادی کے خلاف تھا۔ ایسے میں خاندان سے باہر شادی کرنا، وہ بھی لو میرج سٹائل کی، علی کے لئے ممکن نہ تھا۔ اس نے بڑا دماغ لڑایا تھا اس شادی کو ارینج بنانے کے لیے۔ پہلے آئمہ کو لاریب کی چھوٹی بہن ایمل کی ٹیوشن میں داخل کرایا۔ آئمہ نے اس سے دوستی کی، اس کے گھر آر جار بڑھائی ،پھر اڑ گئی کہ دوست کی بڑی بہن کو ہی بھابھی بناؤں گی۔ رونا دھونا، ضد، بھوک ہڑتال ہر حد سے گزر گئی اور علی کا لاریب سے رشتہ کرا کر ہی دم لیا۔ اگر اجمل صاحب کو پتہ چل جاتا کہ ان سسکیوں ، دھمکیوں کے پیچھے اصل میں علی ہے،آئمہ تو صرف نمائندہ ہے تو وہ علی کا کان پکڑ کے خاندان کی ہی کسی لڑکی سے بیاہ کے رخصت کر دیتے،کہ ایسی اولاد کو تو رخصت ہی کر دیا جائے تو بہتر ہے۔
اس سارے عرصے میں آئمہ نے علی کو خوب ہی لوٹا۔ ایک ایک آنسو ایک ایک ضد کے ہزاروں روپے بٹورے، بھوک ہڑتال پہ جاتی تو علی کو بہت ہی رازداری کے ساتھ زنگر برگر، بروسٹ، پیزا اس کے کمرے تک سپلائی کرنا پڑتا۔ علی کنگال ہوگیا تھا پر آئمہ کی کارکردگی سے مطمئن تھا۔ اب تک تو آئمہ اچھی راز دار رہی تھی پر منال کے آتے ہی اس کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا اور اس نے سب کچھ منال کو بتا دیا اور منال عماد کو نہ بتائے ایسا کہاں ممکن تھا۔ علی برا پھنسا تھا ۔اب تو رخصتی کے بعد ہی اسے چین کی سانس آنی تھی۔
حماد کب سے پارلر کے باہر کھڑا تھا پر لڑکیوں کے باہرآنے کے کوئی آثار ہی نہیں تھے۔ اندرسے دلہنیں نکل کے جا رہی تھیں۔ایسے میں منہ اٹھا کے پارلر کے دروازے کو تکنا عجیب لگ رہا تھا۔ اللہ اللہ کرکے آئمہ آتی ہوئی دکھائی دی تو اس کو کچھ تسلی ہوئی ۔قریب آنے پر وہ آئمہ پہ برس پڑا۔
’’حد ہوتی ہے اتنی دیر لگادی وہاں بارات تیار کھڑی ہے۔ تم لوگوں کے میک اپ ہی نہیں ختم ہورہے۔ بھابھیاں کہاں ہیں تمہاری، ان کو ساتھ لے کے آتیں نا‘‘۔
’’ہائیں بھابھیاں! یہ کون ہیں‘‘۔ اس نے اپنے پیچھے کھڑی دونوں دلہنوں کی طرف اشارہ کیا تو حمادنے چونک کے دیکھا۔
’’ارے! میں تو پہچانا ہی نہیں، یہ تم دونوں کس خوشی میں دلہنیں بنی ہو؟‘‘
’’ہماری شادی اتنی جلدی میں ہوئی تھی کہ ہمارے برائیڈل ڈریسز بنے ہی نہیں تھے۔ اس لیے چاچی نے ہمیں یہ جوڑے دلائے ہیں‘‘۔ ہانیہ نے مسرور لہجے میں بتایا۔
’’چلو صحیح ہے جوڑے دلہنوں والے ہیں پر دوپٹہ بھی سر پہ دلہنوں کی طرح سیٹ کرالیا‘‘حماد نے گاڑی کے دروازے کھولتے ہوئے کہا ۔
’’یہ آپ کی بیگم کا ہی آئیڈیا تھا کہ جوڑے دلہن جیسے ہیں تو دوپٹہ بھی ایسے ہی سیٹ کرالیتے ہیں دلہن والی فیلنگ آئے گی‘‘۔منال کی بات پہ حماد نے ایک معنی خیز نظر ہانیہ پہ ڈالی تو وہ جھینپ کے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
بارات نکلنے کو تیار کھڑی تھی۔ خواتین بس میں بیٹھ چکی تھیں۔ علی، دولہا بنا، پھولوں سے سجی سجائی گاڑی کے پاس کھڑا تھا۔ علی کے دوستوں نے دولہا کی گاڑی کے آگے انار جلانا چاہا تو اجمل صاحب کو غصہ آگیا۔
’’کوئی خرافات نہیں ہوگی، سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھو اور یہ سب کچرا پھینکو‘‘۔
سب لڑکوں کے منہ اتر گئے۔ وہ علی کو مدد طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔ علی لاکھ اپنے باپ کے پیچھے زبان چلالے پر ان کے سامنے ان کی کسی بات سے اختلاف کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی ۔ وہ دوستوں سےنظر چرانے لگا۔
عماد، شاہ زر کے سر ہوگیا۔ ’’کیا ہے بابا اتنا خرچہ کیا ہے ہم نے ، اتنی تیاری کی ہے بارات لے کے جانے کی، ماموں منع کر رہے ہیں آپ کچھ کریں نا‘‘۔
شاہ زر نے ایک گھورتی ہوئی نظر سب لڑکوں پہ ڈالی اور آگے بڑھ کے شور مچا دیا۔
’’چلو بھئی چلو سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھو….کوئی چھچھورا پن نہیں ہوگا….بارات تمیز سے روانہ ہوگی کوئی شور شرابہ نہیں ہوگا‘‘۔
شاہ زر نے اجمل بھائی اور تمام بزرگ حضرات کو بس میں بٹھایا۔ سب لڑکے بھی منہ لٹکائے گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ علی کے سب دوست دو گاڑیوں میں آئے ہوئے تھے اور ایک گاڑی دولہا کی تھی ۔ شاہ زر نے اجمل بھائی کو تسلی دی کہ میں دولہا کی گاڑی میں بیٹھ رہا ہوں سب گاڑیاں ساتھ ساتھ ہی چلیں گی،آپ بسم اللّٰہ پڑھ کے آگے بڑھیے ۔
اجمل صاحب نے مطمئن ہوکے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا ،پیچھے تینوں کاریں بھی رینگنے لگیں۔ جیسے ہی بس گلی سے باہر نکلی شاہ زر نے دولہا کی گاڑی رکوادی۔ پیچھے دونوں کاریں بھی رک گئیں ۔
’’چلو بچو باہر نکلو۔ جو ہلہ گلہ کرنا ہے جلدی کرو صرف پندرہ منٹ ہیں تم لوگوں کے پاس‘‘۔
شاہ زر کے اعلان سے سب لڑکوں کے چہرے کی رونق لوٹ آئی ۔ عماد آکے شاہ زر سے لپٹ گیا ’’شکریہ بابا!‘‘
لڑکے پھلجڑیاں ، انار جلارہے تھے۔ تصویریں کھینچ رہے تھے۔ ایک دوسرے پہ جملے کس رہے تھے۔ کھلکھلا رہے تھے۔ علی کے چہرے پہ بھی دھنک اتری ہوئی تھی۔ شاہ زر مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے کبھی بھی اجمل بھائی کی طرح بچوں پہ رعب نہیں جمایا تھا بلکہ ہمیشہ ہی اس مقولے پہ عمل کیا تھا کہ جب بچے جوان ہو جائیں تو ان کے دوست بن جاؤ ۔ اجمل یا ان جیسے بہت سے پچھلی نسل کے حضرات اپنے جوان بچوں کے ساتھ جو سخت رویہ اختیار کرتے تھے وہ شاہ زر کو بالکل پسند نہیں تھا۔ خود چاہے اپنی جوانی میں اس سے زیادہ بگڑے ہوئے ہوں، پر نئی نسل کے سامنے اصول پسند بن جاتے ہیں۔ شاہ زر کو یاد تھا کہ یہ ہی اجمل صاحب تھے جو اپنے ابٹن کی رات کو گھر میں کسی کو بنا بتائے غائب ہوگئے تھے اور آدھی رات کو اس کے مرحوم سسر انہیں پوری دوستوں کی ٹولی کے ساتھ سینما سے پکڑ کے لائے تھے۔ اب اپنے گھر میں انہوں نے اتنی سختی رکھی ہوئی تھی کہ کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے علی کو رات دس بجے کے بعد گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔شاہ زر سوچ رہا تھا کہ موجودہ دور میں پہنچ کے بھی اگر بچے سعادت مند اور فرمانبردار ہیں تو یہ شکر کا مقام ہے۔ ایسے میں کبھی کبھی ان کی غلطیوں سے صرفِ نظر کر کے ان کی خواہش کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
پندرہ منٹ کا وقت دیا گیا تھا پر آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ لڑکوں کی مستیاں ہی ختم نہیں ہورہی تھیں۔ شاہ زر نے آگے بڑھ کے علی کو زبردستی گاڑی میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا۔
’’میں دولہا کو لے کے جارہا ہوں تم سب کا جب دل بھر جائے تب آجانا میں اس سے زیادہ دیر کرکے بھائی جان کی ڈانٹ نہیں کھا سکتا‘‘۔
دولہا کی گاڑی اسٹارٹ ہوئی تو لڑکوں کو ہوش آیا ،سب جلدی جلدی گاڑیوں میں بیٹھ کے روانہ ہوئے۔ راستے میں بار بار اجمل صاحب کی کال آرہی تھی۔
’’جی ہم پہنچ چکے تقریباً ، ہال کے قریب ہی ہیں ٹریفک میں پھنس گئے، بس پانچ منٹ‘‘۔ قومی جھوٹ بول بول کے ان کو تسلی دی جا رہی تھی۔
گاڑیاں اڑاتے ہوئے وہ لوگ ہال پہنچے تو اجمل غصہ میں آگ بگولہ تھے اونچا اونچا کچھ بول رہے تھے ۔ شاہ زر کو لگا کہ بچوں کی وجہ سے اس عمر میں ان کی شامت پکی ہے پر گاڑی سے اتر کے قریب گئے تو الگ ہی مسئلہ چل رہا تھا۔
دلہن والوں نے دولہا دلہن کی جدید طریقے سے اینٹری کرانے کا انتظام کر رکھا تھا ، ساؤنڈ سسٹم پر تیز آواز میں گانے چل رہے تھے ،کئی کیمرہ مین داخلی دروازے پہ کیمرہ فوکس کیے ہوئےتھے۔ دولہا دلہن کو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے روش پہ چلتے ہوئے اسٹیج تک جانا تھا۔ دونوں اطراف پھلجھڑیاں جلتی ہوئی چھت تک جاتیں اور نئے جوڑے پہ نقلی برف باری آسمان سے گرتی۔ زنانہ مردانہ بھی جدا نہیں تھا۔ وہ شادی ہال کم اور کسی فلم کا سیٹ زیادہ محسوس ہورہا تھا۔
اجمل صاحب جیسے روایتی بندے کے لیے یہ سب ناقابل قبول تھا۔وہ اپنے غصہ پہ بہت قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے پر آواز اونچی ہو ہی گئی تھی۔انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میرے گھر کی خواتین یوں مکس گیدرنگ میں نہیں جائیں گی۔ زنانہ مردانہ الگ کر کے بیچ میں پردہ لگایا جائے۔ نہ دولہا دولہن کی یوں بیہودہ اینٹری ہوگی اور نہ ہی غیر مرد مووی بنائیں گے۔ لڑکی والے ان کے مطالبات سن کے غصہ سے بےقابو ہوگئے۔ لڑکی کے چاچا جو انگلینڈ سے شادی میں شریک ہونے آئے تھےوہ تو اجمل صاحب سے تقریباً بھڑ ہی گئے ۔انہوں نے اجمل صاحب کو دقیانوسی ،گری ہوئی ذہنیت، چھوٹی سوچ اور جانے کیا کچھ کہا۔ جواب میں اجمل صاحب بھی خاموش کہاں رہنے والے تھے۔ شاہ زر نے دونوں کو روکنےکی بہت کوشش کی کہ کوئی مصالحت کی راہ نکالی جاسکتی ہے پر بات بہت بڑھ گئی۔ ہال کے دروازے پہ ہی ہاہا کار مچ گئی۔ دونوں طرف کے مہمان اپنی اپنی بولی بول رہے تھے۔
علی گاڑی میں سہما بیٹھا تھا۔ جتنی دعائیں یاد تھیں سب زیرِ لب پڑھ رہا تھا۔ جانے ابھی عشق کے کتنے امتحاں باقی تھے۔ دلہن کے چاچا نے طیش میں شادی توڑنے کا اعلان کردیا۔ دلہن کے باپ اور شاہ زر اپنے اپنے طرف کے مہمانوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے پر بے سود۔ شادی توڑنے کی بات سن کے تو اجمل صاحب آپے سے باہر ہی ہوگئے ۔انہوں نے للکار کے کہا ’’بلاؤ علی کو وہ ابھی تین لفظ کہہ کے جائے گا، اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ لوگ اتنے دیدہ ہوائی ہیں تو میں یہاں رشتہ جوڑنے کی سوچتا بھی نہیں‘‘۔
باپ کی بات سن کے تو علی کا دم ہی نکل گیا۔ اجمل صاحب بارات کو چیرتے ہوئے دولہا کی گاڑی کے نزدیک آئے ۔ عماد اور حماد گاڑی کے دروازے کے آگے کھڑے ہوگئے۔
’’ماموں رکیے تو سہی…بیٹھ کے بات کرلیتے ہیں۔ ر شتے اتنے آسانی سے تھوڑی ٹوٹتے ہیں‘‘۔
دونوں ان کو روک رہے تھے پر اجمل صاحب جارحانہ انداز میں گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگے۔’’باہر نکلو علی اور ابھی پوری بارات کے سامنے تین لفظ بولو‘‘۔
علی نے تو کبھی باپ کے سامنے چوں تک نہ کی تھی آج اتنے لوگوں کے سامنے باپ کو انکار کرنے کی ہمت کہاں سے لاتا۔ اس نے مدد طلب نظروں سے کسی کو تلاشنا چاہا تو اس کی نظر دائیں جانب مرکزی سڑک پہ پڑی۔ اس کی آنکھوں میں امید اتر آئی اس نے اپنے گلے سے پھولوں کے ہار اتار کے گاڑی میں پھینکے اور دوسری طرف کا دروازہ کھول کے سڑک کی طرف دوڑ لگادی۔
اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ پاتا علی سامنے سے آتی لوکل بس میں سوار ہو کے ان سب سے دور جاچکا تھا۔(جاری ہے)٭
٭٭