This Content Is Only For Subscribers
آپ ؐ انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے
آپ قرآن مجید کی آیات کے مضامین و موضوعات پر توجہ دیجیے اور اندازہ لگائیے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو اپنے اموال کے استعمال اور خرچ کرنے کا کون کون سا راستہ تجویز کرتا ہے ۔انہیں مخلوق خدا کی خدمت اور مستحقین کی امداد کے لیے کیسے توجہ دلاتا ہے ۔
ان احکام اور ترغیبات کا ایک نقشہ ہمیں عہدِ رسالت مآبؐ کے مکی دور کے تیرہ سالوں اور مدنی عہد کے دس سالوں میں نمایاں دکھائی دیتا ہے ۔حضورﷺ نے زمانہ قبل نبوت میں بھی چالیس سال تک ایک ایسے طرز عمل اور سیرت کا نمونہ پیش کیا ہے جو مخلوق خدا کی خدمت ، رفاہ عامہ کے اقدامات ، قبائل کے درمیان اصلاحی اور تعمیری کاوشوں اور مظلوموں کی داد رسی پر مشتمل ہے ۔ عفوان شباب میں حلف الفضول جیسے تاریخی معاہدے میں شرکت ، پینتیس سال کی عمر میں تعمیر کعبہ کے دوران میں حجراسودکی تنصیب کے موقع پر حکیمانہ روش اور حرب الفجار میں قبائل کو کشت و خون سے نجات دلانے کی تدابیر تو اجتماعی نوعیت کی خدمات ہیں ، انفرادی سطح پر آپؐ کا طرز عمل ایک جدا گانہ حیثیت اور اسلوب کا حامل ہے۔ آپؐ کا خاندانی پس منظر بھی رفاہِ عامہ اور خدمت خلق کی روشن مثالوں سے آراستہ ہے ۔ قصٔی بن کلاب نے ۴۴۰ء میں حجاز میں جس شہری ریاست کی بنیاد ڈالی اور پھر مختلف قبائل میں ذمہ داریاں تقسیم کیں ، اس میں بنو ہاشم کے سپرد جو خدمات کی گئیں ، وہ سراسر رفاہِ عامہ اور خدمت خلق سے متعلق ہیں ، رفادہ، سقایہ ، حجابہ اور دارا لند وہ میں ان کی خدمات معروف ہیں ۔ قریش کے علاوہ دوسرے قبائل سے مکہ میں آنے والے زائرین اور مسافر بنو ہاشم کی ان خدمات سے پورے طور پر آگاہ تھے ۔ آپؐ کے دادا عبد المطلب نے چاہ زمزم کے گم شدہ سر چشمے کو تلاش کیا اور اس کی مناسب کھدائی اور انتظام سے ایسے حوض بنوا دیے جہاں سے مقامی اور مسافر دونوں کو استفادے کے مواقع فراہم ہو ئے ۔ آپ کے جد امجد ہاشم مکہ میں قحط کے زمانے میں اونٹوں کو ذبح کرتے اور تمام حاجت مندوں کے لیے دستر خوان سجا دیتے۔
اس نوع رفاہی اور اصلاحی خدمات کا وہ ماحول تھا جس میں رسول اللہؐنے آنکھ کھولی۔ آپؐ کی امانت و دیانت اور شریفانہ طرز عمل کا یہ نتیجہ برآمد ہؤا کہ عرب کی سب سے مال دار خاتون نے آپ ؐ کو پیغام نکاح بھجوایا اور یوں معاشرتی زندگی میں اپنی عمر سے پندرہ سال بڑی اور دو مرتبہ بیوہ ہو جانے والی خاتون خدیجہؓ سے نکا ح کر لیا ۔ اس زوجیت کے باعث وہ تمام اموال بھی خدمت خلق میں صرف ہونے لگے ۔
اس صورت حال کی ایک تاریخی شہادت ہمیں آغاز نبوت میں ملتی ہے ۔ آپ ؐ غار حرا سے پیغام وحی وصول کرنے کے بعد گھبراہٹ میں گھر تشریف لاتے ہیں تو سیدہ خدیجہ ؓ نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کرنے کی اولیت کا شرف حاصل کرتی ہیں بلکہ آپؐ کی تسلی اور طمانیت کے لیے فرماتی ہیں :
’’ہرگز نہیں آپؐ مطمئن رہیے ، اللہ کی قسم ، اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی نقصان نہیں پہنچنے دے گا ، آپؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ،ناداروں کی مدد کرتے ہیں ، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والی باتوں میں مدد کرتے ہیں ‘‘۔
سیدہ خدیجہؓ الکبریٰ کے اس تاریخی بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زمانہ قبل نبوت میں خدمت خلق کے کیسے کیسے امور کی انجام دہی میں آپؐ مصروف رہتے تھے۔ اعلان نبوت کے بعد توآپ ؐ کا اصلاحی ، رفا ہی ، سماجی اور خدمت خلق کا طرز عمل ایک ہمہ گیر اثرات پیدا کرتا ہے ۔ غریبوں ، ناداروں اور غلاموں نے آگے بڑھ کر آپؐ کی شفقت کو محسوس کیا اور
مسلسل دائرہ اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے ۔ صاحب ثروت اور خوش حال صحابہؓ کے اموال غلاموں کی آزادی اور رہائی پر صرف ہونے لگے ۔ سیدہ خدیجہ ؓ کے بھی تمام اموال خدمت خلق پر صرف ہو گئے اور اب کئی کئی وقت رسول ؐ اللہ کے آنگن میں چولھاجلتا دکھائی نہ دیتا تھا ۔ آپؐ کے دعوتی مشن میں خدمت خلق کو سبقت حاصل تھی۔
مکی دور میں خدمت خلق اور رفاہ عامہ کی جس ترغیب کی عملی مثالیں دکھائی دیتی ہیں ، مدنی عہد رسالت میں اس نے ایک معاشرتی ، ادارتی اور ریاستی قالب اختیار کرلیا تھا ۔ خدمت و ایثار کے انفرادی واقعات کی نسبت اب رفاہ عامہ کے اجتماعی سطح کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں ۔ مدینہ منور ہ میں جس اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی ، اس کے تحریری دستور کا مطالعہ کیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ آپ ؐ کے پیش نظر کیسے معاشرے کا قیام تھا ۔
ہجرت کے بعد اولین اقدامات میں قبا اور مدینہ میں مساجد کی تعمیر کے ساتھ مواخات کا وہ عظیم کارنامہ سامنے آتا ہے جس میں مہاجرین کو انصار نے اپنی محبت بھری آغوش میں لے لیا ۔ انفاق فی سبیل اللہ کی تعلیمات نے اسلامی ریاست میں اوقاف کے قیام کی ایک ایسی روایت کو قائم کیا جس نے مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کے قیام کے مقاصد کو واضح کر دیا ۔ اوقاف کے قیام کی یہ تاریخی روایت تمام صدیوں میں رفاہ عامہ اور خدمت خلق کے ایک مفصل پروگرام کو پیش کرتی ہے ۔ اسلامی ریاست میں بیت المال کے قیام نے اس کی معاشی پالیسی اور رفاہی حکمت عملی کو واضح کر دیا ۔غریبوں ، ناداروں ، بیوائوں ، یتیموں ، بیماروں ، ضعیفوں ، محتاجوں اور مسافروں کے لیے امداد و تعاون کی ایسی شکلیں پیدا کردیں ، جنہیں کتاب و سنت میں مستقل عبادت کا درجہ دیا گیا ہے ۔ اسلامی ریاست اور اس کے بیت المال میں زکوٰۃ صدقات ، غنائم ، محاصل ، عشر اور فئے سے رقوم آتی تھیں اور انہیں معاشرے کی اجتماعی فلاح وبہبود کے لیے صرف کیا جاتا تھا ۔ غلاموں اور باندیوں کی آزادی کے لیے ماحول پیدا کیا گیا ۔ غلامی کا بد ترین ادارہ جو صدیوں سے ملوک و سلاطین کے مظالم کی آماج گاہ بن چکا تھا ، اب دم توڑتا دکھائی دیتا ہے ۔ آپ ؐ نے معاشرتی سطح پر انہیں اس درجہ بلند کردیا کہ ایک غلام کا نکاح عرب کے ممتاز قبائل کی دوشیزائوں سے ہو سکتا ہے ۔ مسلمانوں کے لشکر کی کمان اسامہ بن زیدؓ کے ہاتھوں میں دی جا سکتی ہے جو قریش کے ممتاز صحابہ کے مقابلہ میں ایک غلام کے صاحبزادے ہیں۔
قبولیت اسلام کی اس لہر میں جہاں حضورؐ کے ذاتی کردار ، سیرت اور اسوہ کا کمال ہے ، وہاں رفاہ عامہ اور خدمت خلق کے نظام کو بھی بہت دخل حاصل ہے ۔ اسلامی سلطنت کی حدود میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ مفتوح اقوام اگر دولت اسلام سے فیض یاب نہ ہوئیں تو ان پر جزیہ عائد کیا گیا اور اس رقم کو انہی کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا تھا۔ یہ رقوم غیر مسلموں کے صرف ان افراد سے وصول کی جاتی تھیں جو جنگ کے قابل ہوتے تھے وگرنہ بوڑھوں ، عورتوں ، بچوں ، بیماروں اور مذہبی نوعیت کی خدمات انجام دینے والوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا جاتا تھا ۔ اسلام کا مقصود ایک رفاہی، اصلاحی اور فلاحی معاشرے اور ریاست کا قیام ہے ۔ آئیے اس سلسلے میں رسول کریم ؐ کی تعلیمات مقدسہ کا ایک اجمالی جائزہ لیں۔
’’ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ، وہ نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے کسی ظالم کے حوالے کرے ۔ جو کوئی اپنے بھائی کے کام میں لگا رہے گا ، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن عیب پوشی فرمائے گا ‘‘۔(بخاری)
’’ یقینا اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو انسانی ضروریات کے لیے پیدا کیا ہے کہ ضرورت کے وقت عام لوگ اپنی ضرورت پیش کریں ، اور وہ ان کو پورا کریں ۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف رہیں گے اور امن کی زندگیاں بسر کریں گے ‘‘۔(طبرانی)
’’بہت سی قوموں کو اللہ تعالیٰ بڑی بڑی نعمتیں اس لیے مرحمت فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت کریں اور ان کی ضرورتیں پوری کریں ، خوشی سے یہ کام انجام دیتے رہیں ، نہ اس سے اکتائیں اور نہ گھبرائیں اور جب وہ لوگ خدمت خلق سے تنگ ہو کر اکتا جائیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان نعمتوں کو ان سے چھین کر دوسروں کے حوالے کردے گا ‘‘۔(طبرانی ۔ترغیب)
’’ہر مسلمان پر صدقہ ضروری ہے ۔ عرض کیا گیا کہ اگر وہ کچھ بھی نہ پائے ، فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے اپنی ذات کو نفع پہنچائے اور
صدقہ کرے۔ کہا گیا کہ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو فرمایا ، فریادی ، مظلوم اور حاجت مند کی اعانت کرے ۔ کسی نے عرض کیا کہ اگر یہ بھی ہمت نہ ہو ، فرمایا ، نیکی اور بھلائی کی بات لوگوں کو بتائے ، کہا ، اگر یہ بھی نہ کر سکے تو فرمایا ، شرارت اور تکلیف پہنچانے سے باز رہے ، یہی اس کے حق میں صدقہ ہے‘‘۔( بخاری)
’’ صحابہ کرام ؓ کسی غزوہ سے مدینہ واپس آئے تو ایک ساتھی کی بہت تعریفیں کرنے لگے کہ وہ بہت اچھا آدمی ہے ، راستے میں برابر قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہا ، جہاں کہیں ہم لوگوں نے پڑائو کر کے قیام کیا ، وہ وہیں پر کثرت سے نوافل ادا کرتا رہا ، ایسا نیک آدمی ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا، اس کے سامان کی دیکھ بھال کون کرتا تھا اور اس کی سواری کو چارہ کون کھلاتا تھا ۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم نے اس کے سامان کی نگرانی کی اور اس کی سواری کو چارہ فراہم کیا ۔آپؐ نے فرمایا ، تم اس سے بہت اچھے ہو کیونکہ تم لوگوں نے خدمت کی ہے ‘‘۔( سنن ابو دائود)
’’ سب اعمال سے بہتر عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو خوش کرو یعنی اگر وہ برہنہ یا ننگا ہے تو اس کی ستر پوشی کر دو ، اگر بھوکا ہے تو پیٹ بھر کر کھانا دوا ، اگر پیاسا ہے تو پانی پلادو، اور اگر کسی کا محتاج اور ضرورت مند ہے تو اس کی حاجت پوری کر دو ‘‘۔( طبرانی ، ترغیب)
’’ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول ؐ اللہ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: تم کھانا کھلائو اور سلام کرو، ہر اس شخص کو جسے تم پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے‘‘۔(بخاری)
’’ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : بیمار کی عیادت کرو، بھوکے کو کھانا کھلائو اور قیدی کی رہائی کا سامان کرو‘‘۔(بخاری)
’’ حضوؐر کا ارشاد ہے کہ ایک شخص کسی وقت سفر میں تھا اور اس نے راہ میں کانٹے دار شاخ دیکھی تو کہا ! اللہ کی قسم میں مسلمانوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے اسے ضرور ہٹائوں گا ،( اس عمل خیر کے باعث ) وہ جنت میں داخل کیا گیا ۔ صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس فعل کو پسند کیا اور اس کی بخشش کردی‘‘۔ (صحیح مسلم)
’’ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، ان میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کی عیال اور کنبے کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو ‘‘۔(مجمع الزوائد)
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ جا رہا تھا ، آپؐ نجران کی بنی ہوئی موٹے کناروں والی چادر اوڑھے ہوئے تھے ، راہ میں ایک بدو ملا ، اس نے آپؐ کی چادر کو پکڑا اور زور سے کھینچا ، جس کے باعث آپؐ کی گردن پر نشان پڑ گیا ، اس نے کہا ، اے محمدؐ! مجھے بیت المال سے کچھ دلوائیے ۔ اتنی زور سے چادر کھینچنے پر آپؐ نے برا نہیں منایا ، بلکہ آپؐ مسکرائے اور بیت المال سے کچھ دینے کا حکم صادر فرمایا ‘‘۔(سنن ابو دائود)
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : ایک مومن کی مثال دوسرے مسلمان کے لیے ایسے ہے جیسے دیوار کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ‘‘۔ (صحیح بخاری)
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ مومن کی مثال باہم محبت کرنے ، ایک دوسرے پر رحم کھانے اور مہر بانی کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے ، جب اس کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف اور بخار میں مبتلا ہو کر اس کا ساتھ دیتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری)
’’حضرت ابو ہریرہؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : لونڈی اور غلام تمہارے بھائی ہیں ، انہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کیا ہے ، پس جس کو اللہ نے تم میں سے جس کے قبضہ میں دے رکھا ہو تو اس کو چاہیے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی کپڑا پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اس پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور وہ اسے انجام نہ دے سکے تو اس کا م میں اس کی مدد کرے ‘‘۔(بخاری)
’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا : اے بنی آدم ! میں بیمار ہؤا تو تم نے میری عیادت نہیں کی ، وہ عرض کرے گا : اے میرے پروردگار ، آپ تو سارے جہان کے پروردگار ہیں ، میں تیری عیادت کیسے کرتا؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے خبر نہ ہوئی کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہؤا مگر تو نے اس کی
عیادت نہیں کی ، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا‘‘۔( صحیح مسلم)
’’ حضرت عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور اپنے دادا سے روایت کی کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کیا اور ہمارے بڑوں کی بزرگی اور شرف کا لحاظ نہیں رکھا‘‘۔( ترمذی)
’’ حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : جس شخص کو اس بات سے خوشی ہو کہ اللہ تعالیٰ(قیامت کے دن ) اسے اپنے سائے میں جگہ دے ، جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا تو اسے چاہیے کہ تنگ دست (مقروض) سے نرمی برتے یا اس سے قرض ساقط کر دے ‘‘۔( المعجم الکبیر)
’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : بیوہ اور مسکین کی ( خدمت کے لیے ) تگ و دو کرنے والا ( نیکی میں) اس شخص کی طرح ہے جو رات بھر ( اللہ کے حضور ) کھڑا رہتا ہے اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ( مسلسل) روزے رکھے جاتا ہے اور ناغہ نہیں کرتا‘‘۔(بخاری)
’’ حضرت سھل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا (شخص) جنت میں اس طرح جائیں گے اور آپؐ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا اور ان دونوں کے درمیان فاصلہ دیا ‘‘۔( بخاری)
’’ حضرت انسؓ نے بیان کیا ہے کہ میں حضورؐ کی خدمت میں کئی سال رہا ۔ آپؐ نے نہ تو کبھی مجھے گالی دی ، نہ کبھی مارا اور نہ ڈانٹا ڈپٹا اور نہ چہرے پر ناراضی ظاہر کی ۔ جب مجھے کسی کام کا حکم دیا اور میں نے سستی اختیار کی تو اس پر میری گرفت نہیں کی ، اگر آپؐ کے گھر والوں میں سے کوئی مجھے ڈانٹتا تو فرماتے ، اسے چھوڑ و کیوں کہ اگر تقدیر میں لکھا ہوتا تو یہ ہو جاتا ‘‘۔(دلائل النبوۃ)
رفاہِ عامہ اور خدمت خلق کے حوالے سے بیسیوں پہلوئوں پر سینکڑوں احادیث اور تعلیمات نبوی ملتی ہیں ہم نے صرف چند جوامع الکلم کو پیش کیا ہے ، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسوۂ رسولؐ میں رفاہ عامہ اور خدمت خلق کی اہمیت کیا ہے ۔
٭…٭…٭