زندگی کبھی کبھی اتنی بے رحم ہو جاتی ہے کہ انسان کو اپنی جگہ چھوڑ کر ایک اجنبی دنیا میں بسنا پڑتا ہے اور اس نئے جہان میں قید ہونا ایک ایسی اذیت ہے جو کسی بھی انسان کو مکمل طورپر توڑ پھوڑ سکتی ہے ۔ ایسی ہی ان گنت دل خراش داستانیں اس جیل کی چار دیواری میں جنم لیتی ہیں اوریہیں دفن ہوجاتی ہیں ۔ یہ ان عورتوں کی کہانیاں ہیں جوکسی چھوڑے یا بڑے جرم کی مرتکب ہو کر اپنے گھروں سے دور مقید ہیں۔
اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں ان عورتوں نے بھی خواب دیکھے تھے ۔ محبت کے ، خوشبوئوں کے ، ہنستے بستے خاندان کے ….وہ بھی اپنے گھروں میں خوشیوں کے دیے جلاتی تھیں ۔ بچوں کی کلکاریاں ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتی تھیں ۔ شوہرکے ساتھ زندگی کی راہوں پرچلتی تھیں مگر پھرایک دن ایسا آیا کہ ان کی زندگی میں اندھیرا چھا گیا ۔یہ گھٹائیں کسی غلط فہمی ،جرم یا کسی حادثے کا نتیجہ تھیں مگراس اندھیرے نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
ہم یعنی ویمن ایڈ ٹرسٹ والے ان قیدی خواتین کی اصلاح اوران کے لیے زندگی کی خوشیوں کے راستے کھولنے کی حتی المقدور کوشش کر رہے تھے ۔
اس روز جیل پہنچ کر گاڑی نے ہمیں باہر ہی جلد اتاردیا اندر جیل کے گیٹ کھلنے تک ہم گاڑی کے اندر ہی بیٹھے رہے تھے باہردھوپ سے بچنے کے لیے ایک شیڈ تھا جس کے نیچے آکر ہم لوگ کھڑے ہو گئے ۔ ہماری گروپ ہیڈ اسما خان نے ہمیں بتایا کہ یہ انتظارگاہ کے اوپر بنے شیڈ کو ویمن ایڈ ٹرسٹ والوں نے بنوایا ہے تاکہ قیدیوں کے لواحقین کو انتظارکے لیے آرام دہ سایہ دار جگہ میسرہو سکے ۔یہ سن کر مجھے دل میں ایک گو نہ اطمینان محسوس ہؤا کہ میں ایک درد دل رکھنے والی ٹیم کے ساتھ کام کررہی ہوں۔
پچھلی بار جب ہم لوگ یہاں آئے تھے تو ایک کمرے میں جہاں ہم لوگ اپنا کلینک لگاتے تھے وہاں بیٹھ کرہم نے تمام حالات کاجائزہ لیا۔قیدی خواتین کی بہتری کے لیے کرنے والے اقدامات پر غور کیا گیا اورقیدی خواتین کے ساتھ ان کے نو مولود بچوں کی بہتر پرورش ، ان کے لیے آرام دہ بستروں کی سہولت ، ان کے لیے دودھ، پیمپر ، ادویات پیڈ یا ڈاکٹرز کے علاوہ خواتین کےماہوراری کے مسائل ، پیڈز کی فراہمی حاملہ عورتوں کے علاج معالجے اورزچگی کے دوران بہتر خوراک ، میڈیکل چیک اپ ، آرام کی فراہمی اورصفائی ستھرائی کےفائدوں کے بارے میں خواتین کو آگاہی دینا شامل تھا۔
ان قیدی عورتوں کا حال بتانے کے لیے الفاظ کم ہیں ۔ زنداں کی دیواریں ان کے آنسوئوں کی گواہ ہیں جوان کے دکھ اوردرد کی کہانیاں سناتی تھیں ۔ ان کی بہتری کے لیے کون سے اقدامات پہلے کرنے چاہئیں یہ ہمیں فیصلہ کرنا تھا۔
ان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی تنہائی تھا اپنے گھراپنے پیاروں سے دوری نے ان کی زندگیوں کو بے رنگ بنا دیا تھا ۔ جب دل میں خوشی نہ ہو تو ہرچیز بے معنی دکھائی دیتی ہے ۔ بچوں کی یاد ، ماں باپ کی فکر ، شوہر کی محبت ، سب کچھ ان کے دل میں انگارہ بن جاتا ہے ۔ان کی آنکھوں میں اپنے خاندان کے ساتھ گزارے ہوئے وہ خوشیوں کے لمحات گزرتے ہیں اور اپنے جرائم پرسوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ۔
قید خانوں کی سختیاں ایک نئے امتحان کی شکل میں سامنے آتی ہیں ۔وہاں کی سردی ، گرمی ، گندگی ، بدبو سب کچھ ان کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ انہیں وہاں پرملنے والا کھانا ،پانی سب کچھ نہ صرف کم مقدار میں ہوتا ہے بلکہ اکثر غیرمعیاری بھی ہوتا ہے ۔
قیدِ تنہائی کودورکرنا سب سے اہم ترجیح تھی۔ قیدی عورتوں کا اپنے گھر والوں سے مستقل رابطہ ان کی زندگی کوکسی نہ کسی طرح پر سکون بنا سکتا ہے ۔
صحت کے مسائل سے نپٹنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس طرح تعلیمی اداروں فیکٹریوں اوربڑے اداروں میں ہر وقت فرسٹ ایڈ کی فراہمی اور طبی سہولت کے لیے ایک ڈاکٹرہمہ وقت موجود ہوتا ہے اسی طرح یہاں بھی مستقل بنیادوں پر ڈاکٹرکی فراہمی لازمی ہونی چاہیے تھی۔
اکثر عورتیں جیل میں ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ ان کے لیے میڈیکل ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ ماہرنفسیات کی بھی ضرورت ہوتی ہے جوان کی کونسلنگ کر ے اوران کے مسائل سن کر انہیں درست سمت میں آگاہی دے ۔ درس و تدریس ان کے اندر کے احساسِ جرم کو کم کرنے کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ۔ نفسیاتی معالج اور دینی رہنما سے ملاقات کے بعد ان کے اندر امید پیدا ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی انہیں یہاں سے رہائی ملے گی اور توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف کردے گا۔
ان کی نفسیاتی کونسلنگ انہیں جیل میں بہتر رویے کی نوید سناتی ہے وہ یہاں سے کارآمد اورمفید شہری بن کر نکلنا چاہتی ہیں تاکہ باہرآکر وہ دوسروں پربوجھ نہ بنیں بلکہ مفید اوربا وقار زندگی گزار سکیں ۔انہیں ہنرمند بنانے کے لیے ماہرخانہ داری ، دستکاری ، گھریلو صنعتیں سکھانے کے لیے بہترین استاد اوررضا کار بھی درکارہوتے ہیں۔
ننھے بچے جو اپنی مائوں کے ساتھ بے گناہ جیل کی چار دیواری میں قید تھیں ان کی اور ان کی مائوں کی پڑھائی لکھائی کے لیے اساتذہ کی ضرورت ہے جو انہیں لکھنا پڑھنا سکھائیں اور پیشہ وارانہ کورسز کروائے جائیں جس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہو۔
ان قیدی خواتین کوڈپریشن سے نکالنے کے لیے معاشرتی رابطے یعنی گھر والوں سے فون پراورملاقاتوں کے ذریعے روابط رکھے جائیں اورتفریحی سرگرمیاں بھی کسی حد تک جیل میں ہوں ، قرآن و حدیث سے انہیں جوڑا جائے تاکہ جرم سے نفرت پیدا ہو۔
ان عورتوں کو ان کے قانون حقوق کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے ۔قانونی مدد فراہم کرنا ان کی اصلاح کا حصہ ہےمعمولی مقدمات میں قید خواتین برسوں جیل میں گزار دیتی ہیں کیونکہ ان کی ضمانت کا بندو بست نہیں ہوتا ۔ وکلاء اور قانونی ماہرین کے ذریعے ان کو ان کے کیسز کے بارے میں رہنمائی فراہم کی جا سکتی ہے ۔
قیدیوں کے لیے کرنے والے کام بہت زیادہ تھا اور ویمن ایڈ ٹرسٹ والوں کے پاس وسائل محدود تھے یہ سبھی کام اگر حکومتی نگرانی اور ان کی جانب سے کیے جائیں توہماری جیلیں دنیا کی مثالی جیلیں کہلائیں ۔
سب سے پہلے ہمیں اپنی اسلامی تاریخ سے رہنمائی لینی چاہیے کہ ہمارے پیارے نبی ؐ کے دور میں قیدیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا تھا ۔ ان کے کھانے ، پینے اوررہائش کا کیسا بندو بست تھا ، جوہمارے لیے بہترین مثال ہیں۔
ہمارے دین نے قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ظلم و زیادتی نہ کرنے کی تلقین کی ہے ۔ ان کو ادب و آداب سکھانا ، تعلیم وتربیت کرنا ، ضرورت سے زیادہ اور بے وقت کام نہ لینا ، کھانے پینے اور عبادات کے لیے فرصت فراہم کرنا بلکہ اپنے بھائی جیسا سلوک کرنا ، قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی سخت ممانت ہے کیونکہ جرائم تو بہر حال انسانوں سے ہی سرزد ہوتے ہیں جانوروں سے نہیں ، لہٰذا ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک رکھنا سخت منع ہے ۔انسانیت کا احترام لازمی ہے انسان ہونے کے ناتے ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ان کا حق ہے۔پیٹ بھر کرکھانا ، پیاس بجھانے کے لیے پانی ،تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا مہیا کرنا قیدیوں کو بھوکا پیاسا رکھنا ، لباس کا خیال نہ کرنا منع ہے ۔
حضورؐ نے صحابہ کرام کو قیدیوں کے بارے میں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا ’’ انہیں خوش اسلوبی سے اورحسن سلوک سے قید کرو ۔ انہیں آرام کا موقع دو کھلائو پلائو ،تلوار اوراس دن کی گرمی دونوں کو یکجا نہ کرو (الموسوعۃالتفہیم(۹۸،۶)
جن دنوں بنو قرنطیہ کے لوگ قید کیے گئے تھے ان دنوں سخت گرمی تھی آپؐ نے بطورخاص دن کی گرمی اوردھوپ میں قیلولہ کے لیے مواقع فراہم کرنے کی تاکید فرمائی ۔قیدیوں کو ٹارچر کرنا ، الٹکا لٹکانا ،تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں قید کرنا ، الیکٹرک شاک لگانا ، ان پر کتے چھوڑنا ، سخت ٹھنڈک میں برف کی سلوں پر لٹانا ، حد سے زیادہ مار پیٹ کرنا ، مسلسل جاگتے رہنے پرمجبور کرنا ، ان کی جائے رہائش میں تیز روشنی یا تیز آواز کی اذیت دینا ، بے لباس کر کے جسم پر رولر پھیرنا ، شرعاً درست نہیں۔ چوری، قتل و غارت گری ، زنا کاری ، شراب نوشی،ظلم و زیادتی ، دہشت گردی اس طرح کے دیگر جرائم اسلام کی نظر میں نہایت قبیح اور قابل مذمت ہیں مگران مجرموں کے لیے بھی اسلام نے حدود تلقین کی ہیں جس میں سب سے بڑھ کر انسانیت کا احترام ہے ہر وہ سزا جس سے آدمیت کی توہین ہوتی ہو جائز نہیں۔
کیا مسلمان ممالک میں اب تک کوئی ایسی جیل تیار ہوئی ہے جس میں اسلامی قوانین کے مطابق عمل کیا جاتا ہو اورانسان کوانسان سمجھا جاتا ہو ؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔
ہمارے رب اورنبی پاکؐ کے احکامات پر عمل آج غیر مسلم کر رہے ہیں آسٹریا میں ایک ایسی جیل بنائی گئی ہے جس کا نام’’ جسٹس سینٹر لیوبین‘‘ ہے ۔اس جیل میں فائیواسٹارسہولتیں میسر ہیں قیدیوں کو الگ الگ کمرےدیے گئے ہیں جس کے ساتھ اٹیج باتھ روم ، ٹی وی ، میوزک وغیرہ کی سہولت بھی موجود ہے ۔جیل میں فراہم کی جانے والی خوراک بھی اسی معیار کی ہے ۔قیدیوں کے لیے علاج کے لیے بہترین سہولتیں میسر ہیں ۔ ایسی جیل بنانے کا مقصد آئندہ زندگی کے لیے بہتر تیاری کا عزم صمیم اورجیل سے باہر آنے کے بعد دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منفعت بخش ثابت ہونے کی کوشش کرنا ہے ۔
اسی طرح کی ایک مثال ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے شہر جے پورکی سنگائر جیل ہے۔اس جیل میں ان قیدیوںکولایا جاتا ہےجواپنی سزا کادوتہائی حصہ عام جیلوں میں گزار چکے ہوتے ہیں اس جیل میں نہ تو چاردیواری ہے اور نہ ہی کوئی سلاخیں اورسکیورٹی گارڈ۔ہرقیدی کوایک کمرے کا گھر دیا جاتا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ہر قیدی نے محنت کر کے خود کما کر اپنے لیے سہولتیں لینی ہوتی ہیں جیسا کہ عام زندگی میں ہوتا ہے ۔ ہر قیدی کہیں نہ کہیں ملازمت کرتا ہے یا محنت مزدوری کر کے اپنے کھانے پینے رہنے بستر ، کپڑے علاج معالجے کی ہرضرورت اسے خود ہی پوری کرنی ہوتی ہے ۔اس جیل میں رہنے والوں کوہرروز شام کو عام قیدیوں کی طرح حاضری لگوانی پڑتی ہے ۔یہ لوگ سکیورٹی گارڈ ، بس ڈرائیور، اکائونٹنٹ، مزدور ، فیکٹری ملازم غرض ہر طرح کے کام کر کے اپنا گزارا کرتے ہیں۔
یہ بات باعث حیرت ہےکہ یہاں قتل جیسے خطر ناک جرائم میں ملوث قیدی آزادانہ گھوم پھر کراپنی قید کا ٹ رہے ہیں ۔
ان دومثالوں میں یہ بات مشترک ہے کہ اتنی سہولتیں میسر ہونے کے باوجود وہ آزاد نہیں ہیں ۔جیل ہے کیا ؟ ظاہرہے ایک قید خانہ ہے۔جہاں قیدی کوایک چاردیواری کے اندر رہنا پڑتا ہے ۔ باہر کی دنیا کی رنگینیاں ، آسائشیں ،آزادیاں ، میل ملاقات ، گھریلو زندگی کا سکون غرض ہر طرح کی راحتوں کے دروازے قیدی پربند کر دیے جاتے ہیں ، اسے یہ احساس دلانے کے لیے کہ اس نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے کوئی ایسا برا کام کیا ہےجس وجہ سے اسے کچھ عرصہ تک معاشرے سے الگ تھلگ رہنا پڑے گا۔
یہ بات اہم ہےکہ جب قیدی جیل میں آئے تو اس کا نفسیاتی معائنہ کیا جائے ۔ اس کے جرم کی وجوہات تلاش کی جائیں اور اس سزا یافتہ قیدی کی اصلاح کی کوشش کی جائے ۔ اسے اس قید کے عرصے میں کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جائے تاکہ وہ مفید شہری بن کر جیل سے باہر نکلے نہ کہ اسے سزائیں دے کر ٹارچرکرکے اسے پکا مجرم بنا دیا جائے۔
میں اب تک جن قیدی خواتین سے مل چکی تھی سوائے ایک دوخواتین کے سبھی میں ایک قدرِ مشترک تھی ’’ غربت‘‘! سبھی کا غریب گھرانوں سے تعلق تھا ۔ سبھی کم تعلیم یافتہ اورزیادہ تر ناخواندہ تھیں ۔دین کی قطعاً کوئی سوجھ بوجھ نہ تھی نہ ہی نماز روزے کے بارے میں خاص معلومات تھیں اور بہت سی ایسی خواتین بھی موجود تھیں جو بے گناہ جیلوں میں تھیں ۔ ان کے گھر کے کسی ایک فرد نے جرم کیا تھا اوراس کی پاداش میں قانون کے رکھوالے پورے خاندان کوجیل میں لے آئے تھے ، کئی برسوں سے بچوں سمیت جیل میں رہ رہی تھیں کیونکہ ان کی ضمانت کا کوئی بندو بست نہیں تھا ۔ نیز گنجائش سے زیادہ قیدیوں کوایک ہی کوٹھڑی میں رکھنا کہ وہ سوتے وقت کروٹ بھی نہ لے سکیں سرا سر ظلم و جبر تھا۔
اب اس غریب شخص کوبھیجو گے جیل کیوں
غربت کی جس نے کاٹ لی پاداش جیب میں
اگر معاشرےمیں غربت اورجہالت کودورکردیا جائے تو پچاس مفید جرائم کم ہوجائیں اور اگر قانون کی بالا دستی ہو تواسی مفید جرم کی شرح میں کمی ہوسکتی ہے۔
یہ ہمارا جیل یاترا کا آخری روز تھا ۔ ہمارے تمام ارادے اورپروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے جب ہمیں معلوم ہؤا کہ جیل حکام نے حکومتی سطح پر جیلوں میں بنیادی سہولیات ، فلاحی کام اوراصلاحی پروگرام شروع کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے ۔اب قیدیوں کے لیے اچھا اورمعیاری کھانا ، آرام دہ بستروں خصوصاً بچوں کے لیے بےبی کاٹ وغیرہ مہیا کرنا طبی سہولیات کے لیے جیل کی عمارت کے ساتھ قیدیوں کے لیے ایک ہسپتال کی تعمیر، ان کی اصلاح کے لیے درس و تدریس کا انتظام جیسے اقدامات کا بیڑہ اٹھا لیا گیا ہے ۔ نیز قیدیوں کی ضمانت کے لیے وکلاء کا بھی انتظام کرلیا گیا تھا یہ تمام اقدامات نہایت خوش آئند تھے ۔ ظاہر ہے ویمن ایڈ ٹرسٹ والوں کی خدمات کی اب ضرورت نہ رہی تھی۔
میں جاننا چاہتی ہوں کہ گزشتہ بیس سالوں میں کوٹ لکھپت جیل میں کتنا سدھارآیا ہے اوران تمام اقدامات پر کس حد تک عملدرآمد ہؤا ہے کیا انہیں بنیادی سہولیات دی جا رہی ہیں ؟ ان کا کھانا پینا لباس کس حد تک معیاری ہے ؟ ان کی صحت و صفائی کس حد تک درست ہوچکی ہے ؟ کیا ان کی اصلاح کے پروگراموں سے کسی قیدی خاتون کی دینی نفسیاتی اورذہنی تربیت ہوئی ہے ؟ کیا کوئی قیدی خاتون اپنے ضمیر سے یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ میں پابند ِ سلاسل کیوں ہوں؟
٭٭٭