This Content Is Only For Subscribers
بتول سے تین چار ماہ سے غائب ہوں. بہت سے لوگ لاپتہ ہونے کی وجوہات جانتے ہیں تو بہت سے لاعلم بھی ہیں۔یادش بخیر سات فروری 2020ء کو مزنہ اور تیرہ فروری 2020ء کو محسنہ کی رخصتی طے پائی۔ اللہ کے کرم سے سب کام بخیر وعافیت ہوئے ۔دھند اور شدید بارش کی شادیوں کا رج کے سواد چکھ لیا۔
شادی کے بعد اگلا مرحلہ خانہ آبادی ہی ہوتا ہے اس لیے قدرت نے محسنہ کی طرف سے یہ خوشخبری بھی جلد سنادی مگر عملی صورت میں خوشخبری کے ظہور سے پہلے کرونا کی دوسری لہر کا شکار ہوگئی ۔اس کا تفصیلی ذکر بتول کے گزشتہ سال کے کسی شمارے میں موجود ہے….. بخار ،خشک کھانسی اور سانس لینا محال!
ڈاکٹر نے جتنے ٹیسٹ لکھے سب کروائے ۔لوگوں کا خون سفید ہوتا ہے، ہمارا پھیپھڑا سفید ہونا شروع ہوچکا تھا۔ڈاکٹر نے خوب گیان دھیان سے رپورٹس ملاحظہ فرمائیں۔
’’آپ کا کرونا symptoms ٹیسٹ تو پوزیٹو ہے اور آپ دو ہفتوں کے لیے آئیسو لیٹ ہوجائیں…..مگر آپ کو کرونا نہیں ہے‘‘۔
ساری تکلیف بھگتنے کے دوران ہم ڈاکٹر کے اسی فقرے کی شرح ڈھونڈتے رہے کہ کرونا سمپ ٹمز ٹیسٹ پوزیٹوہے مگر کرونا نہیں ہے۔ہاہ! کیا مطلب ہے …..بخدا آج تک نہیں سمجھ پائے کہ ان دو کے بیچ میں کیا فرق تھا ۔علاج بھی کرونا کا ہؤا علامتیں بھی موجود، گوشہ تنہائی کے بھی مزے لوٹ لیے ۔مگر کیسا کرونا تھا جو ہو کےبھی نہیں ہؤا۔
خیر اس ہونے یا نہ ہونے کو دفع ماریں، محسنہ بیگم گوجرہ آچکی تھی اور بیماری کے اثرات نے بھی خاصا نڈھال کر رکھا تھا۔ مومنہ بھی اس کی کاؤنسلنگ کے ساتھ ساتھ اس کی دوسراہٹ کے لیے پہنچ چکی تھی اور مجھے بار بار تسلی دے رہی تھی کہ امی آپ پریشان نہ ہوں میں آگئی ہوں ۔
پہلی سیڑھی پر قدم رکھنا مشکل ہوتا ہے اگلی سیڑھیاں تو بچہ خود بخود چڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح پہلےبچے کی پیدائش اس لیے کار دشوار ہوتی ہے کہ ماں لاعلم ہوتی ہے ۔باقی بچوں کی مرتبہ بھلے تکلیف زیادہ ہو مگر علم ہونے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیچاری ماں خود ہی اپنی کاؤنسلنگ کرتی رہتی ہے ۔تو محسنہ بیگم ماں کی دعائوں اور اللہ کے فضل سے انتیس نومبر کو اماں جان بن گئیں۔اللہ نے کرم کیا اور بیٹا عطا کیا۔اس کی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، بچے کو نرسری سے نانی کے حوالے کر دیا گیا جبکہ محسنہ کو انڈر اوبزرویشن رکھا گیا۔ اس کی بڑی بہن مومنہ جو خیر سے اس کی جیٹھانی بھی ہے اس کے پاس لیبرروم میں ہی رہی ۔بچہ نانی کی گود میں دے کر ہمیں کمرے میں شفٹ کردیاگیا تھا۔ میرے داماد حافظ خبیب یوسف جو کہ نومولود کے نئےنئے ابا جان تھے ،میرے ساتھ کمرے میں تھے ۔میری ایٹی نائن عائشہ مہدیہ بھی میرے پاس تھیں اور خلاف توقع بالکل چپ ،صم بکم بنی بیٹھی تھی۔اپنے چھوٹے بھائی کی پیدائش پر اس نے جس خوشی اور حیرت کا اظہار کیا تھا ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔
کچھ ہی دیر کے بعد پروفیسر اشتیاق صاحب اور میرے بڑے داماد بھی کمرے میں پہنچ گئے۔عائشہ مہدیہ نے جونہی باپ کو اندر داخل ہوتے دیکھا فوری پرجوش ہو کر بولی۔
’’بابایہ دیکھیں،نانی کے بے بی ہؤا ہے!‘‘
اس فقرے سے اس کی پراسرار خاموشی کا بھانڈہ پھوٹ گیا ۔ سب نے اس فقرے سے بقدر ظرف لطف حاصل کیا ۔پھر جب محسنہ کمرے میں آئی تو بیچاری پر معاملہ کھلا۔
محسنہ رخصت ہوئیں تو مزنہ کی بھی خانہ آبادی کی شروعات تھیں۔ایسے میں مجھے سچ مچ کے کرونا نے دبوچ لیا ۔کھانسی نہ نزلہ، جس تھکاوٹ کو’’ محفوظ خاندان مستحکم معاشرہ‘‘ اور پھر’’ استقبال رمضان‘‘ کے پے در پے پروگراموں کا نتیجہ سمجھ رہی تھی اور جسم میں درد بخار کی کیفیت میں پین کلر لے کر پھر سے جت جاتی تھی اسی عالم میں ایس او پیز کے تحت
یکم رمضان المبارک سے دورہ قرآن شروع ہوگیا ۔پہلا روزہ دورہ قرآن کا پہلا دن اور ماسک کے ساتھ…..بار بار دم گھٹنے کی کیفیت ہوتی ۔اپنے آپ کو ’’ماسک بری بلا ہے‘‘کہہ کے تسلی دیتی رہی تا آنکہ تھرمامیٹر نے ایک سو تین بخار ظاہر کردیا۔ کمر درد اور ٹانگوں میں سخت تکلیف۔اس کا نتیجہ کرونا پوزیٹو کی صورت میں سامنے آیا۔
تب سمجھ میں یہ بات آئی کہ کرونا کی دوسری لہر میں کرونا کا تو ٹیسٹ ہی نہیں کروایا تھا، ڈاکٹر بیچارے نے پھر یہی کہنا تھا۔ خیر علاج معالجے کے باوجود پندرہ فیصد متاثر پھیپھڑے سی ٹی سکین میں چالیس فیصد متاثر نظر آئے ۔دورہ قرآن بھی چھوٹ چکا تھا خون کو پتلا کرنے والی ادویات کے علاوہ سٹیرائڈز بھی جاری تھیں۔ مومنہ اپنے بچوں کو گھر پہ خالہ اور اللہ کے سپرد کرنے کے بعد گوجرہ پہنچ چکی تھی۔آکسیجن سلنڈر بھی دل دہلانے کو اگیا تھا ۔یہ زندگی کا ایسا مرحلہ تھا جس کے متعلق آپ آرام سےزندگی کے متعلق ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘کہہ سکتے ہیں۔
حالت جوں جوں بگڑتی جارہی تھی دعاؤں کا کوٹہ بڑھتا جارہا تھا ۔ میمونہ حمزہ نے حال دریافت کیا اور صورت حال معلوم ہونے پر گروپ میں ڈال دیا۔سوشل میڈیا پر جاری خبر کے لیے بریکنگ نیوز کی بجائے جنگل کی آگ کا لفظ زیادہ مناسب ہوگا…..خبر ایک گروپ سے دوسرے پھر تیسرے یہاں تک کہ ہر جگہ پہنچ گئی۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ موبائل فون کہاں ہے کیا حالات چل رہے ہیں،دنیا کہیں گول سے چوکور تو نہیں ہو گئی…..اس لیے کہ مختصر طور پر تجزیہ کروں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کرونا خطرناک ہو یا نہ ہو اس کا علاج بہت جان لیوا ہے ۔میرا بلڈ پریشر تو پہلے ہی کم تھا، خون پہلے سے پتلا تھا، جب معالجوں نے خون کو مزید پتلا کرنے کی ادویات تجویز کیں تو مرے کو مارے شاہ مدار ،مرے پہ سو درے …..جیسے محاوروں کی سمجھ آگئی جیسے یہ میری ترجمانی کے لیے ہی بنے تھے۔ ادویات کو کیا معلوم کہ مریضہ کا خون پہلے ہی پتلا ہے، انہوں نے اپنا کام کیا اور سیوریج کی نالیوں کی طرح خون ناک ،منہ پیشاب یہاں تک کہ اجابت میں سے بھی بہہ نکلا ۔تب زندگی موت کے بہت سے اسرارورموز منکشف ہوئے۔رت جگے کے بعد دن طلوع ہوتا تو صبح کے وقت میں سکون ٹھہراؤ محسوس ہوتا ۔میرے کمرے کی کھڑکی سے صبح کی روشنی بہت سہج سہج نمودار ہوتی، کسی جلد بازی یا شور شرابے کے بغیر،کبھی تو صبح سرگوشیاں کرتی محسوس ہوتی …..صبح کے وقت میں عجیب سا ملکوتی حسن محسوس ہوتا ۔
خیر !مومنہ بیچاری ہمہ وقت سینئرز ڈاکٹروں سے ادویات میں ردوبدل کا مشورہ کرتی ،آکسیجن کب کم کرنا ہے کب اتارنا ہے ،اینٹی بائیوٹک ادویات اور انجکشن کے بعد اینٹی وائرل انجکشن بھی شروع ہوچکے تھے۔پنجابی زبان میں ’’تھبہ بھر بھر ‘‘کے دعائوں کے پیغامات موصول ہوتے ۔حرم کے طواف ،مسجد نبوی میں ریاض الجنہ سے لے کے چترال تک کی مساجد میں ختم قرآن کے موقع پر دعائیں کی گئیں۔ لیکن سچ بات ہے جو دعائیں ماں سے جدا ہوئے موسیٰ،سلمان اور عائشہ نے کیں ، لگتا ہےوہی پہلے عرش تک پہنچی ہوں گی۔اتنے ماہ گزرنے کے بعد اب بھی تین سالہ موسیٰ کال ملاتے ہی پہلا سوال یہ کرتاہے’’نانی ٹھیک ہیں …..مجھے بتائو نانی ٹھیک ہیں ناں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے نانی کوٹھیک کردیا ۔لیکن اب زندگی نارمل نہیں تھی ۔ گزشتہ دنوں کا خوف اعصاب پر اس طرح سوار ہؤا کہ دو قدم چلنے کے قابل ہوئی تو سب سے پہلے اپنا کمرہ چھوڑ کر بچوں کے کمرے میں شفٹ ہو گئی ۔ نفسیاتی طور پر اپنے کمرے میں دم مزید گھٹتا محسوس ہوتا ۔بس لیٹ کر یہ سوچتی کہ جو اپنے قدموں پر چل رہے ہیں، خود سے رکوع میں چلے جاتے ہیں، وضو کرنے کے لیے کسی کے محتاج نہیں وہ کس قدر خوش قسمت لوگ ہیں …..چلنا تو دور کی بات اپنی سوچوں کو لفظوں میں ڈھالنا بھی ناممکن تھا …..میری سب دوست احباب اللہ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے، انہوں نے خالی دعائوں کا کوٹہ بھیجنے کی بجائے میری خبر گیری کے ساتھ کبھی تلبینہ،کبھی نمکین دلیہ، کبھی یخنی کی صورت میں دوستی کا رشتہ مزید مضبوط کیا …..تب مجھے ایک اور چیز کی بھی سمجھ آئی کہ یہ دعائیں اور محبتیں بھی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں۔مجھے اپنے والد صاحب کا وصیت نامہ یاد آیا کہ ’’یہ بندہ ناچیز کسی کو اپنے لیے دعا کا نہیں کہتا، کوئی کردے تو اس کا احسان ہے،صرف اس لیے نہیں کہتا کہ اگر وہ میرے لیے دعا نہ کرسکے تو روز حشر شرمسار نہ ہو ‘‘۔
پھر انصار مدینہ کا دکھ یاد آیاجب انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار مدینہ تو مال و دولت اور گھر بار میں مہاجرین کی برابر
شراکت سے ہمیں زیر بار کرگئے ،ہم تو کم مایہ ہیں ہم لٹے پٹے مہاجرین ان کے لیے کیا کرسکتے ہیں، تو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے الفاظ پھاہا بنے کہ تم ان کے لیے دعا تو کرسکتے ہو پس ان کو دعاؤں کے ذریعے سے زیر بار کرو(مفہوم)۔ مجھے بھی اللہ نے توفیق دی میں نے اپنے پرائے نزدیک دور کے سب رشتہ داروں دوست احباب کے لیے دعائوں کا ورد کیا۔ میں نے مولا کے سامنے دامن پھیلائے رکھا ، دعائیں کرنے والوں کی صحت سلامتی ایمان عافیت کی ڈھیروں دعائیں کیں۔اب لگتا ہے وہ دن خواب تھے جب مجھے مانگنے کا ہنر آیا ۔
رمضان کے بعد شوال کا مہینہ آیا اور اس عارضی دنیا میں درپیش مسائل بھی سامنے آگئے جن میں سر فہرست مزنہ کی ڈیلیوری تھی۔ادھر سے اصرار تھا کہ میں جہانیاں جائوں لیکن سچی بات ہے بیماری کے اتنے بڑے جھٹکے کے بعد گھر سے نکلنے کا سوچتی ہوں تو موت پڑتی ہے…..ہوم سویٹ ہوم کا مقولہ توجیسے میرے لیے بنایاگیا ہو،سو بیٹی کو ہی گوجرہ بلوا لیا۔اس کا بھی ماں بننے کا پہلا موقع اور جنت چل کے اس کے قدموں نیچے آنے کو تھی، بس ایک آدھ فٹ کے فاصلے پر…..!
بار بار ڈاکٹر یاترا ہوتی ،چغتائی لیب کا منہ دیکھا جاتا، انہیں مرحلوں میں تخلیق کا دن آپہنچا ۔مومنہ اس کے ساتھ ہاسپٹل میں تھی، میں بھی کبھی گھر اور کبھی ہسپتال۔انیس جون کی صبح رحمت خداوندی کا نزول ہؤا ، اللہ نے فضل کیا ،ددھیال کی طرف سے ہالہ احمد نام طے تھا اور ننھیال بھی سو فیصد متفق۔ناموں کے بارے میں میرا الگ ہی نظریہ ہے کہ نام اسلامی، بامعنی اور چاہت سے رکھا گیا ہو۔اپنا وقت یاد آگیا ،مومنہ کا نام میری ہی ماموں زاد بہنوں کا تجویز کردہ تھا ۔اس کی دادی اماں کی بیٹی نسرین میری شادی سے پہلے انتقال کر گئی تھیں تو دادی اماں نے کہا نسرین نام بھی اچھا ہے، میں نے مومنہ نسرین لکھوادیا۔
مزنہ کی مرتبہ تجویز آئی کہ ماموں وحید کی فوت شدہ بیٹی کا نام مزنہ تھا ۔یہ پیارا نام ہے اس پیارے نام کو فوری own کر لیا۔ تیسری مرتبہ بیٹی پیدا ہوئی تو عزیز رشتے داروں میں سے کسی نے پھر نام تجویز کیا۔ ساتھ وضاحت کردی کہ یہ بھتیجی تھی میری فوت ہوچکی ہے۔بس اللہ دے اور بندہ لے ۔یعنی آپ کے خیال میں میرے بچے دنیا سے جانے والوں کے نام بھگتانے آرہے ہیں ؟
خیریہ تو بر سبیل تذکرہ بات نکل آئی ورنہ داؤد (بیٹا) پیدا ہؤا تو دل ہی دل میں نام عبد منیب سوچ رکھا تھا۔ دادی اماں نے چاہت کا اظہار کیا کہ مجھے تو داؤد پسند ہے تو بھلا چاہت کے آگے کون ٹھہر سکا ہے!
ہالہ احمد نام پکا ہؤا ۔ددھیال بھی ماشاءاللہ خوب پھولوں گجروں کے ساتھ موجود تھی ۔ان کے ہاں عرصہ بعد ننھی روح کی آمد ہوئی تھی،ماشاءاللہ سب بہت خوش تھے ۔ابتدائی مراحل سے گزر کر مزنہ گھر شفٹ ہوچکی تھی کہ دادی اماں (میری ساس )بیمار ہوگئیں۔ہفتہ سات دن بس زچہ بچہ کی دیکھ بھال اور دادی اماں کی پریشانی میں گزرے۔
غم اور خوشی دن اور رات کی طرح آگے پیچھے رہے۔ ہالہ نو دن کی تھی دادی اماں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ اپنی بیٹی اور اکلوتے بھائی کی وفات کے بعد دنیا سے بے نیاز ہو گئی تھیں۔آخری ہفتہ انہوں نے بہت تکلیف میں گزارا، اللہ ان کی اگلی منزلیں آسان کرے ،ان کے پیاروں سے انہیں جنت میں ملائے ۔اس کے بعد تعزیت والوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ۔ حال یہ کہ ایک دو لوگ تعزیت کے لیے آرہے ہیں تو دو چار ہالہ کو دیکھنے کے لیے …..عائشہ اکلوتی نواسی تھی اب دو ہوگئیں۔نواسے نواسیاں پیارا اور رس بھرا رشتہ ہے۔ ہالہ کو گود میں لے کے مالش کرتی تو اپنی تکلیف بھول جاتی تھی۔ہالہ ،موتیوں کی مالا …..اکثر ملتے جلتے ردیف قافیے والے الفاظ ڈھونڈتی۔ ایک مرتبہ ایسے ہی کہا،میری پیاری ہالہ توعائشہ میرے کان میں گھس کر بولی ،نانی آپ جب بھی ہالہ ،موتیوں کی مالا کہتی ہیں تو میری زبان پر آکر ایک لفظ رک جاتا ہے …..ہالہ مرچ مصالحہ!
ادیبہ نانی کی نواسی ہے ناں ! کسی پاس بیٹھے نے لقمہ دیا۔ میرا اندر تک سرشار ہوگیا۔ بیٹیوں نے تو ادب کے سارے رنگ جذب کرلیے اب نواسیوں سے ہی امید ہے نانی کے قلم کو پکڑیںگی۔ ایک عائشہؓ صدیقہ کے علم کی میراث کو تقسیم کرے گی تو دوسری دجالی فتنوں کا قلم توڑ نسخہ دے گی یوں وقت گواہی دے گا، ہالہ موتیوں کی مالا ہی نہیں دشمن کا منہ کالا ….. اللہ انہیں اپنے والدین اور سب بڑوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بناے آمین۔٭