محشر خیال

اسما اشرف منہاس۔اسلام آباد

ناول ’اک ستارہ تھی میں‘ ختم ہؤا۔اس ناول کو لکھنے کی کہانی بہت لمبی ہے۔یہ کئی سالوں سے لکھا جارہا تھا کبھی یہ بھی ہؤا کہ فیصلہ کیا کہ اب کچھ نہیں لکھنا یوں یہ ایک لمبے عرصے تک کسی فائل میں بند پڑا رہا۔مگر پَوّن، بی بی اور زرک کے کردار ذہن میں شور مچاتے رہے۔ یہ کردار اتنے طاقت ور اور خوب صورت تھے کہ انہیں لکھتے ہی بنی۔ ویسے بھی کچھ لوگوں کا کردار مجھ پر قرض تھا کہ اسے لکھا جاتا۔ معلوم نہیں ان کرداروں سے انصاف کر پائی یا نہیں،کیوں کہ عموماً ذہن میں بنی تصویروں کو من و عن کاغذ پر اتارنا نا ممکن ہوتا ہے۔میں پچھلے کئی سالوں سے اسما طاہر اور اسما اشرف کے نام سے پاکیزہ،شعاع ،بچوں کا اسلام وغیرہ میں لکھ رہی ہوں۔مگر کم لکھا شاید یہی وجہ ہے کہ زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ناول کی اشاعت بتول کی مدیرہ اور میری ہم نام محترمہ صائمہ اسما کے تعاون سے ممکن ہوئی۔ تحریر کو اشاعتی اصولوں کے مطابق بنانے کے لیے انہیں کافی محنت کرنا پڑی۔محترمہ ذروہ احسن کے وسیلے سے تحریر مدیرہ کے ہاتھوں تک پہنچی۔ دوران اشاعت پروفیسر مسعود خواجہ صاحب مسلسل ہمت افزائی کرتے رہے۔ناول جب ختم ہؤا تو لاہور سے ام ریان کراچی سے حمیرا فرید، رخسانہ شکیل اور ثمرین شاہد نے بڑے خوبصورت انداز میں تبصرے کیے،جن سے نہ صرف حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ نئے خیالات بھی ملے۔خاص طور پر ام ریان کے جملے ’’ مصنفہ نے لسی میں پانی ڈال ڈال کر کہانی کو اتنا نہیں بڑھایا ‘‘ نے بہت مزہ دیا۔ آپ سب کی محبتوں اور ہمت افزائی کا بہت شکریہ۔
٭٭٭
پروفیسر خواجہ مسعود – اسلام آباد
چمن بتول شمارہ جنوری ۲۰۲۴ء پہ اظہارِ خیال۔’’ابتدا تیرے نام سے‘‘ آپ نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں زبردست اواز بلند کی ہے اور بتایا ہے کہ فلسطینی عوام کا جذبہ حریت آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ آپ نے بلوچستان کے گمشدہ افراد اور شہداء کے بارے میں بھی آواز بلند کی ہے۔ یہ جملے زبردست اور قابل غور ہیں ’’اس وقت تو دعا ہے کہ امید کی شہزادی اس سونا اگلتی بلوچ زمین کے لیے پاکستان کا ایک خوشحال، پر امن اور استحصال سے پاک صوبہ ہونے کی جو آس لگائے بیٹھی ہے اس کی یہ آس جلد پوری ہو۔‘‘
دعا (عبادت کا مغز) ۔ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا تحریر کردہ مضمون۔ آپ نے واضح کیا ہے کہ اگر خلوصِ دل اور خلوصِ نیت کے ساتھ دعا مانگی جائے تو اللہ قبول کرتا ہے جیسے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰؑ اور خود ہمارے پیارے رسول پاکؐ کی دعائیں … حضرت ایوب ؑ اور حضرت یونس ؑکی دعائیں۔ ’’اللہ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے افضل نہیں‘‘ (جامع ترمذی)
دعا زمین و آسمان کا نور ہے۔ اللہ پسند فرماتا ہے کہ بندہ دعا کرے اس سے کچھ مانگے۔
’’مہمان اور پڑوسی کے حقوق‘‘ (سید محمود حسن)۔ اسلام نے مہمان کی عزت و تکریم کرنا سکھایا ہے اس طرح پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی ہے۔ اگر پڑوسی تنگدست ہو تو اس کی ہر ممکن مالی امداد کی جائے۔ رسول پاکؐ نے فرمایا ’’جس شخص کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو وہ جنت میں نہ جائے گا۔‘‘
٭ ’’اسرائیلی مظالم کی مذہبی بنیادیں‘‘ (ڈاکٹر حافظ محمد ثانی) بنی اسرائیل نے ہمیشہ بد عہدی کی اپنے پیغمبروں کو ستایا انھیں قتل کیا، غیر یہودیوں کو بے دریغ قتل کیا۔ یہودیوں کی مذہبی تاریخ جبر و تشدد، قتل و غارت گری اور مذہبی انتہا پسندی سے عبارت ہے۔ صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا پر صرف یہودیوں کا غلبہ ہونا چاہیے۔ بس یہی ظلم و ستم کا بازار انہوں نے فلسطین میں برپا کر رکھا ہے۔ یہ اپنے آپ کو برتر قوم اور نسل سمجھتے ہیں۔ ان شاء اللہ ایک دن ان کے ظلم و ستم کا خاتمہ ہو گا اور فلسطین کے عوام کو حقیقی آزادی نصیب ہو گی۔ ان شاء اللہ۔
حبیب الرحمٰن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر ؎
اسے کاش جرم معاصی پہ اتنا رو لوں میں
جو داغ دامنِ دل پر لگے ہیں دھو لوں میں
’’انتظار‘‘زندگی کے نا مساعد حالات پر اسماء صدیقہ کی ایک خوبصورت نظم ؎
وقت کتنا گزرا ہے اور کتنا گزرے گا
قید سے نکلنے میں بیڑیوں کے کٹنے میں
بے حسی کے مٹنے میں بے کسی کے کٹنے میں
’’کچھ خلا ہے کہیں‘‘ (قانتہ رابعہ) اس سبق آموز کہانی میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عموماً بیویوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا ہے انہیں کام کرنے والی مشین سمجھتے ہیں اور بس۔
’’مقناطیس‘‘ (عینی عرفان) ایمانداری کا سبق سکھاتی ہوئی ایک اچھی کہانی۔ ’’آخری چراغ‘‘ (عبدالرحمن) زندگی کے مقصد کو اجاگر کرتی ایک فلسفیانہ کہانی کہ یقین اور ایمان کی طاقت کے ساتھ ہی ہم کامیابی کی منزل یعنی آخری چراغ کو پا سکتے ہیں۔
’’نصیب‘‘ (ام ایمان) یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ بڑے ارمانوں کے ساتھ دلہن کو بیاہ کر لایا جاتا ہے لیکن ایک دن اچانک مرد بیوی کو طلاق کی جانکاہ خبر سنا دیتا ہے کیونکہ وہ ایک غیر عورت میں دلچسپی رکھتا ہے اور یہ بہت گھٹیا حرکت ہے۔
’’آخری دستک‘‘ (عشرت زاہد) بعض والدین اپنی بیٹی کی شادی اس لیے نہیں کرتے کہ وہ کما کر لاتی ہے۔ اگر اس کی شادی کر دی تو یہ آمدنی کی مشین ہاتھ سے نکل جائے گی۔ یہی اس کہانی میں بتایا گیا ہے۔
’’قدرت‘‘ (حمیرا بنت فرید) آمنہ مختصر فیملی کی خواہش مند تھی۔ لیکن کافی سالوں بعد ایک ملازمہ کی بچی کو پالنا پڑا۔ اور قدرت خدا کی یہی ملازمہ لڑکی بڑھاپے میں اس کے کام آئی۔
’’لمبی ہے غم کی شام مگر‘‘(نادیہ سیف)۔ اس کہانی میں فلسطینیوں پر ظالم یہودیوں کے ظلم و ستم کی روداد بیان کی گئی ہے کہ اسرائیلی سفاکیت کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔
’’بابو بھائی‘‘ (آمنہ آفاق)۔ بابو بھائی کی کہانی جو اپنے دل میں وطن کے لیے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان صحیح معنوں میں قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر بن جائے۔
’’شانزے کی کہانی‘‘ (آسیہ راشد) ایک ایسی مظلوم لڑکی کی داستان جس کو اس کے ظالم بھائیوں نے جائیداد کے لالچ میں پہلے تو پاگل قرار دے کر پاگل خانے بھجوا دیا۔ پھر اسے قتل کے الزام میں جیل بھجوا دیا۔ جہاں وہ بیچاری سالوں سے قید ہے۔ واقعی لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے، سفاک بنا دیتا ہے۔
’’امتحان‘‘ (ڈاکٹر زاہدہ ثقلین) ۔ اس کہانی میں سبق دیاگیا ہے کہ اللہ پر پختہ ایمان والے مصیبتوں اور بیماریوں میں گھبراتے نہیں بلکہ اسے ایک آزمائش سمجھ کر برداشت کرتے ہیں پھر اللہ انہیں شفا دیتا ہے۔
’’خود انحصاری کا ایک انداز یہ بھی ہے‘‘(افشاں نوید) اس مضمون میں آپ نے اچھے انداز میں سمجھایا ہے کہ گھر کے کام کاج میں بالکل ماسیوںکا محتاج نہیں ہونا چاہیے خود بھی گھر کے کاموں میں دلچسپی لینی چاہیے۔ بلکہ گھر کے مردوں کو بھی کچھ گھریلو کاموں میں خواتین کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمارے رسول پاکؐ نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں تو مرد ہی گھر کے کام کرلیتے ہیں۔
’’قیادت کا سفر‘‘ روبینہ فرید کی کتاب پر ڈاکٹر صائمہ اسماء کا جامع تبصرہ اس کتاب کے مطالعہ سے قارئین پر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ تحریک کے قائد کے اندر کیا کیا خوبیاں اور صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔ اور قیادت کا بہترین تصور بانی تحریک مولانا مودودیؒ نے پیش کر دیا … مولانا ؒ نے خواتین میں بھی قیادت کا شعور پیدا کیا اور اس طرح ہر شہر میں اچھی قیادت کے ساتھ خواتین کے حلقے وجود میں آئے اور کامیابی سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ کتاب بلاشبہ سب کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔
’’حیدرآبادی چٹکلے‘‘ (آمنہ رمیصا زیدی)۔ حیدرآباد (دکن) ے لب و لہجہ کی چاشنی لیے ہوئے ایک مضمون … بلاشبہ حیدرآبادی ادب و آداب سے مزین گفتگو سن کے مزہ آتا ہے ، ایک شائستگی کا تاثر ابھرتا ہے۔
’’ایک کرایہ دار کی آپ بیتی‘‘ (ام عبدالرحمن) ۔ کرایہ داروں کے حالات کی عکاسی ایک دلچسپ مضمون … ہر ماہ پہلی تاریخ کو خوف طاری ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔
’’بیت احسن کی ادبی نشست کا احوال‘‘ایک ادبی نشست کا دلچسپ احوال ہے۔ اندازِ بیان میں دلکشی ہے۔ اس محفل میں بچوں کی بہترین کاوشوں کا بھی ذکر ہے اور خواتین کی بھرپور شرکت کا احوال ہے۔
’’خالی ہاتھ(بنت سحر)بزرگوں کی یادمیں لکھا گیا ایک خوبصورت مضمون ۔ واقعی ایسے بزرگ خاندان کا قیمتی سرمایہ اور متاع ہوتے ہیں۔ یہ جملے خوبصورت ہیں۔ ’’بڑے گزر جاتے ہیں تو بہت کچھ ساتھ ہی ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ اخلاص، پیار، محبت، یہ سب کچھ خود ہی رشتوں میں گوندھنا پڑتا ہے ساری شیرینی خود ڈالنی پڑتی ہے۔ کاش ہم بھی خلوص کی دولت کو یوں لٹانا سیکھیں، محبت کے لازوال رشتے تمام عمر نبھا سکیں‘‘۔
٭’’چھوٹے بچے کی غذا‘‘ (ڈاکٹر ناعمہ شیرازی) اس مفید مضمون میںڈاکٹر صاحبہ نے بچوں کی غذا کے بارے میں اچھے مشورے دیے ہیں کہ بچوں کو بھی ٹھوس غذاکی ضرورت ہوتی ہے ۔ بجائے بازاری خوراک دینے کے گھریلو صحت بخش اور تازہ چیزیں کھلائیں۔
گوشۂ تسنیم۔ ’’قیمتی سرمائے کی حفاظت‘‘ (ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کا مستقل کالم) ڈاکٹر صاحبہ نے بجا فرمایا ہے کہ بحیثیت امت مسلمہ جسد واحد ہونے کا احساس ہمارا قیمتی سرمایہ ہے لیکن افسوس کہ آج ہم نے یہ قیمتی سرمایہ گنوا دیا ہے۔ یہ جملہ خوبصورت ہے۔ ’’ہر مومن کا دل ایمان کی روشنی سے جگمگاتا ستارہ ہے یہ مومن کے دل ہی ہیں جو امت مسلمہ کو ایک کہکشاں بناتے ہیں … جب تک اساتذہ اور والدین اپنے قول و عمل سے بچوں کے لیے مثال نہیں بنتے نسل نو کی مٹی زرخیز نہیں ہو سکتی … آئیے دل کے ستارے کو ایمان کی روشنی سے جگمائیں اور کہکشاں بنائیں۔‘‘
ٹائٹل کے بارے میں یہی کہوں گا کہ خوبصورت، خوشنما رنگ برنگے پھولوں سے سجا ٹائٹل زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ یہ ہمارا ’’چمن بتول‘‘ ہے اور چمن رنگ برنگے خوشبودار پھولوں سے سجا ہؤا ہی نظروں کو بھاتا ہے۔
٭٭٭

 

 

 

2 COMMENTS

  1. ماہ نامہ بتول پاکیزہ خیالات رکھنے والوں کا ایک اعلیٰ ادبی رسالہ مہے۔ میں اسی سالانہ بنیادوں پر حاصل کرنا چاہتا ہوں
    حبیب الرحمن

    • آپ ویب سائٹ پر بھی سالانہ ادائیگی کے ساتھ مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اور ہارڈ کاپی حاصل کرنے کے لیے رسالے پر موجود دفتری ای میل پر رابطہ
      کیجیے۔ساتھ ادارتی ای میل ایڈریس کو سی سی میں لے لیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here