افشاں نوید۔کراچی
’’بتول‘‘ تو اس خاندان کو اپنی فیملی کی طرح عزیز ہے۔
میں خالہ جان ثریا اسماء کے ساتھ نسیم ظفر بھائی کی تعزیت کرتے ہوئے ان کے لفظ لفظ سے بتول کی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔
بولیں:’’نسیم بیٹے کا سفرِ آخرت تھا اور اسی وقت ملازم بتول کے تیار پرچے لے کر جا رہا تھا۔ یہ اللہ کی مدد تھی ورنہ اتنے شدید صدمے کی حالت میں یہ کام متاثر ہو جاتا‘‘۔پھر خالہ جان کا اصرار کہ صائمہ غم والم کی شدید کیفیت میں ہے آپ بتول کے ساتھ تعاون کیجیے۔
میں نے رخصت ہوئے ہوئے کہا:’’ صائمہ جو تعاون بتول کے لیے درکار ہو میں حاضر ہوں‘‘۔
صائمہ نے مخصوص انداز میں دھیمے سے مسکراتے ہوئے کہا ’’تعاون تو آپ کی تحریر ہی ہے‘‘۔
اور پھر ….
جب اگست کا شمارہ ہاتھ میں آیا تو میں حیران ہوئی کہ صائمہ نے کس طرح اپنے ذاتی غم کو چند سطروں میں سمیٹ کر امت مسلمہ کے غم اور ملکی حالات کی نشان دہی کی۔سیدی مودودیؒ نے اپنی تفسیر میں کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی الہامی مثال کی جو تفصیل بیان کی ہےکہ اس پاک بیج سے پیدا ہونے والا درخت اتنا پاکیزہ ہوتا اور ایسے برگ و بار لاتا ہے،جبکہ کلمہ خبیثہ کی مثال زمین کی اوپری سطح پہ رکھے ہوئے درخت کی ہوتی ہے جو ایک تیز آندھی کی نذر ہو جاتا ہے۔واقعی اس پاک کلمے سے تشکیل پانے والا کردار اتنا مضبوط ہوتا ہے جس کو یہ ایمان ہی نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کو اس کے پاس پلٹ کے جانا ہے۔جانے والا ہمیں مایوس کر کے نہیں گیا بلکہ یہ پیغام دے کے گیا کہ ہم اپنی تیاری تیز تر کر دیں…..منزل ما دور نیست…..
صائمہ نے جس طرح امت مسلمہ کے غم اور پاکستان کے حالات کی نشاندہی کی اس سے لگا کہ الحمدللہ انہوں نے اپنے ذاتی غم کو اپنی قوت بنا لیا۔ایک عورت کے لیے یہ کوئی معمولی غم، واقعات میں سے ایک واقعہ یا سانحات میں سے ایک سانحہ نہیں ہوتا۔ خود صائمہ نے کہا کہ :’’وہ چند دن جو بیماری، تکلیف،اسپتال، میڈیکل رپورٹس میں گزرے، میں اس حصار سے باہر آؤں تو کچھ آگے کا سوچوں‘‘۔ بہت سے لوگ اسی حصار میں ساری عمر گزار دیتے ہیں اور عملا ًکچھ نہیں کر پاتے۔لیکن اللہ کے نیک بندے غموں کو اپنی قوت بنا لیتے ہیں۔اللہ سے تعلق ایک مومن کی بہت بڑی قوت ہے جو اس کو شدید سے شدید غم کے بعد بھی اٹھا کھڑا کرتا ہے۔ کیونکہ ہم اس دنیا کے فانی ہونے پہ یقین رکھتے ہیں اور ہماری ساری تیاری ہی اس اگلی دنیا کی تیاری ہے۔
الحمدللہ یہ بتول کوئی عام میگزین نہیں ہے۔ بتول ایک مشن،ایک تحریک ہے۔بتول اسی مشن کا نام ہے جو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 104 میں امت مسلمہ کو دیا گیا ہے یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔بتول اپنی معیاری تحریروں کے ذریعے اعلیٰ انسانی جذبات کو اپیل کرتا ،خیر کا داعیہ پیدا کرتا اور بار بار بین السطور شر کی نشاندہی کرتا ہے۔
اگست کا بتول ہاتھ میں ہے تو لازم ہے کہ میں تذکرہ کروں پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کے مضمون’’ اٹھتے ہیں حجاب آخر‘‘ کا۔
میں نے بتول کا شمارہ مہینے بھر اپنے سامنے رکھا کہ اس مضمون کو بار بار پڑھنا ہے۔بہت خاصے کی چیز ہے یہ مضمون ۔کتنی پیاری بات کہتے ہیں محترم’’ کیوں نہ ہم تھوڑا سا خدا کو آزما لیں ۔جب ہم تھوڑا سا خدا کو یقین دلائیں کہ ہم اسی کے ہیں اور اپنی پریشانیوں میں اسی کے سامنے جھکتے ہیں تو ہم خدا کو پا لیں گے‘‘۔
وہ قرآن کا کتنا گہرا مطالعہ کرتے ہیں،کہتے ہیں’’ میرے لیے بڑی خوش آئند تھی یہ بات کہ قرآن کی جس آیت کو اصحاب رسولؐ نے جیسے سمجھا اگر میں اس معیار اور سادگی تک پہنچ جاؤں تو میرا نصیب بن جائے‘‘۔
پھر قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب آپ زندہ ہیں اور علمی جدوجہد کر رہے ہوں تو حتمی رائے قائم نہ کریں۔ کیونکہ آپ طالب علم ہیں اور طالب علم دعویٰ نہیں کرتا۔علم کا دعویٰ تو آدم کے ساتھ پورا ہوا جب ملائکہ نے ضد لگائی۔آدم کی تخلیقی صلاحیتیں، اس کی جانچ پرکھ کا علمی فیکلٹی میں عروج ثابت ہؤا تو باقی ملائکہ کو شک نہیں رہا۔شیطان نے آدم کی مخالفت کی تو علمی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ کہا کہ میں آگ سے اور یہ مٹی سے پیدا ہؤا ۔اس طرح شیطان جاہلی تعصبات کا پہلا بانی ہے۔ وہ عالم نہیں ہے۔علم کے ساتھ ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ توفیق الٰہی ہے۔ طالب علم کا کام سیکھتے رہنا ہے۔عربی زبان کی اہمیت کو انہوں نے بہت پیارے انداز میں بتایا۔
آپ مزید فرماتے ہیں کہ’’ نفاق دل کے تقسیم ہونے کو کہتے ہیں۔ دل خیر کے لیے ہے،اللہ کی یاد اور محبت خداوندی کے لیے ہے، دل امن اور سکون کی آماجگاہ ہے۔ دل کا اضطراب اس کی بے چینی اس کا نفاق ہے۔ دل کا تقسیم ہونا خدا کی یاد سے غافل ہونا اس کا نفاق ہے‘‘۔
بتول کی باقی لکھنے والی ساتھی ماشاءاللہ منجھی ہوئی ہیں۔یہ قلمی جہاد ان شاءاللہ ان کے لیے جنت کے راستوں کا نشان ثابت ہوگا۔
بتول کے سب لکھنے والوں کے لیے سلامتی کی دعائیں۔
٭ ٭ ٭
پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
ماہنامہ’’ چمن بتول ‘‘ شمارہ اگست2024ء ٹائٹل خوبصورت پہاڑی منظرسے مزین ہے۔لگتا ہے وادی نیلم کا دلکش منظرہے۔
مدیرہ محترمہ ڈاکٹرصائمہ نہایت صبرواستقامت کے ساتھ ایک عظیم سانحہ کا سامنا کرنے کے بعد ’’ چمن بتول‘‘ کی محفل میں واپس آگئی ہیں ۔اب آپ اور ’’ چمن بتول‘‘ لازم و ملزوم محسوس ہوتےہیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کے مرحوم شوہر نامدار کوجنت الفردوس کے اعلیٰ گوشوں میں جگہ عطا فرمائے اورجملہ لواحقین کو صبروجمیل عطا فرمائے ( آمین)۔
مسئلہ فلسطین پر آپ کے یہ جملے زبردست ہیں ’’ دس ماہ میں چالیس ہزار شہادتوں اورایک لاکھ سے زائد زخمیوں کے باوجود فلسطینی مزاحمت پرجملے ہوئے ہیں ،نہ صرف ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی بلکہ وہ قابض فوج کواچھا خاصا نقصان پہنچا رہےہیں‘‘۔
آپ نے بجلی کے ظالمانہ بلوں اورعوام پرٹیکسوں کی بھر مار کے خلاف بھی بھرپورآواز اٹھائی ہے۔ یوم پاکستان کے حوالے سے آپ کے یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ یوم آزادی پاکستان کے محب وطن عوام کے لیے تجدید عہد کا دن ہے کہ ہم اپنی آزادی کی حفاظت کریں گے ہم اس ملک کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ بنائیں گے ۔اقوام عالم میں ہم پاکستان کو با وقاراورمحترم بنائیں گے ‘‘۔
’’خلافت ارضی کی امانت‘‘ اس بصیرت افروز مضمون میں ڈاکٹرمیمونہ حمزہ صاحبہ نے وضاحت سے بتایا ہےکہ انسان زمین پراللہ تعالیٰ کا خلیفہ بن کرآیا ہے اورخلافت کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرتوں ،عطا اوربخشش کواللہ کی زمین پر اس کاخلیفہ اورنائب بن کراستعمال کرے اور خلافت کے اہل وہی مسلمان ہیں جو صادق و امین ، بلند اخلاق اوراعمال کے اعتبارسے صالح ہوں۔ خالص اللہ کی بندگی اور غلامی کے پابند ہوں۔
’’ زندگی کی قدرو قیمت ‘‘ ( مولانا عبد المتین ) آپ نے بجا تحریرفرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں زندگی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اورزندگی کی قدر کا مطلب وقت کی قدرکرنا ہےاسلام ہمیں فضول کاموں اوربیکار وقت ضائع کرنے سے سختی سے منع کرتا ہے ۔دو اوربڑی نعمتیں ہیں صحت اور فرصت۔ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے لازم ہے کہ سب اہم معاملات کو ضرورت کے مطابق وقت دیا جائے ۔
’’ اٹھتے ہیں حجاب آخر‘‘( پروفیسر احمد رفیق اختر ) آپ نے اپنے اس مدلل مضمون میں واضح کیا ہےکہ صدقات واحد نظام ہے جوسود کوختم کرسکتا ہے ۔ہراچھا کام بھی صدقہ ہے اسلام میں نظام عدل بہت ضروری ہے۔ملکی معیشت اسلامی اصولوں پر بہترین استوارہو سکتی ہے اورپنپ سکتی ہے۔
طوبیٰ نورخانم کی خوبصورت نعت سے ایک خوبصورت شعر:
غم سناؤں میں جا کے آقا کو
غم سے میری نجات ہو جائے
’’وقت کربلا ‘‘ اسما صدیقہ کی فلسطین کی حالتِ زار پر درد بھری نظم:
آگ کی بارشوں میں جھلستی فضا
رقص اموات کا الاماں الاماں
ننھے بچوں کی چیخوں میں ہے التجا
العطش العطش کی بلکتی صدا
حبیب الرحمٰن صاحب کی ایک فکرانگیز غزل:
پہلے سے اب کہاں وہ تراشے ہوئے بدن
آذر بدل گیا ہے کہ پتھر بدل گئے
صہیب اکرام کی غزل سے ایک منتخب شعر:
تم کیا جانو بند آنکھوں پر کیا کیا صدمے ٹوٹتے ہیں
عمر گزر جاتی ہے صاحب خواب کا بوجھ اٹھانے میں
حنظلہ سلیم کی خوبصورت نظم:
اک ایسے اجڑے سیاہ گھر میں
جگر دریدہ وہ ایک جگنو
کئی مہینوں سے جی رہا ہے!
عظمیٰ ارم کی نظم ’’ چلو خواب دیکھیں ‘‘ سے خوبصورت سطریں:
اخوت کی شبنم میں بھیگے ہوئے قیمتی خواب دیکھیں
عزیمت کے تیشے سے سینچے ہوئے آ ہنی خواب دیکھیں
اسما صدیقہ کی نظم ’’ روحِ آزادی ‘‘ سے منتخب سطریں:
اس عہدوفا کو توڑ کے سب برباد ہوئے ناشاد ہوئے
مقصد سے ایسا ہٹنے پہ کیا کیا نہ ستم ایجاد ہوئے
قانتہ رابعہ صاحبہ کی تحریر ’ ’ ایپی ڈریول‘‘ فلسطین میں بے دردی سے شہید کیے جانے والے بچوں کی مائوں کےحوصلے کا ذکر بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ایک پرعزم چہرے کے ساتھ غزہ کی ایک ماں کے چار جوان بیٹوں کی شہادت پر یہ پر عزم الفاظ’’ واللہ میرے چار بیٹے شہید ہوئےلیکن چیونٹی کے کاٹتے جتنی تکلیف بھی نہیں ہوئی سب نعرہ تکبیرکے ساتھ شہید ہوئے ۔ واللہ وہ فائز ہوئے ‘‘۔
’’ خواب سراب‘‘ آسیہ راشد صاحبہ کی تحریر کردہ ایک عبرت ناک کہانی ۔ معاشرے کی ستم ظریفیوں کی کہانی کیسے نشہ انسان کو تباہ کردیتا ہے اوروہ اپنے ہی گھرکو برباد کرکے رکھ دیتا ہے ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’جمیل کومائی سکینہ کا وجود ایک ایسے درخت کی مانند دکھائی دیتا جس میں پیار کے پھول کھلتےتھے ، محبت کے پتے لہلہاتے ، جس کی ٹھنڈی چھائوں میں اسے ممتا کی خوشبو میسر تھی ۔‘‘
’’ کھلونے ‘‘ ( آصفہ سہیل ) اس علامتی کہانی میں ایک زبردست سبق دیا گیا ہے کہ کھلونے تو کھیلنے کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ الماری میں سجانے کے لیے کاش سمجھنے والے سمجھ جائیں!
’’ صلہ خونِ شہیداں ‘‘ میری تحریرہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے ان گنت جان و مال اورعزت کی قربانیاں دےکر یہ آزاد وطن حاصل کیا تھا ۔ہمیں آزادی کی قدر کرنی چاہیے ۔
’’ میلے کپڑے ‘‘ (صباحت منصور) ان والدین کے دلوں کے جذبات میں گندھی کہانی جن کے بچے امریکہ، کینیڈا چلے جاتے ہیں اوروالدین تنہا رہ جاتے ہیں ۔یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ اورپھرپرسوں فارعہ پاکستان چھوڑ گئی اور میں عبد اللہ اورشزا کے اتارے ہوئے کپڑے سونگھ رہی ہوں ،آنسو میرے گال پر نہیں دل پر گررہےہیں ۔‘‘
’’ فرضِ عین ‘‘ ( شہلا اسلام) مسئلہ فلسطین پرایک زبردست کہانی کہ یورپ ،امریکہ میںغیر مسلم بھی فلسطینی مسلمانوں کے حق میں اوراسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہےہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ اسلامی ممالک نے ابھی تک عملی طورپر فلسطینی مظلوموں کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔
’’ نٹ کھٹ زندگی ‘‘ ( عینی عرفان کا سلسلہ وارناول) اس قسط میں شادی والے گھرکی رونقوں اورہنگاموں کا خوب ذکرکیا ہے شازیہ اوراس کی بہوئیں ، بیٹے شادی کی تقریب میں شریک ہیں ، مہندی ، ڈھولک ، رنگ برنگے جوڑے ،میک اپ ،چوڑیاں الغرض ایک روایتی شادی کے ہنگاموں اور رونقوں کا ذکر بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔
’’کوٹھا کہانی ‘‘ (نجمہ ثاقب) آپ نے دیہاتی زندگی کا نقشہ خاص طورپر رات کو چھتوں پر رونقوں کاذکربہت خوبصورتی سے کیا ہے۔دیہاتی زندگی کی بہترین جھلک دکھائی ہےلیکن اب ایسے منظر کم کم ہو گئے ہیں ۔مجھے یقین ہےکہ نجمہ صاحبہ نے اپنا بچپن اورجوانی کسی دیہات میں گزارا ہے اسی لیے تو دیہاتی زندگی کا نقشہ اتنی خوبصورتی سے کھینچا ہے میں نے خود بھی یہ مناظردیکھ رکھے ہیں۔
’’ ماں کا دودھ اورمِلک بینک کی تجویز ‘‘ ( ڈاکٹر فلزہ آفاق) ڈاکٹرصاحبہ نے واضح کیا ہے کہ بچے کے لیے پہلےکم ازکم دو سال ماں کادودھ ایک نعمت ہے اوراس کا کوئی نعم البدل نہیں البتہ ملک بینک کاتصور اسلامی شعائراوراصولوں کےمطابق کئی سوال اٹھا رہاہے ۔
’’ محترمہ زہرہ عبد الوحید کی یادیں ‘‘ ( ڈاکٹرام کلثوم، ڈاکٹر فہمیدہ) اس مضمون میں محترمہ زہرہ عبد الوحید صاحبہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے یہ جملے ان کی شخصیت کی خوب عکاسی کرتے ہیں ’’ خالہ جان زہرہ کےساتھ ہرملاقات میں کچھ سیکھنے کوملا ، ان کا تقویٰ رجوع الی اللہ کا شغف ، اتباع سنت کا اہتمام ہمارے لیے مشعل راہ رہا ۔ ان کا جذبہ ، مقصد سے لگن انتھک محنت نے ہمیشہ مہمیز کاکام دیا ، وہ ہرحال میں ہرمیدان میں سراپا عمل رہیں ، وہ بلا شبہ ایک مثالی خاتون تھیں ‘‘ ۔
’’ تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب‘‘ (روزینہ خورشید ) آپ نے اپنے مرحوم ابوکی یاد میں محبت بھری یادوں کاتذکرہ کیا ہے۔واقعی ماں باپ اپنے بچوں کے لیے شجر سایہ دارہوتے ہیں ۔
’’وہ دودن ‘‘ ( رخسانہ اقبال رائو) خواتین کے ایک خوبصورت دینی اجتماع کا احوال واقعی ایسے اجتماعات میں سیکھنے کوبہت کچھ ملتا ہے ، روحانی تربیت ہوتی ہے نیا عزم و حوصلہ ملتا ہے۔
’’ لیموں کے فوائد ‘‘ ( سیدہ فاطمہ طارق ) لیموں کے استعمال کےفوائد خوب گنوائے گئے ہیں جیسے یہ قوت مدافعت بڑھاتا ہے ۔ نظام انہضام کو بہترکرتاہے۔لیموں میں وٹا من سی ہو تا ہے بے شمارطبی فوائد اورسلاد کا بہترین جز ہے ۔
’’بتول میگزین‘‘ میں ام حمزہ کی کہانی ’’ سوچ‘‘ یہ بتاتی ہے کہ ہمارے مسائل کاحل ہمارے پاس ہی ہوتا ہے۔’’ لال رنگ ‘‘ عائشہ فیض کی تحریر فلسطینی بچوں کی اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت کی لرزہ خیز داستان ہے ’’ پچھتاوا‘‘ (ہادیہ جنید ) ہمیں ہمیشہ الفاظ سوچ سمجھ کے منہ سے نکالنے چاہئیں۔
’’گوشہ تسنیم ’’ عدم اعتراف‘‘ ( ڈاکٹربشریٰ تسنیم صاحبہ کا مستقل کالم) انسانیت کا سب سے بڑا جرم خدا کی واحدانیت کا عدم اعتراف ہے ہمیں اللہ کی نعمتوں ،اپنی ذمہ داریوںاورکوتاہیوں ، غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے ۔ اعتراف انسان کی شخصیت کو متوازن بناتا ہے۔ڈاکٹرصاحبہ نے بصیرت افروز کالم لکھا ہے ۔
٭٭٭
رخسانہ کوثر۔ وہاڑی
واقعہ کربلا کا پس منظر پیش کرتا ہو&ٔاخوبصورت ٹائٹل سے مزین ماہ جولائی کا شمارہ ہاتھوں میں ہے۔ اداریہ میں ڈاکٹر صائمہ اسما کے شوہر اور چیئرپرسن ادرہ بتول شاہدہ اکرام کے بھائی کے اس دنیا فانی سے رخصت ہونے کی غمناک خبر ملی۔ اللہ تعالیٰ جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔محسوس ہؤا کہ ادارہ بتول کی ٹیم،لکھاری اور قارئین ایک ہی خاندان کے افراد ہیں جو ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں برابر کے شریک ہیں۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا مضمون’’ شیطان کھلا دشمن ہے‘‘ تفصیلی طور پر شیطان کی قرآنی حقیقت،شیطان کے وار اور ہتھکنڈے اور ان سے بچنے کے لیے عملی اقدامات ( جو قرآن و احادیث میں بیان ہوئے ہیں) ہمارے لیے رہنمائی لیے ہوئے ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطان اور اس کے لشکر سے محفوظ رکھے۔
’’حقیقت ابدی ہے مقام شبیری‘‘ ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر فارعہ جمشید نے سانحہ کربلا کے بارے میں علامہ اقبال کے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ان کا یہ جملہ’’ آج امت محمدی میں کردار ِہستی کا فقدان ہے،اس قافلہ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں‘‘ دلوں کو تڑپا رہا ہے۔
شگفتہ عمر نے تربیت اولاد کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر سے ہمہ پہلو مفید ،معلوماتی رہنما اصول بیان کیے ہیں جن پر علم پیرا ہو کر ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تعمیر کرنے والے افراد تیار ہو سکتے ہیں۔آسیہ راشد نے محترمہ فاطمہ جناح کی حیات وخدمات کے روشن پہلو اس انداز سے واضح کیے ہیں کہ جس سے ایک بھائی بہن کی آپس میں ذہنی ہم آہنگی،محبت ویگانگت اور پاکستان کے لیے ان کی دلیرانہ، مدبرانہ ، لازوال اور ان تھک خدمات کا پتا چلتا ہے۔ بنت مینا مجتبیٰ،ڈاکٹر صائمہ اسما،ریاض احمد قادری،حبیب الرحمٰن اور شگفتہ ضیا کی شاعری بہت خوب….شاہدہ اکرام کے یہ اشعار
ہر دور کا یزید ہؤا جب بھی سامنے
ہر دور کے حسین نے پہنا لہو لباس
بے چین ہو کے خاک کے ذروں نے یہ کہا
قربان ان کی پیاس پہ ہیں راوی و بیاس
تو دل کو چھو گئے۔
’’ لاجواب‘‘ میں قانتہ رابعہ نے آج کی گلیمرس دنیا سے متاثر ہونے والی خواتین کے لیے واقعی لاجواب تحریر لکھی ہے۔ڈاکٹر سلیس سلطانہ کی کہانی’’جنت کدہ‘‘ مشرقی طرز معاشرت،خاندانی جاہ وجلال ، پیارمحبت ،خاندانی اقدار وروایات کے ساتھ ساتھ حسد ،رشک اور سازشوں کے گرد گھومتی ہے۔ فرحی نعیم کی تحریر’’ رشتہ لباس‘‘ اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ زوجین کا آپس میں مضبوط رشتہ ہی آئندہ نسلوں کی بقا اور سلامتی کا ضامن ہے۔
’’ سیما کلینک‘‘ بشریٰ ودود کی کہانی جاب کرنے والی لڑکیوں کے ساتھ سسرالی بےحسی،خود غرضی اور لالچ کو ظاہر کرتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں جاب کرنے والی لڑکیاں سسرال جا کر یا تو پس جاتی ہیں یا بے لگام اور خود سر ہوجاتی ہیں۔
’’ نٹ کھٹ زندگی‘‘ میں شازمہ کو مثالی ساس دکھایا ہے ۔واقعی بچیاں نئے گھر میں قدم رکھتی ہیں تو ناتجربہ کار ہوتی ہیں ،ان کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے پیار ،حکمت اور نرمی سے سمجھانا ہی خاندان کی اکائی کو مضبوط کرتا ہے۔ ’’نہاں خانہ دل‘‘ کاکالم نسیم ظفرصاحب کی دکھی دل کے ساتھ یادیں لیے ہوئےاس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہےکہ ہم سب بھی سفر میں ہیں اور اسی منزل کی طرف جا رہے ہیں۔ تعزیتی پیغامات میں شاہدہ اکرام ،فائقہ سلمان،قانتہ رابعہ اور ام حسن کے خطوط جہاں ہمیں تعزیتی طریقہ اور اس کے کلمات سکھا گئے وہیں ہم نے اپنے آپ کو صائمہ بہن کے دکھ میں برابر شریک پایا۔ وقاص جعفری کی تحریر بھائی نسیم ظفرکی پرکشش،ہمہ پہلو شخصیت کے پرت کھولتی ہوئی ظاہر کرتی ہے کہ واقعی وہ افلاک کی وسعت میں ایک ستارہ تھے۔ نثار موسٰی نے انھیں اس دنیا میں عاشقِ کوہ و بیاباں پایا۔ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ بتول میگزین کو عالیہ بٹ،عالیہ زاہد،طلعت نفیس،رخسانہ کوثر اور لالہ رخ نے اپنی خوبصورت تحریروں سے مزین کیا اور سعدیہ نعمان نے اپنے اردگرد کے حقیقی مناظر کے بارے میں اپنے محسوسات خوبصورت انداز میں قلمبند کیے۔ ڈاکٹر ناعمہ کا مضمون موسم گرما کے اثرات سے بچنے کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر بھی سمجھا رہا ہے۔ ڈاکٹرصاحبہ کی طرف سے یہ مفید معلوماتی سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر بشریٰ کا مضمون ’’یاد داشت کا حسن‘‘ یاد داشت کے مختلف دریچے وا کرتا ہوا ’’الست بربکم‘‘ کی یاد دلا تا ہے۔درحقیقت یاد داشت کا اصل حسن یہی ہے کہ اپنے رب کے ساتھ اس ابتدائی مکالمے کو ہر عمل سے پہلے دہرا لیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس عہد کو ہمارے حافظے میں محفوظ رکھتے ہوئے اس کا عکس ہمارے عمل سے ظاہرفرمائے۔
درحقیقت’’ چمن بتول‘‘ خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیوں کی دلچسپی کا سامان لیے ہوئے اصلاحی اور دینی تربیت کا ذریعہ ہے ۔اللہ تعالیٰ بتول کی ٹیم اور لکھاریوں کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔٭
٭٭