ڈاکٹر مقبول شاہد ۔ لاہور
اکتوبر۲۱ء کے چمن بتول میں محترمہ نجمہ یاسمین یوسف کی ایک غزل شائع ہوئی ہے ۔ اس غزل میں جب میں نے یہ شعر پڑھا:
الفاظ کے رہین ہیں دنیا کے انقلاب
تلوار کی کہاں ہے جو طاقت قلم کی ہے
تو مجھے اپنی زندگی کا 1940ء کے عشرے کا زمانہ یاد آگیا جب میں ابھی چھوٹا سا بچہ تھا اور ابھی سکول میں بھی داخل نہیںہؤا تھا ۔ میرے دادا جان چوہدری رحیم بخش مرحوم مجھے گھر پر ہی پڑھنا لکھنا سکھاتے تھے اور اس کے ساتھ خوش خطی پر بہت زور دیتے تھے ، اور مجھے اس کی مشق کراتے تھے ۔ وہ خود فارسی زبان کے عالم بھی تھے اور کلام سعدیؒ اور فارسی شاعری سے انہیں خاص شغف تھا ۔ لکھنا سیکھنے کے لیے اس زمانے میں لکڑی کی تختی اور سر کنڈے کے قلم کا رواج تھا ۔ روشنائی کے لیے بازار میں کالی سیاہی کی پُڑیاں ملتی تھیں جنہیں پانی میں حل کر کے شیشے کی دوات میں ڈال لیتے تھے ۔خوش خطی کی مشق کے لیے دادا جان مجھے تختی کی پہلی سطر میں فارسی کا درج ذیل مصرع لکھ دیا کرتے تھے جسے میں نیچے کی سطروں میں بار بار لکھ کر پوری تختی بھر دیتا تھا۔
؎ قلم گوید کہ من شاہِ جہانم
یعنی قلم کہتاہے کہ میں دنیا کا بادشاہ ہوں ۔ یہی مفہوم اس شعر کا ہے جس کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے ۔ اس لیے یہ شعرپڑھ کر مجھے یہ مصرع یاد آیا ۔
اس کے بعد ایک طویل زمانہ گزر گیا ۔ یا یوں کہیے کہ تقریباً عمر ہی گزر گئی ۔ پھر ایک دن میرے پوتے عزیزم احمد مرسل نے مجھے سے فرمائش کی کہ اسے خوش خطی کی مشق کرائوں ۔ اس کے پاس لکڑی کی تختی اور سر کنڈے کا قلم تو نہیں تھا ،اس کی جگہ ایک قلم کی طرح کٹا ہؤا مارکر اور ایک رجسٹر نما نوٹ بک تھی۔ اسے بھی میں نے خوش خطی کی مشق کے لیے پہلی سطر میں وہی مصرعہ :
؎ قلم گوید کہ من شاہِ جہانم
لکھ کر دیا اور اس کا پس منظر بھی اسے بتایا ، اس طرح دادا جان مرحوم و مغفور کا میری لکڑی کی تختی پر لکھا ہؤا یہ مصرع اسّی(۸۰) سال بعد ان کی پانچویں نسل کو منتقل ہو گیا۔
٭…٭…٭
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
اکتوبر۲۰۲۱ء کا ’’ چمن بتول‘‘ سامنے ہے اس پر تبصرہ قارئین کی نذر ہے ۔ اب کے ٹائٹل بڑا آرٹسٹک ہے ۔ بہار اور خزاں کا ملاجلاتاثر اور لان میں پڑی دو خالی کرسیاں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک کرسی محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خاں کی ہے اور دوسری کرسی مجاہد کشمیر سید علی گیلانی کی ہے اور دونوں یہ کرسیاں خالی چھوڑ کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راہیِ ملک عدم ہو گئے ہیں ۔ اللہ ان کی مغفرت کرے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ اپنے اداریہ میں مدیرہ ڈاکٹر صائمہ نے افغانستان کی موجودہ صورت کی عکاسی ان مصرعوں کی شکل میں زبردست کی ہے ۔
؎ ابھی کچھ دن لگیں گے
دل ایسے شہر کے پامال ہوجانے کا منظر بھولنے میں
جہانِ رنگ کے سارے خس و خاشاک سب سرو صنوبر بھولنے میں
شیر کشمیر ، مرد حریت سید علی گیلانی کو آپ نے ان الفاظ میں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے ’’ عمر بھر ظلم اور نا انصافی کے مقابل ڈٹ کر کھڑا ہونیواالا، شیر کی طرح گرجنے والا بے مثال مجاہد ، لاکھوں سینوں میں شمع آزادی فروزاں کر کے چلا گیا ۔ اس شیر خدا نے طاقت کے ایو ا نو ں کو
ببانگ دہل للکارا ‘‘۔
ڈاکٹر صفدر محمود کی رحلت پر دل رنجیدہ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کبھی مشہور زمیندار کالج گجرات میں میرے بی اے کے کلاس فیلو تھے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے ( آمین)۔
’’ حیات ِدنیا کی حقیقت‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا ایمان افروز مضمون۔یہ جملے قابل غور ہیں ’’ اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیاوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ، وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دے رکھی ہے اور تیرے رب کا دیا ہؤا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے‘‘یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہاں جو کمائے گا آگے کام آئے گا ، ہمیں دنیاوی زندگی سے زیادہ آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔
’’ نبیؐ پر درود کی فضیلت‘‘( ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی) آپ نے اپنے اس مضمون میں درود شریف کی فیوض و برکات اور اجر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ درود شریف پڑھنے سے دعائیں قبول ہوتی ہیں ، مشکلات آسان ہو تی ہیں آخرت میں درود شریف ہمارے لیے باعث نجات و شفاعت ہو گا ۔
’’ جب دین مکمل ہؤا‘‘( محمد الیاس کھوکھر ایڈووکیٹ) واقعہ ہجرت پر ایک تفصیلی مضمون ہے ۔ اس میں ہجرت کے اسباب اور پھر اس کے خوشگوار نتائج پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ ہجرت کے بعد ہی اسلام پھلا پھولا اور مسلمانوں نے کامیابیاں سمیٹیں۔ یہ جملے خوب ہیں ’’ مکہ سے ہجرت اگر اہلِ مکہ کا دیا ہؤا آخری وہ غم ہے جو انہو ں نے حضور ؐ کو دیا تویہی ہجرت وہ پہلا قدم بھی ہے جو اسلام کو کامیابی کی آخری منزلوں تک لے گیا‘‘۔
’’ وسیع البنیاد حکومت کے مطالبے پر کچھ خیالات‘‘ ڈاکٹر اعجاز اکرم صاحب نے افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے مطالبے کا کچاچٹھا خوب کھولا ہے کہ یہ غلط اور حقائق کے برعکس مطالبہ ہے ۔ کوئی حکومت بھی کہاں اپنے مخالفین کو شامل کرتی ہے؟ یہ بڑی بات ہے کہ طالبان نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے ۔
’’ امریکی فوجی یہ تو بتا ‘‘ افغان جنگ ِ آزادی اور جدوجہد پر روبینہ فرید صاحبہ کی ایک زبردست نظم بلکہ مسدس ہے ۔
؎ جو اللہ کے ہو جاتے ہیں
دنیا ان کی ہو جاتی ہے
جو اُس کی خاطر لڑتے ہیں
ڈرتے ہیں نہ ہرگز جھکتے ہیں
نجمہ یاسمین یوسف صاحبہ کی غزل سے ایک منتخب شعر
؎ الفاظ کے رہین ہیں دنیا کے انقلاب
تلوار کی کہاں ہے جو طاقت قلم کی ہے
کرامت بخاری صاحب کی غزل کا ایک منتخب شعر
؎ کھنکتے جام یاد آکر پریشاں کرتے رہتے ہیں
حسیں ایام یاد آکر پریشاں کرتے رہتے ہیں
’’ نذرانہ‘‘( قانتہ رابعہ صاحبہ کا افسانہ) امریکہ کی چمک دمک میں رہنے والا اُس کا دلہا ظالم ثابت ہؤا جبکہ بعد میں پاکستان میں اُس کا بننے والادلہا ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکاثابت ہؤا۔ اس کہانی سے ایک اچھا پیغام بھی ملتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں بیٹیوں کو دیکھ بھال کے بیاہنا چاہیے۔ بڑے ٹیڑھے مزاج کے مرد ہوتے ہیں جو شادی کے بعد لڑکیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں ۔
’’ جھیل اور پرندہ‘‘ ( شاہدہ ناز قاضی) کم ظرف مردوں کی فطرت کی عکاسی کرتی ہوئی ایک زبردست کہانی ۔ کچھ بد بخت مرد عورت کو اپنے پائوں کی جوتی سمجھتے ہیں اگر مصیبت میں ہوں تو خدمت کرتی بیوی انہیں اچھی لگتی ہے ۔ جب آسودہ حال ہوں تو بیویوں کو ناروا سلوک کا نشانہ بناتے ہیں ۔
انشائیہ’’بڑھاپا‘‘ ( ڈاکٹر شاہدہ پروین ) بڑھاپے کے بارے میں ایک مفید مضمون ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہمیں بڑھاپا ایک با وقار طریقے سے گزارنا چاہیے ، بڑھاپے میں ہر وقت گلے شکوے کرنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ صحت مند خیالات و جذبات کے ساتھ بڑھاپا گزاریں ، بچوں کے ساتھ پیار کریں ، نوجوانوں کے ساتھ اپنی زندگی کے
اچھے تجربات شیئر کریں ۔ اپنے آپ کو آخر عمر تک محترک رکھیں ۔ یہ جملے خوب ہیں ’’ بڑھاپا جھریوں کا نام نہیں ، بڑھاپا تھکی ہوئی شکست خوردہ سوچ کا نام ہے ‘‘ تو آئیے اپنی سوچوں کو خوبصورت بنائیں۔
’’ دم ساز‘‘( آسیہ عمران) ایک نہات مفید مضمون جس میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کو ان کی فطری خواہشات کے مطابق کچھ کرنے کا موقع دیں ۔ کھیلنے کودنے کا موقع دیں ان کو اپنی صلاحتیں اجاگر کرنے کا موقع دیں ۔ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے ضرورت کے وقت ان کی رہنمائی کریں ، ان کے لیے گھر کا ماحول خوشگوار بنائیں۔
’’ سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ‘‘( ڈاکٹر فائقہ اویس) ڈاکٹر صاحبہ نے سعودی عرب میں قیام کے دوران کرونا کے دنوں کے تجربات شیئر کیے ہیں ۔ سعودی عرب میں نظم و ضبط کی پابندی زیادہ ہے ۔ مسجد نبوی ؐ کی زیارت کا احوال بھی لکھا ہے ۔ کاش حرمین شریفین کی رونقیں پھر بھرپور طریقے سے بحال ہوجائیں (آمین)۔
’’ ادھوری عید ‘‘ ( عامر جمال ) ایک پر جوش مجاہد فرحت اللہ کی ایمان افروز کہانی جسے شوق شہادت افغانستان کے محاذ پر لے گیا اور اس نے جامِ شہادت نوش کیا ۔
’’الیکٹرانک شرار‘‘( عالیہ حمید ) آپ نے صحیح بتایا ہے کہ موجودہ دور کے شرار ( موبائل ، آئی پیڈ ، ٹیبلٹ، انٹر نیٹ وغیرہ) اکثرگھروں میں ایک مسئلہ بن گئے ہیں اور اکثرنوجوانوں کو سیدھی راہ سے بھٹکانے میں مصروف ہیں ۔ ہم مضبوط قوت ارادی اور قوت ایمان سے ہی ان شراروں کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔
’’ میرے نبیؐ ‘‘( ڈاکٹر خولہ علوی) ایک اچھی اور با عمل مسلمان خاتون کی طرح آپ نے نبی اکرمؐ کا امتی ہونے پر بجا طور پر فخر کا اظہار کیا ہے واقعی رسول پاکؐ حضرت محمد ایک عظیم محسن انسانیت تھے ، سب جہانوں کے لیے رحمت اللعالمین ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ ؐ کی تعلیمات پر خلوص دل اور خلوص نیت کے ساتھ عمل کریں ۔
’’زندگی میں ناکامی اور کامیابی ‘‘(فیصل ظفر ) کامیاب زندگی گزارنے کے اچھے گُر بتائے گئے ہیں ۔ مگر ہمارے دین اسلام نے بھی کامیاب و کامران زندگی گزارنے کے بہترین اصول بتائے ہیں ۔ ان کی موجودگی میں ہمیں غیروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔( آپ کی بات بجا ہے البتہ حکمت کی ہر بات مومن کا ہی اثاثہ ہے جہاں سے بھی ملے ۔ مدیرہ)
’’ بیگم صاحبہ کے چودہ نکات‘‘ ( انجینئر ریاض احمد اُپل) قائد اعظم کے چودہ نکات تو سنے تھے اور زمانہ طالب علمی میں پڑھے بھی تھے لیکن بیگم کے چودہ نکات آج پڑھے ۔ اللہ کرے سب ساسیں ان پر عمل کریں اور پھر بہوئیں بھی اپنے ایسے چودہ نکات واضح کریں ۔ اس طرح گھریلو زندگی خوشگوار گزرے گی ۔
گوشہ ِ تسنیم’’دروازہ ‘‘( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ) ڈاکٹر صاحبہ نے بڑے اچھے جملے لکھے ہیں ’’ ہمارا عقیدہ ہے اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس کا دروازہ موت ہے ۔ ایک چھوٹی زندگی سے بڑی زندگی کی طرف منتقل ہوتا… ہم سب کو اپنے خاتمہ بالایمان کی دعا کرنی چاہیے تاکہ جب موت کے بعد دروازہ کھلے تو وہ ہمیں سیدھا جنت کی طرف لے جانے والا دروازہ ہو ‘‘۔
’’ اسلامی نصاب پر اعتراض کرنے والوں کے لیے ‘‘ ( انصار عباسی صاحب کا کالم ) کچھ احباب نے سکولوں میں قرآن پاک کی تعلیمات پر اعتراض کیا ہے لیکن پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ہاں غیر مسلم طالب علموں کو یہ تعلیمات زبردستی نہ دی جائیں ۔
’’ ڈپریشن‘‘( جاوید چوہدری ) زبردست انتخاب ہے۔ اپنے ملک میں غریب اور نادار لوگوں کی زندگی کی ایک جھلک دکھاتی تحریر ہے ۔ ہمارے ملک میں لاکھوں ایسے غریب لوگ ہیں جو کھانے کو ترستے ہیں ، لباس کو، گھر کو ، تعلیم کو ترستے ہیں ۔ ہم سب کا فرض ہے اورحکومت کا بھی کہ ایسے مستحق لوگوں کی مدد کی جائے ، انہیں زندہ رہنے کا حق دیا جائے ۔
آخر میں چمن بتول ادارہ بتول اور سب قارئین کے لیے نیک خواہشات ۔ سکھی رہیں اوردوسروں کو بھی سکھی رکھیں ۔
٭ محترم! اپنا کوئی موبائل نمبر یا ای میل ایڈریس ہمارے
رابطے کے لیے مہیا کر دیں تاکہ تحریروں پر اور خط میں درج جواب طلب امور پر ادارتی رائے دی جاسکے۔
٭…٭…٭
خورشید بیگم۔گوجرہ
ماہ جون کا شمارہ دس تاریخ کو مل گیا ۔ سوچا وقت ہے پڑھ لوں گی اورتبصرہ بھی لکھ لوں گی لیکن عجیب مصروفیات آڑے آئیں ۔ نتیجہ وہی کہ پندرہ کو تبصرہ لکھا گیا اور سولہ تاریخ کو پوسٹ کرنے کی نوبت آئی۔
سب سے پہلے صائمہ اسما صاحبہ کے لیے ڈھیروں مبارکباد انہوں نے علوم ابلاغیات میں پی ایچ ڈی مکمل کرلی ہے اللہ کرے ان کے اس علم سے نہ صرف وطن عزیزبلکہ عالم اسلام مستفیدہو۔ حالات حاضرہ پر ان کا سیر حاصل تبصرہ ان کی علمی قابلیت اورحاضر دماغی کا ثمرہے ۔
(انوار ِ ربانی) ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے انصاف کے موضوع سے خوب انصاف کیا ہے ۔ حقیقی اسلامی معاشرہ کی جھلک دکھا دی ہے۔ (قولِ نبیؐ) ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی ہمیں خطبہ حجۃ الوداع سے آگاہ کرتی ہیں ۔ بلا شبہ یہ خطبہ اصول اخلاقیات ضوابط حسنِ معاشرت کا جامع دستور العمل اور عالمی انسانی منشور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس سے بہتر انسانی حقوق کا چار ٹر اورکون سا ہوگا۔
(خاص مضمون) پروفیسر امیر الدین صاحب نے خلفائے راشدین کے رفاہی کاموں پر روشنی ڈالی ہے آج کی حکومتوں کے لیے واضح رہنمائی موجود ہے ۔
’’ مدو جزر بے حد سبق آموز کہانی ہے ، اللہ کا رنگ شہلا خضر صاحبہ کی مختصر کہانی اپنے اندر ایک جامع پیغام رکھتی ہے ۔بے شک آجکل تبلیغ دین کے پر دے میں چھپی منافقت کو پہنچاننے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے آس پاس ایسے بہت سے مسلمان موجود ہیں جو دوسروںکودین کی حکمت بھری باتیں بتاتے ہیں ۔ لیکن اُن کے اعمال میں ان نیکیوں کی جھلک نظر نہیں آتی ۔ ’’منزل ہے کہاں تیری‘‘(عالیہ شمیم ) واقعی مسلمان کی یہ منزل نہیں ۔ وہ اگر مغربی تہذیب کو اپنانے کی کوشش کرے گا تو منہ کے بل ہی گرے گا ۔
یہ ہے دو گھرانوں کی کہانی( عالیہ حمید) پاکستانی معاشرے میں طبقاتی تفاوت کی نشاندہی کر رہی ہے ،تلخ حقائق ہیں۔’’ہمیںخبر ہی نہ تھی تو بھی رہگزر میں ہے ‘‘ شہلا اسلام صاحبہ نے موثر انداز میں ایک عورت کی اندرونی کشمکش کو کہانی میں ڈھالا ہے۔
جنگی قیدی کی آپ بیتی اپنی تاریخ سے آگہی کا بہت اچھا سلسلہ ہے اگرچہ یہ تاریخ کا بھیانک چہرہ ہے پھر بھی ہماری اگلی نسل کو اس سے آگاہ ہونا چاہیے تاکہ وہ عبرت حاصل کرے۔
میری اماں جان اور اللہ والے بابا جی ، عامر جمال صاحب کی مختصر یاد داشت بہت کچھ سکھا رہی ہے ۔ ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے ہمارے خوبصورت دین کو ہم سے کوئی چپکے سے چرا لے گیا ہو ۔ میں ایک ایسی خاتون کو جانتی ہوں جو ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوئیں ، حالات کی تلخی کا سامنا کیا ،ہزار آزمائشیں جھیلیں ، پاکستان آئیں ، اسلام کا اصل رنگ تو کم ہی نظر آیا فرقہ واریت سے واسطہ پڑا ۔ بے حد پریشان ہوئیں ، اب جائے ماندن نہ پائے رفتن۔
ڈاکٹر فائقہ اویس صاحبہ کا بہت شکریہ کہ سعودی عرب میں اپنے مشاہدات و تجربات سے ہمیں آگاہ کرتی جا رہی ہیں ۔
اور اب ہے گوشہ ِ تسنیم ( رونے والا دل ایک نعمت)کتنی پیاری اوردل کی گہرائی سے نکلی ہوئی باتیں ہیں ڈاکٹر صاحبہ کی ۔ کاش انہیں پڑھا جائے ، ان پر غور کیا جائے انہیں اپنے عمل کا حصہ بنایا جائے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ممالک دنیا میں جنت کا نمونہ نظر آئیں ۔ اصل اسلام تو یہی ہے اور یہ دین قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے اسی اعلیٰ کردار کی وجہ سے پوری دنیا میں پھیلا ہے ۔
اللہ کرے ڈاک بر وقت پہنچ جائے اور میری تحریر شرفِ قبولیت حاصل کرے ۔
(٭ کچھ تو آپ کی تحریر دیر سے ملی اور کچھ تاخیر اشاعت میں ہماری طرف سے ہو گئی جس کے لیے معذرت! مدیرہ)
٭…٭…٭
ڈاکٹر فائقہ اویس صاحبہ کا بہت شکریہ کہ سعودی عرب میں اپنے مشاہدات و تجربات سے ہمیں آگاہ کرتی جا رہی ہیں ۔
اور اب ہے گوشہ ِ تسنیم ( رونے والا دل ایک نعمت)کتنی پیاری اوردل کی گہرائی سے نکلی ہوئی باتیں ہیں ڈاکٹر صاحبہ کی ۔ کاش انہیں پڑھا جائے ، ان پر غور کیا جائے انہیں اپنے عمل کا حصہ بنایا جائے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ممالک دنیا میں جنت https://www.camisetasclubes.com/shop/la-liga-atl%C3%83%C2%A9tico-bilbao-c-11_122.html