بشریٰ تسنیم۔شارجہ
بہت پیاری صائمہ !
پہلی سماعت پہ دنیا کی سب سے ناقابل یقین خبر کسی کا دنیا سے چلے جانا ہوتی ہے ۔ یہ جانے والا اگر اپنی عزیز دوست کا شریک حیات ہو تو زندگی ایک جھٹکے سے رک سی جاتی ہے لیکن یہ خبر چونکہ رب العالمین کا اٹل فیصلہ ہوتا ہے تو وہ عظیم ہستی اس کا ادراک کروا دیتی ہے اور تھام بھی لیتی ہے ۔
کل نفس ذائقة الموت۔فصبر جمیل انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
جانے والے کے لیے اب دعائے مغفرت کے سوا کوئی خیر خواہی نہیں ۔ ان کے صدقہ جاریہ کے ہر کام کو اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق ہر آن عروج عطا فرمائے ۔ سب حسنات قبول فرمائے خطائیں معاف فرمائے ۔ پس ماندگان پہ خصوصی رحمت فرمائے آمین ۔
دلی دعائیں محبت کے ساتھ…. اللہ تعالیٰ تمہیں سکینت عطا فرمائے آمین۔ تم سے بظاہر دور ہوں لیکن دل سے قریب ہو ۔پاکستان ہوتی تو ضرور تمہارے پاس آتی….ان شاءاللہ ملیں گےبشرط زندگی ۔
واللہ مع الصابرین
دل چاہتا ہے جلدی ملاقات ہو بس دونوں خاموش رہیں اور ایک دوسرے کے آئینہ دل میں حالت زار دیکھتے رہیں ۔ خیالوں میں نہ جانے کتنی باتیں کرتی رہتی ہوں، سوچتی ہوں تمہارا اور میرا سب کا رب ایک ہی ہے دلوں کے تار اسی کے نام پہ لاسلکی روحانی رشتے کے ذریعے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس پہ شکر کرنا واجب ہے ۔
بوڑھے والدین کے لیے یہ صدمہ سہنے کی ہمت بھی وہ رب ہی دیتا ہے جو دلوں کا حال جانتا ہے، تمام قدرتوں اور حکمتوں کا تنہا مالک ہے ہم سب اس کے فیصلے پہ راضی ہیں اگرچہ دل صدمے سے لرز رہا ہے وہ پیارا رب دلوں کی تکلیف پہ اجر عظیم کا وعدہ کرتا ہے ۔ سبحان اللہ!
اللہ تعالیٰ کی نظر کرم محبت و شفقت کے ساتھ ہر وقت صدمہ سہنے والے دل کی ڈھارس بندھاتی رہتی ہے ۔و للہ الحمد ۔
اللہ تعالیٰ ہی سب کا دنیا و آخرت میں حقیقی وارث اور ولی ہے وہ زندگی کی ہر مشکل میں آسانی پیدا کر دیتا ہے یہ اس کا وعدہ ہے۔
اہل خانہ سے فردا ًفرداً حسب مراتب پیغام تعزیت ۔ قلبی دعا ئوں کے ساتھ ۔
٭ ٭ ٭
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
ہمارے ’’ چمن بتول ‘‘ کی ہر دل عزیز مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کے شوہرنامدار نسیم ظفر صاحب کی وفات ِ حسرت آیات پرہم سب قارئین کو گہرا دلی رنج وغم محسوس ہؤا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کے لیے یہ صدمہ بہت گہرا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کے مرحوم شوہر کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس کے اعلیٰ گوشوں میں جگہ عطا فرمائے اورڈاکٹرصاحبہ ان کے بچوں اورسب لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے ( آمین )۔مرحوم خود بھی سب حلقوں میں مقبول اورہر دلعزیز تھے ۔ ایک نئی جدت کے بہترین استاد اورٹرینر۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے ( آمین )۔
نوجوان آرٹسٹ تحریم ریاض نے ٹائٹل میں سانحہ کربلا کی زبردست عکاسی کی ہے۔ امید ہے وہ آئندہ بھی ’’ چمن بتول‘‘ کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گی ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ اس دفعہ کا اداریہ محترمہ آسیہ راشد صاحبہ نائب مدیرہ ’’ چمن بتول‘‘‘ کا تحریرکردہ ہے۔آپ نے بھی نسیم ظفر صاحب کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
فلسطین کے حالات کی سنگینی کا آپ نے ذکر کیا ہے’’فلسطین کے حالات نہایت سنگین اورپیچیدہ ہیں جس کے لیے عالمی برادری اوراسلامی ممالک کی خاص طورپر منظم اورموثرکوششوں کی ضرورت ہے۔‘‘ بلا شبہ اسرائیل نے فلسطین میں ظلم وستم کی انتہا کردی ہے۔اللہ ظالموں کے ہاتھ توڑے۔
آپ نے حج کے موقع پر آئے حاجیوں کی اموات پر بھی بجا تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار اورمہنگائی پرفکر مندی ظاہر کی ہے۔
’’ شیطان کھلا دشمن ہے ‘‘ ڈاکٹرمیمونہ حمزہ کا فکر انگیز مضمون، آپ نے واضح کیا ہے شیطان راندہِ بارگاہ خداوند ہونے کے بعد انسانوں کے دل و دماغ پر حملے کر کے انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن صرف کمزور ایمان والے اُس کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں ۔
’’ حقیقت ابدی ہے مقام شبیری‘‘( پروفیسر ڈاکٹر فارحہ جمشید) سانحہ کر بلا یہ ایک اچھا مضمون ہے ۔یہ جملے قابل غورہیں ’’ حریت مر چکی تھی ایسے میں حضرت امام حسین ؑ اٹھے اورکربلا کی زمین میں حریت کوہمیشہ کے لیے زندہ کردیا اورزندگی ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی عشق الٰہی کی بدولت با مقصد ہو گئی ۔
’’ تربیت اولاد اوراس کے رہنما اصول‘‘( شگفتہ عمر ) تربیت اولاد پر ایک بہترین رہنما مضمون بہترین مشورے دیے گئےہیں یہ جملہ خوبصورت ہے’’ اچھی پرورش اورتربیت کے ذریعے اولاد دنیا کی زندگی کی آرائش اور آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوسکتی ہے ۔‘‘ آپ نے واضح کیا ہے کہ اولاد کی دینی ، دنیاوی ، معاشرتی ، نفسیاتی ، جسمانی اور ذہنی تربیت والدین اور اساتذہ کا فرض ہے ۔
’’ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ‘‘ آسیہ راشد صاحبہ کا تحریرکردہ زبردست تحقیقی اورمعلوماتی مضمون ۔ یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ وہی قومیں زندہ اور پائندہ رہتی ہیں جو اپنے مشاہیر اورقومی رہنمائوں کو مشعلِ راہ سمجھ کر ان کی پیروی اور تقلید کرتی ہیں ۔‘‘ آپ نے بجا لکھا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں ، وہ نہ صرف اس قوم کی محسنہ ہیں بلکہ پاکستانی خواتین اورلڑکیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔ جدوجہد آزادی کے کٹھن اورنازک دورمیں وہ ہمیشہ اپنے بھائی کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں ۔ تحریک پاکستان میں آپ کی خدمات نا قابل فراموش ہیں ۔آپ نے خواتین میں بھی آزادی کی لہر اورتڑپ پیدا کردی ۔
قائد اعظم ہر کام کرنے سے پہلے اپنی بہن سے ضرورمشورہ کرتے ۔ قائد اعظم کی بیماری کے دنوں میں بھی آپ نے ان کی بہت خدمت اور تیمارداری کی ،ان کی وفات کے بعد ان کے مشن کوآگے بڑھایا ، خواتین کی تعلیم اورصحت کے شعبہ میں بچوں کی فلاح وبہبود میں آپ کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔ آپ بڑی مدبر، دلیر، دانا ، حق گو اورجمہوریت پسند تھیں ۔ آپ نے نہایت دلیری اورجرأت کے ساتھ انتخابات میں آمر ایوب خان کا مقابلہ کیا۔
’’ یہ سوچا تو ہوتا ‘‘ بنت مجتبیٰ مینا ؔ صاحبہ کی ضمیرکوجھنجھوڑنے والی نظم
یہ کیوں قتل گاہیں ہیں صحرا بہ صحرا ؟
یہ کیوں خون پانی ہے دریا بہ دریا ؟
’’ عشقِ حسینؓ‘‘ شاہدہ اکرام سحر صاحبہ کے کلام سے حاصلِ نظم شعر:
ہر دور کا یزید ہوا جب بھی سامنے
ہر دور کے حسین نے پہنا لہو لباس
’’ پنکچویشن‘‘ ڈاکٹرصائمہ اسما کی ایک گہری سوچ اورجذبات میں ڈوبی خوبصورت نظم۔ یہ خوبصورت اشعار :
تمہیں بھیجوں کتابِ زندگی اپنی
ذرا ترتیب دے دینا
جہاں پر ختم ہوتا ہو کوئی درد آشنا جملہ
فراموشی کا نقطہ ثبت کر دینا
’’ کربلا کے شہید کے نام ‘‘ ریاض احمد قادری کا کلام:
تا ابد تابندگی وہ پا گئے
ظلمتوں میں روشنی پھیلا گئے
دہر میں سب سے سوا ان کا مقام
کربلا کے سب شہیدوں کو سلام
حبیب الرحمٰن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر:
ہوئے تیغوں کے اب سایوں کے سب قصے پرانے
ہمیں چھاؤں تلے پلنے کی عادت ہو گئی ہے
’’ خانوادہ ابراہیمؑ ‘‘ (شگفتہ ضیا کی نظم)
نہ سوال تھا نہ ہی عرض غم، نہ ہی شکوہ سنج تھی وہ زبان
صرف جستجوئے رضائے رب، یہی ابتدا یہی انتہا
’’ لاجواب‘‘ ایسی لا جواب کہانی قانتہ رابعہ صاحبہ کا قلم ہی لکھ سکتا ہے۔بڑے پیارے انداز سے سمجھایا ہے کہ ڈرامہ یا فلم آرٹسٹوں کے دلوں میں بھی دین کی محبت ہوتی ہے۔وہ بھی گناہ و ثواب کاشعور رکھتے ہیں ، لیکن معاشرہ ان کے لیے مختلف تاثر رکھنا پسند کرتا ہے۔
’’ جنت کدہ ‘‘ (ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی) قدیم تہذیب اور معاشرتی رشتوں میں گندھی ہوئی کہانی ۔ یہ ان دنوں کی کہانی ہے جب خاندان اکٹھے ایک حویلی میں رہتے تھے ۔پیار محبت ، حسد سب ہوتا تھا ۔ ایک وسیع خاندان کی کہانی ۔ آخر میں یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ خوشیوں کی مہک قریب آچکی ہے ۔شاید میں جنت کدہ کے بالکل قریب پہنچ گئی ہوں۔ جی ہاں چنبیلی ، مولسری، بیلا ، گلاب، رات کی رانی کی مہک کا تیز جھونکا آیا ہے ‘‘۔ ایک خوبصورت کہانی ۔
’’ رشتہ لباس‘‘ (فرحی نعیم ) ایک معاشرتی کہانی یہ سبق سکھاتی ہے کہ ہمیں لڑ جھگڑ کے اپنا پردہ سب کے سامنے فاش نہیں کرنا چاہیے ۔یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ اس رشتے کی خوبصورتی اس کے قائم رہنے میں ہے اوریہ قائم اسی وقت رہ سکتا ہےجب اس تعلق کی پیارمحبت اورعزت و احترام سے آبیاری کی گئی ہو‘‘۔
’’ سیما کلینک‘‘ (بشریٰ ودود) یہ ہمارے معاشرے کی ٹریجڈی ہے کہ بعض اوقات بہو کوپیسے کمانے کی مشین سمجھ لیا جاتا ہے ،اس کے آرام سکون کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا ۔یہ ایک مجبورڈاکٹرسیماکی ایسی ہی کہانی ہے۔ آخر میں یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ بے دم ہوتی سیما کی آنکھیں بھیگتی چلی گئیں آنسوئوں کی جھڑی ایسی لگی کہ ٹوٹنے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔وہ سوچ رہی تھی انسان کتنا بے وقعت ہو جاتا ہے … کلینک تو دو دن سے بند پڑا ہے اوریہ دل تومدت سے اداس پڑا ہے ‘‘۔
’’ نٹ کھٹ زندگی‘‘( عینی عرفان کا سلسلہ وارناول ) سگھڑ ساس صاحبہ، اناڑی بہوئوں سے خوش اور گھر کا ماحول خوشگوار ۔آخر میں یہ جملہ خوبصورت ہے’’ اس کو یقین تھا کہ دنیا کا ہررشتہ خالص ہو سکتا ہے اگر دل تھوڑا بڑا کرلیا جائے ‘‘۔
’’ چھوٹی سی بجیا ‘‘ ( پروفیسر امینہ سراج) آپ نے ڈاکٹر صائمہ اسما کے بارے میں ایک مختصر مگردلچسپ مضمون لکھا ہے جس سے ڈاکٹر صاحبہ کی شخصیت اوران کے عزم وحوصلہ کی جھلک نظرآتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت اورصبرجمیل عطا فرمائے ( آمین )۔
’’ تعزیتی پیغامات‘‘محترمہ شاہدہ اکرام صاحبہ، قانتہ رابعہ، اورفائقہ سلمان نے خصوصی تعزیت اورگہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی ہےاورڈاکٹرصاحبہ اور لواحقین کے صبر جمیل کی دعا ۔
’’ افلاک کی وسعت میں ستارہ تھاوہی ایک ‘‘ (وقاص جعفر ی) آپ نے اپنے اس مضمون میں مرحوم نسیم ظفر صاحب کی ہمہ پہلوشخصیت کے مختلف گوشوں کوآشکار کیا ہے۔ وہ بہترین ٹیچر، ٹرینر، قدرتی مناظراورپہاڑوں کے شیدائی پراثرگفتگو کے حامل ، دوسروں سے ہمدردی کرنے والے ، اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے ۔
’’ عاشق کو ہ وبیاباں‘‘ ( نثار موسیٰ) آپ نے بتایا ہے کہ مرحوم نسیم ظفرصاحب گلیمرس ٹریننگ کی بجائے اپنی کلاسز جنگلوں ، پہاڑوں ، صحرائوں اورقدرتی مناظر میں لگاتے تھے ۔ آپ نہایت محنت سے ٹریننگ دیتے تھے ، جس میں اخلاقی تربیت شامل تھی۔ آپ نے ٹریننگ کاانوکھا تصورملک میں پیش کیا۔
’’بتول میگزین‘‘ وار دات ( سعدیہ نعمان) نفسیاتی الجھنوں کو واضح کرتی کہانی کہ انسان کے اندر کا موسم اچھا نہ ہو توباہرکا موسم اچھا نہیں لگتا ۔
’’ اردوقواعد‘‘( عالیہ بٹ) لگتا ہے آپ خود ابھی سکول سے فارغ ہوئی ہیں اوراردوگرامر سے پریشان ہیں ۔’’عہد الست کی کہانی‘‘ ( عالیہ زاہد بھٹی ۔ بہت پیارا پیغام دیتی کہانی کہ ہمیشہ سچ اور حلال کو اپنانا چاہیے۔ حرام اور ناجائز کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔ آپ کے اندر ایک پختہ کہانی کار جھلکتا ہے۔
’’ ہیں کواکب کچھ ‘‘ (طلعت نفیس) نند بھابھی کی چپقلش پرمبنی ایک کہانی ۔رخسانہ کوثر نے شہادت امام حسین ؓ سے حاصل ہونے والے سبق پرمبنی ایک مختصر لیکن اچھا مضمون لکھا ہے۔ ’’ کاش ہم زندگی جینا جانتے ‘‘ (لالہ رخ) نے کارآمد باتیں تحریر کی ہیں ۔
’’ موسم گرما کے اثرات اوراحتیاط‘‘ ( ڈاکٹرناعمہ شیرازی) گرمی کے موسم میں احتیاط برتنے کے لیے مفید مشورے اس مضمون میں شامل ہیں ۔
گوشہ ِ تسنیم ’’ یاد داشت کا حسن‘‘ ( ڈاکٹربشریٰ تسنیم صاحبہ کا کالم) اب کے ڈاکٹر صاحبہ نے نہایت مشکل کالم لکھا ہے۔ محسوس ہوتا ہےکہ ڈاکٹرصاحبہ ماہرنفسیات اورماہر نیورو فزیشن ہیں ۔آخر میں کالم کا مقصدنظر آیا تواطمینان ہوا۔
٭ ٭ ٭
فلزہ آفا ق ۔ لاہور
ہمیشہ کی طرح ماہنامہ بتول کی آپا زہرہ وحید بہت اچھی کاوش تھی ان کی ہمہ جہتی ، مخلصانہ کوششوں کے لحاظ سے اس بات کی ضرورت لگتی ہے کہ ان کے بارے میں تاثرات کوکتابی شکل دے دی جائے اور مزید مواد بھی شامل کیا جائے مثلاً فی سبیل اللہ ٹرسٹ کے لیے ان کی خدمات، کوششیں ، وہ ایک قیمتی عہد تھا جو انہوں نے گزارا اورہمیں اسے ضرور آگے پہنچانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں ( آمین )۔
پیاری بہن صائمہ کے شوہریقیناً ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ تھے اور ان کی نیکیاں صائمہ اور ان کے بچوں کی راہوں کو ہمیشہ منورکرتی رہیں گی انشااللہ ۔اللہ تعالیٰ ان کے اوران کے گھروالوں کے صبر اورحوصلے پرانہیں بہترین اجر و استقامت عطا فرمائیں اورجانے والے کی بہترین میزبانی فرمائیں ( آمین ) ، ہم سب دل سے ان کے لیے دعا گو ہیں ۔
٭٭٭