ایک ننھا بچہ جب دنیا میں آنکھ کھولتا ہےتواس کی زندگی اورحفاظت کا انتظام پہلے سےہی رب کائنات کی طرف سے کردیا جاتا ہے۔اس کے نظام ِخون اورنظامِ تنفس میں پیدائش کے ساتھ ہی ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کی وجہ سے اسے ماں سے علیحدہ اپنی زندگی برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے ۔
پیدائش کے ساتھ ہی جو بہت بڑی نعمت اس کے خالق کی طرف سے اُسے عطا کی جاتی ہے وہ اس کی ماں کا دُودھ ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
بچے کاحق ہے کہ اسے ماں کادودھ پہلے 6 ماہ میں کلیۃً اور2 سال تک دوسری غذا کے ساتھ پلایا جائے ، اورکم وزن یا وقت سے قبل پیدا ہونے والے بچے کے لیے یہ امر بھی ضروری ہے ( جو 37 ہفتے کے حمل سے پہلے پیدا ہوتے ہیں )۔
جہاں تک موخرالذکر بچوں کا تعلق ہے ان کی نگہداشت بہت توجہ اورمحنت کا تقاضا کرتی ہے ، یہ بہت آسانی سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
2020ء کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ان بچوں کی تعداد 13.4ملین تھی (Unicef) ایک رپورٹ میں پاکستان میں ایسے بچوں کی شرح 21.64بتائی گئی ہے جبکہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اصل میں یہ تعداد اس سےبھی بہت زیادہ ہے ۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں بچے کے لیے زندگی کے ابتدائی دور میں ماں کادودھ ہی بہترین غذا ہے جس میں وہ تمام غذائی اجزا متناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں جن کی بچے کو پہلے 6 ماہ میں ضرورت ہوتی ہے ۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کی اپنی ماں کا دودھ ہی اس کی بہترین غذا اور دوا ہے ، بہ نسبت کسی اورماں کے دودھ کے ۔یہ دودھ اپنی خصوصیات میں ان مائوں کے دودھ سے مختلف ہوتا ہے جن کے بچے وقت پرپیدا ہوتے ہیں ۔یعنی بچے کا حقیقی خالق ، اس کی اپنی ماں کے دودھ میں ہی وہ خصوصیت پیدا کردیتاہے جس کی اس پری میچور بچے کو ضرورت ہے۔ سبحان اللہ! اس میں لحمیات ، چکنائی اوردوسرے اجزا اس کمزور بچے کی صحت اوربڑھوتی کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اکسیر ہیں ۔چنانچہ بچے اور اس کی ماں کے اس تعلق کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے ۔(پیدائش کے فوراً بعد سے )۔
اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب بچہ اتنا کمزور ہوکہ دودھ پینے کے لیے توانائی صرف نہ کر سکے یا ماں کو دودھ پلانے میں دشواری ہو یا کسی وجہ سے بچے کی ماں موجود ہی نہ ہو۔
پہلے مسئلے کے حل کے لیے بہت سے طریقے موجود ہیں ۔ ماں کا دودھ چمچ، ڈراپر یا معدے کی نالی کے ذریعے بھی کمزور بچے کو دیا جا سکتا ہے۔جب مائوں کو سمجھا کر اس کا طریقہ بتایا جاتا ہےتوبہت اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں باوجود احتیاطی تدابیرکے ، دنیا میں پیدا ہونے والے ان Pre matureبچوں کی تعداد میں خاطرخواہ کمی نہ ہو سکی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی وجوہات مختلف ہیںاوراس کے سد باب کے طریقے بھی اسی طرح مختلف ہوں گے ۔
عمومی طورپر ماں کی غذا کی کمی حمل میں بہت سی پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔ جس میں بچے کی نشوونما میں کمی ، پیدائش پر کم وزن ہونا ، اوروقت سے جلدی پیدائش کا ہونا سر فہرست ہیں ۔
حال ہی میں ان کمزور پیدا ہونے والے بچوں کے لیے پاکستان میں ملِک بینک قائم کرنے کی ایک کوشش کی گئی جسے اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ آنے تک روک دیا گیا ہے ۔
اس بات کا علمی احاطہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ ملِک بینک کا تصور کیا ہے ؟ کیا پاکستان میں اس کی واقعی ضرورت ہے؟ اس کے فرد اورمعاشرے پرکیا متوقع اثرات ہیں ؟ اورسب سے اہم یہ کہ کیا یہ تصورہمارے دینی ، اخلاقی ،سماجی رویوں سے مطابقت رکھتا ہے ؟ اوراس کے متبادل کیا طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں جو ضرورت کو بھی پورا کریں اورفرد، معاشرے اورشریعت سے بھی متصادم نہ ہوں۔ کسی بھی تصور ، رویے یا عادت کی اندھا دھند تقلید ، بغیر علمی احاطہ کیے دانشمندی نہیں ہوسکتی۔
دودھ پلانے والی مائوں کی رہنمائی کے لیے ایسے لیکٹیشن کلینکز بڑے ہسپتالوں میں موجود ہیں جہاں درست پوزیشن اوردودھ پلانے میں آنے والے مسائل کا حل بتایا جاتا ہے جس سے تقریباً یہ تمام مائیں اپنے بچے کودودھ پلانے کے قابل ہوجاتی ہیں اوردودھ پلانے میں ناکامی کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔
مغرب میں 2021ء کی ایک تحقیق کے مطابق جب نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی نرسز کی تربیت کی گئی تاکہ وہ ایسی مائوں کی درست رہنمائی کرسکیں تو کلیۃً دودھ پلانے والی مائوں کی تعداد 58.1کے مقابلے میں 66.6فیصد رہی ( ہمارے ہاں یہ تعداد یقیناً زیادہ ہوگی)۔ اگر بچے کی ماں موجود نہ ہو ( کسی بھی وجہ سے ) یا بچے کو دودھ نہ پلا سکے توکوئی اورصحت مند ماں بچے کودودھ پلا سکتی ہے ۔
جہاں تک ملِک بینک میں ذخیرہ کئے ہوئے دودھ کا تعلق ہے ، اس سے ہمیشہ ہیپاٹائٹس بی ، سی اورایڈز جیسی مہلک بیماریوں کے منتقل ہونے کا خطرہ موجود رہتاہے ۔دودھ کوجراثیم سے پاک کرنے کے لیے جس درجہ حرارت سے گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے اس سے دودھ کے کچھ ضروری اجزا بھی ضائع ہوجاتے ہیں جن کی بچے کو ضرورت ہوتی ہے۔ ذخیرہ شدہ دودھ کی افادیت پر بحث ہو رہی ہے جہاں ملِک بینک قائم ہو چکے ہیں۔
حاصل شدہ دودھ کی مکمل سکریننگ( مختلف بیماریوں سے متعلق) کے بارےمیں بھی تحفظات ہیں ۔بجلی جانے سے یا مشینوں کی خرابی آنے سے جراثیم کش عمل اور خاص ٹمپریچر قائم رکھنے کے عمل میں تعطل کے بھی امکانات ہیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دودھ کے بارے میں مکمل ریکارڈ رکھنا کہ یہ کن مائوں سے لیا گیا ہے ،ترقی یافتہ ملک ( اٹلی) میں بھی 88فیصد سے زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا۔
معاشی اثرات
ایک اندازے کے مطابق ملِک بینک میں ذخیرہ شدہ دودھ پر3 سے 5ڈالر فی اونس کے حساب سے لاگت آئے گی۔
یہ خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا کہ ذخیرہ شدہ دودھ کی خریدو فروخت ایک خفیہ بزنس بن جائے جہاں بغیر احتیاطی تدابیر کے دودھ فروخت ہونے لگے، جیسا کہ اعضا کی خریدو فروخت ایک بزنس بنا اورلوگوں کا استحصال کیا گیا ۔
دینی نقطہ نظر
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اورہمیں قرآن وسنت میں ہمیشہ کے لیے رہنمائی دے دی گئی ہے ۔
رضاعت کا تصور( ماں کے علاوہ کسی خاتون سے بچے کودودھ پلانا) ہمیشہ مسلم سوسائٹی میں موجود رہا ہے ( شریعت کی عائد کردہ حدود کے ساتھ ) ہمارا ایمان ہےکہ شرعی قوانین میں بے شمارحکمتیں پنہاں ہوتی ہیں کیونکہ یہ ہمارے خالق کے عطا کردہ ہیںجو ہمیں ہم سے بڑھ کر جانتا ہے ۔
مسئلے کا حل
رضاعت کے اس بنیادی تصور کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسے ادارے بنائے جا سکتے ہیں جہاں ایسی صحت مند مائوں کی فہرست ہو جواپنے بچے کودودھ پلا رہی ہوں اورکسی ایسے بچے کو بھی دودھ پلانے پر رضا مند ہوں جن کی ماں کسی وجہ سےموجود نہ ہو، یا بیماری یا کسی اوروجہ سے اپنے بچے کودودھ نہ پلا سکتی ہو ۔یہ ادارے کسی بھی ہنگامی ضرورت میں رابطے کا کام کر سکتے ہیں ۔ اس طرح دودھ کو ذخیرہ کرنے کی پیچیدگی سے بھی بچا جا سکتا ہے اوررضاعی ماں کے تمام کوائف بھی محفوظ اورمنتقل ہو سکتے ہیں۔
یہ طریقہ غیررسمی طورپر ہمارے دیہاتوں اورشہروں میں ابھی بھی رُوبہ عمل ہے یہاں رضاعی ماں بھی معلوم ہوتی ہے اورمحرم رشتے بھی واضح ہوتے ہیں ۔ اس طرح شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہےبغیراس کے کہ معاشرے میں کوئی انتشار پیدا کیا جائے ۔ یہ طریقہ آسان بھی ہے ، قابل قبول ،سستا ہے اورسب سے بڑھ کر شریعت سے مطابقت رکھتا ہے ۔
حفاظتی تدابیر
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کمزور بچوں کی پیدائش کی روک تھام اوران کی وجوہات کو ختم کرنے پرتوجہ دی جائے ۔
اگرمائوں کی صحت ،غذا ، حمل میں نگہداشت پرتوجہ دی جائے اوروسائل فراہم کیے جائیں تو نہ صرف بہت سے بچوں کی ، بلکہ ان کی مائوں کی قیمتی جانوں کو بھی بچایا جا سکتاہے۔
سفارشات
(۱) ہر حاملہ عورت کو حمل کے دوران ،زچگی اوررضاعت میں تمام طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔
(۲) عوام کوعموماً اورخاندانوں ، شوہروں کو خصوصاً حاملہ اوردودھ پلانے والی مائوں کی جسمانی ، ذہنی ، سماجی صحت اور ضروریات کے متعلق آگاہی دی جائے ۔
(۳)baby family hospital( بچہ دوست ہسپتال جہاں ابتدا سے ہی بچے کو ماں کا دودھ دیا جائے ) Lactahin manegement clinics جہاں مائوں کے بچے کودودھ پلانے کے درست طریقے سمجھائے جائیں ، رہنمائی دی جائے اورمسائل حل کیے جائیں۔ایسے اداروں کو ملک کے تمام پرائیویٹ اورسرکاری ہسپتالوں کا لازمی حصہ بنایا جائے ۔
(۴) تمام متعلقہ طبی عملے کو بچے کوماں کا دودھ پلانے کی رہنمائی دینے کے لیے مناسب تربیت دی جائے ۔
(۵) طبی ادارے ایسی مائوں کی فہرست مرتب کریں جو ضرورت پڑنے پرکمزوربچوں کے لیے رضاعی ماں کا فریضہ انجام دینے کے لیے تیار ہوں۔
مغرب سے اٹھنے والی آوازیں ان کی مخصوص تہذیب اوراقدار کا نتیجہ ہوتی ہیں جبکہ وہ خود بھی اکثر ضرررساں اثرات سے بے زار نظرآتے ہیں ۔
ہماری بنیادیں کلمہ توحید پررکھی گئی ہیں اور اس مضبوط ، پائیداراور حقیقی بنیاد پر بننے والی تہذیب ، کسی پیوند کی محتاج نہیں ہے بلکہ خود روشنی کامینار بننے کے لیے ہے ۔
٭ ٭ ٭