۲۰۰۴ میں ہمارے بچے کویت منقل ہو گئے، ہم نے ان کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیوں کے مزے لیے، ستمبر میں ہمیں ایک سمسٹر کی پڑھائی کے لیے پھر پاکستان آنا پڑا۔ ہمارا قیام والدہ صاحبہ کے گھر تھا، جو ان دنوں کافی علیل تھیں۔بستر پر لیٹے لیٹے اپنی مددگار کو ہدایات دیتیں اور وہ ناشتا کھانا سب تیار کر کے گرما گرم انہیں پیش کر دیتی، اور اب تو ان خدمتوں میں ہم بھی شامل ہو گئے۔ ایک روز چائے کا کپ ختم کرنے کے بعد اس کی تہہ میں جھانکا تو کچھ داغ نظر آئے، ہم امّی جان کی لاڈلی رخسانہ صاحبہ کو سمجھانے باورچی خانے میں گئے، کہ کچھ داغ واقعی برے ہوتے ہیں، اور صحت کے لیے نقصان دہ بھی! رخسانہ صاحبہ نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ چائے کے کپ دوبارہ دھو کر رکھ دیے۔ اگلے روز کھانا بنانے کے لیے کچن کا رخ کیا تو ایک دو نہیں ساری دیگچیاں اور پریشر ککر داغ شدہ پائے۔ ہمیں شدید رنج ہئواا، ہماری پیاری امی جان جو اتنی نفیس اور سلیقہ مند تھیں، جو ماسیوں سے صفائی ستھرائی کرواتیں تو انہیں بھی صاف ستھرابنا دیتیں، اور آج وہ بستر پر پڑ گئیں ہیں تو ان کا کچن اور اس میں برتنوں کی حالت ایسی ناگفتہ بہ ہو جائے گی؟ میں دل مسوس کر رہ گئی، خالہ کو کہہ کر کئی برتن دوبارہ اور سہ بارہ دھلوائے۔ اب حالت یہ تھی کہ جن برتنوں کو میں الگ کرتی خالہ انہیں تو دھو دیتیں اور باقی اسی طرح چھوڑ دیتیں۔ اور کہتیں، یہ اس سے زیادہ نہیں چمک سکتا۔ ایک روز میں نے تاؤ میں آ کر کہہ دیا:
خالہ آج میرے یونیورسٹی سے واپسی تک برتن صاف نہ ہوئے تو میں خود صاف کر کے دکھاؤں گی۔
میری واپسی تک گھر میں بھونچال آ چکا تھا، خالہ نے امی جان کے سامنے میرے چیلنج کو دھمکی بنا کر پیش کیا تھا اور اپنی سابقہ خدمتوں کے حوالے دے کر ان حالات میں کام چھوڑنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ خالہ نے روداد ِ مقدمہ اس طرح پیش کی تھی، کہ امی جان نے ان سے معذرت کر کے انہیں سابقہ منصب پر بحال بھی کر دیا تھا، اور آئندہ کے لیے ان کے کام میں عدم مداخلت پر انہیں راضی بھی کر لیا تھا۔
میں نے دلیل کے طور پر برتن پیش کرنا چاہے تو امی جان نے میرا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا، اور بولیں:
سنو ، یہ کام والیاں محض مددگار ہیں۔ گھر والیاں نہیں ہیں کہ ہر شے کو چمکا کر رکھیں۔ ان سے نرمی سے مدد طلب کرو، رعب سے نہیں۔ اور جو کام ان سے نہیں ہو رہا، وہ آگے بڑھ کر خود ہی کر دو۔
معلوم نہیں امّی جان نے ساری عمر اسی طرح کام والیوں کو خوش اور مطمئن رکھا تھا؟ البتہ انہوں نے ہماری ٹھیکیداری کے گرد دائرہ کھینچ دیا۔
ہم کویت پہنچے تو ایک مرتبہ پھر ہمیں ماسی رکھنے کا خیال ستایا۔ جب بھی مال یا جمعیہ (شاپنگ سنٹرز) میں جانا ہوتا کویتی مرد و زن کے ہمراہ ایک خادمہ بھی ہوتی، جو ان کے اشارہِ ابرو پر مشارالیہ سامان ٹرالی میں بھرتی رہتی۔ یہ خواتین بھارت، بنگلہ دیش، یا سری لنکا وغیرہ سے تعلق رکھتی تھیں، اور ان کا لباس ساتر ہوتا، عموماً گہرے سبز یامیرون رنگ کا عبایا اور سکارف پہنا ہوتا، جس میں سے چہرہ ننگا ہوتا۔ ان کے ہمراہ کویتی خاتون مکمل حجاب اور سیاہ نقاب میں ہوتی۔ عموماً مال کے سیلز بوائے بھی ان کی مدد کو آگے لپکتے، عمدہ اور نفیس پھل اور سبزیوں کے کریٹ ان کی ٹرالی میں رکھتے، کیش کاؤنٹر پر ان کا سامان خود لوڈ اور ان لوڈ کرتے، اور گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھ کر اور بھاری ’’ٹپ‘‘ وصول کر کے پلٹتے۔ یہی گاڑی جب اپنے گھر پہنچتی تو گھر یا عمارت کا ’’حارس‘‘(چوکیدار) یہی عمل دہراتا، اگرچہ اسے فوری ٹپ نہ ملتی، مگر اس سے حسنِ سلوک میں اضافے کا باعث بنتی۔
ہماری بلڈنگ کا حارس بھی بنگلہ دیشی تھا اور جو عمارت کے باہر کھڑی تمام گاڑیوں کو چمکا دیتا، اس سے خوش ہو کر مکین خود ہی اسے اجرت سے زائد ادا کر دیتے۔ کویت میں گھریلو حارس کی عمومی تنخواہ ساٹھ دینار ماہانہ تھی، جو کئی کویتی شیوخ ادا ہی نہیں کرتے تھے، البتہ انہیں کھانا خوب اچھا اور شکم سیر کھلاتے تھے۔ اور تنخواہ سالانہ یا اپنے ملک جانے پر اکٹھی ادا کرتے تھے۔
ہمیں ماسی (خادمہ) کی طلب ہوئی تو حارس سے مدد چاہی۔ چند روز بعد ’’سوجاتا‘‘ نے ہمارے دروازے پر دستک دی، ایک سمارٹ سی خادمہ نے حارس کے واسطے سے تعارف کروایا، کاموں کی تفصیل پوچھی اور اجرت بتائی۔ہم نے ہفتے میں دو دن طے کیے اور یوں سوجاتا نے کام شروع کر دیا۔ دوسرے دن ہی ہمیں معلوم ہو گیا کہ اس کا گاؤن اور سکارف تو محض کویتی کلچر کی بنا پر ہے اور اصلاً وہ عیسائی ہے جو بھارت کی کسی ریاست سے کمائی کی غرض سے آئی ہے۔ سوجاتا صاف ستھرا کام کرتی، وقت کی پابندی سے آتی، اسے کبھی کام سمجھانے کی ضرورت پیش آئی نہ اس کے جانے کے بعد ماتھا پیٹنے کی نوبت آئی۔ہاں ہم اس کے کام سے خوش ہو ہو کر اس پر مزید کاموں کا بوجھ بھی ڈال رہے تھے۔ چند ماہ میں وہ صفائی ، برتن دھلائی اور کپڑوں کی استری جیسی ذمہ داریاں سنبھال چکی تھی۔ سوجاتا اپنی ریاستی زبان اور کویتی عربی کے علاوہ ٹوٹی پھوٹی اردو یا ہندی بھی بول لیتی تھی،ہمیں اس سے صرف ایک گلہ تھا، کہ وہ ہمیں ’’آنٹی‘‘ کہہ کر بلاتی تھی، اور ہمارے میاں صاحب (جو عمر میں ہم سے دس برس بڑے ہیں) کو ’’بھیا‘‘! (نجانے ہم سے کس تقصیر کا بدلہ لے رہی تھی۔)
تین برس تک سوجاتا ہمارے ہاں خدمت پر مامور رہی، اسے کبھی چھٹی کرنی ہوتی تو وہ ویک اینڈ پر کام کر کے حساب برابر کرتی۔ وہ پانچ برس سے انڈیا نہیں گئی تھی، اسے ایک آپریشن بھی کروانا تھا، اپنے بچوں سے ملاقات کرنی تھی، بیٹی چھے برس کی تھی اور بیٹا نو برس کا۔ اس نے درخواست کی کہ اس کی غیر حاضری میں اس کی خالہ کو کام پر رکھ لیا جائے۔بس ایک مسئلہ تھا کہ خالہ کو صرف کویتی عامیہ عربی آتی تھی، اور یہ عین وہی دن تھے جب مجھے بھی پاکستان جانا تھا، بچوں کو کویت چھوڑ کر!سوجاتا نے ایک روز خالہ کے ساتھ کام کر کے اسے سارا کام بتا دیا اور پھر ہم پاکستان کی جانب اڑان بھر گئے اور سوجاتا بھارت کی ریاست میں!
چند روز بعد خالہ جی نے آتے ہی ’’اجازہ‘‘ اور ’’رخصہ‘‘ کی بات کی، ہمارے بچے جو عربی سے نابلد تھے، اپنے سکول سے بس اتنا ہی جان پائے تھے کہ ’’چھٹی کی درخواست‘‘ ہے، اب بچوں نے بڑی شدت سے طلب یعنی درخواست کو نامنظور کر دیا، اور خالہ کو سوجاتا کے وعدے یاد دلا کر کام پر مجبور کریا، وہ ہر تھوڑی دیر بعد لمبی سی بات کرتی جس میں رخصہ کی تکرار پر بچوں کے سر اسی شدت سے انکار میں ہلتے، حتٰی کہ وہ تقریباً رونے لگی، گھڑی کی جانب اشارہ کیا۔ بیٹا جلدی سے حارس کو بلا لایا، جس نے ترجمانی کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا کوئی رشتہ دار آج کویت پہنچ رہا ہے اور خالہ نے اسے لینے ائر پورٹ جانا ہے۔ اور فلائیٹ بس پہنچا ہی چاہتی ہے۔ خالہ نے اس وضاحت پر سکھ کا سانس لیا اور بچوں نے بھی!
سوجاتا کو ہمارے اسلام کا تعارف دینے سے پہلے ہی اسلام سے محبت تھی۔ہم قرآن کی تلاوت لگاتے تو وہ خوشی سے سنتی، بولی، ہمارے گاؤں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، میری بہن نے نماز بھی یاد کر رکھی ہے، اور وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتی ہے، وعظ سنتی ہے۔ لیکن سوجاتا کا خیال تھا کہ اس کے سسرال والے اس کے بچے پال رہے ہیں، اور میاں بھی اسلام میں رغبت نہیں رکھتا۔ بس وہ دل کی محبت پر ہی اکتفا کر گئی۔
سوجاتا بڑی معصوم سی تھی، ایک روز میرا نیا عبایا بالکل سامنے سے استری سے جلا دیا، اور بولی: آنٹی زیادہ نہیں جلا، صرف ایک ہاتھ کے برابر ہی جلا ہے۔اور جب ہم پاکستان واپسی کی تیاریوں میں تھے سوجاتا کو ہم نے بجھے دل سے رخصت کیا، وہ بھی اداس تھی۔
سوجاتا نے ہماری عادتیں اتنی پختہ کر دی تھیں کہ ہمیں پھر ایسی ہی پروفیشنل ، بے ضرر اپنے کام سے کام رکھنے والی ماسی کی تلاش تھی۔ اسلام آباد کے آئی ایٹ تھری کے گھر میں ہم نے کتنی ہی کام والیوں کو آزمایا۔ بلکہ زیادہ درست یہ ہے کہ کتنی ہی ماسیوں نے ہمیں آزمایا اور ہمیں بیچ چوراہے چھوڑ کر رخصت ہو گئیں۔ ایک جانب ہم نے پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا تھا، اور دوسری جانب پاکستانی سکولوں کی تعلیمی مصروفیات ، جن میں ہر بچے کے ساتھ ماں باپ کا بھی امتحان ہوتا ہے، اور تیسری جانب بکھرا ہئواگھر، جسے سمیٹنا اور سلیقے سے رکھنا ہم بھول چکے تھے۔ ایک روز یونیورسٹی سے واپسی پر بہتے آنسؤوں سے ہم نے میاں صاحب کو بتایا کہ ہم یونیورسٹی چھوڑ رہے ہیں، اس کا سبب یہ نہیں کہ ہمیں کلاس میں کچھ سمجھ نہیں آتا، بلکہ اسائنمنٹس اور دہرائی کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں۔ شاید ہمارے آنسو قبول ہو گئے تھے، کہ گھر پہنچ کا ہمارا سامنا ایک عدد ماسی سے ہوا، جو ہماری پڑوسن نے بھجوائی تھی۔ وہ گھر میں بڑی خوشی سے کام کر رہی تھی، بلکہ کمال نوازش سے اس نے بکھری ہوئی الماریوں سے صفائی کا کام شروع کیا تھا، دھلے ہوئے کپڑے تہہ لگا کر الماریوں میں ڈالے جا رہے تھے، تھوڑی دیر بعد اچانک اس کے پیٹ میں درد شروع ہو گیا، اور وہ آج کی چھٹی مانگنے لگی، آنٹی جی، باقی سب کچھ کل آ کر سمیٹ دروں گی، اچانک ہی درد شروع ہو گیا ہے۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد منجھلی بیٹی پریشانی میں آئی:
وہ میری سونے کی دو انگوٹھیاں الماری سے نکال کر لے گئی ہے۔
ہم نے ان پڑوسن کو فون کیا، جن کے گھر کی جانب اس نے اشارہ کیا تھا کہ ان آنٹی نے بھیجا ہے، تو وہ بولیں: میں نے تو کسی کو نہیں بھجوایا۔میں نے کسی اور سے بھی ذکر کیا تھا، شاید اس نے بھجوایا ہو۔
عجیب نا مانوس اجنبی تھا، مجھے تو ’’نقصان‘‘ دے گیا وہ البتہ ہماری بیٹی کا نقصان اس کی دو بہنوں نے اپنی ایک ایک انگوٹھی دے کر پورا کر دیا، اور بہن کو خود پر ترجیح دے کر اجر کما لیا۔
ان دنوں اسلام آباد میں ایک ’’ماسی پراجیکٹ‘‘ بھی شروع ہو چکا تھا۔ہم نے ان بہن سے رابطہ کیا، شرائط ملازمہ لکھوائیں، اور اللہ کا کرم کہ ہمیں ایک لمبی تڑنگی خاتون مل گئی۔ اس وقت تک ہم اس قدر تھک چکے تھے کہ وہ ہمیں غنیمت ہی لگی۔ اور ہم چین کی بنسری بجاتے، مگر ایک روز جب ہم اسے تمام ہدایات دینے کے بعد یہ کہہ کر اپنے کمرے میں استراحت کے لیے جانے لگے تو احتیاطاً اسے بتا دیا کہ اب ہم تھکاوٹ سے چور ہیں، اس لیے جاتے ہوئے وہ کسی بچے سے کہہ دے کہ دروازہ بند کر لے اور ہمیں ہرگز نہ جگائے۔
سونے سے قبل عصر کی نماز ادا کی اور نجانے بلا ارادہ ہی کچن میں جھانک لیا، ماسی صاحبہ نے دو شاپرز سامنے رکھے ہوئے تھے جن میں ٹماٹو کیچپ اور مائنیز انڈیل رہی تھی، اس کے یوں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر ہمارا دل اچھل کر حلق میں آگیا، اور ہم الٹے قدموں اس طرح پلٹے جیسے ہماری چوری پکڑی گئی ہو۔
کمرے میں جا کر سانس درست کیا، اور سوچا کہ غلط تو وہ کر رہی ہے، اور ڈر ہم رہے ہیں۔ ہمت مجتمع کر کے دوبارہ کچن کا رخ کیا تو وہ کیچپ جو اچانک اندر آنے پر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گری تھی، اسے سمیٹ رہی تھی، ہم نے بڑے آرام سے اسے کہا: میں نے دیکھ لیا ہے کہ آپ شاپرز میں ڈال رہی تھیں اور یہ اچھا کام نہیں ہے۔
اس نے زرا زور سے غصّہ کیا، کہ میں ایسی ویسی عورت نہیں ہوں وغیرہ، اور فوراً ہی چلی گئی۔ ہم نے دیکھا تو کچن کے بن میں پڑے شاپرز کے اندر کیچپس موجود تھیں۔ ہم نے مسروقہ اشیاء کو محفوظ کیا۔ اگلے دن ماسی کام پر آئی تو اسے وہ چیزیں دکھا کر ہم نے کمال مہربانی سے اسے معاف کر دیا۔ (ہمارے بیچ یہ بات گزشتہ روز ہو چکی تھی کہ کھانے کا سامان چوری کی حد میں نہیں آتا، اس لیے صرف نصیحت کو کافی سمجھا۔)
البتہ ماسی اس نصیحت ہی سے درست ہو گئی۔
ہمیں ایک مرتبہ نقل مکانی کرنی پڑی، اب کی مرتبہ ہم اپنے تعمیر کردہ گھر میں آئے تھے۔ یہاں ہماری پیاری سی سہیلی (تسنیم کرن مرحومہ) نے جھٹ پٹ ہمارے لیے کام والی کا بندوبست کر دیا، اور کہہ دیا کہ اگر پسند نہ آئے تو بتا دیں میرے پاس اور بھی خواتین ہے۔ہم نے پہلی کام والی پر ہی قناعت کر لی، جب تک وہ رہی ہم شکر گزار رہے،وہ بہت فرینڈلی کام والی تھی، بلکہ بچے تو اب تک اختر آنٹی کو یاد کرتے ہیں۔ کوئی بچہ سکول کالج سے چھٹی کرتا، اختر آنٹی فٹافٹ زبردست سا پراٹھا انڈا اور گرما گرم چائے بنا کر پیش کرتیں۔ کوئی مہمان آتا، تو اس کی خدمت پر کمر بستہ! اس کا لازمی نتیجہ یہ ہئوا کہ ہمیں ایک اور ملازمہ رکھنی پڑی، جس سے کاموں میں کچھ روانی تو پیدا ہوئی مگر کام والیوں کی آپس کی کھینچا تانی شروع ہو گئی، یہ وائپر میرا اور یہ تیرا، جھاڑو تو نے خراب کر دیا، اور پانی تو زیادہ ضائع کرتی ہے، وغیرہ۔ جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں اسی طرح ایک گھر میں دو ماسیاں! جب ہم نے دونوں کے درمیان جنگ بندی کروائی اور ہر ایک کا حدود اربعہ واضح کیا تو امن نصیب ہئوا۔ مگر ایک او ر مشکل پیش آئی، اور وہ یہ کہ ماسیوں نے ’’انجمن باہمی فلاح‘‘ قائم کر لی، اب ان کے مطالبے میں دھمکی بھی ہوتی، باجی تنخواہ بڑھائیں، ورنہ ہم دونوں کام چھوڑ جائیں گی!
اتنے برس ماسیوں سے ڈیل کرتا ہم بھی کچھ ہوشیار ہو گئے تھے، ہم نے ان کی انجمن توڑنے کا فیصلہ کیا، اور لیڈر ماسی سے کہہ دیا کہ کام کرنا ہے تو اسی اجرت پر ورنہ کام چھوڑ دیں۔ اور انہوں نے غیرت کھا کر کہا: جی ہاں، یہ رہا آپ کا کام۔
اب ہم نے اپنی پیاری تسنیم کرن سے رابطہ کیا انہوں نے دوسرے روز ہی نئی کام والی بھیج دی۔ چند دن بعد اختر آنٹی نے دبے لفظوں میں پیغام بھیجا کہ میں بھی کام جاری رکھ سکتی ہوں، مگر
اور ہم کسی اگر مگر کو خاطر میںنہ لائے ، نہ بچوںکے احتجاج کو!
اس کے بعد کئی کام والیوں نے برسوں کام کیا اور کئی چند دنوں ہی میں تھک گئیں، کوئی ہمیں پسند نہ آئی اور کسی کو ہم۔ ہم ایک مرتبہ پھر بیرونِ ملک سدھارے، اگرچہ ہمیں اپنے پیچھے کام والی کی ضرورت باقی رہی، جسے کچھ اعتبار والیاں گاہے گاہے انجام دیتی رہیں۔ کچھ ماسیاں ہمارے بچوں کے نزدیک ہماری فیورٹ ہی نہیں بلکہ ہماری شہزادیوں کے درجے پر تھیں۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ وہی بچوں کے نزدیک ’’ناپسندیدہ‘‘ تھیں۔ اب ہوتا یہ کہ جب ہم بیرون ِ ملک سے چھٹی پر آتے وہ جھٹ آ جاتیں، اور ہمارے جاتے ہی انہیں بھی اپنے کام یاد آنے لگتے۔ حتٰی کہ ایک برس قبل جب ہم واپس پاکستان منتقل ہوئے تو ماسیاں عجیب دردِ سر بن چکی تھیں۔ چھے برس پہلے والیاں یا تو اپنے مزید اعتبار والے گھر تلاش کر چکی تھیں، کچھ کے حالات بدل گئے، کسی عمر کام والی نہ رہی، اب بھی جب ہم مشکل میں ہوں تو انہیں شہزادیوں میں سے کسی کو پکارتے ہیں، جو ایک فون کال پر ہی آ جاتی ہیں، یا کسی کو بھجوانے کا وعدہ کرتی ہیں۔ مگر کسی نئی ماسی کا مزاج شناس ہونا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ’’ضرورت ماسی‘‘ کا اشتہار مسقل بنیادوں پر آویزاں رہتا ہے، اور کبھی تو دعائے نیم شب میں بھی ہم ماسی ماسی پکار رہے ہوتے ہیں۔ ایسی ہر پکار پر اللہ کی جانب سے کسی پارٹ ٹائم اچھی سی ماسی کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ مگر بڑھتی ہوئی زندگی کی ضروریات اور مسائل کے ساتھ پروفیشنل اور ماہر ماسی کی تلاش مستقل بنیادوں پر جاری رہتی ہے۔ ہماری منی کا خیال ہے کہ ماسیاں تو پہلے جیسی ہی ہیں مگر اب ہمارا سٹینڈرڈ کچھ بلند ہو گیا ہے، اس لیے ہمیں اپنی لسٹ میں سے کچھ ترجیحات کی کمی کرنا ہو گی۔
٭٭٭
(جاری ہے)