خاتونِ پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کی حیات و خدمات کے روشن پہلو (31 جولائی 1893ء تا 9جولائی 1967ء)
دنیا کی تاریخ پرنگاہ دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ وہی قومیں زندہ پائندہ رہتی ہیں جو اپنے مشاہیر اورقومی رہنمائوں کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اوران کی قومی خدمات کو فراموش نہیں کرتیں ۔ ان کے اقوال اور رہنمائی کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھ کر ان کی پیروی اورتقلید کرتی ہیں ۔ ان سے ملنے والے نظریاتی ورثوں کی نہ صرف حفاظت کرتی ہیں بلکہ ان کی تبلیغ و اشاعت کا قومی فریضہ بھی انجام دیتی ہیں ۔ یہی نظریاتی وابستگی اپنانے کے بعد ایک آزاد خود مختاراورغیرت مند قوم وجود میں آتی ہے اور دنیا میں ایک طاقتور قوم کی حیثیت سے بلند مقام حاصل کرتی ہیں ۔
ہم اپنے مشاہیر اور اسلاف پرنگاہ ڈالیں تومادرِ ملت فاطمہ جناح بھی ایسی ہی نابغۂ روز گار ہستی ہیں جن کی خدمات کو قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ دنیا کی عظیم اسلامی مملکت پاکستان کا قیام قائد اعظم محمد علی جناح کی بے لوث ، انتھک محنت اورجدوجہد کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے اپنوں اوربیگانوں کی سازشوں کے باوجود بکھرے ہوئے مسلمانوں کومتحد کیا۔
ایک قوم بنایا اوراس جدوجہد میں ان کی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناح نے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کرکام کیا قائد اعظم کوہرطرح کے تفکرات سےآزاد کر کے پوری توجہ اوردلجمعی سے تحریک پاکستان کوکامیابیوں سے ہمکنارکیا۔
محترمہ فاطمہ جناح ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں ۔وہ نہ صرف اس قوم کی محسنہ ہیں بلکہ پاکستانی خواتین اورلڑکیوں کے لیے چراغ راہ ہیں ۔فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے نحیف ونزاد وجود کواپنی ہمت انتھک محنت ، فکرو عمل ، جان نثاری اور مفید مشوروں سے تقویت بخشی۔ تبھی قائد اعظم اس قابل ہو پائے کہ بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اکٹھا کر کے ایک جھنڈے تلے جمع کرنے میں کامیاب ہوئے اورایک عظیم مملکت پاکستان کی بنیاد رکھی ۔ قائد اعظم کو امت مسلمہ کی محرومی و غلامی بے چین کیے رکھتی تھی تو مادرِ ملت اپنے عظیم بھائی کے بے قرار دل کو سکون و راحت پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی تھیں ۔
فاطمہ جناح کے آبائواجداد اورخاندان
فاطمہ جناح کے آبائو اجداد گجرات کی ایک ریاست گوندل کے ایک چھوٹے سے گائوں پانیلی کے رہنے والے تھے ۔ ان کے دادا پونجا کھڈی کے کپڑے کی تجارت کرتے تھے انہوں نے اپنے بیٹے جناح پونجا کوبھی اپنے کاروبار میں شامل کرلیا۔ جب جناح صاحب کاروباری معاملات کوسمجھنے لگے تو ان کے والد کوان کی شادی کی فکرہونے لگی ۔ انہوں نے اسماعیلی فرقے میں ان کے لیے مٹھی بائی نامی لڑکی سے ان کی شادی کروا دی۔جناح صاحب نے شادی کے بعد مزید محنت کی اورتجارت کوفروغ حاصل ہوا اوروہ پانیلی سے گوندل اورگوندل سے کراچی آکر آباد ہو گئے ۔ کراچی میں نیوشام روڈ ( کھارا در) پر ایک عمارت کا کچھ حصہ کرایہ پر حاصل کرلیا ۔کراچی میں اس وقت انگریزوں نے کچھ کمپنیاں حاصل کر رکھی تھیں ۔ انہی میں سے ایک کمپنی کے جنرل منیجرفیڈرک کے ساتھ جناح صاحب کی دوستی ہوگئی ۔ ان کی وساطت سے انگلستان اورہانگ کانگ کے بعض تاجروں کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم ہوگئے ۔جناح صاحب جب کراچی آئے تھے تو صرف گجراتی زبان جانتے تھے پھر انہوں نے اپنی ہمت اورکوشش سے انگریزی ، فارسی اورسندھی زبانیں بھی سیکھ لیں ۔
25 دسمبر1876ء کو جناح صاحب اورمٹھی بائی کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جا سکا نام محمد علی رکھا گیا بعد ازاں دوبیٹیاں رحمت بائی ، مریم بائی پھر بیٹا احمد علی بعد ازاں شیریں بائی پیدا ہوئیں۔
31 جولائی1893ء کومٹھی بائی کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ بائی رکھا گیا ۔ ان دنوں جناح پونجا کے بڑے بیٹے محمد علی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان میں تھے ۔ فاطمہ جناح محمد علی سےسترہ سال چھوٹی تھیں۔فاطمہ جناح کے بعد مٹھی بائی کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام بندے جناح رکھا گیاجس کے بعد مٹھی بائی وفات پاگئیں ۔ والدہ کی وفات کے وقت فاطمہ کی عمردوبرس تھی ۔
فاطمہ جناح کا بچپن
والدہ کی وفات کے بعد بڑی بہن مریم فاطمہ کی پرورش کرنے لگیں ۔اس طرح فاطمہ اوائل عمرمیں ہی ماں کی ممتا سے محروم ہوگئیں ۔ فاطمہ نے جب ذرا ہوش سنبھالا توانگلستان میں تعلیم پانے والے بھائی کے بارے میں باتیں سن سن کر ان سے ملنے کو دل تڑپنے لگا ۔وہ بھائی کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتی تھیں ۔بالآخر محمد علی وطن واپس آئے تو اپنی چار سالہ بہن کی دل موہ لینے والی باتیں سن کربہت محظوظ ہوئے ۔ اس وقت جناح صاحب کی تجارت روبہ زوال تھی ۔ چنانچہ 1897 میں محمد علی نے بمبئی جا کرپریکٹس شروع کردی اورجلد ہی وکلاء کے حلقے میں ان کا نام مشہورہو گیا ۔کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے اپنے خاندان کوکراچی سے بمبئی بلا لیا ۔ اس وقت فاطمہ جناح کی عمر آٹھ برس تھی ۔ انہوں نے شروع کے ایام میں اپنے گھر پر تعلیم حاصل کی ۔ ان کا بچپن اپنی ہم عمردوسری لڑکیوں سے بہت مختلف تھا ۔ گڑیوں سے کھیلنا ، کھیل کود ، بنائوسنگھار ، کسی چیز میں انہیں رغبت نہ تھی ۔وہ ہمیشہ سادہ لباس پہنتیں اورفرصت کے لمحات میں سائیکل چلاتیں ۔ بچپن سے ہی مطالعہ کی شوقین تھیں ۔ انہیں کھانے پینے کا بھی خاص شوق نہیں تھا ۔ صرف چاکلیٹ شوق سے کھاتیں۔ پورا دن چاکلیٹ کھا کر ہی گزار دیتیں زیورات انہیں خاص پسند نہیں تھے لیکن اگرکوئی زیورجڑائو ہوتا یعنی نگینے لگے ہوتے تو وہ شوق سے پہنتیں۔فاطمہ جناح اپنی کتاب’’ میرا بھائی‘‘ میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ تحریر کرتی ہیں۔
وہ اس واقعے میں اپنے والد جناح پونجا کے ڈسپلن کاذکرکرتے ہوئے لکھتی ہیں ۔
’’ کئی برس بعد ہمارا گھرانہ کچھ عرصہ کے لیےرتنا گیرمیں مقیم تھا ۔ تو میرے والد مجھے اورمیری دو بہنوں کو رات کے وقت انگریزی لکھنا پڑھنا سکھایا کرتے تھے ۔ وہ ڈسپلن کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور ہمیں انگریزی پڑھنے کے اس گھنٹے کے دوران ایسا رویہ اختیارکرنا پڑتا گویا ہم سکول میں اپنے کلاس روم میں ہوں ۔ہم بچوں کواپنے والد بہت بڑے آدمی نظر آتے تھے ۔ایک ایسے بڑے آدمی جو نہایت اچھی انگریزی بول سکتے تھے ہم ان پررشک کیا کرتے تھے اور ہماری بڑی خواہش ہوتی کہ ہم بھی ان کی طرح عمدہ انگریزی میں بات کر سکیں ۔ کبھی کبھی جب ہم تینوں بہنیں مل بیٹھتیں اورشرارت کے موڈ میں ہوتیں تو اپنے والد کی انگریزی کی نقل اتارا کرتیں ۔ ہم میں سے ایک کہتی اش فش، اش فش یس تو دوسری جواب دیتی اش فش ،اش فش نو ، ہم یہ کھیل نہایت سنجیدگی سے کھیلا کرتیں ۔‘‘
جب فاطمہ جناح کی عمر نو یا دس برس کی ہوئی تو ان کے والد جناح پونجا 17 اپریل1902ء میں وفات پا گئے ۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد محمد علی جناح نے اپنی چھوٹی بہن کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری خود سنبھا لی۔
یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ انگریزی تعلیم دلوانا تو گناہِ عظیم قرار پاتا تھا۔ فرنگی کے سائے سےبچنے کوعین ثواب سمجھا جاتا تھا ۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے کو معاشرے میں نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ انہی حالات میں محمد علی جناح نے فاطمہ کو انگریزی تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا۔ جس سے پورے خاندان میں مخالفت کاطوفان کھڑا ہوگیا ۔لیکن محمدعلی اپنے فیصلے پرڈٹے رہے۔ خاندان والوں نے ان کی طرف سے مایوس ہو کر فاطمہ جناح پر دبائوڈالنا شروع کیا تو بھائی نے اپنی بہن فاطمہ کو سمجھایا ۔ ’’ فاطمہ وہی انسان کامیاب ہو ا کرتے ہیں جو کوئی فیصلہ کرنے کے بعد اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں ‘‘ فاطمہ جناح نے ان کا قول پلے باندھ لیا اور زندگی بھر انہی اصولوں پرقائم رہیں ۔فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچارکر لیں اورفیصلہ کرنے کے بعد اس پر ڈٹ جائیں۔یہی وہ بنیادی اصول تھا جس پر کاربند رہ کرقائد اعظم نے پاکستان قائم کیا تھا ۔
1902ء میں قائد اعظم نے فاطمہ جناح کو باندرہ کے کانوینٹ سکول میں داخل کروا دیا ۔ ان کا سکول رہائش گاہ سے کافی دورتھا اس لیے انہیں سکول کے ہاسٹل میں داخل کروادیا گیا ۔جہاں انہوں نے بہت دلجمعی سے پڑھائی کی اور اپنی استانیوں کی منظور نظررہیں ۔1906ء میں ان کا سکول تبدیل کردیا گیا سینٹ پیٹرک سکول جوکھنڈالا میں تھا داخل کروادیا ۔1910ء میں فاطمہ جناح نے میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح ان کی تنہائی کاخیال رکھتے اور جب وہ عدالت جانے لگتے توفاطمہ کو بھی بگھی میں اپنے ساتھ بٹھا لیتے راستے میں ان کے والد کی ہمشیرہ کا گھر پڑتا تھا فاطمہ کووہاں اتاردیتے ۔فاطمہ وہاں پھوپھی کے بچوں اوراپنی ہمشیرہ کے ساتھ وقت گزارتیں۔
واپسی پر محمد علی جناح فاطمہ کو اپنے ساتھ گھر لے آتے دونو ں مل کر کھانا کھاتے اورپھر سیر کو نکل جاتے ، اسی دوران فاطمہ نے سینئر کیمرج کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے پاس کر لیا ، یہ قائد اعظم کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ فاطمہ شستہ انگریزی بولنے لگیں ۔ انہوں نے اپنی گھریلولائبریری سے استفادہ کیا جہاں مختلف علوم کی نادرکتابیں موجودتھیں۔
1914ء میں قائد اعظم کی شادی رتی جناح سے ہوگئی ۔ ان دنوں فاطمہ جناح کلکتہ کے احمد ڈینٹل کالج میں دندان سازی کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں ۔یہ وہ وقت تھا جب 1923ء میں یہ سوچنا بھی محال تھا کہ کوئی مسلم لڑکی کسی پیشے سے وابستہ ہوجائے ۔ انہی حالات میں فاطمہ جناح نے بیچلر آف ڈینٹل سرجری کی ڈگری حاصل کی ( بی ڈی ایس ) اورممبئی میں اپنا ڈینٹل کلینک کھولا۔انہوں نے اس کلینک کے ذریعے تقریباً سات سال تک عوام کی خدمت کی اس دوران وہ ایک میونسپل کلینک میں بھی جاتیںجودھوبی تلائو پرواقع تھا ۔ وہاں وہ غریبو ں کا علاج مفت کرتیں ۔ غریبوںکے لیے ان کے دل میں ایک نرم گوشہ شروع سے موجود تھا ۔
1928ء میں محمد علی جناح اپنی بیگم مریم جناح کے ہمراہ انگلستان چلے گئے اوراپنی بیٹی دینا کو فاطمہ کے پاس چھوڑ گئے ۔دینا کی عمراس وقت نو سال تھی ۔قائد اعظم کی انگلستان واپسی پر دینا اپنے والدین کے پاس واپس چلی گئی ۔ ان دنوں قائد اعظم کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لے رہے تھے ۔ سیاسی رہنما قائد اعظم سے ملنے ان کے گھر آتے توفاطمہ جناح بھی وہیں موجود ہوتیں ۔وہ سیاسی رہنمائوں کی باتیں بڑے غورسےسنا کرتیں ۔اس طرح سیاست سے ان کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی ۔
محترمہ فاطمہ جناح کو قائد اعظم سے جس قدر قلبی لگائو تھا اتنا شاید کسی بہن کو بھائی کے ساتھ کسی کا رکن کواپنے لیڈر کے سا تھ نہ ہو۔قائد اعظم کی ذات فاطمہ کے لیے شجر سایہ دار کی مانند تھی جس کے سائے میں وہ ہمیشہ سکون و راحت محسوس کرتیں۔
1929ء میں جب قائد اعظم کی اہلیہ رتی بائی جناح کا انتقال ہوا تواس غم ناک واقعےکے بعد آپ نے اپنے بھائی کوتنہا نہیں رہنے دیا ۔ اپنے بھائی اورکم سن بھتیجی کی دیکھ بھال کے لیے اپنا پرائیویٹ کلینک بند کردیا اورتمام گھریلوامور کو اس طرح سنبھالا کہ قائد اعظم کو ہرطرح کے تفکرات سے آزاد کردیا ۔
فاطمہ جناح کی شخصیت
فاطمہ جناح قائد اعظم کی نہایت قابل اعتماد بہن تھیں ۔قائد اعظم ان پر اس قدراعتماد کرتے کہ جب ان کے سیکرٹری کوئی مسودہ ٹائپ کرکے لاتے توو انہیں کہتے کہ اسے فل کونسل میں پڑھیں ۔فل کونسل سے مراد فاطمہ جناح اور قائد اعظم تھے ۔ اسی طرح قائد اعظم اپنے بیانات فاطمہ جناح کو پڑھائےبغیر جاری نہیں کرتے تھے ۔ وہ بھائی کی دل جوئی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مفید مشورےبھی دیتیں وہ بھائی کی لکھی ہوئی تقریرکامطالعہ اوراس کی حفاظت بھی کرتیں ۔
قائد اعظم کو کچھ عرصے کے لیے انگلستان جاناپڑا تووہ فاطمہ جناح کو اپنے ہمراہ لے گئے ۔24 اکتوبر 1935ء کو قائد اعظم لیاقت علی خان کی درخواست پروطن واپس آئے توفاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں انہیں اپنی بہن بہت عزیز تھیں اسی لیے سفرمیں انہیں اپنے ہمراہ رکھتے ایک مرتبہ قائد اعظم نے فرمایا۔
’’ میری خدمات کا دارومداردوچیزوں پرہے ایک میرا ٹائپ رائٹر اودوسری فاطمہ جناح‘‘۔
فاطمہ جناح قائد اعظم کے وقت اورکام کا بہترین شیڈول بناتیں تاکہ انتظامی معاملات میں انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ قائد اعظم کی کامیابی امت مسلمہ کی کامیابی ہے ۔ قائداعظم کی طویل رفاقت میں انہوں نے نہایت خلوص سے اپنی ذمہ داری نگرانی اورمشاورت کاحق ادا کیا۔ جدو جہد آزادی کے نازک اورکٹھن دورمیں وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہیں ۔ ان دنوں جب قائد اعظم کوخدشہ تھا کہ حکومت برطانیہ ان کو گرفتار کرلے گی تواس وقت بھی فاطمہ نے انہیں حوصلہ دیا اوراپنے آپ کو عظیم قائد کا دست بازو قراردیا ۔ اگرقائد اعظم کو اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی تائید و حمایت حاصل نہ ہوتی توشاید حصولِ پاکستان کی منزل بہت دورچلی جاتی ، قائد اعظم تپ دق جیسے مرض میں مبتلا تھے ۔ انہوں نے انگریزوں اورہندوئوں کے کانوں میں اپنی بیماری کی بھنک بھی نہ پڑنے دی ۔ قیام پاکستان کے بعد جب ان پر قائد اعظم کی بیماری کی حقیقت آشکار ہوئی تو برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا اگرمجھے قائد اعظم کی بیماری کا علم ہوجاتا میں ہندوستان کی آزادی کو دوسال کے لیے ٹال دیتا اورہندوستان کو تقسیم ہونے سے بچا لیتا۔ ‘‘
ان سب اقدامات کے پیچھے فاطمہ جناح کی حکمت عملی ان کی خدمت ، ان کاتعاون شامل تھا۔
تحریک پاکستان میں فاطمہ جناح کا کردار
فاطمہ جناح کا شمارعہد ساز شخصیت کے طورپرہوتا ہے آپ ان خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ بیسویں صدی کی خواتین کے لیے سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔ تحریک پاکستان میں مادرِ ملت کی خدمات ناقابلِ فراموش اورقابلِ تحسین ہیں آپ کی بدولت برصغیر کےگلی کوچوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی تحریک میں شانہ بشانہ رہیں۔
1937ء میں جب لکھنؤ میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس قائد اعظم کی زیرصدارت ہؤا تو فاطمہ جناح پہلی مرتبہ اس میں شریک ہوئیں ۔ اس کے بعد جہاں جہاں مسلم لیگ کے اجلاس ہوتے وہیں خواتین کا اجتماع بھی منعقد ہوتا ۔ فاطمہ جناح ان جلسوں سےخطاب کرتیں اورخواتین کو تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لینے کی تلقین کرتیں ۔ ان کواپنے نصب العین کی صداقت پرپختہ یقین تھا ۔تحریک پاکستان کے دوران خواتین کو متحرک ہونے کے لیے آپ نے ویمن ریلیف کمیٹی قائم کی اورساتھ ہی پاکستان ویمن ایسوسی ایشن کی بنیادرکھی گئی ۔اس دوران بہت سی مدد گارخواتین میدان میں آگئیں جن میں بیگم رعنا لیاقت علی خان ، بیگم شاہنواز ،بیگم ہدایت اللہ وغیرہ شامل تھیں۔ہندوستان کا شاید ہی کوئی صوبہ ایسا ہوگا جہاں مسلم لیگ خواتین ونگ کی بنیاد نہ رکھی گئی ہو۔آپ نے سرینگر کی خواتین کوبھی تحریک پاکستان اورمسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی اوربیگم آغا علی اوربیگم برجیس غنی کی قیادت میں جدوجہد کوآگے بڑھایا۔
قائد اعظم اکثر وبیشتر اس بات کا اعتراف کرتے کہ ’’ تحریک پاکستان میں فاطمہ جناح نے تاریخی خدمات انجام دیں ہیں ۔‘‘
قائد اعظم ان کی دور اندیشی کا اعتراف کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ ’’ میں کوئی بھی حتمی سیاسی فیصلہ اپنی بہن فاطمہ جنا ح کےمشورے کےبغیرنہیں کرتا ۔فاطمہ میرے لیے حوصلے کا ذریعہ ہے ‘‘۔
قائد اعظم کی وفات اورفاطمہ جناح
قائد اعظم کی علالت نے مادرِ ملت کی مصروفیات اورتفکرات میں اضافہ کر دیا تھا ۔ وہ چوبیس گھنٹے اپنے بھائی کی تیمار داری کے لیے حاضرو مستعد رہتیں ۔ بھائی کاکھانا اپنی نگرانی میں پکواتیں ، خود اپنے سامنے کھلاتیں ،وقت پردوا دیتیں ۔ قائد اعظم کی طبیعت کو بشاش رکھنے کے لیے ان سے باتیں کرتیں ۔ ان کی مزاج پرسی کو آنے والوں سے ملاقات کرتیں ان کی ڈاک کا مطالعہ کرتیں ۔ انہوں نے دن رات اپنے بھائی کی تیمار داری کی مگرپھربھی قائد اعظم کی طبیعت نہ سنبھلی۔
قائد اعظم کی زندگی کے آخری دس سال انگریزوں اور ہندوئوں کے ساتھ جنگ لڑنے میں گزرے ۔ ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ اس قدر کام ان کی صحت کے لیے مضر ہے لیکن قائد اعظم حصول پاکستان میں اس قدر مصروف تھے کہ آرام کے لیے ایک لمحہ بھی نہ نکال پائے تھے ۔قیام پاکستان کے بعد ان کی مصروفیات میں مزید اضافہ ہو گیا جس کا ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑا۔ ڈاکٹروں کے مشورے کے برعکس انہوں نے اپنے معمولات جاری رکھے ۔ 6 جولائی1948ء کو مادرِ ملت انہیں آرام کی غرض سے کوئٹہ لے گئیں لیکن قائد نے وہاں بھی آرام نہ کیا اوراپنا کام جاری رکھا ۔ 11ستمبر1948ء کو ڈاکٹروں کے مشورے پرانہیں کراچی منتقل کردیا گیا ۔ جہاں اسی شام انہوں نے مادرِ ملت کی طرف دیکھا اور آنکھوں کے اشارے سے اپنے قریب بلایا اور آخری بار کوشش کرکے زیرلب ہوئے ۔فاطمی…..خدا حافظ …..لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پھر ان کا سر دائیں جانب ڈھلک گیا۔اورآنکھیں بند ہوگئیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح کی خدمات
فاطمہ جناح کے عزیز از جان بھائی قائد اعظم رخصت ہوچکے تھے مگر انہوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا ۔1948ء سے 1965ء تک وہ سماجی خدمات انجام دیتی رہیں۔
مہاجرین کی آباد کاری
قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کو آباد کرنا بہت بڑا کام تھا ۔ لوگ جھوٹے کلیم داخل کرواتے اوربڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن جاتے۔ آپ خود مہاجرین کے کیمپوں میں جاتیں ۔ان کی داد رسی کرتیں ۔ ان کے کھانے پینے اور رہائش سے متعلق تمام امور کی بذاتِ خود نگرانی کرتیں۔
خواتین کی تعلیم
آپ نے خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے بہت کام کیا وہ اس بات کی قائل تھیں کہ خواتین کی تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کے لیےضروری ہے ۔ انہوں نے خواتین کے تعلیمی اداروں کے قیام میں مدد کی۔ انہوں نے کراچی میں لڑکیوں کے لیے ایک سکول کی بنیاد رکھی جو بعد میں کالج بن گیا۔
صحت کے شعبے میں خدمات
وہ خود دندان ساز تھیں ۔ صحت کے مسائل بے بخوبی آگاہ تھیں انہوں نے مختلف ہسپتالوں اورصحت کے مراکز کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ۔
بچوں کی فلاح وبہبود
بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے متعدد اقدامات کے لیے بیوائوں اوریتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے فلاحی اداروں کے قیام میں مدد کی ۔
سماجی انصاف و حقوق
انہوں نے سماجی انصاف اورحقوق کے لیے آواز اٹھائی ۔ انہوں نے معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف ، غریب اورمظلوم طبقے کے حقوق کے لیے بہت سی تحریکوں میں حصہ لیا۔
قومی یکجہتی اور عوامی خدمت
آپ نے قومی یکجہتی کے فروغ اورعوامی خدمت کے لیے بھی بہت کام کیا ۔ انہوں نے مختلف مواقع پر عوام کومتحد کرنے اورایک بہترمعاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کی ۔
قائد اعظم کی وفات کے بعد فاطمہ جناح کی پر آشوب زندگی کا نیا باب شروع ہوأ جو نہایت تلخ تھا ۔وہ فطری طور پر قائد اعظم کا عکس تھیں اوران میں زیادہ تر وہی خوبیاں پائی جاتی تھیں جوقائد اعظم میں تھیں ۔ وہ بڑی مدبر ، دلیر، دانا ، حق گواور جمہوریت پسند واقع ہوئی تھیں ۔ جب انہوں نے حکومتی اکابرین کوقائد اعظم کے اصولوں کے خلاف چلتے دیکھا تو پوری قوت سے اس کے خلاف آواز بلند کی ۔ ان کی آواز کودبانے کے لیے ایسے حالات پیدا کردیے گئے کہ وہ خاموش ہو جائیں مگر کوئی بھی ان کی آواز کو نہ دبا سکا ۔
پاکستان بننے اورقائد کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کے بیش ِ نظر یہ رہا کہ کس طرح اس مملکت خداداد کو مضبوط سے مضبوط تربنایا جائے ۔ اوراسے دنیا کی ایک بہترین مملکت کے قالب میں ڈھالا جائے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے مسلسل جدوجہد کی اورمختلف مواقع پر عوام سے خطاب کرتی رہتیں ۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف قومی دنوں اورتہواروں کے موقع پرریڈیوپاکستان سے قوم سے خطاب کیا ۔اس سلسلے کا آغاز قائد اعظم کی زندگی سے ہی ہو چکا تھا ۔
ریڈیوپاکستان کے ریکارڈ اورمحترمہ کی تقاریر کے ایک نایاب مجموعے ’’ کلبانگ ِ حیات ‘‘ کے مطالعےسے معلوم ہوتا ہے ریڈیو پاکستان سے محترمہ کی پہلی تقریر5 نومبر1947کو نشر ہوئی اورپھر ان تقاریرکا سلسلہ جاری رہا۔مگر 11 ستمبر1951 کو قائد اعظم کی تیسری برسی کے موقع پرمحترمہ جناح کی ایک تقریرکےقضیے نے پورے ملک کو ہلا کررکھ دیا۔
ہوا یوں کہ ریڈیو پاکستان کے کراچی سٹوڈیو سے اردو زبان میں ایک تقریرنشر ہوئی جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیرکواجاگرکیا اوروزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت پرتنقید کی ۔ تقریرکےآغاز میں انہوں نے کہا کہ وہ قائد اعظم کی رفتار گفتار اورکردار کواپناتے ہوئے اپنی مملکت اورقوم میں وہ انقلاب پیدا کریں جس سے دنیا لرز اٹھے ۔ اورپھرکسی کو بھی ان سے مقابلے کی جرأت نہ ہو ۔‘‘
تقریرسے قبل ریڈیو پاکستان کے کنٹرولرزیڈ اے بخاری نے جو تقریرکامسودہ دیکھ چکے تھے مادرِ ملت سے درخواست کی کہ وہ اس تقریر کےبعض قابل اعتراض حصے حذف کر دیں ۔مگرمحترمہ نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اوراصرارکیاکہ ان کی تقریرکو بلا ترمیم نشر کیا جائے یا اعلان کردیا جائے کہ وہ اس موقع پر تقریرنہیں کر سکیں گی ۔زید اے بخاری اس وقت خاموش ہوگئے مگر عملی طورپر ہوا یہ کہ جب تقریر نشر ہوئی توسننے والوں نے دو مواقع پرمحترمہ کی آواز کوڈوبتا ہوا محسوس کیا ۔بعد میں معلوم ہوا یہ دونوں مواقع ان دو جملوں سے مطابقت رکھتے ہیں جس پرزید اے بخاری کو اعتراض تھا۔
جیسے ہی یہ معاملہ محترمہ کے علم میں آیا انہوں نے اس پرشدید ردعمل کا اظہارکیا اورپریس نے بھی ان کے حوالے سے خبریں اوراداریے چھاپنے شروع کر دیے اوروزارت اطلاعات ونشریات اورحکومت ِ پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔
ان خبروں کے بعد زیڈ اے بخاری نے محترمہ کو ایک معافی نامہ ارسال کیا جسے انہوں نے مسترد کردیا اس طرح تین معافی نامے ارسال ہوئے اورکہا گیا کہ آپ کی تقریر دوبارہ نشر ہوگی اورپھروہی تقریر دوبارہ نشر ہوئی ۔
قدرت اللہ شہاب شہاب نامے میں اس تقریر کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں اس واقعے نے حکومت کے اعتماد کو جتنی ٹھیس پہنچائی اتنا نقصان مس فاطمہ جناح کے تنقید ی جملوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا ۔
اس واقعے کے بعد ملک گیرایجیٹیشن شروع ہوئی جس کا لیاقت علی خان کوکوئی فائدہ نہ ہوا اور یہ تاثرقائم ہو گیا کہ اگر مس جناح جیسی ہستی کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا سکتا ہےتو پھر توکوئی بھی شخص اپنی آواز بلند نہیں کرسکتا ۔
محترمہ فاطمہ جناح نے زیڈاے بخاری کے تین خطوں کے جوابات دیے جن میں سے تیسرےخط میں انہوں نے لکھا جو 25 ستمبر1951ء کو لکھا گیا ۔
جناب بخاری صاحب آپ کا مکتوب23 ستمبر بدست ہوا آپ اس کوبدقسمتی خیال کرتے ہیں کہ آپ کی تحریر پرشبہ کیا جائے یہ بد قسمتی کی بات تو ہے لیکن جن عجیب حالات کے تحت یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا ان پرنظرکرتے ہوئے میں کوئی دوسری رائے قائم نہیں کرسکتی ۔حالات کذب بیانی نہیں کرتے اوریہ واقعہ ہےکہ ٹرانسمیشن بقیہ انہی حصوں کی نشرکے وقت خراب ہوگئی جن کے حذف کرنے کی نسبت آپ نے مجھ سے کہا تھا ۔ اس بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں عین ان حصوں کو جب میں نے انہیں ادا کیا آپ کے ٹرانسمیٹروں نے آپ کے جذبات کی ترجمانی کردی اور ایک دفعہ نہیں بلکہ دودفعہ خراب ہوگئے ۔ہرچند کہ آپ کا یہ کہنا ہے کہ آپ بحث نہیں کرنا چاہتے لیکن اس امر کا اعادہ کرنے سے کہ ٹیکنیکل خرابی ہی میری نشر میں خلل کا باعث تھی ۔ یہی ظاہر ہوتا ہےکہ آپ بحث کو طول دینا چاہتے ہیں ۔
دستخط مس فاطمہ جناح
٭
فاطمہ جناح کی تقاریر
تحریک پاکستان کے سلسلے میں 1943ء میں دہلی میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ دس کروڑ مسلمان ایک قوم ہیں جن کی اپنی تہذیب و روایات ہیں ، مذہب ہے زبان ہے اور تاریخ ہے ۔اپنا ایک سماجی نظام ہے ۔ وہ کبھی بھی کسی قوم کی غلامی قبول نہیں کر سکتے ۔‘‘ اس خطاب سے ان کی سیاسی ، نظریاتی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے‘‘۔سننے والوں پراس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے اورخواتین جوق در جوق تحریک پاکستان کے قافلے میں شامل ہونے لگیں اورمردوں کے شانہ بشانہ سردھڑ کی بازی لگا دی۔
اپنی ایک تقریر میں انہوں نے کہا ’’ اپنے ورثہ میں ہم مسلمانوں کو ایک شان دارتاریخ ملی ہے ‘‘۔گزشتہ دو سوبرس کی گردش زمانہ نے ہمیں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن اسلام کی نشاط ثانیہ کی لہردوبارہ چین سے کلکتہ کی جانب حرکت کر رہی ہے ۔‘‘ آپ نے ہمیشہ دین بر حق کی بات کی اورعوام کو سچا مسلمان بننے کی تلقین کی ۔
قیام پاکستان کے بعد 11 نومبر 1947ء میں لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’ہم مسلمانوں کوناکارہ اور بے کار قوم قراردے دیا گیا تھا ۔ اس پراپیگنڈے کا ہم پربھی اثر ہوا کہ ہم خود اعتمادی سے محروم ہو گئے تقسیم ہند کے بعد یہ فریب ٹوٹ گیا ۔ مسلمانوں نے پاکستان حاصل کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک زندہ اور بیدار قوم ہیں لہٰذا اس لغو پراپیگنڈے کا اثر زائل کرنے کے لیے ہمیں اپنے فرائض نہایت عمدگی سے ادا کرنے چاہئیں‘‘۔
28 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ ریڈیو پرقوم سے خطاب کرتے ہوئے مملکت پاکستان کے خدو خال یوں واضح کیے۔
’’ آپ اپنے ادب اورآرٹ میں اسلامی تہذیب اورمعاشرت کو زندہ کریں ۔ اپنے عظیم ماضی سے رشتہ جوڑیں ۔اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پاکستان کو اس کی اسلامی اورتاریخی روایات کے شایانِ شان ایک مضبوط اورطاقتور ملک بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے ‘‘۔
انہوں نے کراچی میں لڑکیوں کے لیے بنائے گئے ایک سکول مدرسہ البنات الاسلام 20 جنوری1949ء کو اس کے اختتام کے موقع پر نوجوان طالبات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔ ’’ آپ لوگ علم کے ساتھ ساتھ دین کا دامن بھی مضبوطی سے تھامنا چاہتی ہیں میں اس رحجان پر آپ کو مبارک دینا چاہتی ہوں۔اللہ کرے ہماری بچیاں صحیح اسلامی زندگی کا نمونہ بن کر یہاں سے نکلیں ۔ اسلام ان کی رگ و پے میں رچا بسا ہو۔وہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے ایک مثال بنیں‘‘ ۔
فاطمہ جناح اس بات کی خواہاں تھیں کہ اردوزبان کوپاکستان کی قومی زبان بنایا جائے ۔وہ اپنی تقاریر میں اردو پڑھنے لکھنے اوربولنے پر زوردیتیں۔
ایک مرتبہ قائد اعظم نے فرمایا ’’ پاکستان بنانے میں جن لوگوں نے میرا ساتھ دیا اس میں فاطمہ جناح سر فہرست ہیں ۔‘‘
1965 کے الیکشن اورفاطمہ جناح
پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے 1965ء کے الیکشن جوفیلڈ مارشل ایوب خان اورمحترمہ فاطمہ جناح کے مابین ہوئے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ہماری نئی نسل اس حقیقت سے بالکل بے خبرہے کہ1965ء کے الیکشن کی کیا اہمیت تھی اور اس کے بد اثرات نے کس طرح پاکستان کے جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1958ء میں پاکستان میں مارشل لا نافذ کیا تھا اورخود کوصدرمقررکیا ۔
ایوب خان مسلم لیگ کنونشن کے امید وار تھے ۔ ان کی مخالف پارٹی میں محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔انہیں مشترکہ حزب اختلاف کی حمایت حاصل تھی جوبنیادی طورپر ایوب خان کی قومی حکومت کے خلاف تھی ۔ ان میں سر فہرست عوامی لیگ جو مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش) کی سب سے بڑی جماعت تھی جس کی قیادت شیخ مجیب الرحمنٰ کررہے تھے ۔ نیشنل عوامی پارٹی ( NAP)خان عبد الغفار خان جس کے سربراہ تھے اور یہ مغربی پاکستان میں خاصی فعال تھی ۔ جماعت اسلامی ایک سیاسی اورمذہبی جماعت تھی جو اسلامی نظام حکومت کے نفاذ کی حامی تھی اس کے سربراہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒ تھے ۔ خان عبد الغفار خان کی سربراہی میں ان کی جماعت کی تمام تنظیموں نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔
جماعت اسلامی نے کھل کر مادر ملت کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ کھڑی رہی ۔ مولانا مودودی ؒ نے بڑے مدلل انداز میں ان کا مقدمہ لڑا ۔ مولانا مودودی کو دینی روایتی حلقے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ مولانا نے ان کے جواب میں صرف ایک جملہ کہا جو زبان زد عام ہوگیا ۔
’’ ایوب خان میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں اورفاطمہ جناح میں اس کے علاوہ کوئی خرابی نہیں کہ وہ عورت ہیں ۔‘‘
آزادی ٹرین : 1965کی الیکشن مہم کے دوران جب مادر ملت ایوب خان کے خلاف انتخابی مہم چلا رہی تھیں یہ واقعہ پیش آیا ۔ ان دنوں وہ جگہ جگہ دورے کررہی تھیں اس دن وہ چٹا گانگ سے ڈھاکہ جانے کے لیے فریڈم سپیشل (آزادی ٹرین) نامی ٹرین میں سفر کررہی تھیں یہ ٹرین بائیس گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی ۔ یہ تاخیر عوام کی زبردست حمایت اورپذیرائی کی وجہ سے ہوئی ۔عوام ہر اسٹیشن پر ہنگامی بریک کھینچ کر انہیں خطاب کرنے کی درخواست کرتے۔ اڑھائی لاکھ لوگ ان کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے ۔ وہ فاطمہ جناح سے اپنی حمایت کا اعلان کرتے ۔ ہوئے نعرے لگاتے اس طرح ٹرین کا شیڈول متاثر ہوا یہ واقعہ ان کی مقبولیت اورعوام کے ساتھ گہری وابستگی کو ظاہرکرتا ہے جوانہیں حکومت کے خلاف امید کی کرن کے طور پر دیکھتے تھے ۔ جو جمہوریت اورشہری حقوق کی مضبوط حامی تھیں۔
بہت سی رکاوٹوں کے باوجود انہوں نے کراچی اورڈھاکہ جیسے بڑے شہروں میں اکثریت حاصل کی ۔ مگربے کار انتخابی عمل کی وجہ سے ہار گئیں ۔
انتخابات میں ہارنے کے باوجود انہوں نے اپنے فلاحی کام جاری رکھے اور پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے اپنا بہترین کردارادا کرتی رہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کی وفات
یہ9جولائی 1967ء کی بات ہے اتوار کا دن تھا اوردوپہر کا وقت تھا اس زمانے میں نہ ہرگھر میں ٹیلی فون ہوتے تھےاور نہ ہی چوبیس گھنٹے چلنے والی بریکنگ نیوز کے چینل اورنہ ہی پل پل کی خبر دینے والا سوشل میڈیا مگر دوپہر ڈھلتے ڈھلتے یہ خبر پورے پاکستان میں پھیل چکی تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح انتقال کر گئیں ہیں۔
انتقال سے ایک روز قبل محترمہ فاطمہ جناح حیدر آباد دکن کے سابق وزیر اعظم میرلائق علی کی صاحبزادی کی شادی میں شریک ہوئیں ۔ قائد اعظم کے سابق پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب الحسن سید نے انتقال کے بعد بتایا کہ مذکورہ شادی کی دعوت میں ان کی ملاقات محترمہ فاطمہ جناح سے ہوئی ۔محترمہ نے انہیں بتایا کہ ان کا دل ڈوب رہا ہے وہ جلد اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہیں۔
مادر ملت کا معمول تھا کہ وہ سونے سے پہلے قصر فاطمہ موہٹہ پیلس کے تمام دروازے مقفل کرنے کے بعد بالائی منزل میں اپنے کمرے میں سوجاتی تھیں اور صبح بیدارہونے کے بعد چابیوں کا گچھا بالکونی سے نیچے پھینک دیا کرتی تھیں تاکہ ملازم سات بجے انہیں اخبارات پہنچا دیں۔ اخبارات دیکھنے کے بعد وہ نہا دھو کرتیارہوتیں توملازم دس بجے انہیں ناشتہ دے دیا کرتا تھا ۔ ناشتے کے بعد محترمہ نچلی منزل میں اپنے دفتر میں آجاتیں ۔
9 جولائی کی صبح خلاف معمول محترمہ نے چابیاں نہیں پھینکیں ملازم سمجھا کہ اتوار ہے اس لیے محترمہ شاید دیرتک آرام کریں گی ۔دس بجے تک بھی محترمہ بیدار نہ ہوئیں دروازہ کھٹکھٹانے کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ملازم ان کی ہمسائی بیگم غلام حسین ہدایت اللہ کے پاس گیا اورانہیں صورت حال بتائی ۔وہ فوراً قصرفاطمہ پہنچیں ایک روایت کے مطابق دروازہ توڑا گیا ۔ ایک اورروایت میں ہے کہ نوکر نے انہیں ایک چابی دی جس کی مدد سے دروازہ کھول کر اندر پہنچا گیا۔ جہاں بستر پرمحترمہ فاطمہ جناح کا جسد پڑا ہوا تھا ۔ بیگم ہدایت اللہ اپنے گھر واپس گئیں جہاں سے انہوں نے فون کر کے ڈاکٹرکرنل جعفر اورکرنل شاہ کو بلایا ۔دونوں ڈاکٹروں نے محترمہ کی موت کی تصدیق کی اورکہا کہ موت قدرتی طورپر واقع ہوئی ہے ۔ کے ایچ خورشید نے بھی لکھا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کی موت قدرتی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ جب لیڈی ہدایت اللہ نے ان کے کمرے کا دروازہ کھولا تو انہوں نے دیکھا ان کے ڈرائینگ روم کا دروازہ کھلا ہوا ہے جسے وہ ہمیشہ بند کر کے سویا کرتی تھیں ۔ اورجب ملازم نے انہیں کمرے کی چابی دی تھی وہ بھی اسی دن سے غائب تھا۔
محترمہ کو غسل دینے والی ایک خاتون نے کہا کہ محترمہ کو تشدد کرکے مارا گیاہے ان کے جسم پرجا بجا زخموں کے نشان تھے مگربعد میں یہ سب قیاس آرائیاں ثابت ہوئیں مگر ابھی بھی لوگ ان کی موت کا معمہ حل نہیں کر سکے ۔
حکومت پاکستان نے اگلے روز عام تعطیل کا اعلان کیا اورکہا کہ انہیں میوہ شاہ قبرستان میں دفنایا جائے مگران کے لواحقین اورعوام نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ انہیں قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں شہید ملت لیاقت علی خان اورسردار عبد الرب نشتر کی قبور کے ساتھ دفن کیا جائے ۔محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی نماز جنازہ موہٹہ پیلس پر شیعہ طریقے سےپڑھائی گئی بعد میں عوام کے لیے نماز جنازہ کا اہتمام پولو گرائونڈ میں کیا گیا جہاں مفتی محمد شفیع صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اورحکومتی عمائدین نے جنازے میں شرکت کی ۔
پاکستانی قوم ایک مدبر دانا اورزیرک رہنما سے محروم ہوگئی ۔ وہ انیس سال تک پاکستانی قوم کی خدمت کرتی رہیں مگر پاکستانیوں نے ان کی تعلیمات کو نہ اپناکر اپنے آپ پر اوراپنی مملکت پر ظلم کیا ہے ان کے اقوال و افکار ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ پاکستان کو گرداب سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے افکار کو اپنائیں اور اس پرعمل کریں ۔ فاطمہ جناح نے مجرد زندگی گزاری ۔ ان کی قومی و ملی خدمات کی بدولت قوم نے انہیں خاتونِ پاکستان اورمادرِ ملت کا خطاب دیا ۔
آئیے ہم سب ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور اپنی ماردرِ ملت کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے وعدہ کریں کہ ہم اپنے پرچم کو ہمیشہ سر بلند رکھیں گے۔پاکستان کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور پاکستان کو دنیا کی نا قابل تسخیر قوم بنا دیں گے انشاء اللہ ( آمین )
اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل کتب اورانٹر نیٹ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
میرا بھائی از محترمہ فاطمہ جناح ،قائد اعظم کے ابتدائی تیس سال از رضوان احمد،جمہوریت ، آمریت اورمادرِ ملت از وکیل انجم ،کالم ڈاکٹر عقیل عباس جعفری،کالم جاوید چوہدری ،تاریخ اسلام کی چار سوبا کمال خواتین از طالب ہاشمی ،انٹر نیٹ کالمز٭