بتولقوام نگران ہے - بتول فروری ۲۰۲۱

قوام نگران ہے – بتول فروری ۲۰۲۱

ازدواجی اور معاشرتی احوال کی درستی کے لیے عہدِ الست کے بعد دنیا کے پہلےعہد’’عقدنکاح‘‘ کے تقاضوں کی یاد دہانی ہوتی رہنا چاہیے ۔
مسابقت کے اس میدان میں اتارنے سے پہلے آدم و حوا کو آزمائشی طور پہ جنت میں رکھا گیا تھا۔ اور آزمائش کے طور پہ ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا۔اس درخت کے پھل میں برائی نہیں تھی۔ بھلا جنت میں کسی برائی کا کیا موقع! یہ تو حکم ماننے اور نہ ماننے کی مشق تھی۔
معاشرے میں مشہور و معروف جملہ بولا جاتا ہے کہ عورت، آدم کو جنت سے نکالنے کا موجب بنی، ذرا اس فرمان الٰہی پہ توجہ دیجیے ۔
’’ہم نے آدم سے شروع میں ہی ایک عہد لیا مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا ‘‘ ( طہٰ 115)
آدم علیہ السلام کو ہی مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ ‘‘ (طہ117)
یعنی آدم کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ خود بھی دشمن سے ہوشیار رہنا اور اپنی بیوی کو بھی بچانا اور جب شیطان نے بہکانے کا عمل شروع کیا تو قرآن پاک کے مطابق اس نے آدم کو ہی نشانہ بنایا کہ کفیل قابو آگیا تو زیر کفالت دام میں آہی جائیں گے۔ اور اللہ رب العزت نے آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ ’’ہم نے اس کو عزم میں پختہ نہ پایا‘‘جیسا کہ سورہ طہ کہ آیت نمبر 115 میں ذکر کیا گیا ہے ۔ شیطان بھی آدم سے ہی مخاطب ہے ۔قرآن پاک کی آیت ہے ۔
’’پھر شیطان نے اس کو پھُسلایا کہنے لگا،آدم، میں بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے؟‘‘ (20 طہٰ)
قرآن پاک کے مطابق شیطان ، آدم کو آہستہ آہستہ اپنے ڈھب پہ لایا اور آدم کو دائمی سلطنت کا لالچ دیا،شیطان کے لالچ پہ آدم اپنا عہد بھول گئے اور عزم میں پختگی نہ دکھائی۔
اس کے بعد والی آیت میں اللہ رب العزت نے سچ فرمایا کہ ’’پھر دونوں نے پھل کھا لیا‘‘۔
گویا کہ شیطان نے آدم کو بہکایا اور حوا نے آدم کا کہنا مانا کیونکہ وہ اس کا سرپرست اور قوام تھا۔
جنت میں یہ مشق اس لیے کروائی گئی کہ آدم علیہ السلام کی اولاد کو یہ مثال یاد رہے کہ شیطان اپنے ارادوں میں کس قدر پختہ ہوتا ہے وہ اپنے مشن پہ ثابت قدمی سے جما رہتا ہے،ایک حربہ کامیاب نہ ہو تو دوسرا اور پھر تیسرا….. غرض وہ نت نئے طریقوں سے، نئ نئ چالوں سے انسان کو….. خصوصاً با اختیار،صاحب مقام انسان کو گمراہ کرنے، ذمہ داری سے روگردانی پر مائل کرنےکے مشن کو جاری رکھتا ہے۔ نہ ہار مانتا ہے نہ مایوس ہوتا ہے۔اور انسان سے اپنی دشمنی اس کی زندگی کے پہلے سانس سے ہی شروع کر دیتا ہے اور ہمیشہ نبھا تا ہے جب تک کہ انسان پہ موت وارد نہیں ہو جاتی، اور اس میں کوئی رو رعایت یا کمی نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو متعدد بار اس دشمن کے بارے میں متنبہ کیا ہے اس کی چالوں سے بھی خبر دار کیا اوراس کی چالوں سے بچنے کی تدابیر بھی بتائیں اور عملی نمونے بھی دکھائے۔ اس کو دشمن سمجھنے والے اور اس کو دوست سمجھنے والوں کی زندگی کو واضح کیا۔
انسان اور شیطان کے درمیان اس مستقل رہنے والی کشمکش کا پہلا نشانہ ’’قوام‘‘ ہی تھا۔
دنیا میں اتارے گئے ان دو انسانوں کے جوڑے میں پوری دنیا موجود تھی،اور ان دونوں کو بھی خاندانی قواعد و ضوابط کی تربیت کے ساتھ اتارا گیا تھا۔آدم کو حوا پہ فوقیت حاصل تھی کہ اس کی تخلیق پہلے ہوئی اور جب آدم علیہ السلام کو جنت میں ٹھہرایا گیا تو ابھی حوا ’’پردے‘‘ میں تھی ۔ حوا کے ظہور کے بعد جب دونوں کو جنت میں رہنے کا اذن عطا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مخاطب فرمایا ۔
’’اے آدم! اپنی بیوی کو لے کر جنت (گھر)میں سکونت اختیار کرو ‘‘۔
گویا کہ آدم اپنی بیوی کا ذمہ دار ہے اس احساس کے ساتھ ہی ہر مرد بیوی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ بیوی کی ذمہ داری اس کے کاندھے پہ ہے،وہ ہی اس کا کفیل ہے ، جسمانی اور روحانی پرداخت کا ذمہ دار ہے۔
ابن آدم کی جب گھر بسانے ،اپنی شریک حیات لانے کی خواہش پوری ہو جائے تو پھر وہ یہ جان لے کہ وہ گھر کا کفیل ہے اور اسی لحاظ سے نگران بھی وہی ہے، ذمہ دار بھی اور صراط مستقیم پہ قائم رہنا اور اہل وعیال کوقائم رکھنا ابن آدم کے فرائض میں ہمیشہ سے شامل ہے۔ سربراہ کے غلط اقدام سےماتحت بھی لا محالہ متاثر ہوتے ہیں۔
سورہ طہٰ میں آیت نمبر121 میں ارشاد ہوتا ہے:
’’آخرکار وہ دونوں میاں بیوی اُس درخت کا پھل کھا گئے نتیجہ یہ ہؤا کہ فوراً ہی ان کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھُل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے آدمؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا‘‘۔
آیت کی ابتدا میں آدم و حوا دونوں کا ذکر ہے مگر اگلے حصہ میں صرف آدم کا ذکر فرمایا۔
’’ وعصی آدم ربہ‘ فغوی‘‘جو ذمہ دار ہوتا ہے اس کا محاسبہ بھی سخت ہوتا ہے۔ ماتحت کی غلطی نگران کے کھاتے میں جا سکتی ہے۔ زیر نگین یا رعایا کا محاسبہ بعد میں ہوتا ہے پہلے نگران کی رپورٹ سنی جاتی ہے۔اگر اس نے اپنے حصے کا کام دیانت داری سے انجام دیا تو پھر ما تحت کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے کہ اس نے اپنے نگران کی کتنی اطاعت کی اور تعاون کیا ۔
عائلی نظام بالکل متوازن رکھا گیا ہے۔ حق لینے سے پہلےحق دینے کا اصول اس رشتے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اطاعت کرنے کے وسائل اور طریقے سکھانے کے بعد اطاعت کا مطالبہ ہے،محبت عطا کرنے کے بعد اس کا حق ادا کرنے کا مطالبہ بنتا ہے۔ اللہ تعالی ٰنے خود بھی انسان کو پہلے سب کچھ عطا کیا پھر واپس کچھ ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ بے عقل اور پاگل معذور سے تو فرض عبادت اور اطاعت کا بھی مطالبہ نہیں کیا۔ اپنے بندوں کو جتنا دیا اس سے کم ہی مانگا۔
مرد میں کچھ صلاحیتیں اور خوبیاں فطرتاً ودیعت کی گئ ہیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے رزق کا انتظام کرکے خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے، ان پہ خرچ کرکے اس کی مردانگی کو تسکین ملتی ہے اور وہ اس بات پہ غیرت کھا تا ہے کہ کوئ اور اس کے گھر والوں پہ خرچ کرے یا اسے نکھٹو یا نااہل سمجھے۔ مرد صرف کمانے کا ذمہ دار نہیں ،بیوی بچوں کے معاملات، دینی و اخلاقی تربیت کا بھی نگران ہے۔ اسی طرح عورت فطرتاً اپنے شوہر کی کمائی اور اس کے حسنِ کردار پہ فخر کرتی ہےاور گھر کے نظام کو اپنے شوہر کی کمائی سے بحسن و خوبی چلا کر اور اس کے حکم کی تعمیل کرکے قلبی سکون محسوس کرتی ہے۔
میاں بیوی اپنے اپنے دائرے میں اپنا اپنا کام دلی رغبت سے انجام دیتے ہیں تو دونوں کا دشمن شیطان اس نظام میں خلل ڈالتا ہے۔اس کے لیے وہ مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ایک دوسرے کو ذمہ داریوں سے فرار کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کرتا،حقوق و فرائض کی تقسیم پہ شکوک شبہات پیدا کرتا،تمناؤں اور خواہشاتِ نفس کی تسکین کے لیے سبز باغ دکھا تا ہے۔غرض وہ اس محاذ پہ ڈٹ جاتا ہے، نہ تھکتا ہے نہ مایوس ہوتا ہے نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ہر روز ایک نیا حربہ ہے روزانہ نئ چال ہے۔ عہد نکاح کے تقاضوں سے انحراف کی مخفی چالیں چل کر شوہر اور بیوی کی زندگی میں زہر گھولتا ہے ۔ قوام کے دل و دماغ میں ایک جابر حاکم اور رب سے بے خوفی کا خناس بھر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ عورت مرد کو بحیثیت قوام قبول ہی کرنے سے منکر ہو جائے۔
اگر’’الرجال قوامون علی النساء‘‘کے قانون کو مرد غلط استعمال کرےگا تو عورت اس کو ظالمانہ نظام سمجھے گی۔ اس صورتحال سے شیطان اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا اور پھر ساری انسانیت اپنے ہاتھوں خود ذلت اٹھائے گی۔ہر مسلمان مرد اگر اپنے گھر میں اپنا کردار ویسا ہی ادا کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے تو نہ کسی گھر کے مکین شیطانی چالوں میں آئیں نہ ہی گھروں کے سکون برباد ہوں۔ اگر شیطان کے پاس ہزاروں حربے ہیں تو کیا مومنوں کو اللہ پہ بھروسہ نہیں ہے؟ اگر شیطان مایوس نہیں ہوتا تو کیا مومنوں کو علم نہیں کہ مایوسی کفر ہے؟
یاد رہے مرد’’ قوام ‘‘بنایا گیا ہے، تاکہ عورت کی مادی روحانی ضروریات اور اخلاق و تربیت کا ذمہ دار بنے، گھریلو معاملات ، اولاد کی تربیت اور رشتوں ناطوں میں توازن رکھنے کا نگران رہے،استاد ،ہادی اور دوست بن کے ر ہے۔دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے اسے اپنی بیوی کی راہنمائی کرنی ہوگی کہ تقوی کے ساتھ کیسے زندگی گزارنی ہے اور بچوں کو’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ بنانے کے لیے کیسی گود تیار کرنا ہے ۔ اور ہر محرم مرد کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی کہ اپنے خاندان کی خواتین کو حقیقی معنوں میں محصنہ (قلعہ بند) بنانا ہے۔
ہر’’قوام‘‘ کو چاہیے کہ بحیثیت مسلمان اپنے گھر والوں کے لیے کوئی ٹھوس مومنانہ صفات کا حامل لائحہ عمل بنائے تاکہ کوتاہیوں غلطیوں اور خطاؤں کی معافی ہوجائے اور قوام اپنے اختیارات کی سمجھ بوجھ پیدا کریں ، معاشرے کے چلن یا اپنے باپ دادا جیسی یا ہندوانہ ذہنیت کی قوامیت کوخیرباد کہیں ۔
بیماری کی تشخیص یہی ہے کہ قوام نے اپنا میدان عمل چھوڑ دیا ہے ۔ اس کا علاج یہی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے جو ترجیحات اور ذمہ داریاں سپرد کی ہیں ان کی ادائیگی کے لیے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آئینہ بنائیں ۔
بچے کی پہلی درسگاہ بے شک ماں کی گود ہےمگر اس درسگاہ کا نگران اور منتظم باپ ہے ۔
مسلمان مرد اپنا نصب العین بنائیں کہ وہ اپنے گھروں کو مسلمان گھرانہ بنانے کے لیے اپنا فرض ادا کریں گے ۔ اور گھر خاندان اور ملت کی خواتین کے لیے محفوظ قلعہ ثابت ہوں گے جہاں وہ حزب الشیطان کے حملوں سے پناہ میں رہیں گی ۔ ہرمسلمان مرد کو روز قیامت کی اس جواب دہی سے ڈرنا چاہیے جب محرم رشتے اپنی خطاؤں کی ساری ذمہ داری قوام پہ ڈالیں گے ۔
جب آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی تو انہوں نے رب کی طرف رجوع کیا۔
’’پھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی‘‘ (طہٰ 122)
اگر امت مسلمہ کو دنیا و آخرت کی کامیابی درکار ہے تو ہر گھر کے قوام کو اپنی غلطیوں سے رجوع کرنا ہوگا اور خود اور اپنی رعایا کو صراط مستقیم پہ ثابت قدم رکھنا ہوگا۔ اور یہ کام ہنگامی بنیادوں پہ کرنا ہوگا ۔

ڈاکٹربشریٰ تسنیم

٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here