اظفر سے ملاقات نے پون کو مایوسیوں میں دھکیل دیا۔وہ ملک اور قوم کے مجرم کے روپ میں اس کے سامنے تھا۔ پون نے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا اس کے والد اور بھائی سخت ناراض ہیں۔اور اس کا رشتہ چچا زاد انیل سے طے کر دیتے ہیں۔ پون خدیجہ کے گھر آ جاتی ہے جو لاہور منتقل ہو گئی تھی۔ زندگی ایک بہت بڑی آزمائش بن چکی ہے۔مگروہ تنہا نہیں ہے۔اسے یقین ہے کہ اللہ اسے ضائع نہیں ہونے دے گا۔
اُس پر آج کل کام کا بہت بوجھ تھا۔ صالحہ آنٹی اپنے کسی عزیز کی وفات کی وجہ سے دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں لہٰذا اب ساری ذمہ داری اُسی پر تھی ۔ سارا دن کیسے گزرتا پتہ بھی نہ چلتا ۔ نین تارا کی پیشکش کے بارے میں سوچنے کا وقت ملا تھا نہ ہی وہ صالحہ آنٹی سے کوئی بات کر پائی تھی ۔ اُن سے واپس آتے ہی وہ بات کرے گی اُس نے سوچ رکھا تھا ۔
اور پھر اس نے یہی کیا تھا ۔ اُس کی بات سن کر وہ بے حد پریشان ہو گئی تھیں جس کی اسے توقع نہیں تھی۔
’’ آپ اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہیں ؟ اگر آپ کومیرے لیے یہ نوکری مناسب نہیں لگتی تو میں انکار کردوں گی ۔ مجھے ویسے بھی یہی کرنا تھا ‘‘ اُس نے اپنی طرف سے ان کی تسلی کرا دی تھی۔
’’نہیں بیٹا یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہی ہو ۔ نین تارا اور اس کی این جی او ایک اندھا کنواں ہے ، جو اس میں ایک دفعہ گر گیا اس کے لیے باہر نکلنانا ممکن ہے ۔ یہ بہت خطر ناک عورت ہے اور اس کی جوباس ہے وہ اس سے بھی زیادہ بے رحم ہے ‘‘۔
’’ اگر یہ اتنی ہی خطر ناک ہے تو آپ اسے یہاں سے نکال دیں ‘‘ پون نے آسان حل پیش کیا تھا ۔
’’ کوشش کی تھی مگر اس کے بعد کہاں کہاں سے فون آئے تم سوچ بھی نہیں سکتیں ۔ کسی نے دھمکی دی توکسی نے لالچ….اور کسی نے اس عظیم شخصیت کے یہاں رہنے کے فوائد گنوائے ۔ غرض یہ کہ خود اپنے ہاتھوں سے جا کرہاسٹل خالی کرنے کا نوٹس واپس لینا پڑا ‘‘۔
’’ اس کے پاس روپے پیسے کی تو کوئی کمی نہیں یہ توکسی بھی شاندار گھر میں رہ سکتی ہے ۔ پھر یہاں کیوں رہ رہی ہے ؟‘‘ پون کونیا خیال آیا ۔
’’ ارے روپیہ پیسہ تو بہت معمولی چیز ہے ۔ ان کا اس سے کیا واسطہ …. ان کی جیبیں تو ڈالروں سے بھری ہوتی ہیں ہر وقت ۔ یہاں اس لیے رہ رہی ہے کیونکہ یہ عورتوں کا ہاسٹل ہے اور اس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز با اختیار اور با وسائل عورتیں رہتی ہیں جنھیں یہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتی ہے ‘‘۔
’’ تو ان عورتوں سے دوستی کرنے کے لیے اس کا ان کے بیچ میں رہنا ضروری ہے ‘‘ وہ صالحہ آنٹی کی بات سن کر بولی تھی ۔
’’ ہاں بالکل ‘‘ انہوں نے اس کی تائید کی ’’ یہاں شہرکے سب سے بڑے گرلز کالج کی پرنسپل رہتی ہے ۔ وہ اس کے انگوٹھے کے نیچے ہے۔ جب کبھی اس کی این جی او نے کوئی مظاہرہ کرنا ہوتا ہے یا جلوس نکالنا ہوتا ہے تواسے کالج کی لڑکیاں نہایت آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں۔ ماں باپ کالج کی انتظامیہ پر بھروسہ کرتےہیں ۔ ان کو کیا معلوم ان کی بیٹیاں کیسے کیسے کتبے اٹھائے سڑکوں پر کھڑی ہیں اور وہ حقوق مانگ رہی ہیں جو عورتوں کے تو کیا انسانوں کے بھی نہیں ہیں ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ کچھ گمراہ اور بھٹکی ہوئی عورتیں پورے معاشرے کو اپنی انگلیوں پرنچانا چاہتی ہیں …. کیونکہ یہ اپنی نا تمام خواہشوں کا انتقام پوری انسانیت سے لینا چاہتی ہیں ۔ان کی اپنی زندگیاں برباد ہیں ۔ بدلے میں یہ کسی ایک انسان کو آباد نہیں دیکھ سکتیں ۔ یہ خدا کی ، اس کے قانون کی ، انسانی معاشروں کی دشمن ہیں ۔ ایسے عناصر ہر جگہ ہوتے ہیں جو اس بات پر بضد ہیں کہ چونکہ روٹی منہ میں ڈالنے کا طریقہ خدا نے سکھایا ہے لہٰذا یہ غلط ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ روٹی منہ کے بجائے ناک میں ڈالی جائے اوراسے باقاعدہ قانون کادرجہ دیا جائے اورپھر ایک دن ساری انسانیت کے لیے یہ طریقہ لازم قرار دیا جائے ‘‘۔
وہ مان گئی کہ صالحہ آنٹی اچھی خاصی نفسیات دان تھیں ۔ آخر کئی سال سے عورتوں کا یہ ہاسٹل چلا رہی تھیں عورتوں کوسمجھے بغیر یہ کام ممکن ہی نہیں تھا ۔ مگر اس کا مسئلہ جوں کا توں تھا ۔وہ نین تارا کو اب انکار کیسے کرے گی ؟ و ہ جس قسم کے حالات کا شکار تھی اس میں وہ ایسی با اثر عورت کواپنا دشمن نہیں بنانا چاہتی تھی ۔ کوئی ایسا حل نکالنا تھا جس سے وہ آسانی سے اس مشکل سے نکل آئے ۔
مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی تھی ۔
نین تارا حسب معمول کسی دورے پر تھی ۔ پھر یہ دورہ لمبا ہوتا گیا۔مہینہ ، دومہینے ، تین مہینے …. وہ واپس نہیں آئی ۔ پھر طرح طرح کی افواہیں اڑنا شروع ہو گئیں ۔کہیں سے خبر آئی کہ وہ این جی او کے کروڑوں کے فنڈز لے کر غائب ہو گئی ہے ۔ کسی نے کہا اُس کی اپنی باس کے ساتھ ان بن ہوگئی تھی ۔ یہ لڑائی کرسی کے لیے تھی یا روپوں کےلیے ، نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہ لاپتہ کردی گئی تھی (بقول صالحہ آنٹی کے اُس کی باس ایک بے رحم عورت تھی )۔
واقعہ کچھ بھی ہؤا ہو کسی کو اس بات سے دلچسپی نہیں تھی کہ ایک جیتی جاگتی خوبصورت جوان عورت غائب ہے کوئی اس کا پتہ کرے ۔ نین تارا کے تو بہت تعلقات تھے ۔ مگر افسوس یہ سارے ہوس کے رشتے اور تعلقات مصیبت کے وقت اس کے کسی کام نہیں آئے تھے ۔ البتہ پون کے سر سے ایک بہت بڑابوجھ ٹل گیا تھا ۔ اسے اب کسی کوجواب نہیں دینا تھا ۔مگر پھر بھی اسے کبھی کبھی نین تارا کا خیال آتا ۔ وہ افسوس محسوس کرتی تھی اُس کے لیے، اللہ نے اسے کس قدر خوب صورت اور با صلاحیت بنایا تھا مگر اس نے خود کوشیطان کے راستے میں ضائع کردیا ۔ ماں باپ نے اس کی شادی کی تھی مگر اس کا خیال تھا کہ وہ اس قدر حسین اور ذہین تھی کہ اس کا حسن اورذہانت اس لیے نہیں تھے کہ وہ ہانڈیاں بھوننے بچے پیدا کرنے اور شوہر کی غلامی میں انہیں ضائع کردے ۔ اُس نے جلد ہی طلاق لے لی تھی اور ایک سہیلی کے پاس شہر آئی تھی ۔ پھر اس نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا تھا یہاں تک کہ ایک دن ہمیشہ کے لیے لا پتہ ہو گئی۔
٭
صبح ہوتے ہی ہاسٹل میں کام والی ماسیوں کی آمد شروع ہو جاتی ایک کار پٹڈ کمرے کی صفائی کے لیے بھی سب خواتین نے ماسیاں رکھی ہوئی تھیں ۔ کچھ کپڑے بھی دھلواتیں اور کچھ لانڈری بھیج دیتیں اور کچھ تو کھانا بھی پکواتیں ۔ ہاسٹل کے دائیں بائیں دو بہت لمبے چوڑے ڈرائیو وے تھے جو شام ہوتے ہی چھوٹی بڑی لش پش گاڑیوں سے بھرنا شروع ہو جاتے ۔ ہر ایک نے اپنی پسند اورحیثیت کے مطابق گاڑی رکھی ہوئی تھی۔
اُسے ہاسٹل آئے ایک ہفتہ ہؤا تھا جب عائشہ نے صالحہ آنٹی کے نمبر پر اسے فون کیا تھا ۔ و ہ اس کی طرف سے بہت فکر مند تھی ۔ اس نے پون کو بتایا تھا ۔
’’ ہمارے گھر سے تمہارے جانے کے دوتین بعد ہی تمہارے ابوبھائی اورساتھ تمہارا چچازاد بھائی آیا تھا۔ تمہارا بھائی توبہت ہی غصے میں تھا ۔ اُسے ہم پر پورا پورا شک تھا ۔ جاتے ہوئے دھمکیاں دے رہا تھا کہ تھانے میں ہمارے خلاف رپورٹ درج کرائے گا کہ ہم نے ایک غیر مسلم لڑکی کو اغوا کر کے اسے زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہے اور یہ کہ پولیس تمہیں ڈھونڈ نکالے گی ۔ تمہارا چچا زاد بھی بہت غصے میں تھا اگر تم انہیں مل جاتیں تووہ تمہیں مار ہی دیتے ۔ وہ کہیں سے پڑھے لکھے تو لگ ہی نہیں رہے تھے ‘‘۔
’’ انہیں کچھ نہ کہو‘‘ عائشہ کی بات سن کر وہ روتے ہوئے بولی تھی ’’ ان کی عزت گئی ہے اور جن کی عزت چلی جائے وہ یونہی ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بری طرح سے رو رہی تھی۔
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے پیارے ماں باپ کی عزت یوں اس کے ہاتھوں برباد ہو گی۔ کاش وہ اسے اپنی مرضی کے دین پر جینے کا حق دیتے اس کی شادی کی بات نہ کرتے تووہ کبھی گھر نہ چھوڑتی۔ وہ بے بسی کے عالم میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ، آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ آج اسے سب بہت یاد آرہے تھے مگر یہ جدائیاں تو اب ساری زندگی کا روگ تھیں ۔ ایک ایسا نا سور تھیں جس کا کہیں کوئی علاج نہیں تھا ۔ ہاسٹل میں آئے دومہینے کیسے گزر گئے اسے پتہ بھی نہیں چلا تھا اس نے اپنے آپ کو بے تحاشا مصروف کر لیا تھا ۔ صالحہ آنٹی کے بھی کئی کاموں کی ذمہ داری اُس نے اپنے سر لے لی تھی وہ یہاں کافی مطمئن تھی ۔ تنخواہ کے نام پر اسے اچھی خاصی رقم مل رہی تھی جو اس کی ضرورت سے بہت زیادہ تھی ۔ شاذو نادر ہی اسے کہیں خرچ کرنے کی نوبت آتی ۔
اُس دن بھی وہ ایک فائل میں سر کھپا رہی تھی جب سعدیہ نے اس کے کمرےمیں جھانکا ۔ وہ پچھلے دو سال سے اس ہاسٹل میں رہ رہی تھی اور پون سے اس کی کافی دوستی ہو گئی تھی ۔
’’ مجھے معلوم تھاتم فائلوں کے انبا ر کے نیچے دفن ہو گی ۔ سوچا تمہیں تھوڑی دیر کے لیے باہر نکالوں ….میں نے بڑی مزے کی کافی اور سینڈوچ بنائے ہیں اور میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی ‘‘ اُس نے پون کوکچھ کہنے سے پہلے ہی چپ کر ادیا تھا۔
پھر اس ٹی پارٹی کے دوران وہ ادھر اُدھر کی ڈھیر ساری باتیں کرتی رہی تھیں ۔
’’تمہیں پتا ہے میری شادی ہو رہی ہے ؟‘‘ سعدیہ کافی کا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے بولی۔
’’ اچھا یہ تو خوشی کی بات ہے مبارک ہو !‘‘
لیکن پون نے کہنے کے دوران ہی دیکھ لیا تھا اس کے چہرے پر خوشی کے کوئی آثار نہیں تھے ۔
’’ نہیں میں خوش نہیں ہوں ‘‘ وہ بہت سنجیدگی سے بولی تھی۔
’’ کیوں ؟‘‘ پون کا جوش اس کی بات سن کر ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔
کیونکہ میری شادی جس لڑکے سے ہو رہی ہے وہ عمر میں مجھ سے تقریباً دس سال چھوٹا ہے اور صرف مڈل پاس ہے ‘‘۔
’’ تو پھر یہ بے جوڑ شادی ہو کیوں رہی ہے ؟‘‘پون حیران تھی۔
’’ کیونکہ ہمارے ہاں خاندان سے باہر شادی ہوتی ہی نہیں اوراندر یہی رشتہ ہے میرے لیے …. در اصل ہمارے ہاں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی رواج نہیں ‘‘ وہ دور کہیں دیکھتے ہوئے بول رہی تھی۔
’’ لڑکیاں تو کیا لڑکے بھی نہیں پڑھتے ۔ مجھے بھی مڈل پاس کرنے کے بعد گھر بٹھا دیا گیا ۔ تب ابا نے کہا پرائیویٹ میٹرک کر لو ۔ وہ ہر طرح سے میری حمایت کرنے کوتیار تھے مگر خاندان کی مخالفت مول لینے کی ہمت اُن میں بھی نہیں تھی ۔ بڑی مشکل سے ابا کو منا کر شہر میں ایک گھر کرائے پر لیا اور وہیں رہ کر میں نے بی اے تک پڑھا ، پھر ایم اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر پاس کیا اور خاندان والوں کے علم میں لائے بغیر ہی لیکچرر شپ کے لیے اپلائی کیا ۔ جب یہاں اپائنٹمنٹ ہوئی تو چپکے سے یہاں آگئی ‘‘۔
’’ تو کیا تم یہ شادی کر لوگی؟‘‘ پون کو سخت افسوس ہو رہا تھا ۔ اتنی محنت کے بعد اسی جاہل خاندان میں واپسی کاخیال بڑا ہی تکلیف دہ تھا۔
’’ کرنی پڑے گی ‘‘ وہ گہرا سانس لے کر بولی ’’ کیونکہ خود سے میں شادی کر نہیں سکتی اور کرنا چاہتی بھی نہیں ۔ خاندان والے میرے ماں باپ کا جینا حرام کردیں گے کہ دیکھا پڑھانے کا نتیجہ …. لڑکی گھر سے بھاگ گئی ۔ اور پھر کم از کم ایک صدی تک کوئی اور لڑکی پڑھ نہیں پائے گی ۔ دوسرے میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں نے میری تعلیم کے لیے پہلے ہی بہت قربانیاں دی ہیں اگر میں نے خاندان میں ہی شادی نہ کی تو اُن کی زندگیاں اور مشکل ہو جائیں گی ۔ تو مجھے یہ قربانی دینا ہی ہو گی ‘‘۔
ساری بات سن کر پون اس کے لیے بہت تکلیف محسوس کر رہی تھی۔
’’ شادی کے لیے رضا مند ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہے ‘‘ اس نے دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے کہا ’’ تم اتنے دنوں سے یہاں ہو تم نے کوئی بات نوٹ کی ہے ؟‘‘
’’ کیسی بات ؟‘‘ پون کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں بولی۔
’’ تم نے دیکھا ہمارے آس پاس جتنی بھی خواتین ہیں اگرچہ سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں خود مختار ہیں پیسے والی ہیں پھر بھی غیر مطمئن ہیں ‘‘۔
’’ ہاں ٹھیک کہا تم نے ‘‘ پون اس کی بات سن کر بولی ’’ بلکہ کچھ کے بارے میں تو مجھے لگتا ہے جیسے وہ نیم پاگل ہوں ‘‘۔
’’ تم نے بالکل ٹھیک پہچانا ‘‘ سعدیہ نے اُس کی بات کی تائید کی ’’ اور تمہیں معلوم ہے ان کی بے اطمینانی اور پاگل پن کی وجہ کیا ہے …. تنہائی ! اور اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی شادیاں نہیں ہو سکیں ‘‘۔
’’ ارے واہ!‘‘ پون کو سن کر حیرت ہوئی تھی ’’ کیا کوئی اس وجہ سے بھی پاگل ہو سکتا ہے کہ شادی نہیں ہوئی ؟‘‘
’’ بالکل ہو سکتا ہے ‘‘ سعدیہ بڑے یقین کے ساتھ کہہ رہی تھی ’’کبھی ہم ایسی عورتوں پر رشک کرتے تھے جو اپنا کماتی ہیں خود مختار ہیں جن پر کوئی پابندی نہیں ۔ مگر ہاسٹل کے ان دو سالوں نے میرےخیالات بدل کر رکھ دیے ہیں۔ خود مختاری آزادی اپنی کمائی یہ سب جھوٹے اورجعلی خواب ہیں ۔ یہ تھوڑی دیر کی مصنوعی چمک دمک ہیں ۔ اُس کے بعد فطرت اپنا آپ جتاتی ہے مگر تب تک وقت گزر گیا ہوتا ہے ۔ میں عورت کی اعلیٰ تعلیم کے حق میں ہوں ۔بوقت ِ ضرورت نوکری بھی کی جا سکتی ہے ۔ مگر ان چیزوں کی خاطر اپنے اصل اور اپنی فطرت سے منہ موڑ نا خود اپنے آپ پر ہی بہت بڑا ظلم ہے ۔ چھوٹا سا گھر زندگی کا ساتھی اور بچے …. یہی ہر عورت کا اصل بھی ہے اور فطرت بھی …. باقی سب جھوٹ ہے بہلاوا ہے ‘‘۔
’’ مگر اتنی ساری عورتوں کی شادی کیوں نہیں ہو سکی؟‘‘ پون کے ذہن میں نیا سوال آیا تھا ’’ حالانکہ یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں پیسے والی ہیں …. پھر کیا وجہ ہو ئی؟‘‘
’’ بھئی کچھ تو جب بہت پڑھ لکھ گئیں تو اسی زعم میں کوئی انہیں اپنے معیار کا لگا ہی نہیں یہاں تک کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا ۔ کچھ کے ماں باپ نے نا سمجھی کا مظاہر ہ کیا بیٹی کو غیر حقیقی خوابوں کے پیچھے دوڑائے رکھا ۔ کچھ کے ماں باپ کو بیٹی کی کمائی راس آگئی انہوں نے اس سے محروم ہونا پسند نہ کیا ‘‘ سعدیہ میز پر سے کپ اٹھاتے ہوئے بولی تھی۔
’’ تمہیں معلوم ہے میرے ساتھ والے کمرے میں جو انجم نامی خاتون رہتی ہے ‘‘ وہ واپس آکر بیٹھتے ہوئے بولی ’’ دو دفعہ خود کشی کی کوشش کر چکی ہے ‘‘۔
’’ اچھا ؟ مگر کیوں ؟‘‘پون کو تجسس ہؤا ۔
’’ اسے بیزاری کے دورے پڑتے ہیں۔ یہ کسی موبائل فون کمپنی میں اچھے عہدے پر ہے، اپنے کمرے میں اس نے آسائشوں کے انبار لگا رکھے ہیں، سب سے اچھی گاڑی ہاسٹل میں اسی کے پاس ہے مگر پھر بھی اسے سکون نہیں ہے ۔ آدھی آدھی رات تک پائوں جلی بلی کی طرح ہاسٹل میں پھرتی ہے اور پھر جب تھک جاتی ہے نیند کی گولیاں کھا کر سو جاتی ہے ۔ اس کے ماں باپ مر گئے ہیں بہن بھائی اپنی زندگیوں میںمصروف ہیں اور یہ سہیلیوں سے کب تک باتیں کرے …. اس عمر کی اکثر خواتین شادی شدہ ہوتی ہیں ، وہ اپنے معاملات چھوڑ کر اس سے باتیں کریں گی کیا؟‘‘
’’ شادی کیوں نہیں ہوئی اس کی تو شکل بھی اچھی ہے ؟‘‘
’’ اس کی کسی زمانے میں منگنی تو ہو گئی تھی مگر پھر ٹوٹ گئی کسی وجہ سے ۔ اب اس کا منگیتر شادی شدہ ہے بچوں والا ہے مگر یہ ابھی بھی اس خواب کے سہارے زندہ ہےکہ وہ ایک دن اس سے ضرور شادی کرے گا ۔ اس موہوم امید پر یہ زندگی گزار رہی ہے ‘‘ سعدیہ بہت افسوس سے کہہ رہی تھی۔
’’ یہاں اس ہاسٹل میں کم عمر لڑکیاں بھی ہیں مگر رشتوں کی تلاش میںماری ماری پھر رہی ہیں ۔ ساتھ کام کرنے والے موقع پر ست مردوں پر پیسے خرچ کرتی ہیں ،انہیں تحفے دیتی ہیں شادی کی امید پر مگر کچھ حاصل نہیں ہوتا اور وہ جو کالج کی پرنسپل ہے مس عباسی …. وہ تو تقریباً پاگل ہو چکی ہے تنہائی اور اکیلے پن کی وجہ سے …. اصل میں نوکری پیسہ تعلیم یہ سب ضرورت ہیں مگر گھر شادی بچے فطرت ہیں ۔ ضرورت کے بغیر گزارہ ہو جاتا ہے مگر فطرت کے بغیر نہیں ہوتا۔اور ہم نے ضرورت کو فطرت اور فطرت کو محض ضرورت سمجھ لیا ہے ‘‘۔
’’ بھئی واہ! آپ نے تو ہاسٹل کی خواتین کے متعلق بہت زبردست تجزیاتی رپورٹ تیار کر رکھی ہے ‘‘ پون سعدیہ کو تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔
’’ا س میںمیرا کوئی کمال نہیں ہے یہ تو وہ حقیقت ہے جو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے ‘‘ وہ کسر نفسی سے کام لے رہی تھی۔
’’ نہیں بھئی ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا‘‘ پون پوری سچائی سے بولی ’’ یہ حقیقت جو تم نےدیکھ لی ہے اگر ان خواتین نے بھی بر وقت دیکھ لی ہوتی تو آج ایسی بے سکون اور محروم زندگی نہ گزار رہی ہوتیں ‘‘۔
’’ یہی وجہ ہے کہ میں ایک بے جوڑ شادی کے لیے راضی ہو گئی ہوں کیونکہ میں ایسی زندگی نہیں گزار نا چاہتی جہاں انسان یا تو پاگل ہوجائے یا پھر خود کشی کر لے ۔ میں اپنی تعلیم اور ڈگری کے زعم میں آکر اپنے آپ کو ایسے کسی خول میں بند نہیں کروں گی جس کے اندر رہ کر میری ذات گل سڑ جائے ‘‘۔
وہ دور کہیں دیکھتے ہوئے بول رہی تھی ۔
’’ میرے والدین ابھی زندہ ہیں لیکن ان کی وفات کے بعد میرا کیا ہوگا …. بہن بھائی اپنی زندگی میں مگن ہوں گے ۔ تب میری زندگی کیا ہو گی …. ویرانی اور پچھتاووں سے بھر پور …. مجھے معلوم ہے اس شادی کے بعد بھی میری زندگی آسان نہیں ہوگی ، میری پھوپھی یعنی کہ میری ہونے والی ساس اپنے بیٹے کی مجھ سے شادی کرا کے مجھ پرگویا احسان کر رہی ہے جیسے میں تعلیم یافتہ نہیں بلکہ کسی وائرس کا شکار انسان ہوں ۔ نیلی چڑیا کی طرح مجھے بھی ٹھونگیں مار مار کر یہ ذہنی اور روحانی طور پر برباد کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے ۔ اگر میں نے اپنے شوہر کو پڑھانے کا ذکر بھی کیا تو مارے غیرت کے وہ مجھے مار ہی ڈالے گا کیوں کہ وہاں مشہور ہے کہ دماغ چلانا نہیں ہل چلانا آنا چاہیے ۔ چاہے وہ میرے جیسوں کے سروں پر ہی کیوں نہ چلانا پڑے ۔ لیکن پھر بھی میں مایوس نہیں ہوں ‘‘۔
وہ بڑے مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی ۔
’’ میں سکول کھولوں گی اپنے علاقے میں کیونکہ یہ نوکری تومجھے کوئی کرنے نہیں دے گا ۔ میں لڑکیوں کوپڑھائوں گی اور مجھے امید ہے پچاس سال بعد یا ایک صدی بعد ہماری نئی نسل پڑھی لکھی ہو گی اور مجھے یہ تسلی رہے گی کہ میں نے مشکلوں سے ڈر کراپنی زندگی کو جوہڑ نہیں بننے دیا بلکہ اپنے آپ کو ایک ایسے دریا میں تبدیل کر لیا جو طوفانوں سے لڑتا پہاڑوں سے ٹکراتا اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔ اور جہاں جہاں سے گزرتا ہے زندگی بانٹتا ہے ‘‘۔
وہ بول رہی تھی اور پون آنکھوں میں آنسو لیے اسے رشک بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ کاش وہ بھی سعدیہ کی طرح مضبوط ہوتی …. اسی کی طرح با ہمت ہوتی!
٭
اُس دن وہ صبح ہاسٹل کا رائونڈ لے رہی تھی جب اس نے کسی کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھا اور فورا ً دیوار کی اوٹ میں ہو گئی۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے ؟ اس نے بہت گھبرا کر سوچا ۔ کہیں اس نے اسے دیکھ تو نہیں لیا ۔ وہ جلدی سے دوڑ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی۔ اسے یقین تھا اس نے تھوڑی دیر پہلے ہما کو ہی دیکھا تھا جو نہ صرف اس کے گھر کے قریب رہتی تھی بلکہ کچھ عرصہ تک دونوں نے ایک ہی سکول میں پڑھا یا بھی تھا اور بد قسمتی کہ دونو ںکی آپس میں کبھی نہیں بنی تھی۔
اُس کی بے قراری اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔ اب کیا ہوگا یا اللہ ! یہ دنیا اتنی بڑی ہے یہ کہیں اور کیوں نہ چلی گئی یہاں ہی کیوں آئی ، اگروہ اس کو یہاں دیکھ لیتی ہے تو پھر تو وہ بڑے شوق کے ساتھ اس کی یہاں موجودگی کی اطلاع اس کے گھر تک پہنچائے گی کیونکہ اس کے گھر چھوڑنے کی خبر تو سب کو ہو چکی ہو گی ۔ یا اللہ میں کیا کروں ! چھپنے کی کتنی اچھی جگہ ملی تھی ۔ وہ یہاں خوش تھی مطمئن تھی مگر اب لگتا تھا وہ یہاں بھی غیر محفوظ ہے ۔
اُس کا سر بوجھل ہو رہا تھا لمحہ بہ لمحہ اس کی وحشت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے بیگ کھول کر ڈائری نکالنے کی کوشش کی ۔ وہ عائشہ سے بات کرنا چاہتی تھی اور اس کا نمبر ڈائری میں ہی تھا ۔ اسے اب جلد از جلد کوئی نیا ٹھکانہ ڈھونڈنا تھا ۔ ڈائری سے پہلے اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا اخبار کا ٹکڑا آیا تھا ۔ یہ کیا ہے ؟ اس نے تہہ کیا ہؤا کاغذ کھولا ۔ سکول ایجوکیٹرز کی بھرتی کا اشتہار تھا جسے کچھ دن پہلے ہی اُس نے بڑی احتیاط سے کاٹ کر رکھا تھا اورکاٹتے ہوئے مسلسل سوچ رہی تھی کہ آخر اسے اس اشتہار کی کیا ضرورت ہے مگر پھر بھی اس نے اسے کاٹ کر پرس میں رکھ لیا تھا اور اب تقریباً بھول چکی تھی ۔
تو کیا یہاں اپلائی کرنا چاہیے؟ وہ غائب دماغی سے اشتہار دیکھے جا رہی تھی اور پھر اس کی نظر تاریخ پر جا پڑی اور اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا درخواست جمع کرانے کی آج آخری تاریخ تھی ۔ اب کیا کروں مجھے تو دفتر کا بھی نہیں پتا کس کے ساتھ جائوں گیارہ بج چکے ہیں ۔
اور پھر اگلے ہی لمحے وہ سعدیہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی ۔ آج ہفتہ تھا اور اس کی کالج سے چھٹی تھی ۔ محض دس منٹ بعد وہ اسے ساتھ لیے ویگن سٹاپ پر کھڑی تھی ۔ شکر ہے اپنے سارے کاغذات اُس کے پاس تھے ، یہی وجہ تھی کہ دفتر میں اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی ، سارا کام خیر وعافیت سے ہو گیا تھا ۔
’’ چلو یہاں ایک ریستوران ہے وہاں چلتے ہیں ۔ میں اپنی کالج کی ٹیچرز کے ساتھ یہاں آئی تھی ان کا کلب سینڈوچ بڑا ہی مزیدار ہوتا ہے ‘‘۔
وہ دفتر سے فارغ ہوئیں تو سعدیہ کویاد آیا کہ آج اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور اب اسے سخت بھوک لگ رہی ہے۔ ریستوران میں آکر انہوں نے دو سینڈوچز اورکافی کا آرڈر دیا تھا ۔ وہ دروازے کی طر ف پیٹھ کرکے بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ مزید کوئی اور اسے پہچانے۔ ہاسٹل میں جوہما نامی تلوار لٹک رہی تھی اس کے سر پر وہی اس کو خوفزدہ کرنے کو کافی تھی ۔ ابھی تو اسے یہ بھی سوچنا تھا کہ بطور ٹیچر اپائنٹمنٹ ہونے تک اس سے بچ کر کیسے رہنا ہے۔
اور پھر ہاسٹل آنے کے بعد اس نے واقعی اپنے آپ کو اپنے کمرے تک محدود کر لیا تھا ۔ سعدیہ اسے بلاتی رہتی اور پھر ناراض ہو کرخود ہی اس کے کمرے میں آجاتی ۔اس کے ہاسٹل سے جانے میںصرف دوہفتے رہ گئے تھے ، پھر اس کے بعد جلد ہی اس کی شادی ہوجانا تھی ۔ آج کل وہ اپنی شادی کی خریداری میں مصروف تھی ، ساتھ میں اسے بھی بازار لے جاتی ۔ اور وہ بھی ایک دو دفعہ ساتھ اس لیے جا سکی تھی کیونکہ اسے معلوم ہؤا تھا ہما ایک ہفتے کے لیے اپنے گھر گئی ہوئی ہے ۔
اور آج سعدیہ ہاسٹل چھوڑ کرگھر جانے کوتیار کھڑی تھی ۔ اس کے آس پاس چھوٹے بڑے کئی بیگ پڑے تھے اور ٹیکسی دروازے پر کھڑی تھی۔ ایک اورجدائی کا منظر اس کے سامنے تھا …. وہ منظر جس سے اسے سخت خوف آتا تھا مگر پھر بھی اسے بار بار اس کا حصہ بننا پڑتا تھا ۔ ابھی پہلی جدائیوں کے زخم بھرے نہیں تھے کہ ایک اور جدائی کا سامنا تھا۔
اُسے سعدیہ سے بہت لگائو ہو گیا تھا اور یہی حال سعدیہ کا بھی تھا ، وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی حلق میں آنسوئوں کا گولہ ساتھا اور دل ڈوبا جا رہا تھا۔ سعدیہ اسے اپنا پتہ سمجھا رہی تھی اوروعدہ کر رہی تھی کہ وہ شادی کے بعد کم از کم ایک دفعہ ہاسٹل ضرور آئے گی ۔
’’ ہاں ہم دوبارہ ضرور ملیں گے ‘‘۔
اس نے سعدیہ سے زیادہ خود کو تسلی دی تھی حالانکہ آنے والے دنوں میں اس کی اپنی منزل کیا ہو گی کہاں ہو گی اسے خود بھی معلو م نہیں تھا۔
(جاری ہے )
٭ ٭ ٭