آسمان پر بادل چھائے اور خوب برسے، پسینہ میں شرابور نفوس نے جہاں سکھ کا سانس لیا وہاں ان کے چہروں پر تشویش کی لہر بھی تھی۔ پہاڑی راستے کی مسافر بارات کہیں تاخیر نہ کر دے۔ ظہر کی اذان سے قبل مسجد کے قرب میں دو ویگنیں آ کر رکیں اور جن سے تین خواتین اور کچھ مرد باہر نکلے۔ بارات کا استقبال خوش آمدیدی کلمات سے کیا گیا، سب باراتیوں میں دولہا کی پہچان اس کا سہرا اور ہار نہیں بلکہ اس کے چہرے کے لو دیتے دیے تھے، اور سڈول جسم پر کھبتا ہؤا سفید قمیص شلوار اور بسکٹی رنگ کی واسکٹ!(شاید دولہا کا کردار ہی خاص ہوتا ہے)۔
نماز ِ ظہر تک کچھ اور مہمان بھی مسجد میں پہنچ گئے اور خطبہ نکاح اور’دولہا دلہن کے‘قبول ہے ‘‘ کے تحریری اقرار نامے کی خوشی میں سب کو مٹھائی پیش کی گئی۔دولہا کا تعلق آزاد کشمیر کے ایک شہر سے تھا اور دلہن راولپنڈی کی رہائشی تھی، جس نے لاہور ملتان اور فیصل آباد کے علاوہ کو ئی شہر نہ دیکھا تھا۔ آزاد کشمیر کا رہن سہن اور تہذیب و تمدن تو دور کی بات اسے تو اس کا حدود اربعہ تک معلوم نہ تھا۔ دونوں خاندانوں کے نسب میں یکتائی تھی نہ زبان اور کلچر میں! دلہن کے والد نے تیس برس قبل نکاح کرتے ہوئے ایسی ہی یکتائی کو سامنے رکھا تھا، جو اب اپنی اولاد کے لیے ترجیح بنایا تھا، بقول اقبال:
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی، قرآن بھی ایک
اس یکتائی کے بعد باقی سب اختلاف بھی ان کے ہاں’’ حسنِ اختلاف‘‘ ہی تھا۔
باراتی خواتین ایک بریف کیس لیے دلہن کے گھر پہنچ چکی تھیں، جس میں طلائی زیور اور ایک عدد خوشبو تھی: ’’ون مین شو‘‘ (دولہا کو معلوم نہ تھا کہ خوشبو بھی زنانہ اور مردانہ ہوتی ہے، بھائی صاحب سات سمندر پار سے جو لائے تھے وہی دلہن کو پیش کر دی)باقی تحائف دلہن والوں کے لیے تھے۔
بارات جس خاموشی اور وقار کے ساتھ آئی تھی، اسی طرح رخصت ہوئی، دلہن کا ایک سوٹ کیس اور دورشتہ دار خواتین (بہن اور خالہ) اسی ویگن میں جگہ پا گئیں جہاں دولہا اور ان کے اقارب بیٹھے تھے۔ واپسی کا سفر بھی اسی خاموشی سے طے ہؤا، سوائے دولہا اور ان کے دوستوں کی خوش گپیوںکے!
دولہا کے لیے اگر دلہن نامانوس تھی تو دلہن بھی باراتیوں میں دولہا کو نہ پہچانتی تھی، شاید وہی دولہا تھے جنہوں نے وین رکنے پر پانی پیش کیا تھا، جسے دلہن کے ہاتھ بڑھانے سے قبل خالہ جان نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا تھا، اور خود اسے پکڑایا تھا۔یہی حال دو مرتبہ سیون اپ کی بوتل کے ساتھ ہؤا۔
شام ڈھلے بارات ایک پل پار کر کے اپنے مستقر پر پہنچی تو حیران نگاہوں والی لڑکیوں بالیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاموش نگاہوں سے سلام کیا، نہ ہاتھوں میں گجرے تھے نہ ہونٹوں پر خوش آمدیدی گیت! کہ دلہن بھی انصار کے اس قبیلے سے نہ تھی، جہاں رخصتی اور آمد پر نغمات بکھیرے جاتے ہوں۔
اور جب اپنی ارضی جنت کے حجرے میں پہنچی تواس کے دروازے کو کھلا پایا، چند ثانیے بعد داخل ہونے والے نے سلام سے استقبال کیا، ’’قبول ہے‘‘ کی دستاویز پر درج مہر کی تفصیل سے آگاہ کیا اور طلائی زیورات سے بچی رقم کچھ اضافے کے ساتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دی، کہ ’’مہر معجل‘‘ لکھا تھا، تو معجل ہی ادا ہؤا۔اور جب گفتگو شروع ہوئی تو پہلا سوال ہی نماز کے بارے میں! ہم نے تو سنا تھا کہ اہلِ جہنم سے سوال ہوگا، تو وہ کہیں گے: لم نک من المصلین (ہم نماز نہیں پڑھتے تھے)، اس تعلق کو جنت تک پہچانے کے ارمان میں شاید یہی سوال لب پر آیا تھا۔
صبح کی کرنیں ابھی ٹھنڈی تھیں جب ولیمے کی تیاری کے لیے دولہا صاحب انتظام میں جت گئے، نجانے انہوں نے ناشتا کیا تھا یا نہیں، البتہ دلہن والے ناشتے کے انتظار میں بیٹھے تھے، اہلِ خانہ سے استفسار کیا تو کمال بے نیازی سے کہا گیا: ’’دلہن کا اپنا گھر ہے جو چاہے بنائیں اور کھا لیں‘‘( یہ تو بعد میں علم ہؤا کہ خاندان بھر کے اکلوتے تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار سپوت کی نظریاتی بنیادوں پر ہونے والی شادی میں کئی امیدیں ٹوٹتی ہیں تو ردِ عمل کسی بھی صورت ظاہر ہو سکتا ہے) خالہ جان نے بڑی حکمت سے بات سنبھالی، کہ آج تو مہمان ہے آپ کی دلہن، کل سے خود ہی بنا لے گی۔ اور یوں پہلے دن تیار ناشتا مل گیا۔
دولہا نے رسم و رواج کی زنجیریں توڑنے کا اعلان کر رکھا تھا، ولیمہ میں آنے والے مہمانوں سے (نیندرا) سلامی نہ لینے کا اعلان تھا، اور اس اعلان کو دعوتِ عام پر محمول کیا گیا، اور پھر مہمانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا، کہ اس متنازعہ خطے میں یہ پہلی ایسی شادی تھی، لوگ غیر متنازعہ طور پر دعوت میں کھنچے چلے آرہے تھےاور انہوں نے سر کھجانے کی بھی فرصت نہ دی جب تک کہ کہ دیگوں کی تہہ تک صفائی نہ ہو گئی۔ دولہا صاحب پیشانی پونچھتے زنان خانے میں پہنچے تو خبر ملی کہ ان کی سسرالی مہمان خواتین دعوت سمرقند تو درکنار دعوتِ شیراز سے بھی محروم ہیں۔ اور پھر کشمیری دولہا نے سستانے کے بجائے کچن کا رخ کیا، اور فقط ایک گھنٹے میں پلاؤ اور قورمہ تیار تھا، اور معذرت کے ساتھ پیش کیا جارہا تھا، اور خندہ پیشانی اور خوش گپیوں کے دوران کھایا جا رہا تھا۔
اگلے روز علی الصبح واپسی کا سفر تھا۔ ناشتا بنانے کی خواہش کا اظہار دلہن تک پہنچا ، مگر اس کے کچن میں پہنچنے سے پہلے گرما گرم ناشتا مہمانوں تک پہنچ چکا تھا۔ دلہن تیار ہو کر باہر نکلنے لگی تو ساتھ آئی خالہ جان نے پہلے تو زیورات اتار کر بیگ میں رکھنے کی ہدایت کی اور پھر جالی والی سینڈل اتارنے یا جراب پہننے کی ہدایت دی۔یعنی اب کے سفر دلہن کے پروٹوکول کے ساتھ نہ ہو سکے گا۔راستے میں جب بھی ان کی نگاہیں حنائی ہاتھوں پر پڑتیں وہ بے اختیار انہیں سکارف میں چھپا لینے کا اشارہ کر دیتیں۔
اسی شام راولپنڈی پریس کلب میں جشنِ آزادی کا جلسہ تھا، اور دیکھتی آنکھوں نے حیرت سے دیکھا کہ دو روز پہلے جس دوشیزہ کو انہوں نے نکاح کے بندھن میں قید کیا تھا آج وہ آزادی کے جشن میں بنفسِ نفیس موجود ہے۔اگلے روز دولہا دلہن سیر کو نکلے تو ان کے ہمراہ خاندان کے بچے بڑے اور بچے کھچے مہمان بھی تھے، اور ایک ہی دن میں شکر پڑیاں، دامنِ کوہ، زیرِ تعمیر فیصل مسجد اور راول ڈیم کی سیر کر لی گئی۔
دو دن پلک جھپکتے گزر گئے، اور اب دلہن کو واپس جانا تھا، اسی اجنبی دیس میں، جہاں سے نجانے کب واپسی ہو۔جاتے سمے والد صاحب نے شاید رسماً پوچھا:
پھر کب آئیں گے؟
دولہا نے دلہن کی جانب دیکھا، اور اس نے غنیمت جانتے ہوئے مدعا بیان کر دیا: اگلے ہفتے شوریٰ کا اجلاس ہے میرا۔ اور دولہا کے کسی اقرار سے پہلے ہی والدہ صاحبہ نے مداخلت کی۔
’’شوریٰ تمہارے بغیر بھی ہو جائے گی، عید کر کے واپس آنا‘‘۔
دلہن نے انگلیوں پر عید کے دنوں کی گنتی کی اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
ایسی مائیں بھی ہوتی ہیں کیا؟ انہوں نے تو گھر سے ہی نکال دیا ہے مجھے۔ اگر دولہا منع کرتے تو وہ مان بھی لیتی، مگر انہیں تو اقرار کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
والدہ صاحبہ اپنی ہی ترنگ میں کہہ رہی تھیں۔
تمہیں یوں بھی وہاں زیادہ دن نہیں رہنا، میاں کے ساتھ دوسرے شہر میں جانا ہو گا، اس لیے چھٹیاں ختم ہونے تک وہیں رہنا۔
دلہن کے آنسو گالوں سے بہتے ہوئے زمین پر ٹپکنے لگے، لیکن آج ان آنسؤوں کو دیکھنے والا بھی کوئی نہ تھا، سوائے دولہا میاں کے ، جو والدہ صاحبہ کے حکم کے سامنے سرنڈر کر چکے تھے۔اس لیے رخصت کا اشارہ کیا۔
پچھلے سفر میں جو مناظر بڑے دلفریب لگے تھے آج بے مزہ سے تھے،حتیٰ کہ آدھا سفر گزرنے کے بعد ویگن بغرضِ استراحت روک دی گئی۔ دولہا صاحب جھٹ بسکٹ اور سیون اپ لے آئے، دلہن نے انکار میں سر ہلایا، کیونکہ اس سے قبل تو غصہ اور ناراضی میں سب دنیا سے ’’کٹی‘‘ ہو جاتی تھی۔ انہوں نے دو مرتبہ نہ کھانے کا سبب پوچھا، اور تیسری مرتبہ اس انداز سے بسکٹ کا ڈبہ آگے کیا کہ دلہن نے ’’پیک فرین پی نٹ‘‘ کا بسکٹ لیا اور سیون اپ کی چابی سے کھلی بوتل بھی۔ اور وہ جو سوچے بیٹھی تھی، کہ بس ایک ہی بسکٹ کھاؤں گی، ایک بھی بچا نہ پائی۔دولہا بولے: کچھ اور لے آؤں۔ اب سچے دل سے ’’انکار‘‘ کیا اور رزق پیٹ میں پہنچتے ہی غصّہ نجانے کہاں اڑن چھو ہو گیا، کاش وہ راولپنڈی ویگن سٹینڈ پر ہی کچھ کھلا دیتے، اتنا سفر تو بلکتے ہوئے نہ گزرتا۔
پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ویگن منزلِ مقصود پر پہنچ چکی تھی، دولہا نے آواز لگائی: استاد جی، شہید چوک میں اتار دینا۔ ویگن سے نیچے اترے تو چند طلبا بھاگتے ہوئے آئے اور دولہا کا ’’جپھیوں‘‘ سے استقبال کیا، کسی نے سوٹ کیس اٹھایا، کسی نے ہاتھ کا شاپر، دلہن ابھی حیران ہی ہو رہی تھی کہ ساری’’ منڈلی ‘‘ جوس کارنر پر جمع ہو گئی۔ دلہن کو لیڈیز سائیڈ پر بھیج دیا گیا، اور ٹھنڈے ٹھار مینگو شیک سے مہمان نوازی کی گئی۔ چند منٹ گپ شپ کے بعد پیدل مارچ شروع ہوا اور براؤن گیٹ پر اختتام پذیر ہوا۔
گھر میں ہو کا عالم تھا، چولھا گرم ہو کر ٹھنڈا بھی ہو چکا تھا، اور برتن دھو کر سمیٹے جا چکے تھے، اب تو بیدار ہونے والی ادھ کھلی آنکھوں میں قیلولہ کا خمار تھا، اور ایک اطمینان بھی کہ آج انہیں دلہن کا نہیں گھر کی چھوٹی بہو کا استقبال کرنا ہے۔ دولہا صاحب نے بھی ایک دم مہمان کارڈ کھیل کر بھابھی صاحبہ سے دن کا کھانا بنوا لیا۔شام کو جیٹھ صاحب نے خوب اہتمام سے کھانا بنوایا۔ آخر کو ان کی بھابھی پہلی مرتبہ گھر آئی تھی۔
اگلی صبح نظریاتی بنیاد پر اکٹھا ہونے والے جوڑے نے نماز اور تفہیم القرآن کے اجتماعی مطالعہ سے دن کا آغاز کیا۔ ایک بچی نے اندر جھانکا:
چاچی جان آپ ناشتا بنائیں گی؟ اثبات میں جواب پا کر وہ بھاگ گئی۔ اب چاچی جان اٹھیں، اور چاچا جان سر منہ لپیٹ کر لیٹ گئے، اگلا محاذ اکیلے ہی سر کرنا تھا۔ کچن میں انڈے بھی رکھے تھے اور گندھا ہوا آٹا بھی، دودھ اور پتی بھی۔ ایک سلنڈر اور گیس کا چولھا بھی! اس نے آگے پیچھے نگاہ دوڑائی مگر چکلا بیلن ہی نہ تھا، اب وہ پراٹھا کیسے بنائے، اسی تذبذب میں پیڑا بنانے کی کوشش کی، تو نند کی بیٹی (شادی شدہ، و بال بچے دار) دکھائی دی، اور مسکرا کر سلام کیا۔ اس نے جھٹ چکلا بیلن کا پوچھا ، جواب ملا، کہ یہاں تو سب ہاتھ ہی سے بیلتے ہیں۔ پیڑا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گرا۔ اور اس پیاری سی بھانجی نے کہا: مامی جان ، ادھر پکڑائیں میں پراٹھا بنا دوں۔ اس نے انڈا بنانا چاہا تو وہ بھی پھدک کر زمین بوس ہو گیا۔ بھانجی صاحبہ بولیں: یہ تو مجھے بھی نہیں بنانا آتا، ہم تو زردی توڑ کر بناتے ہیں۔ سو انڈے بھی خود ہی بنانے پڑے، اگرچہ کبھی انڈا پھسلتا اور کبھی فرائی پین۔ البتہ کھانے والوں نے مسکرا کر کھایا، اور جاتے ہوئے پوچھا: پکانے کے لیے کچھ بھجوا دوں؟ آج تو کھانا آپ کو ہی بنانا ہے۔
کچھ دیر بعد قیمہ اور کریلے پکانے کے لوازمات اور ایک عدد چکلا بیلن کے ساتھ دہلیز تک پہنچ چکے تھے، اور بہو بیگم مراقبے میں بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ ان کو پکانے کی ترکیب یا ترتیب کیا ہے؟ پہلے کریلے دیگچی میں ڈالے جائیں یا قیمہ؟ اس نے پیاز چھیلنا شروع کیا تو اشک جھرنے کی طرح بہنے لگے، بے جی آگے بڑھیں اور پیاز ہاتھ سے لے لیے۔ ’’بیٹی تسی کریلے کٹو‘‘، جیٹھائی صاحبہ نے پرات بھر کر آٹا گوندھ دیا۔ اس نے بظاہر پورے اعتماد سے قیمہ کریلے بنائے، سب حیرت سے فقط اسے دیکھتے رہے، اچھا، شہروں میں ایسے پکتے ہیں کریلے! اعتماد کچھ اور بڑھ گیا۔ اب تو روٹی بیلنے کے آلات بھی پہنچ گئے تھے، اس نے چپاتیاں بنانی شروع کیں تو بناتی ہی چلی گئی، گاؤں کے جتنے لڑکے بالے شہر کسی کام سے آئے تھے وہ سب کھانے پر موجود تھے، اور توے سے اترتی روٹیاں اندر جا رہی تھیں، اور خالی برتن باہر آرہے تھے، یہاں تک کہ آٹے کی پرات ختم ہو گئی اور کھانا بڑی مشکل سے غائب بھائی کے لیے بچایا گیا۔ وہ عصر کے قریب پہنچے، اور جب ہی دونوں کا دسترخوان لگا، بیگم صاحبہ کا پہلا کھانا پاس ہو گیا۔ یہ تو بعد کے دنوں میں خبر ہوئی کہ میاں صاحب نے کریلے بس اسی روز خوش دلی سے کھائے تھے۔
یہ تھی چھتیس برس پرانی ’’قبول ہے‘‘ کہانی، جو اَب بھی یادوں کی چلمن پر لہراتی ہے تو چہرے پر سات رنگ بکھیر دیتی ہے۔
٭٭٭