الحمدللہ خدائے بزرگ نے تخیل کی پرواز وسیع رکھی ہے۔ لفظوں کی بنت کیسے کہانی میں ڈھل جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر اس دفعہ صائمہ جی کی منفردتجویزتھی۔ خیال کو مہمیز دینے کے لیےیادوں کی پٹاری کھولنی تھی۔ ہم نے سوچ کے در وا کیے اور ماضی کے جھروکوں میں کسی مددگار کو ٹٹولا۔
٭
ہر خاندان کا اپنا مزاج اپنا اصول ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سسرال میں مدد گار رکھنے پہ سختی سے ممانعت تھی۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ریت برقرار رہی۔ سو یادوں کے گھوڑے کو ایڑ دی اور سر پٹ دوڑاتے جا ٹھہرے سولہ سال کی کھٹی میٹھی بانکی عمر میں،جب بچپن کو دامن سے جھٹکنے کی کوشش ہوتی ہے، خود کو عقلِ کل سمجھا جاتا ہے۔
میکے کا آنگن، بے فکر عمریا، حسن کے چرچے، ذہانت کے ڈنکے، اترانے کے لیے اور کتنے لوازم کی ضرورت ہوگی؟ سو مغرور تھے تو کیا غلط تھے۔ مسکرانے میں تجاہلِ عارفانہ، بولنے سے یوں گریز کہیں موتی نہ جھڑ جائیں۔ خیر بولتے تو آج بھی کم ہیں پر وہ معصوم سا غرور خاک ہؤا۔ زندگی کب سولہ ساون پہ ٹکی رہتی ہے؟ جب اپنا آپ باور کرانے پہ آتی ہے تو نہ وقت دیکھتی ہے نہ اوقات۔
خیر بیانیہ یہ تھا کہ ہم جیسی مغرور حسینہ کو’’پے در پے‘‘ مباحثہ کے لیے کوئی میسر آیا تو وہ تھی’’فیروزہ‘‘،جو دیکھنے میں تو ہم جیسی تھی، پر ہمیں کبھی اپنی جیسی نہ لگتی اور اسے ہم اپنے جیسا بنانے پہ تل گئے۔ وہ یسوع مسیح کی پیروکار تھی۔ یہ اسے کام پہ رکھنے کے بعد پتہ چلا اور یسوع مسیح بھی کونسا ہمارے لیے غیر ہیں۔ ہمارے حضرت عیسیٰؑ ہی تو ہیں ، بس وہ ذرا پہلے تھک کے رک گئی تھی ۔ ہمت کرکے دو قدم بڑھا لیتی تو ہدایت پاجاتی ۔
جب پہلے دن کام پہ آئی تو اسے ہم نے اس دور کے رواج کے مطابق ماسی کہا ۔ وہ تو آگ بگولہ ہوگئی۔
’’فیروزہ نام ہے میرا اور مجھے فیروزہ ہی کہا کرو‘‘۔
’’آپ تو ہم سے اتنی بڑی ہیں ہماری امی کے برابر۔ ہم آپ کا نام کیسے لیں اور ماسی تو ماں جیسی کو کہتے ہیں۔ مطلب خالہ‘‘ ہم نے فراست جھاڑی۔
’’تمہاری کتنی خالہ ہیں‘‘ تیوری چڑھا کے سوال آیا۔
’’ایک ہی ہیں ‘‘۔
’’کیا کہتی ہو ان کو‘‘ اس کا انداز تفتیشی تھا۔
’’خالہ امی‘‘ ہم نے مختصر جواب دیا۔
’’آج سے ان کو خالہ امی مت کہنا ماسی کہنا ‘‘ آنکھوں میں چیلنج تھا اور ہم چاروں خانے چت۔ یوں دلیل سے بات کرنے والے ہی تو بھاتے تھے، بےتکا بولنے والوں کو تو ہم ویسے بھی منہ نہیں لگاتے تھے ۔ بتایا تھا نا مغرور تھے !
جب پہلے دن سے ہی اس کا نام لیا تو آپ جناب کیا رکھتے۔ دوستی ہوگئی، اوردوستی میں عمریں کون ناپتا ہے۔ سولہ ہو یا چھتیس کیا فرق پڑتا ہے۔ محلے کے دو چار گھروں نے ایک ساتھ ہی اسے کام پہ رکھا تھا۔ رکھنے کے کچھ دن بعد پتہ چلا عیسائی ہے تو محلے میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ امی مدرسہ کی منتظمہ تھیں۔ خواتین امی کے پاس مشورے کے لیے آنے لگیں۔ امی نے کہا اہلِ کتاب ہے جب ساتھ کھانا پینا جائز ہے تو برتن دھلوانے میں کیا حرج ہے؟ پھر بھی روز کوئی خاتون اعتراض جڑ جاتیں۔ مدرسے کی بچیوں کی مائیں آتیں تو منہ میں انگلیاں داب لیتیں۔
’’عیسائی ماسی رکھ لی وہ بھی مدرسہ کی اوپری رہائش گاہ میں؟‘‘
امی بھی لوگوں کی باتوں سے کچھ ڈر گئیں۔ ہم سے کہا’’جب فیروزہ برتن دھوکے جایا کرے تو برتن کھنگال کے استعمال کیا کرو‘‘۔
ہمارے ہزار سوال’’ جب ہم نے ہی دھونے ہیں تو اس کو رکھنے کا فائدہ کیا، اگر اس سے دھلوانا گناہ ہے تو رکھا ہی کیوں؟ فتویٰ منگوائیں‘‘ ۔
پھر واقعی فتویٰ منگایا گیا۔ مولوی صاحب نے کہا ’’اہلِ کتاب کو گھر میں کسی بھی کام کے لیے رکھنا منع نہیں ہے‘‘۔
لو جی پورے محلے کو ایک ساتھ سکون کا سانس آیا پر ہمارا سکون درہم برہم ہوا اور ہم نے فیروزہ کا سکون سمجھو غارت ہی کر دیا۔ وہ برتن دھوتی اور ہم اس کے سر پہ سوار آئے روز ایک ہی مطالبہ ،تم مسلمان ہوجاؤ۔ وہ چڑ جاتی، یوں بھلا دھونس دھمکی سے مسلمان ہوا ہے کوئی۔ پالنے سے نو عمری تک جتنا دین سیکھا تھا سب اس کے اندرانڈیلنے کی کوشش کرتے ۔ اس کی بھی مذہب پر گہری نگاہ تھی۔ ایک ایک بات پر اپنا تفصیل سے دفاع کرتی۔ ہم’’قل ہواللہ احد ‘‘ کا سبق پڑھاتے تو وہ پوچھتی ’’جب دنیا میں کوئی باپ کے بغیر پیدا نہیں ہؤا تو بتاؤ تمہارے عیسیٰ کا باپ کون ہے؟‘‘
امی کے ہنکارے، گھوریاں ، تنبیہ، امی کبھی اس بحث پہ آنے ہی نہ دیتیں۔ امی کو لگتا اس موضوع کے لیے ہماری عمر کم ہے۔ ہمارا دعویٰ ! عمر کم ہے تو کیا ہوا عقل تو پوری ہے۔ نادانی کے اس دور میں خود کو دانا ہی سمجھا جاتا ہے ۔اسی لیے اب نئی نسل کے ایسے دعووں پہ ہنسی آتی ہے ۔ جس عقل کا اس دور میں دم بھرا جاتا ہے،وہ ٹھکانے تو عملی زندگی میں آکے ہی لگتی ہے۔
ایسا نہ تھا کہ ہروقت فیروزہ سے بحث ہی کی جاتی۔ ہم باتیں بھی کرتے ہنسی مذاق بھی کرتے۔ میں اور میری بہن فیروزہ کے ساتھ مل کےاتنے اونچے قہقہے لگاتے کہ محسوس ہی نہ ہوتا کہ وہ جوان بچوں کی ماں ہے۔ وہ جہاں بھی ہوگی، ہم اسے یاد ہوں گے۔ کیونکہ اس نےاپنی ادھیڑ عمری میں ہمارے ساتھ اپنا بچپن جیا ہے۔ اس کی ایک بہو بھی تھی جس کی ساری چغلیاں وہ ہم سے کرتی۔ بھئی مذہب جدا تھا تو کیا ہؤا ثقافت تو ایک ہی تھی۔ ساس بہو کا رشتہ تو دہی کی کھٹاس کی طرح ہوتا ہے۔جسے کبھی چینی ڈال کے میٹھا کیا جاتا ہے تو کبھی نمک ڈال کے نمکین۔ خیر زیادہ سوچیں نہیں ، ایویں فلسفہ جھاڑا ہے۔
فیروزہ ، اپنے بیٹے کی پسند کے خلاف اپنی مرضی سے اپنی نند کی بیٹی لائی تھی۔ فیروزہ کا کہنا تھا جب وہ بیاہ کے آئی تھی تو سسرال بہت غریب تھا۔ شوہر بھی بے روزگار، صرف ایک نند تھی جو لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کےکماتی اور فیروزہ اور اس کے شوہر کا خرچہ اٹھاتی۔ فیروزہ بتاتی کہ میری نند کے پاس کبھی کبھی صرف ایک روٹی بھی ہوتی تو وہ اس میں سے آدھی مجھے دے دیتی۔ اس آدھی روٹی کا قرض اتارنے کے لیے وہ اپنی نند کی کم رو بیٹی بیاہ لائی تھی، پر بیٹا بپھر گیا کہا’’تم بیاہ کے لائی ہو تو تم ہی رکھو‘‘ ۔شادی کے بعد کئی مہینوں تک بہو فیروزہ کے ساتھ سوتی رہی۔ بیٹے نے کمرے میں گھسنے بھی نہ دیا ۔ ایک دن فیروزہ کسی شادی میں جارہی تھی تو بیٹا کام سے واپس آگیا۔ اس نے کھانا مانگا تو فیروزہ نے کہا میں شادی میں جا رہی ہوں اپنی بیوی سے لے لینا۔فیروزہ جب شادی سے واپس آئی تو بہو گھر میں نہیں تھی ۔بیٹے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ بولا ’’میری بیوی ہے تو میرے ہی کمرے میں ہی رہے گی‘‘۔
وہ دن اور آج کا دن دونوں مل کے میرے سینے پہ مونگ دلتے ہیں۔
اف! اس کی بھڑاس پہ ہم نے ہنس ہنس کے چھت پھاڑ دی۔کیا فلمی کاروائی تھی ۔
فیروزہ کی تقرری کے پہلے ہی دن امی نے اس کو پابند کیا کہ سب سے آخری گھر ہمارا رکھنا اور دوپہر کا کھانا یہاں سے ہی کھا کے جانا۔ ہر مددگار کو کھانا کھلانے کی عادت امی نے اللہ بخشے میری دادی سےسیکھی تھی۔ صبح سے شام تک ان کے گھر کئی ماسیاں آتیں اور ان میں سے کسی کو بھی وہ کھانا کھلائے بغیر جا نے نہ دیتیں۔ نوے کی دہائی تھی۔ کھانے میں ناز نخرے والی تو ریت ہی نہیں تھی۔ دوپہر کو سب بچوں کو اُڑا تُھڑا ہی کھلایا جاتا، پر فیروزہ کے لیے روز امی اہتمام سے دو روٹی تازہ پکاتیں۔ رمضان المبارک شروع ہوئے تو امی دورہ قرآن میں جانے لگیں اور فیروزہ کے کھانے کی ذمہ داری ہمارے ناتواں کاندھوں پہ آٹھہری۔ ہم ان دنوں فیبرک پینٹنگ سیکھ رہے تھے۔ تھکے ہارے سینٹر سے آتے تو سونے کے لیے بےحال، آنکھیں مسل مسل کے فیروزہ کے انتظار میں
جاگنا پڑتا۔ رمضان میں لوگوں کے برتن بھی زیادہ ہوتے تھے۔ سارے گھر نمٹاتے نمٹاتے اس کو دوپہر کے تین ساڑھے تین بج جاتے۔ گھر کا دروازہ تو خیر کھلا ہی رہتا، نیچے مدرسہ جو تھا۔ وہ جب چاہے آتی برتن دھو کے چلی جاتی، لیکن ہمیں اس کے دوپہر کے کھانے کی وجہ سے نیند کی قربانی دینی پڑتی۔
ایک دن سحری میں اس کے لیے سالن نہیں بچا تو جب ہم سینٹر سے آئے تو امی نے کہا ’’میں نے آلو گوبھی کاٹ کے رکھ دی ہے۔ فیروزہ کے آنے سے پہلے ہنڈیا پکا لینا اور سو نہیں جانا‘‘ بھئی ماں تھیں ہماری، پتہ بھی تھا کہ سوجائیں گے، پھر بھی فضول بھروسہ۔ ہنڈیا ہم ہمشہ افطار کے بعد پکاتے تھے،پر اس دن فیروزہ کے لیے روزہ میں ہی پکایا۔ اب آجکل کی بچیاں سوچیں گی، سولہ سال میں کھانا پکانا! کہیں لفاظی تو نہیں ہورہی ؟ نہیں بھئی مابدولت نے تیسری جماعت سے کھانا پکانا شرع کردیا تھا ۔ جب فقط نو سال کے تھے۔ آجکل تو نو سال کی بچیاں موبائل دیکھتے ہوئے اپنی امیوں کے ہاتھ سے کھانا کھارہی ہوتی ہیں۔
خیر جی اس دن ہم نے ہنڈیا کچھ زیادہ ہی دھیان سے پکائی، روزہ تھا نا تو سوچا کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے ۔ ہنڈیا تیار تھی، دم پہ رکھ کے سچی صرف کمر ٹکائی تھی، اور آنکھ فیروزہ کے جھنجھوڑنے سے کھلی۔
’’ ہائیں ساڑھے چار ہوگئے تم آج اتنی دیر سے کیوں آئی ہو‘‘۔
’’آج گھروں میں کام بہت تھا اس لیے دیر ہوگئی۔ تم چل کے دیکھو چولہے پہ کچھ جل رہا ہے۔سارا دھواں بھرا ہے‘‘۔
سرپٹ باورچی خانے کو دوڑے۔ دل جل کے خاک ہوتا تو چھپا لیتے، پر یہ آلواور گوبھی کے کوئلے کیسے دنیا سے اوجھل کریں!
جتنی دیر فیروزہ برتن دھوتی رہی ہم فریج اور کچن کی الماریاں ٹٹولتے رہے کہ فیروزہ کے کھانے کے لیے کچھ دال چٹنی مل جائے۔ جو نوے کی دہائی گزار آئے ہیں، ان کو معلوم ہوگا کہ اس زمانے میں پودینے کی چٹنی صرف مٹر پلاؤ کے ساتھ بنتی تھی۔ وہ بھی جب مہمان آتے تھے اور انڈوں کا ناشتہ اتوار کے اتوار ملتا، عام دنوں یہ سب عیاشی سمجھا جاتا ۔تو اس وقت بھی کیبنٹ ہو یا فریج سب صفائی نصف ایمان ہے کی مکمل تفسیر بنا ہؤا تھا۔
فیروزہ سمجھ رہی تھی کہ ہماری پریشانی کا سبب امی کی متوقع پڑنے والی ڈانٹ ہے۔ جب کہ خدا گواہ ہے کہ امی جو بیٹیوں کی تربیت کے حوالے سے نہایت مشاق خاتون رہی ہیں، عموماً بڑے بڑے نقصان درگزر کر دیتی تھیں اور یہ ہی وطیرہ ابو کا رہا۔ وہ اکثر کہتے’’کبھی کوئی نقصان ہوجائے تو رونا مت جس ذات پاک نے دیا تھا اس نے واپس لے لیا رونے کی کیا بات ہے‘‘ ہمیں یاد ہے کہ ہم جب بھی ماش کی دال پکاتے، وہ نرم ہوجاتی، امی ہر بار بتاتیں کہ ماش کی دال میں پانی کم ڈلتا ہے۔ ایک دن پانی کم ڈالنے کے چکر میں بنا پانی ڈالے ہی دال پکالی، جب دسترخوان پہ بیٹھے تو پتیلی سے دال کی جگہ چھوٹے چھوٹے کنکر سے مشابہہ کوئی چیز برآمد ہوئی، اور ایک دفعہ آلو کے بھرتے میں آخر میں کچا پانی ڈال کے یہ سوچ کے ابال نہیں دیا کہ جب ابو آئیں گے تب ہی گرم کر لیں گے۔ ابو کے آنے تک پوری ہنڈیا سڑ چکی تھی، پر مجال ہے جو ابو کی تیوری پہ بل آیا ہو، یا امی نے ہی کوئی تنبیہہ کی ہو۔ اور اب یہ ہی عادت ہماری بھی ہے، اگر نئی نویلی بچیوں(بہوؤں) سے کچھ نقصان ہوجاتا ہےیا کوئی برتن ٹوٹ جاتا ہے،وہ سہم کے کھڑی ہو جاتی ہیں، تو جب ہم ان کو یہ ہی کہتے ہیں ’’چلو کوئی بات نہیں تم پریشان نہ ہو‘‘
ویسے یہاں اپنی تعریف بنتی تو نہیں تھی، پر کیا کریں جی ، موقع پرستی کا دور ہے تو ہم نے بھی موقع کافائدہ اٹھاہی لیا۔ لو جی بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ مسئلہ تھا کہ فیروزہ کو کھانے میں کیا دیا جائے اور بغیر کھانا کھلائے رخصت کردیا جائے ، نہ جی نہ یہ ہمارے لیے فقط اخلاق کا نہیں دین دھرم کا معاملہ تھا۔ فیروزہ نے خود ہی دیگچی میں جھانک کے تھوڑی سی گوبھی اور دو آلو کی طرف اشارہ کیا جو پوری طرح سے اپنا منہ کالا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ بڑے دکھی دل کے ساتھ فیروزہ کو وہ سالن دیا اور وہ کھانا کھا کے چلی گئی۔
امی کی واپسی ہوئی تو امی نے کہا ’’مجھے لگ ہی رہا تھا کہ تم چولہے پہ ہنڈیا رکھ کے سوجاؤ گی‘‘ لو جی پہلے ہی پتہ تھا تو ایویں اپنی ہنڈیا برباد کروائی۔ بہرحال ڈانٹ نہیں پڑی امی نے کہا اس کو اب تک سجا کے
کیوں رکھا ہؤا ہے، پھینکو اسے۔ ہم نے پھینکنے سے پہلے تھوڑا سا سالن نکال کے رکھ لیا۔ اسی حصہ سے جہاں سے فیروزہ کو دیا تھا۔ ہم چکھنا چاہتے کہ آخر جلے ہوئے سالن کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے ، جو فیروزہ چپ چاپ کھاکے چلی گئی۔افطار کے بعد جب وہ کوئلوں کا سالن چکھا تو یقین کریں آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ جس سالن سے فیروزہ ڈیڑھ چپاتی کھا کے گئی تھی، اس سالن کا ہم ڈیڑھ نوالہ بھی نہ کھا سکتے تھے۔ نہایت ہی تلخ ، کڑوا، بد مزہ سالن تھا ۔
دوسرے دن فیروزہ آئی تو ہم اس سے ناراض،’’تم نے اتنا کڑوا سالن کیوں کھایا‘‘۔
’’کیونکہ بھوک لگی تھی اور بھوک ذائقہ نہیں دیکھتی‘‘۔
واہ واہ کیا ڈائیلاگ ہے۔ پوری فلسفی تھی وہ بھی۔ جو سالن وہ چپ چاپ کھا کے گئی تھی، اس کی جلی ہوئی پتیلی مانجھتے ہوئے اس نے ہم کو سوسو باتیں سنائیں۔ ہم ڈھیٹوں کی طرح ہنستے رہے۔
کچھ ہی عرصہ میں وہ پورے ہی محلے کا کام چھوڑ کے چلی گئی۔ شاید رہائش تبدیل کرلی تھی۔ اس کے بعد اس سے کوئی رابطہ نہ ہؤا، پر ہمیشہ ہماری یادوں میں رہی اور آج اس کا ذکر کرتے ہوئے اپنی غلطی کا احساس ہؤا۔ جو لوگ یادوں میں رہتے ہیں ان کو ہمیشہ دعاؤں میں بھی رہنا چاہیے۔ عطا کے فیصلے تو اللہ رب العزت کا کام ہے۔ ہمارا کام تو صرف دستِ دعا بلند کرنا ہے۔
٭٭٭