جلدی جلدی کے شور میں بھی ہانیہ نے جاتے جاتے ایک نظر اپنے سراپے پر ڈالی ،کچھ رہ تو نہیں گیا! مطمئن اب بھی نہیں ہوئی تھی لیکن ساتھ مسلسل بجتی فون کال نے نے مجبور کر دیا کہ گھر سے نکل ہی جائے ۔ وقت پر پہنچنا ضروری تھا مریم کی سالگرہ تھی اور سب دوستوں نے باہر آؤٹنگ کا پلان بنایا تھا۔
اکٹھے ہونے کے لیے مقرر جگہ جب وہ پہنچی تو مریم اور منتہیٰ کے علاؤہ کوئی نہیں آیا تھا ۔اسے کوفت ہوئی لیکن یہ اچھا ٹائم تھا سیلفی بنانے اور سوشل میڈیا کی مختلف ایپس پر لگانے کا۔ باقی سب بھی اب آنا شروع ہو گئے تھے موسم کوئی اتنا اچھا تو نہیں تھا لیکن دل کا موسم اچھا ہو تو سب اچھا لگتا ہے اس لیے سب اچھا کی ہی رپورٹ تھی ، احمد حمزہ اور طارق بھی آگئے تھے۔ سب نے اپنے قیمتی وقت میں سے مریم کے لیے وقت نکال ہی لیا تھا، آخر کو چار سالوں کا ساتھ تھا۔
’’مجھے لگ نہیں رہا تھا کہ تم آؤ گے‘‘ مریم نے کئی بار کا دہرایا ہؤا جملہ دوبارہ بے یقینی سے دہرایا ،چہرے سے خوشی عیاں تھی۔
(( تم نے اصرار کیا تھا اس لیے آج آف لے کر آگیا ہوں ‘‘ حمزہ مسکراتے ہوئے بولا۔ وہ یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ایک جگہ پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا تھا۔
’’بس اب اسی خوشی میں تم بتاؤ گے کہ کھانا کہاں کھانا ہے‘‘ مریم نے دریا دلی دکھاتے ہوئے چوائس کا حق اسے دیا ۔
’’نہیں سب مل کر چنتے ہیں لیکن ہونا مقامی ریسٹورنٹ ہی چاہیے‘‘ان میں سے سب کو پتا تھا مقامی ریسٹورنٹ کا چناؤ کیوں کیا جا رہا ہے اس لیے سر ہلا کر سب نے ہی تائید کی لیکن مقامی ریسٹورنٹ کا مزہ اس وقت کرکرا ہو گیا جب کھانے کے ساتھ کولڈرنک وہی مشہور زمانہ کمپنیوں کی تھی۔
’’کوئی اور برینڈ لوکل ؟ ‘‘طارق نے سوالیہ نظروں سے ویٹر کی طرف دیکھا ،اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔سب نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
آخر کا ر احمد نے ہی ہمت کی ’’چلو ٹھیک ہے اب نہیں ہے تو کیا کریں یہی لےلیتے ہیں !‘‘ وہ ان سب میں سب سے زیادہ مگن انسان تھا ۔
کسی کی طرف سے کوئی اختلافی آواز نہیں آئی۔ مرا مرا سا وہ جذبہ جو مقامی ریسٹورنٹ کی طرف لے گیا تھا کولڈڈرنک میں چوائس نہ ہونے کی صورت میں وہیں آخری سانسیں لے گیا۔
’’ویسے یہ غلط بات ہے جب لوگ مقامی ڈرنکس خود مانگ رہے ہیں تو انہیں رکھنی چاہیے‘‘ منتہیٰ نے کولڈڈرنک اپنی طرف کھسکاتے ہوئے جیسے اپنی صفائی پیش کی ۔
’’ہاں یار لوگوں کا ضمیر ہی مر گیا ہے بس پیسہ ہونا چاہیے…. مقامی کمپنیاں انہیں اتنا پیسہ آفر نہیں کرتی ہوں گی ۔اب دیکھو نا!…. نہ چاہتے ہوئے بھی ہم لوگ آخر پینے پر مجبور ہو ہی گئے‘‘ کسی اور کے ضمیر نے بھی شاید کوڑا مارا تھا ۔
’’کیا کریں یار حکومت بھی کسی کام کی نہیں یہ سب بین الاقوامی کھیل ہے کہ ایسے لوگوں کو حکومتوں میں لاؤ جو ان کی مرضی کے مطابق اقدامات کریں۔ اب دیکھو انہوں نے کیا کیا…. کچھ بھی نہیں ‘‘حمزہ نے الزامات کا ٹوکرا اٹھا کر حکومت کے سر پر رکھ کر سب کو بری الزمہ کیا ۔
’’ہاں فلسطین جل رہا ہے لوگ مر رہے ہیں اور ہمارے ہاں بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں انسانیت تو رہی ہی نہیں کوئی ڈھنگ کی حکومت ہوتی تو آج یہ نہ ہوتا‘‘ سب نے چشم تصور میں صرف اپنے آپ کو ہی انسانیت کی معراج پر دیکھا ۔
’’تمام مسلم حکمرانوں کا یہی حال ہے‘‘ اب کے مریم نے لب کشائی کی….’’کہاں سے آواز اٹھ رہی ہے…. کہیں سے بھی نہیں اور عوام بے چاروں کو اتنے مسائل میں الجھا رکھا ہے وہ کیا کریں ‘‘۔
’’بھئ میں تو سوشل میڈیا پر دن رات نہ صرف انہیں دیکھتی ہوں بلکہ شئیر بھی کرتی ہوں کم سے کم جہاں ہم کچھ کر سکتے ہیں وہاں تو کرنا چاہیے‘‘ ہانیہ نے بھی اپنا حصہ کا جہاد بتایا۔
’’ہاں جو جس چیز کا مکلف ہے وہ وہ تو کرے ہم تو جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں‘‘ اب کی بار کلین چٹ دینے کی باری نیہا کی تھی ۔
اتنے میں پیچھے سے ایک آواز آئی’’لوکل کولڈڈرنک ہے؟‘‘
سب نے بے ساختہ نظریں اٹھا کر اس شخص کو دیکھا وہ کوئی بیس بائیس سال کا نوجوان تھا ساتھ دس بارہ افراد پر مشتمل فیملی تھی۔ ویٹر نے حسب معمول نفی میں سر ہلایا ۔
’’پانی ؟‘‘
’’پانی بھی ملٹی نیشنل برینڈ کا ہے سر !ہم کوالٹی پر کمپرومائز نہیں کرتے‘‘ویٹر نے رٹا رٹایا جواب دیا۔یہ سب سین معمول کا حصہ تھے جس کا ایمان ذرا زیادہ جاگتا تھا وہ کولڈرنک نہیں پیتا تھا ۔
لیکن اب کی بار کچھ نیا ہؤا۔ اس لڑکے نے ساتھ آئی فیملی کو اٹھنے کا اشارہ کیا’’جہاں پر ان کمپنیوں کی چیزیں رکھی جائیں گی میں اس جگہ کا بھی بائیکاٹ کرتا ہوں ۔مسجد الاقصٰی کی حرمت پامال ہو مسلمان مارے جائیں اور میں ان کے خون میں اپنا ہاتھ رنگوں ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔
وہ کوئی دس بارہ افراد تھے ۔ان کے ایک ساتھ اٹھنے پر جیسے ہلچل سی مچ گئی۔ جس نے ان کی طرف نہیں دیکھا تھا وہ بھی دیکھنے لگ گیا تھااور معاملہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں تھی ۔اتنے چلتے ہوئے ریستوران میں شاید اس فیملی کو انتظامیہ نے نوٹس بھی نہیں کیا بلکہ معاملے کو نظر انداز کر کے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی اور شاید اس میں کامیاب بھی ہو گئی، پانچ دس منٹ میں ہی حالات معمول پر آگئے ۔
لیکن یہ چند منٹ اریب قریب کی ٹیبلوں کے حالات بدل گئے۔طارق کے سامنے رکھی کولڈرنک ویسی ہی رکھی رہ گئی۔ گرما گرم تقریروں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ ایک شرمندگی نے ان سب کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ادھ بھری کولڈرنک کی بوتل پہاڑ لگنے لگیں۔ سب نے ایک دوسرے سے نظریں چرانے کی کوشش کی۔
احمد نے کولڈڈرنک کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کیا، منہ تک لگایا اور موضوع بدلنے کی کوشش کی، لیکن اس شخص کی چند منٹ کی کارروائی اور دوجملے ان سب تقریروں پر بھاری ہوگئے، اپنے اندر کا کھوکھلا پن جیسے سب کو نظر آنے لگا۔
’’ جو جس چیز کا مکلف ہے وہ کرے‘‘۔
اس جملے کا وزن جیسے ان سب کے کاندھوں پر سوار ہو گیا تھا ۔ ادھ بھری کولڈڈرنک کی بوتلیں ایسی ہی رکھی رہ گئیں، وہ سب اٹھ کر باہر آگئے لیکن اب کہنے کو کچھ نہ تھا…. محفل کے اختتام پر لی جانے والی آخری سیلفی بھی نہ لی گئی، غزہ جیسے سب کی نظروں کے سامنے آگیا ۔ کسی نے کچھ نہ کہا لیکن اپنی ہی نظروں میں وہ سب شرمسار تھے۔ باتیں اور عمل دونوں الگ ہو کر سامنے آگئے تھے۔
٭
ہانیہ نے تیار ہوتے ہوئے ایک نظر اپنے سراپے پر ڈالی اور دوسری گھڑی پر ۔
’’ماما میں جا رہی ہوں اور آج تھوڑا لیٹ آؤں گی ‘‘۔
’’کیوں آج کس کی سالگرہ ہے‘‘ انہوں نے کچن میں کام کرتے کرتے سر اٹھا کرسرسری سوال کیا ۔
’’سالگرہ نہیں ہے ایک کام ہے…. ایک فرض ادا کرنا ہے….‘‘ آخری جملہ منہ ہی منہ میں ادا کیا۔
یونیورسٹی سے واپسی پر اس نے ایک نظر اپنے گروپ پر ڈالی کچھ سوچا لیکن کہا کسی سے نہیں…. آج ان میں سے ہر ایک اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔ آج غزہ پر کسی نے کوئی بات نہیں کی۔
’’نیہا چل رہی ہو؟‘‘ اس نے اپنی بیسٹ فرینڈ سے پوچھا۔
’’ کہاں؟‘‘اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’آج دوپہر کو جو ریلی نکل رہی ہے اس میں‘‘ ہانیہ نے مختصر جواب دیا۔
نیہا کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن نہیں کہا سر ہلا کر کھڑی ہوئی ہاتھ میں پکڑے موبائل سے گھر بات کرنے لگی ہانیہ سر ہلا کر مطمئن انداز میں آگے بڑھ گئی۔ ہانیہ اپنی ہی سوچ میں گم تھی دونوں نے آج کوئی زیادہ بات نہیں کی، جب عمل ہونا شروع ہوتا ہے تو زبانیں شاید گنگ ہو جاتی ہیں
’’باقی سب سے بھی کہہ دیتیں !‘‘نیہا نے بات شروع کی ۔
’’ضرورت نہیں سمجھی ….ہم سب کو اب اپنا حساب یا شاید احتساب خود کرنا ہوگا ۔اب باتوں کا وقت گزر گیا ‘‘ اس نے سر جھکائے جھکائے ہی جواب دیا۔
٭
گرمی کافی شدید تھی ۔احمد پسینے میں نہا گیا ۔طبیعت عجیب سی ہو رہی تھی ،وہ ساری رات نہیں سو پایا تھا ۔عجیب سے خواب دیکھتا رہا تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہؤا۔
’’بابا میں آج یو نیورسٹی نہیں جاؤں گا ‘‘اس نے گھر والوں کو مطلع کیا ۔
٭
’’ارے طارق تم یہاں کیا کر رہے ہو!‘‘ مریم کوچلتے چلتے اپنے پیچھے احمد کی آواز آئی لیکن اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔
’’وہی جو تم کر رہے ہو‘‘ طارق کی تھکی تھکی آوازسنائی دی۔
’’بس یار میرا تو نہ پوچھو ساری رات نہیں سو سکا بس صبح اللہ نے راستہ دکھا دیا…. تم کیسے آئے؟ ‘‘
’’سویا تو میں بھی نہیں ایک شرمندگی نے گھیرے میں لیے رکھا کہ ہم صرف باتوں کے ہی ہیں۔ بس صبح ایک آیت کان میں ٹکرائی ’’ اگر تم منہ موڑو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کردے گا پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے‘‘۔
طارق کی آواز میں نمی تھی۔ مریم پیچھے مڑے بغیر بتا سکتی تھی کہ وہ رو رہا تھا ۔
’’میں ڈر گیا احمد!…. میری نظروں کے سامنے کولمبیا اور امریکہ کی دوسری یو نیورسٹیاں آگئیں ان کے وہ طالبعلم آگئے جو وہاں سب کچھ چھوڑ کر دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں…. مجھے لگا وہ کام جو ہمیں کرنا تھا وہ وہ کر رہے ہیں….مجھے لگا اللہ انہیں ہماری جگہ دے رہاہے….میں ڈر گیا ‘‘ احمد طارق کی بھیگی ہوئی آواز سنائی دینا بند ہوگئی تھی۔
پیچھے قدموں کی صرف چاپ تھی ۔منزل سب کی ایک ہی تھی ۔ مریم نے چلتے چلتے سر اٹھا کر دیکھا، ایک بڑا مجمع تھا…. جب سے جنگ شروع ہوئی تھی یہ لوگ اسی طرح متحرک اور بے چین تھے، ہر شہر میں سڑکوں پر نکلتے تھے، اپنی حکومت کو بھی للکارتے تھے اور عالمی طاقتوں کو بھی…. ان لوگوں کو بھی تو سو کام ہوں گے….ان کے بھی تو گھر بار ہوں گے بچے ہوں گے۔پاکستانی عوام اسلام کے نام پر بننے والے قلعہ میں سر منہ لپیٹے سو رہے ہیں۔ اگر وہ جاگ گئے اور ان کے پیچھے کھڑے ہوگئے تو عوامی دباؤ کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔
مریم نے عقیدت کی ایک نظر ان پر ڈالی اور ریلی میں شامل ہوگئی۔اسے سمجھ آگئی تھی کہ یہ فرض کفایہ نہیں فرض عین ہےجسے ہم سب کو مل کر اداکرنا ہے۔
٭ ٭ ٭