سر کی یہ آگ پیروں تک آنی ہے اور بس
اتنی سی شمع تیری کہانی ہے اور بس
پھر دیکھیے وہ جوش وہ جذبہ عوام کا
جھوٹی امید ان کو دلانی ہے اور بس
نفرت کی وہ مچے گی قیامت ہر ایک سے
ایک ایک کی ہزار لگانی ہے اور بس
ہاں آج تک اسی کی سزا کاٹتا ہوں میں
آنکھیں ہیں اور ان آنکھوں میں پانی ہے اور بس
کُل زندگی، بڑھاپا و بچپن کے درمیاں
اک مختصر سا دورِ جوانی ہے اور بس
تم کیا ہو، کس لیے ہو، کہاں لوٹ جاؤ گے
اتنی سی بات سب کو بتانی ہے اور بس
بھولا ہے مان لے گا کہاں دیر ہو گئی
گھر جاکے کوئی بات بنانی ہے اور بس
پھر دیکھیے گا رات کی سیماب پائیاں
ہر دل میں ایک جوت جگانی ہے اور بس
اُس کے حبیبؔ سارے فسانے حقیقتیں
لیکن مری کہانی کہانی ہے اور بس