چین کی ایک عدالت نے حال ہی میں طلاق سے متعلق ایک معاملے میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے ایک شخص کو ہدایت کی ہے کہ وہ پانچ سال تک جاری رہنے والی شادی کے دوران بیوی کی طرف سے کیے گئے گھریلو کام کے بدلے میں اس کو معاوضہ دے۔ اس معاملے میں خاتون کو 5.65 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
لیکن اس فیصلے نے چین سمیت دنیا بھر میں ایک بڑی بحث کو جنم دیا ہے۔ چینی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اس معاملے کو لے کر لوگوں کی رائے منقسم ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین گھریلو کام کے عوض معاوضے کے طور پر کچھ بھی لینے کا حق نہیں رکھتی ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب خواتین اپنے کیریئر کے مواقع چھوڑ کر روزانہ گھریلو کام کرتی ہیں تو پھر انھیں معاوضہ کیوں نہیں ملنا چاہیے۔اس سے قبل جنوری کے شروع میں انڈیا کی عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ‘گھریلو کام حقیقت میں خاندان کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ قوم کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اور یہ پہلا موقع نہیں تھا جب عدالتوں نے ’’گھریلو کام‘‘ کو معاشی سرگرمی کے طور پر منظور کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ چین سے لے کر انڈیا اور مغربی دنیا کے ممالک کی عدالتوں نے بار بار ایسے فیصلے دیے جن میں خواتین کی بنا کسی اجرت مزدوری (بلا معاوضہ مزدوری) کو معاشی پیداوار کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود ’’ ‘گھریلو کام‘‘ جی ڈی پی میں حصہ ڈالتے ہوئے نہیں دکھائے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں معاشرے میں گھر کے کام کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی نوکری یا کاروبار کو دی جاتی ہے۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواتین’’ ‘گھریلو کام‘‘ چھوڑ دیں اور نوکری یا کاروبار شروع کریں تو پھر کیا ہوگا؟
’’گھریلو کام‘‘کا کیا مطلب ہے؟
دنیا کی بیشتر خواتین اس سوال سے دوچار ہیں کہ گھریلو خاتون کی حیثیت سے ان کے کیے جانے والے’’ ‘گھریلو کام‘‘ کو معاشرہ اتنی اہمیت یا احترام کیوں نہیں دیتا جو مردوں کے کاموں کو دیتا ہے۔حالانکہ گھریلو خاتون کے طور پر کیے جانے والے امور خانہ داری کے اوقات مردوں کے کام کے اوقات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
برسوں سے صحافت کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کی ذمہ داریوں کو نبھانے والی کریتیکا خود بھی اس سوال سے دوچار ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’’میں یہ کبھی نہ سمجھ سکی کہ لوگ گھر کے کاموں کو اہمیت کیوں نہیں دیتے۔ یہ خیال عام ہے کہ گھر کا کام کوئی کام ہی نہیں ہے۔ جبکہ گھریلو کام کاج آسان نہیں ہوتا ہے۔ گھر میں اگر کسی کو دوا دینی ہے تو دینی ہے۔ کھانا وقت پر تیار کرنا ہے تو تیار کرنا ہے۔ اس میں کوئی چھوٹ نہیں ملتی ہے‘‘۔
ان سب کے بعد اگر کسی کو شام کو بھوک لگ گئی تو اس کے لیے بھی کچھ بنانا ہوتا ہے۔ صاف بات کی جائے تو گھر میں کام کرنے والی خاتون کو ’’الہ الدین کا چراغ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ میرے پاس اس سے بہتر تشبیہ نہیں ہے۔ اگر کبھی تعاون کی بات کی جائے، تو کہا جاتا ہے کہ کرتی ہی کیا ہو….. ماں بھی کرتی تھیں لیکن انھوں نے تو کبھی کچھ نہیں کہا۔
تعاون یا شرکت میں فرق
اگر ہم اعداد و شمار پر نگاہ ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ انڈیا میں عورتیں
گھریلو کاموں میں مردوں سے کہیں زیادہ کام کرتی ہیں۔حکومت کے تازہ ترین ٹائم یوز سروے کے مطابق خواتین ہر دن گھریلو کام (بغیر تنخواہ والے گھریلو کام) کرنے میں 299 منٹ گزارتی ہیں۔ جبکہ انڈین مرد دن میں اوسطاً صرف 97 منٹ تک ہی گھریلو کام انجام دیتے ہیں۔صرف یہی نہیں، اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین گھر کے افراد کی دیکھ بھال کے لیے روزانہ 134 منٹ لگاتی ہیں جبکہ مرد صرف 76 منٹ اس کام میں صرف کرتے ہیں۔
معاشی قیمت نکالنا مشکل ہے؟
اگر آپ غور سے دیکھیں تو ہر کام کی کچھ نہ کچھ قیمت ہوتی ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خواتین کے گھر پر کیے جانے والے کام کی کوئی معاشی اہمیت نہ ہو؟کسی بھی کام کی قدرو قیمت نکالنے کے لیے اس کام کا صحیح اندازہ کرنا ضروری ہے۔ بغیر معاوضہ گھریلو کام کی قیمت یعنی خواتین کے ’’گھریلو کام‘‘کا حساب لگانے کے لیے تین فارمولے دستیاب ہیں:
ث• اپرچیونیٹی کاسٹ میتھڈ یعنی مواقع کی لاگت کا طریقہ
•ث ریپلیسمنٹ کاسٹ میتھڈ یعنی متبادل کی لاگت کا طریقہ
•ث ان پٹ / آؤٹ پٹ لاگت کا طریقہ
پہلے فارمولے کے مطابق اگر کوئی عورت باہر جا کر 50 ہزار روپے کما سکتی ہے اور اس کے بجائے وہ گھریلو کام کرتی ہے تو پھر اس کے کام کی قیمت پچاس ہزار روپے سمجھی جانی چاہیے۔
دوسرے فارمولے کے مطابق کسی خاتون کے کیے جانے والے ’’گھریلو کام‘‘ کی قیمت کا تعین ان خدمات کے حصول میں آنے والی قیمت سے ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں اگر عورت کے بجائے کوئی اور گھر میں کام کرتا ہے تو اس کی خدمات کے بدلے جو اخراجات آتے وہ اس عورت کے کیے جانے والے کام کی قیمت ہوگی۔
اسی طرح تیسرے فارمولے میں خاتون خانہ کے گھر میں کیے جانے والے کام کی مارکیٹ ویلیو نکالی جاتی ہے۔
لیکن ان میں سے کوئی بھی فارمولا جذباتی طور پر پیش کی جانے والی خدمات کی حقیقی قدروقیمت نہیں نکالتا۔
معیشت میں خواتین کا تعاون
بین الاقوامی ادارہ آکسفم کی تحقیق کے مطابق خواتین کے ’’گھریلو کام‘‘ کی قدر و قیمت انڈین معیشت کا 3.1 فیصد ہے۔سنہ 2019 میں خواتین کے کیے جانے والے ’’گھریلو کاموں‘‘کی قیمت دس کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔ یہ فارچیون گلوبل 500 کی فہرست میں شامل والمارٹ، ایپل اور ایمیزون وغیرہ جیسی پچاس بڑی کمپنیوں کی کل آمدنی سے زیادہ تھی۔
اس کے بعد بھی انڈین عدالتوں کو بار بار گھریلو خواتین کے کام کو معاشی اہمیت دینے کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔حال ہی میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا:
’’گھریلو خاتون کی آمدنی کا تعین کرنے کا معاملہ بہت اہم ہے۔ یہ ان تمام خواتین کے کام کو تسلیم کرتا ہے خواہ وہ متبادل کے طور پر یا معاشرتی/ ثقافتی اصولوں کے تحت اس سرگرمی میں مصروف ہیں‘‘۔
یہ بڑے پیمانے پر معاشرے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قانون اور عدالتیں گھریلو خواتین کی محنت، خدمات اور قربانیوں کی قیمت پر یقین رکھتی ہیں۔
خواتین کیا کام کرتی ہیں؟
اگر آپ غور سے دیکھیں تو گھریلو خاتون کام کے دوران اپنی خدمات تین طبقوں کو دیتی ہیں۔ پہلا حصہ بزرگ شہریوں کا ہے جنھوں نے ملک کی معاشی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ ڈال چکا ہوتا ہے، دوسرا وہ نوجوان جو فی الحال جی ڈی پی میں حصہ ڈال رہا ہے اور تیسرا طبقہ بچے ہیں جو آنے والے سالوں میں معیشت میں حصہ ڈالیں گے۔تکنیکی زبان میں اسے خیالی یا مجرد محنت کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی محنت یا مزدوری ہے جو براہ راست کسی بھی ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔
آسان الفاظ میں ایک عورت اپنے شوہر کے کپڑے دھونے، پریس کرنے، کھانے پینے، جسمانی اور دماغی صحت وغیرہ کا خیال رکھتی ہے تاکہ وہ دفتر کام کر سکے۔ وہ بچوں کو تعلیم دیتی ہے تاکہ وہ بعد میں ملک کے انسانی وسائل کا حصہ بن سکیں۔وہ اپنے والدین اور ساس سسر کی صحت کا خیال رکھتی ہے جو ملک کی معاشی ترقی میں اپنا حصہ دے چکے ہوتے ہیں۔
اب اگر گھریلو خاتون کو ان سب کاموں سے ہٹا دیا جائے تو حکومت کو بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر ان کی فلاح و بہبود کی خدمات، بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اولڈ ایج ہوم، نگہداشت وغیرہ پر خرچ کرنا پڑے گا۔
اگر خواتین کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟
ابھی یہ سارے کام خواتین کر رہی ہیں جو بنیادی طور پر حکومت کے کام ہیں کیونکہ ایک شہری کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ملک کی ہوتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواتین مفت میں حکومت کے لیے کام کرنا چھوڑ دیں تو پھر کیا ہوگا؟
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی پروفیسر ارچنا پرساد نے غیر منظم شعبے اور مزدوری کے امور پر مطالعہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر خواتین گھریلو کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو یہ نظام مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گا۔
وہ کہتی ہیں: ’’اگر خواتین یہ بلا معاوضہ کام کرنا چھوڑ دیں تو پورا نظام ہی رک جائے گا کیونکہ خواتین کا بلامعاوضہ کام ہی نظام کو سبسڈی فراہم کرتا ہے۔ اگر گھریلو کام اور نگہداشت سے متعلق کام حکومت یاکمپنیوں کو برداشت کرنا ہو تو مزدوری کی قیمت میں کافی اضافہ ہوجائے گا۔خواتین محنت کو زندہ کررہی ہیں۔ اسے سنبھال رہی ہیں۔ اس طرح سے ہر فرد کی محنت میں عورت کی بلا معاوضہ محنت شامل ہوتی ہے۔ تکنیکی لحاظ سے ہم اسے مجرد مزدوری کہتے ہیں۔‘‘
ماہر معاشیات، مصنف اور نیوزی لینڈ کی سیاستدان مارلن وارنگ خواتین کی طرف سے گھریلو کاموں کو جی ڈی پی کا حصہ ہونے کی وکالت کرتی ہیں۔ ان کا اعتراض ہے کہ جی ڈی پی میں عورت کے ذریعے سےحمل کو بھی پیداواری سرگرمی نہیں سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ مستقبل کے انسانی وسائل کو جنم دیتی ہے۔
اپنے ملک کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں: ’’نیوزی لینڈ کے قومی اکاؤنٹس جہاں سے جی ڈی پی کے اعداد و شمار ملتے ہیں، ان میں گائے، بکری، بھیڑ اور بھینس کے دودھ کی قیمت ہوتی ہے لیکن ماں کے دودھ کی کوئی قیمت نہیں جبکہ یہ دنیا کی بہترین غذا ہے۔ یہ کسی بچے کی صحت اور تعلیم میں بہترین سرمایہ کاری ہے لیکن اسے شمار نہیں کیا جاتا ہے‘‘۔
معاشی شناخت کیسے دی جائے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے ذریعہ کیے گئے گھریلو کاموں کو معاشی شناخت کیسے دی جاسکتی ہے۔بلامعاوضہ محنت پر متعدد کتابیں لکھنے والی اور احمد آباد میں قائم سینٹر فار ڈویلپمنٹ آلٹرنیٹوز میں معاشیات کی پروفیسر اندرا ہیروے کا خیال ہے کہ خواتین کے کیے گئے کام کو ایک پیداوار کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
وہ کہتی ہیں: ’’گھر میں خواتین جو کھانا پکاتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں، بازار سے سامان لاتی ہیں، بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، گھر میں بیمار لوگوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ یہ سب سروسز ہیں جن کا براہ راست پیداوار سے تعلق ہے۔ یہ کام ملک کی آمدنی اور ملک کو صحت مند رکھنے میں ان کی محنت کا حصہ ہیں‘‘۔
’’اگر کسی نرس کی خدمات لی جائیں تو اسے قومی آمدنی میں شمار کیا جائے گا۔ لیکن اگر یہی کام گھریلو خاتون کرتی ہے تو اسے قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ غلط بات ہے جبکہ کام ایک ہی ہے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ اسے قومی آمدنی سے دور رکھا جائے۔ صرف یہی نہیں وہ قومی معیشت میں بھی اپنا تعاون کرتی ہیں۔ سرکاری شعبے سے لے کر نجی شعبے تک کوئی بھی شعبہ خواتین کی اس بلا معاوضہ محنت کے بغیر چل نہیں سکتا‘‘۔
تاریخ کے صفحات کو پلٹیں تو ایک وقت ایسا نظر آتا ہے جب ایسا
ہؤا بھی ہے جس کا اشارہ پروفیسر ہیروے نے دیا ہے۔سنہ 1975 میں آئس لینڈ کی نوے فیصد خواتین نے 24 اکتوبر کو ایک دن کے لیے کھانا پکانے، صفائی کرنے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے انکار کردیا۔ خواتین کے اس اعلان کا اثر یہ ہؤا کہ پورا ملک اچانک رک گیا۔ کام پر جانے والے مردوں کو فوری طور پر گھر واپس آنا پڑا اور بچوں کو ریستوران لے کر بھاگنا پڑا اور وہ تمام کام رک گئے جو عام طور پر مرد کرتے تھے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ وقت میں بھی اگر خواتین اس قسم کی بلا معاوضہ محنت بند کردیتی ہیں تو پھر وہی ہوگا جو سنہ 1975 میں ہؤا تھا؟
کنبہ ختم ہوجائے گا
پروفیسر ہیروے کا خیال ہے کہ اگر خواتین گھر کا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو خاندان نام کا ادارہ ختم ہوجائے گا۔
وہ کہتی ہیں: ’’ترقی کا مفہوم یہ ہے کہ تمام لوگ اپنی پسند کے کام کرسکیں۔ جو عورت ڈاکٹر بننا چاہتی ہے وہ ڈاکٹر بن سکے، جو انجینئر بننا چاہتی ہے وہ انجینئر بن سکے۔لیکن پدر شاہی معاشرے نے خواتین پر گھریلو کام مسلط کر دیا ہے۔ اس سے ان کے پیروں میں ایک طرح کی بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ ان پر دباؤ ہے کہ پہلے وہ گھر کا کام کریں اور پھر کوئی اور کام کریں۔ اگر وہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو ہمارا کنبہ نامی ادارہ ختم ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں نجی شعبے سے لے کر سرکاری شعبے تک کا کام رک جائے گا۔ آپ کو یہ یقین کرنا ہوگا کہ بلا معاوضہ محنت کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی ‘‘۔
ہیروے نے اندرا نوئی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ باضابطہ کاروباری نظام میں خواتین کی بہترین کارکردگی کے باوجود گھر سنبھالنے کی ذمہ داری بھی ان ہی کی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ تمام تر عیش و آرام کے باوجود گھر چلانے کی ذمہ داری ان پر ہے۔ انھوں نے ایک دلچسپ کہانی سنائی کہ ایک بار کمپنی میں انھیں ترقی ملی۔ وہ گھر پہنچیں تو والدہ دروازے پر ملیں جنھوں نے کہا، جاؤ اور دودھ لےآ ؤ، تمہارے شوہر اور بچوں کو صبح کے وقت دودھ کی ضرورت ہوگی۔ اندرا پہلے دودھ لینے گئیں۔
لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ ذمہ داری تو صرف خواتین پر عائد ہوتی ہے۔ بہت سی خواتین سی ای او نے یہ بات کہی ہے کہ چاہے وہ کتنی بھی ترقی کیوں نہ کر لیں وہ ان کاموں سے چھٹکارا نہیں پاسکتیں کیونکہ ہمارا معاشرہ پدرشاہی ہے۔
ہیروے کا خیال ہے کہ انڈیا کو جی ڈی پی میں خواتین کی بلامعاوضہ کی جانے والی محنت کو بھی شامل کرنا چاہیے۔
آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
پوری دنیا کی بہت ساری خواتین اور مرد اس حقیقت پر توجہ دے رہے ہیں کہ معاشیات سے لے کر معاشرے تک پدرانہ اقتدار کے اثرات کو کم کیا جانا چاہیے۔’’جاگو رے‘‘ موومنٹ چلانے والی کملا بھسین کا کہنا ہے کہ پہلی لڑائی یہ ہے کہ ہم پدر شاہی معاشرے سے باہر نکلیں۔
وہ کہتی ہیں: ’’آپ یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ مردوں کو اپنی سب سے بڑی ہوتی بیٹی یا بیٹے کے ساتھ وقت گزارنے کا حق کیوں نہیں ہے۔ تاکہ وہ انھیں پڑھا لکھا سکیں، ان کے ساتھ کھیل سکیں۔مرد جو کچھ کرتے ہیں وہ معاش کمانا ہے۔ وہ زندگی نہیں ہے۔ آپ کی اہلیہ جو کر رہی ہے وہ زندگی ہے۔ اگر آپ کچھ وقت کام نہیں کریں تو آپ کے بچوں کی زندگی متاثر نہیں ہوگی۔ آپ کی اہلیہ ایک دن کام نہیں کرتی ہے تو پھر زندگی اور موت کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔سوچیں کہ اگر آج خواتین یہ کہیں کہ یا تو ہمارے ساتھ مناسب سلوک کریں ورنہ ہم بچے پیدا نہیں کریں گے تو کیا ہوگا؟ آپ انسانی وسائل کہاں سے لائیں گے؟‘‘
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا معاشی سرگرمی کی حیثیت سے گھروں کے کام کو درجہ دلانے کی لڑائی زیادہ طویل تو نہیں ہے؟ اس کا حل کیا ہے؟درختوں اور پودوں پر تحقیق کرنے والی روچیتا دیکشت کا خیال ہے کہ جہاں سے غلطی شروع ہوئی ہے اصلاح بھی وہیں سے شروع
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا معاشی سرگرمی کی حیثیت سے گھروں کے کام کو درجہ دلانے کی لڑائی زیادہ طویل تو نہیں ہے؟ اس کا حل کیا ہے؟درختوں اور پودوں پر تحقیق کرنے والی روچیتا دیکشت کا خیال ہے کہ جہاں سے غلطی شروع ہوئی ہے اصلاح بھی وہیں سے شروع ہوگی۔
وہ کہتی ہیں: ’’میں سائنس دان ہوں۔ لیکن جب میری بیٹی ہوئی تو میرے سامنے سوال یہ تھا کہ میں اپنی بیٹی کو کسی رشتہ دار یا آیا پر چھوڑوں یا اپنی ملازمت چھوڑ کر اس کی پرورش کروں۔ میں نے دوسرے آپشن کو چنا۔ لیکن میں نے اس متبادل کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں کو احساس دلایا کہ یہ آسان کام نہیں ہے‘‘۔’’اصلاح ہم سے ہوگی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں مستقبل میں اپنی بیٹی بہو کے گھر یلو کاموں کو وہی اہمیت دینی ہوگی جو ہم لڑکوں کے کام کو دیتے ہیں‘‘۔
؎۱بی بی سی ہندی، نئی دہلی
قارئین و ایجنٹ حضرات متوجہ ہوں
کاغذ و پرنٹنگ اخراجات میں اضافہ کے باعث
جنوری 2022ء سے ’’ بتول‘‘ اور ’ ’ نور ‘‘ کی قیمت میں اضافہ کیا جا رہا ہے
بتول کی قیمت فی شمارہ 70روپے،
زر سالانہ عام ڈاک سے 750روپے
نور کی قیمت فی شمارہ 50روپے ،
زر سالانہ عام ڈاک سے 550روپے ہو گا
نوٹ فرما لیں :
منیجر ماہنامہ چمن بتول / بقعۂ نور
14ایف سید پلازہ30فیروز پور روڈ لاہور،فون:042-37424409