شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔تخلیق آدم کے وقت ہی شیطان نے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی، اورانسان سے دشمنی کی واضح بنیاد رکھی۔’’اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا‘‘۔(البقرۃ،۳۴)
قرآن کریم میں اسے’’ ابلیس‘‘بھی کہا گیا ہے اور ’’شیطان‘‘ بھی۔ ابلیس عبرانی زبان کا کلمہ ہے اور عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اہلِ عرب اسے ’’بلس‘‘ سے ماخوذ کہتے ہیں۔ جس کے معنی مایوس اور نا امید ہونے کے ہیں۔ ابلیس چونکہ اللہ کی رحمت سے مایوس اور نا امید ہو گیا تھا اسی لیے اسے ابلیس کہا گیا۔ (جوہری، اسماعیل بن حماد، ج۲، ص۹۰۹)۔
ابلیس میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ یاس اور نامرادی (فرسٹریشن) کی بنا پر اس کا زخمی تکبّر اس قدر برانگیختہ ہو گیا ہے کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھو کر ہر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزرنے پر تلا ہؤا ہے۔ (تفہیم القرآن،ج۳،ص۲۹۴)
جنّ مجرّد روح نہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے اجسامِ مادی ہی ہیں، مگر چونکہ خالص آتشیں اجزاء سے مرکب ہیںاس لیے وہ خاکی اجزاء سے بنے ہوئے انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ ’’شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اس کو نہیں دیکھتے‘‘۔ (الاعراف،۲۷) اسی طرح جنوں کا سریع الحرکت ہونا، ان کا آسانی سے مختلف شکلیں اختیار کر لینا، اور ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جانا جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کر سکتیں، یا نفوذ کرتی ہیں تو ان کا نفوذ محسوس ہو جاتا ہے۔(تفہیم القرآن، تفسیر سورۃ الرحمن)
ابلیس شیاطین کے اس سردار کا نام ہے جو خلق کے اعتبار سے ’’جن ‘‘ ہے، جسے آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا، اور یہ ایک با اختیار مخلوق ہے۔ ابلیس اللہ کی تسبیح و تہلیل کی بنا پر ملائکہ کی صف میں شامل تھا۔ آدم ؑ کو سجدہ سے انکار کرنے کے بعد وہ ذرا بھی شرمسار نہ ہؤا، بلکہ دم ٹھونک کر مقابلے میں آگیا اور قیامت تک آدمؑ و اولادِ آدم سے دشمنی کا اعلان کیا، اس نے خود اپنے اختیار سے اپنے لیے فسق کی راہ اختیار کی۔شیطان کی دشمنی آغاز سے انجام تک ہے اور وہ کبھی بھی انسان دشمنی سے کنارہ کشی نہیں کرتا ۔وہ انسان کی عقل اور دل دونوں پر حملہ کرتا ہے۔
فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے نہیں دیا گیا تھا، بلکہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوعِ انسانی کا نمائیندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص۱۰)
قصّہ ء آدم و ابلیس ترتیبِ مصحف میں پہلا قصّہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تکرار کے ساتھ کئی سورتوں میں بیان فرمایا، یہ قرآن کریم کی سات سورتوں میں وارد ہؤا ہے، جن میں سورۃ البقرۃ، الاعراف، الحجر، الاسرائی، طہ ، الکہف، اور ص شامل ہیں۔کہیں یہ قصہ تفصلاً بیان ہؤا ہے اور کہیں موجز انداز میں۔
قصّہء آدم وابلیس
آدمؑ کی تخلیق، اور فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم، اور تمام فرشتوں کی اطاعتِ حکم ِ الٰہی اور ابلیس کا انکار، اور اس انکار پر ابلیس کا متکبرانہ موقف اختیار کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا آدم کو زمین کا خلیفہ مقرر کرنا اور جنت میں ان کی زوجہ کے ہمراہ ٹھہرانا اور ایک معین درخت کے سوا جنت کے پھلوں کو کھانے کی اجازت دینا، جنت میں ابلیس کا آدم و حوا کے ساتھ رہنا اور انہیں پیہم کوششوں سے اس درخت کا پھل کھانے پر اکسانا اور ان سے نافرمانی کروا لینا۔اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی پران سے لباسِ فاخرہ کا اتر جانا، اور اللہ کی جانب سے دنیا میں اتارا جانا اور یہ ہدایت دینا کہ دنیا کے عارضی قیام میں پے در پے آنے والی اللہ کی رہنمائی اور ہدایت کو اختیار کر لینا کامیابی کی ضامن ہے۔
اس دنیا میں آدم و حوا کی ذریت کو پھیلنے کا موقع دیا گیا۔ اس دنیا میں ابلیس کو بھی اتار دیا گیا، اور جنت سے نکالے جانے پر ابلیس کا ردِّ عمل یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ سے قسم کھائی کہ جس انسان کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا ہے وہ اس کا ’’اغوا‘‘ کرے گا اور اسے سیدھی راہ پر چلنے نہ دے گا۔اس طرح انسان کا دشمن شیطان اور شیطان کا دشمن انسان! انسان کا دشمن شیطان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ رہا انسان کا دشمنِ شیطان ہونا، تو فی الواقع انسانیت تو اس سے دشمنی ہی کی مقتضی ہے، مگر خواہشاتِ نفس کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے، ان سے دھوکا کھا کر انسان اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اب شیطان اس کا حقیقی دوست تو نہیں بنتا مگر انسان اپنے دشمن شیطان سے شکست کھا کر اس کے فریب کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
ابلیس کا قرآنی تعارف
ابلیس کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شیطان کا لفظ بھی استعمال کیا۔ اور اس کی صفات خوب وضاحت سے بیان کر دیں تاکہ انسان اپنے حقیقی دشمن کو پہچانے اور اس کی چالوں، اور مکاریوں کے جال میں نہ آئے۔
انسان شیطان کو دیکھ نہیں سکتا، کہ اسے دیکھ کر اس سے دور رہے، مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی آگہی اور پہچان عطا کی ہے۔
ابلیس کی مکاریوں سے بچنے کی تاکید
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں نیکی اور بدی دونوں کی صلاحیت رکھی ہے اور خیر وشر میں تمیز کا ملکہ بھی عطا کر دیا ہے، اور ان دونوں کو اختیار کرنے کی طاقت، صلاحیت اوراختیارخود اس کے اندر موجود ہے۔شیطان اس کی شر کی جانب رہنمائی کرتا ہے اور اسے بدی کی تلقین کرتا ہے۔
ملاء الاعلی میں ابلیس کا اعلانِ بغاوت
سورۃ ص میں ابلیس نے نہایت متکبّرانہ انداز میں اللہ سے مکالمہ کیا، اور سجدہ نہ کرنے کے کا جواز تراشا، اور بولا:
’’میں اس (آدم) سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے۔‘‘
فرمایا: ’’اچھا تو یہاں سے نکل جا، تو مردود ہے اور تیرے اوپر یوم الجزا تک میری لعنت ہے۔‘‘
وہ بولا: ’’اچھا، تجھے اس روز تک کی مہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے۔‘‘
اس نے (اللہ کی عزّت کی قسم کھا کر) کہا:
’’تیری عزّت کی قسم! میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنھیں تو نے خالص کر لیا ہے‘‘۔ (ص،۷۵۔۸۳)
یہ شیطان کا اللہ سے جھگڑا ہے، اور ملاء الاعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطان کا دو بدو مکالمہ نہیں ہؤا تھابلکہ کسی فرشتے کے توسط سے ہؤا ہے۔
شیطان کا پہلا حملہ
شیطان انسانوں کو اغوا کرنے اور انہیں راہِ حق سے بھٹکانے کے لیے ہر سیدھی راہ پر جال بچھائے اور گھات لگائے بیٹھا ہے۔وہ سب سے بڑھ کر ایمان کو کمزور کرتا اور اعتقاد میں ابہام پیدا کرتا ہے۔تاکہ اللہ عزیزوحمید پر ان کا ایمان ڈگمگا جائے۔وہ سب سے بڑھ کر ان آیات کے بارے میں گمراہ کرتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے غیب کی خبریں دی ہیں۔
حضرت سبرہ ؓبن ابی فاکہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’شیطان ابنِ آدم کی راہوں میں بیٹھ جاتا ہے، اسی طرح وہ اس کے اسلام کے راستے پر بیٹھتا ہے اور اسے کہتا ہے: تم اسلام لے آؤ گے اور اپنا راستہ اور اپنے باپ دادا اور اجدادکا طریقہ چھوڑ دو گے؟ وہ اسلام لے آتا ہے۔ پھر وہ اس کے ہجرت کے راستے پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: تم ہجرت کرو گے، اور اپنی زمین اور اپنا آسمان چھوڑ دو گے؟ مہاجر کی مثال تو طوالت میں گھوڑے کی مانند ہے، وہ اس کی نافرمانی کرتا ہے اور ہجرت کرتا ہے تو شیطان اس کے لیے جہاد کے راستے پر آ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے: تو جہاد کرے گا؟ جہاد تو نفس اور مال سے ہے،تو لڑے گا اور قتل (شہید) ہو جائے گا، تیری عورت نکاح کرے گی اور تیرا مال تقسیم ہو جائے گا۔وہ اس کی بات نہیں مانتا اور جہاد کرتا ہے۔ پھر رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس نے اس طرح کیا ،اس کا اللہ پر حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کر دے۔اور جو قتل ہؤا اس کا اللہ پر حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کر دے، اور جو کوئی ڈوب کر مر گیا اس کا اللہ پر حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کر دے، اور جس پر اس کی سواری کا پاؤں آ گیا اس کا اللہ پر حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کر دے۔(رواہ النسائی،۳۱۳۴)
اس حدیث میں اللہ کے نبیؐ نے چوکنّا کیاکہ شیطان کس طرح خیر کی راہوں پر آ کر انسان کو ورغلاتا اور اسے نیکی سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جو اغوائے شیطانی سے بچ جائے اور انہیں راہوں پر اسے موت آ جائے اس کے لیے جنت ہے۔
شیطان کا نفس پر حملہ
شیطان کا بہت بڑا اور کاری حملہ انسان کے نفس اور اس کی شہوات پر ہوتا ہے۔جب بندہ نماز میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان اس پر حملہ کرتا ہے کہ دوسرے اسے دیکھ رہے ہیں، اور ریا کی خاطر وہ نماز کو طویل کر دیتا ہے۔
ابن الجوزی نے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا قصّہ بیان کیا ہے، جو شیطان کے بہکاوے میں آگیا اور اس نے ایک لونڈی سے زنا کیا، اور پھر اسے بھی قتل کر دیا اور اس کے (مولود) بیٹے کو بھی قتل کر دیا، اور اس کے بعد اللہ کا بھی کفر کر ڈالا ۔ (تلبیسِ ابلیس، امام الجوزی)
اس سے معلوم ہؤا کہ شیطان بتدریج گناہ کے فعل کی جانب راغب کرواتا ہے اور سب سے بڑے گناہ تک لے جاتا ہے۔اور وہ انسان کی نگاہ میں گناہ کو حقیر بنا دیتا ہے، اور جب وہ گناہوں میں لتھڑ جاتا ہے تو وہ اس سے بے نیاز ہو جاتا ہے، گویا اس کا تو اس میں کوئی حصّہ ہی نہیں۔
گمراہ کرنے کے شیطانی ہتھکنڈے
٭ ابلیس نے نوحؑ کو بتایا کہ وہ انسانوں کو حسد اور لالچ کے ذریعے سے ہلاک کرتا ہے۔
٭ ابلیس نے حضرت موسیؑ کو بتایا کہ وہ انسان پر غصّے اور معذوری کی حالت میں تسلط حاصل کر لیتا ہے اور اسی طرح مرد اور عورت کی تنہائی کے موقع پر۔
٭ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر، ابلیس نے موسیؑ کو بتایا کہ وہ انسان پر اس وقت قابض ہو جاتا ہے جب وہ اپنے کسی (نیک) عمل سے خوش ہو رہا ہو، تو وہ اس کی نگاہ میں اس عمل کو بہت بڑا بنا دیتا ہے، اور اسے اس کے گناہ بھلا دیتا ہے۔
٭ اسی طرح اس نے حضرت موسی ؑ کو بتایا کہ وہ بندے اور اس کے اللہ سے کیے ہوئے عہد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے تاکہ وہ اس کی پاسداری نہ کر سکے۔
٭ اکثر شیطان ابنِ آدم کے پاس دنیا اور اس کی نعمتوں کے ذریعے آتا ہے۔
٭ جب اللہ تعالیٰ بندوں کو کوئی حکم دیتے ہیں تو وہ دو طرح سے ان کے عمل کو خراب کرواتا ہے، چاہے کسی بھی طرح ہو ، یا تو بندہ اس پر عمل کرنے میں غلو کا شکار ہو جائے یا اس عمل میں تقصیر کرے۔
٭ شیطان انسان کو شر کا حکم دیتا ہے اور اور اسے حق کی تکذیب پر آمادہ کرتا ہے، اگر ایسا ہو رہا ہے تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لو۔
٭ شیطان جن دروازوں سے ابنِ آدم کے پاس آتا ہے ان میں ایک اللہ کی ذات میں تفکر بھی ہے، جہاں تک عقل کی رسائی ممکن نہیں۔
٭ شیطان فتنوں کے ذریعے انسان پر تمکن حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
شیطان کی چالوں اور اس کے مکروفریب سے بچنے کا محفوظ اور مختصر راستہ یہ ہے کہ بندہ اللہ سے مدد مانگے اور شیطان اور شیطانی مخلوق سے دور رہے۔یہی خیر اور بھلائی کی کنجی اور شر کا دروازہ بند کرنے کا طریقہ ہے۔اور انسان جس قدر اللہ کی جانب ہاتھ بڑھاتا ہے وہ اسی قدر شیطان کی چالوں اور مکر وفریب سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ (دیکھیے المختصر تلبیس ابلیس، ابن الجوزی)
شیطان انسان پر جہالت، خواہشِ نفس اور غفلت کے ذریعے داخل ہوتا ہے۔وہ اعتقاد پر حملہ کرتا ہے ، جس دل میں اللہ پر ایمان قوی ہے وہ ابلیس کے مسموم تیروں کا شکار نہیں ہو گا۔
دین میں شیطانی فتنے
شیطان انسانوں کو فتنے میں ڈالتا ہے کہ وہ دین کی شاہراہِ مستقیم پر نہ آئیں۔ دین اختیار کرنے والوں کو بھی وہ دین کے مختلف پہلؤوں پر فتنے میں ڈالتا رہتا ہے۔ اسی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دین کی روح اور عمومی فکر سے ہٹ کر کسی نئی سوچ اور فکر کو ابھارنا۔
حضرت عمرؒ بن عبد العزیز کا قول ہے کہ: ’’جب تم دیکھو کہ کچھ لوگ دین کی عمومی رائے سے ہٹ کر باہم سرگوشیاں کر رہے ہیں تو وہ کسی گمراہی کی بنیاد ڈال رہے ہیں‘‘۔ (تلبیس ِابلیس، ابن الجوزیؒ)
وہ سرگوشیوں اور راز داری میں اپنا موقف پیش کر رہے ہیں اور چپکے چپکے رائے سازی کر رہے ہیں حالانکہ دین مبین اور واضح ہے اور اس کی رات بھی چودھویں کے چاند کی مانند روشن ہے اور وہ کسی کو ٹیڑھ میں مبتلا نہیں کرتی الا یہ کہ اس کا دل ہی ٹیڑھ پر مائل ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ، ۱۶۸)کیونکہ شیطان بری باتوں اور گناہ کے کاموں ہی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
شیطان کے بدی اور فحش کے احکامات
ارشادِ الہی ہے: ’’وہ (شیطان) تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں‘‘۔ (البقرۃ،۱۶۹)
مزید فرمایا: ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے‘‘۔ (البقرۃ،۲۶۸)
شیطان کے ڈراوے اور خوف پیدا کرنے کے طریقے ترغیب اور ترہیب کے لبادے میںہوتے ہیں۔وہ فقر کا ایسا خوف دلاتا ہے کہ بندے کے اندر حرص اور بخل پیدا ہو جاتا ہے۔وہ فحاشی کا حکم دیتا ہے، اور فحاشی ہر اس معصیت کو کہتے ہیں جس میں انسان حد سے تجاوز کر جائے، اگرچہ فحش کا استعمال زیادہ تر ایک خاص معصیت میں ہوتا ہے۔ تاہم یہ لفظ عام ہے۔ یہ تنگ دستی کا خوف ہی تھا کہ ایامِ جاہلیت میں اقوامِ عرب اپنی بچیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔جو ایک قسم کی فحاشی تھی۔اسی طرح زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کا جذبہ انہیں سود خوری پر آمادہ کرتا تھا، جو ایک قسم کی فحاشی تھا۔نیز یہ خوف کہ انفاق فی سبیل اللہ سے وہ تنگ دست ہو جائیں گے بجائے خود فحاشی ہے۔اس کے برعکس اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کا یقین دلاتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ پر تمہیں اجر عطا کرے گا۔وہ بڑی وسعت والا اور فراخ دست ہے۔
اور آنکھیں کئی بار اس منظر کو دیکھتی ہیں کہ ایک شخص اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس لیے باز رہتا ہے کہ اس کے بال بچوں کی ضروریات ہیں، لیکن یہی شخص کبھی سال گرہ اور کبھی شادی بیاہ کی فضول رسموں اور تہواروں پر دل کھول کر خرچ کر رہا ہوتا ہے، لیکن راہِ خدا میں خرچ کرتے ہوئے شیطان کے بچھائے ہوئے خوف کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
شیطانی مکاری کا مقابلہ
ایمان لانے کے بعد انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان اسے گمراہی کی راہوں کی جانب کھینچتا ہے، ارشادِ الہی ہے:
’’شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے‘‘۔ (النسائی،۶۰)
’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے، پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘۔ (المائدۃ،۹۱)
’’وہ (شیطان) سخت دشمن اور کھلا گمراہ کرنے والا ہے‘‘۔ (القصص،۱۵)
ان ساری حقیقتوں کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو صاف صاف فرما دیا:
’’درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیرووں کو اپنی راہ پر اس لیے بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں‘‘۔ (فاطر،۶)
یہ ایک وجدانی احساس ہے۔ جب انسان اس بات کو اپنے ذہن میں رکھ لے کہ اس کے اور شیطان کے درمیان معرکہ جاری ہے۔ شیطان نے عزم ِ صمیم کیا ہے کہ وہ انسانوں کو بہکائے گا:
’’بولا، اچھا تو نے جس طرح مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘۔ (الاعراف،۱۷)
پس شیطان اس معرکے میں ہر وقت بیدار رہتا ہے، وہ اپنی پوری قوت مجتمع کر کے انسان پر حملہ کرتا ہے، وہ اپنی ذات اور اپنے خیالات کا دفاع کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی نافرمانی کا الزام اللہ کو دیتا ہے، کہ اگر وہ سجدے کا حکم نہ دیتا تو اس سے نافرمانی کا ظہور نہ ہوتا۔
قرآن شیطان کے مقابلے میں انسان کو بیدار کرتا ہے ، اس کے نفسِ لوامہ کو چوکنا کرتا ہے، کہ وہ شیطانی وساوس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرے، جیسے کوئی شخص یا ملک اپنے دشمن کے لیے اختیار کرتا ہے اور اس کے لیے ہر دم چوکنا رہتا ہے۔ اس کے شرّ وفساد کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔دشمن کے شر کے مقابلے کے لیے ذہنی اور جسمانی تیاری کرتا ہے اور ہر وقت معرکے میں کود نے کے لیے تیاری کی حالت برقرار رکھتا ہے۔ (دیکھیے تفسیر فی ظلال القرآن)
اللہ کے نیک بندوں پر شیطان کا حملہ
شیطان اللہ کی رحمت سے دور لعنت زدہ اور مردود ہے۔ شیطان ہر نیک اور بد کو بدی اور فحش کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اس نے آدم ؑ کو جنت میں ورغلایا اور بہلا پھسلا کر انہیں اور ان کی زوجہ کو ممنوعہ پھل کھانے پر راغب کر لیا، اور وہاں سے نکلوا کر چھوڑا جہاں وہ تھے۔حضرت آدمؑ نے جلد ہی اللہ سے کلمات سیکھ کر توبہ کر لی اور دوبارہ اللہ کی رحمت میں داخل ہو گئے۔ شیطان نے حضرت ابراہیم ؑکو بھی ورغلایا، جب وہ اپنے لختِ جگر اسماعیلؑ کو ذبح کرنے چلے تو ابلیس نے تین مواقع پر انہیں اس عمل سے روکنے کے لیے ان کے دل میں وسوسہ اندازی کی، اور ہر مرتبہ انہوں نے کنکر اٹھا کر اس کی جانب پھینکے۔ انہیں تین مقامات پر حاجی حج میں رمی کرتے ہیں (یعنی شیطان کو کنکریا ںمارتے ہیں)۔
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب ابراہیمؑ عقبہ کے قریب پہنچے تو شیطان نے انہیں روکنا چاہا تو انہوں نے اسے سات کنکر مارے جس سے وہ زمین پر گر گیا، پھر دوسرے جمرہ اور تیسرے جمرہ پر بھی سامنے آیا، اور آپؑ نے اسے سات سات کنکر مارے اور وہ زمین پر گر گیا‘‘۔ (مستدرک الحاکم)
حضرت یوسفؑ جب امراۃ عزیز کے مکاری کے سامنے ایمان اور استقامت سے کھڑے رہے تو انہوں نے بھی نفس کی اس کیفیت کا اظہار کیا:
’’میں اپنے نفس کی کچھ برأت نہیں کر رہا، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو‘‘۔ (یوسف،۵۳)
حضرت موسی علیہ السلام سے جب ایک گھونسے سے ایک شخص قتل ہو گیا تو انہوں نے اسے شیطانی عمل ہی قرار دیا:
’’موسی نے اسے ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا، (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی ) موسی نے کہا: ’’یہ شیطان کی کارفرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کن ہے‘‘۔ (القصص،۱۵) یعنی یہ شیطان کا کوئی شریرانہ منصوبہ لگتا ہے۔ اس نے ایک بڑا فساد کروانے کے لیے مجھ سے یہ کام کروایا ہے۔تو حضرت موسی نے فورا ہی اللہ کے حضور توبہ کر لی۔
’’پھر وہ کہنے لگا: اے میرے رب! میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا ، میری مغفرت فرما دے۔ چناچہ اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی، وہ غفور رحیم ہے‘‘۔ (القصص،۱۶)
انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطا ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے خاص حفاظت حاصل ہوتی ہے کہ شیطان کے وسوسے اور چالیں ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ شیطان اللہ کے کلمات میں بھی در اندازی کی کوشش کرتا ہے، اور اللہ اپنے کلام میں اس کی کوشش کو ناکام کر دیتا ہے۔
شیطان اہل ِ ایمان اور صالحین کو بھی ورغلانے اور حق سے پھسلانے کی کوشش کرتا ہے، اور جس کا ایمان جتنا قوی اور مضبوط ہے وہ اتنی جلدی اس کی چالوں کو پہچان جاتا ہے۔اور ان سے کنارہ کشی کرتا ہے۔
شیطان سے بچنے کی عملی کوشش
شیطان سے بچنے کے لیے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، اس میں کچھ عملی رہنمائی قرآن و حدیث سے ملتی ہے:
۱ ۔شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنا
’’اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ (الاعراف،۲۰۰)
۲ ۔معوذتین کی تلاوت
معوذتین کی تلاوت بھی شیطان کو دور کرنے اور اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے بڑا عجیب اثر رکھتی ہے، اسی لیے آپؐ نے فرمایا: ’’پناہ پکڑنے والوں نے اس جیسی پناہ نہیں پکڑی‘‘۔
سنت میں ان دونوں سورتوں کا سوتے وقت ایک یا تین مرتبہ پڑھنا بھی ثابت ہے۔
۳ ۔فرض نمازوں کے بعد اور سوتے وقت آیت الکرسی پڑھنا
۴ ۔سورۃ البقرۃ کی تلاوت
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، کیونکہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے‘‘۔ (رواہ مسلم،۲۶۰)
۵ ۔سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیتیں
ابو موسی اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو شخص رات میں سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیتیں پڑھتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہیں‘‘۔ (رواہ البخاری،۲۔۷۴۹)
۶ ۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو شخص روزانہ ۱۰۰ مرتبہ’’ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شیء قدیر ‘‘ پڑھتا ہے (۔۔) وہ اس دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا‘‘۔ (ابو داؤد،۹۵۷)
۷ ۔ذکرِ الہی کی کثرت
اور ذکر اللہ کی فضیلت میں آپؐ نے فرمایا: ’’اور تمہیں اللہ ذکر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ذکر کرنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کا دشمن بڑی تیزی سے اس کا پیچھا کر رہا ہے یہاں تک کہ وہ ایک قلعے میں داخل ہو کر اپنے آپ کو ان سے بچا لیتا ہے۔ اسی طرح بندہ ذکر کر کے خود کو شیطان سے بچا لیتا ہے‘‘۔ (حدیث)
۸ ۔نماز اور وضو
ایک اثر میں ہے: ’’شیطان آگ سے ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے‘‘۔( ابو داؤد، ۴۸۷۴)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: غضب ابن ِ آدم کے دل میں ایک چنگاری ہے۔ کیا تم اس کی آنکھوں کی سرخی اور رگوں کے پھولنے کو نہیں دیکھتے؟ پس جسے غصّہ آئے اسے زمین پر لیٹ جانا چاہیے۔ (رواہ الترمذی)
۹۔بندے کا تعوذ پڑھنا
جو شخص اعوذ باللہ پڑھتا ہے اس سے غصّے کا اثر چلا جاتا ہے۔
۱۰ ۔بے فائدہ دیکھنے، فضول گوئی، بسیار خوری
نگاہوں کی حفاظت شیطان سے بچنے کا کارگر نسخہ ہے۔نبی کریمؐنے فرمایا: ’’دیکھنا اور تاڑنا ابلیس کا زہریلا تیر ہے، جو غضِّ بصر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ایسی حلاوت عطا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے دن تک جاری رہے گی‘‘۔ (مستدرک)
اور فضول تعلقات اور دوستیاں دنیا آخرت کا نقصان ہیں، شیطان کے شر سے بچنے کے لیے ان سے بھی پرہیز لازم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان اور اس کے لشکروں سے محفوظ رکھے، اور ہمیں حق کی سیدھی راہ اختیار کرنے اور رسول ِ کریم ؐ کے اسوہء حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ربِّ اعوذبک من ھمزات الشیاطین واعوذبک ربِّ ان یحضرون۔ آمین ٭٭٭