بتول جولائی ۲۰۲۴سیما کلینک - بتول جولائی ۲۰۲۴

سیما کلینک – بتول جولائی ۲۰۲۴

آخری مریض دیکھ کر اس نے تھک کر بابر کو آواز لگائی بابر… جلدی سے سب کچھ سمیٹ لو آج بہت دیر ہو گئی ہے افف گیارہ بج رہے ہیں۔ ’’جی میڈم بس آپ پندرہ منٹ مجھے دیں میں نے کافی کچھ سمیٹ لیابس پندرہ منٹ اور….‘‘
یہ سیما کا ڈینٹل کلینک تھا اور بابر اس کا اسسٹنٹ جو نام کا تو بابر تھا مگر بیچارے کی بادشاہت اس کلینک تک ہی محدود تھی۔ وہ بھی بس ڈھیروں کام کے ساتھ جڑی تھی ۔ یوں کہہ لیجیے وہ نام کا بابر تھا اور کام کا بادشاہ ۔ہر کام بالکل پرفیکٹ کرتا۔ ڈاکٹر تو سیما ضرور تھی مگر بابر کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا تھا!
شہر کے بڑے معروف علاقے میں یہ چھوٹا مگر صاف ستھرا کلینک سیما کے ابو کی مرہون منت تھا۔ جب سیما کی شادی علی سے ہوئی تو مانو اسے سارے جہاں کی محبت اور پیار مل گیا ۔علی سیدھی سادی طبیعت کا بہت خیال رکھنے والا شوہر تھا مگر اس کی جاب کوئی بہت اچھی نہ تھی۔ پھر ساتھ دو چھوٹے بھائی اور ایک بہن بھی تھی۔ زندگی اچھی گزر جاتی اگر ابو کا اچانک انتقال نہ ہوتا ۔ اپنے فیصلے تو اوپر والا جانے۔ علی کی شادی سے ایک سال پہلے ابو کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔ امی اب ہر چیز کے لیے علی کی طرف ہی دیکھتی تھیں۔ پھر اللہ نے انہیں سیما سے ملوا دیا اور بس ان کے گھر میں بہار ہی آگئی۔ سیما صرف شکل و صورت کی پیاری نہ تھی بلکہ عادت کی بھی بہت اچھی تھی۔ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد علی نے سیما کے ساتھ مل کر کلینک کھولنے کا ارادہ کیا مگر سب سے بڑا مسئلہ پیسوں کا تھا۔
سیما کے ابو نے اسے کچھ قرض دیا مگر اسے یہ بات پسند نہ تھی اس پر ابو نے اسے مطمئن کر دیا کہ تم قرض لوٹا ضرور دینا اور اگر نہ لوٹا سکو تو جب وراثت تقسیم ہوگی تو میں ان پیسوں کو تمہارے حصے میں سے نفی کر دوں گا مگر یہ بات تمہارے اور میرے درمیان ہے کسی اور سے اس کا تذکرہ نہ کرنا ۔ سیما نے خوش ہو کر حامی تو بھر لی مگر اس کی سمجھ میں کسی کو نہ بتانے کے مصلحت نہ آئی ۔ مگر پیسے ابھی بھی پورے نہ تھے۔ تب ہی سیما نے بڑے دکھ سے اپنے زیورات بیچنےکا فیصلہ کیا۔ علی نے اگرچہ اسے بہت تسلی دی کہ وہ ضرور اس کو یہ زیورات بنوا کر دے گا مگر شاید اسے پتہ تھا کہ یہ ہو نہ سکے گا ۔ سب محنت اس کی تھی اس لیے ابو نے کلینک بھی سیما کے نام کروایا۔ جب اس نے کاغذات خوشی خوشی اپنی ساس کو دکھائے تو اسے ایک ہلکا سا احساس ہؤا کہ جیسے انہیں اچھا نہ لگا ہو ۔
’’بیٹا، علی بھی تو تمہارا اپنا ہے تو پھر یہ تم نے اپنے نام کے کاغذات کیوں بنوائے؟ ‘‘
’’جی امی وہ ابو نے …
’’چلو کوئی بات نہیں بعد میں دیکھ لینا‘‘ انہوں نے بھی اس موقع پر بات آئی جائی کرنا ہی مناسب سمجھی ۔
کلینک کرتے ہوئے سیما کو تقریبا ًڈیڑھ سال ہو رہا تھا۔ وہ کاہل لڑکی تھی نہ کام چور مگر مستقل شام سے تین چار گھنٹے کھڑے رہنا بھی اسے مضمحل کر دیتا۔ اللہ کے کرم سے مریض روز بروز بڑھ رہے تھے پھر بابر کی بادشاہت اور سیما کی لگن ان میں اور اضافہ کر رہے تھے۔ باہر ریسپشن پہ موجود قیوم صاحب کی ایمانداری بھی سب کام صحیح رخ پہ لے جا رہی تھی۔ پھر بھی پچھلے ایک ہفتے سے سیما تھک رہی تھی ۔ کلینک آنے سے پہلے کچن سمیٹنا چائے بنانا اور تو اور کھانا تیار کرنا اسے دوپہر میں بھی سونے نہیں دیتا تھا۔ پھر رات کو تھکے ہارے شوہرکے بھی دس کام ہوتے تھے۔ اس کے دل میں بڑی خواہش ہوتی کہ سب گھر والوں کی طرح وہ بھی دوپہر میں سو جائے ….رات کی روٹیاں اس کی ساس پکا لیتی اور کھانا چھوٹی نند لگا لیتی ۔ اس کے لیے سالن الگ سے نکال کر رکھ دیا جاتا ساس کہتی بھئی سیما کلینک سے تو برکت آئی ہے نا گھر میں۔ مگر پھر بھی رات گئے گھر جا کر اکیلے کھانا کھانا کبھی کبھی اسے بہت عجیب سا لگتا ۔ ایک دو ماہ تو علی نے اس کا انتظار کیا مگر کب تک ۔
’’ ارے علی بیٹا! تم کو جلدی آفس جانا ہوتا ہے تو جلدی کھانا کھا کر سو جایا کرو سیما کو تو دیر سے جانا ہوتا ہے نا‘‘۔ وہ اپنی ساس کو دیکھتی رہ جاتی حالانکہ وہ صبح صبح علی کو ناشتہ دینےضرور اٹھتی تھی مگر پھر بھی رات کو اسے اتنی دیر ہو جاتی کہ جب وہ کمرے میں آتی تو علی تقریباً سونے کے قریب ہوتے، سو نہیں رہے ہوتے تو اونگھ ضرور رہے ہوتے۔ اونگھتے ہوئے بھلا کون سی پیار محبت کی باتیں ہو سکتی تھیں۔ پر دل کیا کرے محبت کی ضرورت تو سب کو ہوتی ہے نا ایسے ہی سیما کو بھی تھی۔
آج وہ گھر آئی تو خلاف معمول امی اور دیور بھی علی کے ساتھ جاگ رہے تھے۔ وہ کپڑے بدل کر کھانا لینے کچن میں گئی تو امی کی آواز آرہی تھی’’ علی بیٹا ۔ تم سیما سے آج ضرور بات کر لینا۔ مراد نے خیریت سے بی کام کر لیا ہے اب اسے کلینک میں اپنے ساتھ لگا لے۔ بھئی جب گھر والے موجود ہوں تو قیوم صاحب کی کیا ضرورت ہے ؟ فضول کی تنخواہ انہیں دی جائے ‘‘۔
سیما کو ایک جھٹکا سا لگا ۔ قیوم صاحب کو تو ابو نے رکھوایا تھا اور اس کے لیے بہت قابل قدر تھے۔ وہ ملازم نہیں تھے بلکہ ان کے ہونے سے اسے ایک تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ پھر وہ بے حد ایماندار تھے۔ ان کے حساب کتاب میں کبھی گڑبڑ نہ ہوتی تھی۔ ان کی جگہ یہ لااوبالی مراد۔ یہ تو سودے کے پیسے کبھی ایمانداری سے نہیں ادا کرتا، یہ قیوم صاحب کی جگہ….
نوالے اس کے حلق میں اٹکنے لگے ۔ نہیں بھئی۔ یہ نہیں ہو سکتا! انہیں ابو نے رکھا تھا۔ وہ علی کو صاف منع کر دے گی۔ مگر اسے بڑی حیرت ہوئی تھی جب علی نے امی کے فیصلے کو آخری بنا دیا ! ’’لیکن بھئی‘‘۔
’’ ارے بھائی، اب سو جاؤ اتنی سی بات پر کیا تکرار کرنا‘‘۔
’’ علی آپ تو مراد کو جانتے ہیں وہ بہت لااو بالی ہے ابھی تو‘‘۔
کیا ہؤا سیکھ جائے گا ۔ مجھے بھی تسلی رہے گی کہ تم اکیلی نہیں ہو۔ پریشانی رہتی ہے مجھے‘‘ ۔ وہ علی کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ وہ کروٹ بدل کر سو گئے اور سیما کی نیند ہی لے گئے۔ بہت دکھ سے اس نے سوچا ثمینہ نے ٹھیک کہا تھا۔ ثمینہ اس کی پرانی دوست کچھ دن پہلے ہی کلینک آئی تھی اس سے ملاقات کی بھلا اور جگہ بھی کہاں تھی؟
’’ کیا تم سارے پیسے اپنی ساس کو دے آتی ہو؟ ارے بے وقوف! کچھ پیسے اپنے ہاتھ میں بھی رکھا کرو کبھی دل جاہتا ہے کہیں خرچ کرنے کا‘‘۔
’’ نہیں ثمینہ میری ساس بہت دکھی خاتون ہیں ۔بہت اچھی ہیں‘‘۔
’’میں نے کب کہا کہ وہ بری ہیں مگر سیما تمہاری ڈیوٹی تھوڑی ہے ان کا خرچ چلانے کی۔ یہ اچھا ہے بھائی گھر بھر کے کام کرو بہو بن کر اور کلینک چلاؤ بیٹا بن کر‘‘۔
’’ ارے کیا ہو گیا ہے، ہم نے اتنا پڑھا لکھا کس کے لیے ہے‘‘۔
’’ہاں تو کلینک کرو اپنے لیے۔ ان کی مدد کرو ضرور کرو مگر مددگار بن کر ۔ کماؤ پوت بن کر نہیں۔ بدھو کہیں کی‘‘۔ رات گزر رہی تھی نیند تو آ رہی نہیں تھی مگر ثمینہ کی آواز بالکل صاف ا ٓرہی تھی ۔ اس نے ابو کی مدد لینے کا سوچا۔ ابو نے صحیح فیصلہ سنایا،’’ علی اگر چاہتے ہیں تو تم مراد کو بھی رکھ لو مگر قیوم صاحب کو نہیں ہٹانا۔ مراد کو ریسپشن پر رکھ لو اور قیوم صاحب کو اکاؤنٹنٹ کے طور پر مالیات کی ذمہ داری دے دو کہہ دینا ابو نے کہا ہے۔ آخر میرا شیئر بھی تو ہے نا ‘‘ابو مسکرا دیے ۔ اور اسے پتہ چلا کہ ابو نے اسے ہر بات سب کو بتانے سے کیوں منع کیا تھا۔
رات سے اسے الٹیاں ا رہی تھیں آج ڈیوٹی پر جانے کی اس کی ذرا ہمت نہ تھی۔ ایک کپ چائے بڑی مشکل سے پی اور بابر کو فون کرکے لیٹ گئی کہ ذرا دیر میں اس کی ساس کمرے میں آگئی۔
’’کیا ہؤا سیما جاؤ گی نہیں آج کلینک ۔ آج تو مراد کو بھی جانا ہے‘‘
اس نے حسرت سے ان کی طرف دیکھا۔’’ امی آج طبیعت خراب ہے۔ ہیں ؟ تو پھر کیا ہوگا؟ تمہارے مریض کیا کریں گے بھئی‘‘۔ اس نے دکھ سے ان کی طرف دیکھا۔ یہ بھی پوچھ لیتی کہ طبیعت کو کیا ہؤا ہے۔ میرا دل رہ جاتا۔
’’ اس طرح تو چل گیا کلینک ‘‘۔ وہ کمرے سے باہر جا چکی تھی۔ اس نے ایک دو گولیاں کھائیں اور زبردستی اٹھ کر چلی گئی ۔ بار بار کی کمزوری اور یہ بدہضمی ۔ اس نے امی کو فون پر بتایا تو وہ بے چین ہو گئی تھیں ۔
’’سیما کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤ میں تمہارے ابا کو بھیجوں گی تم ڈاکٹر کے پاس ہو لینا ‘‘۔ وہ نہیں نہیں کرتی رہ گئی مگر صبح امی نے ابو کو بھیج ہی دیا ۔ وہ بیچارے آفس سے اٹھ کر آئے تھے۔ سیما بھاگ دوڑ کر سالن چڑھا رہی تھی ۔ ابو کو دیکھ کر ان کی ساس نے مسکرا کر سیما سے کہا
’’ ارے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں سالن میں دیکھ لیتی ہوں تم جاؤ‘‘۔
یا اللہ ابو بھی کیا سایہ دار درخت ہوتے ہیں وہ جھٹ باہر اگئی ۔ ڈاکٹر نے اسے ٹیسٹ لکھ کر دیااور آرام کا مشورہ دیا ۔’’آرام‘‘ اسے ہنسی آگئی ۔ ثمینہ پھر یاد آنے لگی ’’ارے بہن یاد رکھنا یہ جان یوں قربان نہ کرو جان ہے تو جہاں ہے ورنہ زندگی پائیدان ہے۔ سب چٹ کر جائیں گے ‘‘
اس نے علی کو فون کر دیا وہ رپورٹ لیتے ہوئے آگئے ۔دل خوشی سے اچھل اچھل کے منہ کو ا ٓرہا تھا۔ مگر اتنی بڑی خوشخبری تو سب سے پہلے سیما کو سنانی تھی۔ انتظار کر کر کے سیما آئی تو سیما حیا سے اور علی خوشی سے دیوانے ہو گئے اس خوشی میں بلند ہوتی اواز بھی نہ سنائی گئی امی نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔
’’کیا ہوأ علی ،کیا تمہاری ترقی ہوئی ہے؟‘‘
’’ ارے نہیں امی آپ کے لیے تو بہت بڑی خوشی ہے آپ دادی بننے والی ہیں‘‘۔ امی کے چہرے پر ایک رنگ آیا ایک گیا پھر اپنے آپ کو سنبھال کر مبارکباد دینے لگی۔ پر جاتے جاتے سیما کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں’’ارے اتنی جلدی کیا تھی تمہیں ابھی تو کلینک چلنا شروع ہوأ ہے‘‘۔
علی تو بہت خوش تھے ڈاکٹر کی ہدایت بتا رہے تھے’’ تمہیں پھل کھانے ہیں اور دودھ پینا ہے اور۔ اور‘‘۔
سیما کو ان کی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔یہ سب چیزیں منگوائے گا کون جو وہ کھائے گی۔ ثمینہ پھر بولنا شروع ہو گئی تھی۔ آدھے پیسے خود رکھو اور ’’آدھے انھیں دیا کرو کلینک بھی تمہارا محنت بھی تمہاری۔ کچھ نہیں تو اپنی تنخواہ کے نام پر ہی لے لو نیک بی بی! ‘‘
اس نے اگلے ہی دن جا کر قیوم صاحب سے اپنے تنخواہ کا معاملہ طے کر لیا ۔شکر ہے اس وقت مراد چائے پینے گیا ہؤا تھا۔ اسے اپنے حال پر ترس آنے لگا۔ وہ کیا کرے گی پیسوں کا۔ خرچ بھلا کیسے کرے گی؟
دن گزرتے جا رہے تھے۔ ڈاکٹر بار بار اسے اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تاکید کرتی تھی۔ کھانے کی چیزوں کی فہرست بتائی تھی مگر بے سود۔ ایک دو بار علی نے اس کے لیے الگ سے پھل اور دودھ لانے کی کوشش بھی کی مگر اتنا ہنگامہ اور سوال جواب ہوئے کہ وہ اس عدالت سے سرخرو نہ ہو سکا۔ اور جلد اپنا مقدمہ ہار گیا ۔ اتنی پوچھ گچھ اس کے بارے میں جس کی صحت سے آپ کا بجٹ وابستہ ہے ۔ ایک رات وہ دس بجے گھر آگئی مستقل کھڑے رہنا آج بہت مشکل ہو رہا تھا ۔اس نے پہلے ہی بابر کو کم مریضوں کو نمبر دینے کی ہدایت کر دی تھی۔ وہ بڑے شوق سے آئی کہ آج سب کے ساتھ کھانا کھائے گی مگر پتہ چلا کہ لوگوں کو اس کی نہیں زیادہ مریضوں کی ضرورت تھی کیونکہ مریض آتے ہیں۔ آمدنی بھی ساتھ لاتے ہیں ۔ سوائے علی کے اور کوئی مسکرا کر اس کا استقبال نہ کر سکا آج پتہ نہیں اسے کیا کچھ پتہ چل گیا تھا۔ معصوم سیما یہ سب جاننا بھی نہیں چاہتی تھی آج ان کے پرانے پڑوسیوں کی بیٹی اپنے ٹریٹمنٹ کے لیے اس کے کلینک آئی تھی ۔ اس نے بڑے پیار سے دیکھا اور پھر قیوم صاحب کو تاکید کی کہ اس سے فیس نہ لیں۔ وہ بہت خوش تھی۔ مگر جب گھر پہنچی تو پتہ چلا اس نے تو گھر کا بہت نقصان کر دیا ہے۔ ایک شخص سے فیس نہ لینا بھلا مراد کیسے بھول سکتا تھا؟
اب کبھی کبھی اس کا دل دکھ سے بھر جاتا تھا حالانکہ اللہ کا اس پر اتنا کرم تھا کہ اس کے خرچ کے پیسے نکالنے کے باوجود گھر کے پیسوں پر زیادہ فرق نہیں پڑا تھا ورنہ تو جانے کتنے جواب دینے پڑتے۔ آج ڈاکٹر بہت خفا ہوئی تھی۔ خون کی کمی دور نہیں ہو رہی تھی پھر آرام بھی نہیں تھا اور یہ۔ اور وہ ۔ ڈاکٹر نے علی سے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ایسے ہی رہا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کچھ بھی ، سیما کے لیے بڑا تکلیف دہ تھا۔ مگر وہ کیا کر سکتی تھی آج مریض بہت زیادہ تھے اس نے بمشکل چند منٹ بیٹھ کر جوس پیا اور بس ۔ ایک دم سے اسے بے چینی سی ہوئی۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی۔ مگر آخری مریض کو دیکھنے تک اس کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ آنٹی نے اس کو سہارا دیا ۔
’’ڈاکٹر آپ کو کیا ہو رہا ہے؟ راشد بیٹا جلدی کرو گاڑی قریب لے آؤ ڈاکٹر صاحبہ تو بے ہوش ہو رہی ہیں‘‘ انہوں نے اپنے بیٹے کو آواز دی وہ باہر کو بھاگا۔ قیوم صاحب نے مراد کو ٹیکسی لانے کا کہا مگر اس سے پہلے آنٹی نے اسے سہارا دے کر اپنی گاڑی میں بٹھا لیا قیوم صاحب نے مراد کو آواز دے کر ساتھ کیا اور خود علی کو فون کرنے لگے۔ ایک ہنگامہ مچ گیا شکر تھا کہ بابر کو سلطنت کا شعور تھا ۔
راشد گاڑی بہت تیز چلا رہا تھا مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ڈاکٹر نے بھی پوری کوشش کر دیکھی مگر بچے کو نہ بچا سکی دکھ سے سیما کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ علی کا برا حال تھا ۔ کام مکمل کر کے ڈاکٹر نے اگلے دن چھٹی دی توعلی اس کو گھر لے آیا۔ اسے کمرے میں لٹا کر وہ پلٹا۔
’’ امی اب آپ سیما کا بہت خیال رکھیے گا۔ اس کا دل بہت اداس ہے‘‘۔
’’ارے بھائی اس کی طبیعت تو سنبھل ہی جائے گی مگر دو دن سے کلینک کا جو نقصان ہو رہا ہے اس کا کیا ہوگا‘‘۔
’’ امی کیا ہو گیا ہے آپ کو۔ میرا بچہ چلا گیا اور آپ کو کلینک کی پڑی ہے سیما کیا سوچے گی‘‘۔ بے دم ہوتی سیما کی آنکھیں بھیگتی چلی گئیں۔آنسوؤں کی جھڑی ایسی لگی کہ ٹوٹنے میں ہی نہیں آ رہی تھی ۔ وہ سوچ رہی تھی انسان کتنا بے وقعت ہو جاتا ہے۔ ایک کلینک سے بھی زیادہ بے معنی اور بے حقیقت۔ وہ تو دو دن سے بند پڑا ہے۔ اور یہ دل تو مدت سے اداس پڑا ہے کیا واقعی ثمینہ ٹھیک کہتی ہے ؟وہ گھبرا کر ہر طرف دیکھ رہی تھی مگر کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here