رات کو ہوا کے دوش پر آل انڈیا ریڈیو سے ’’تعمیلِ ارشاد‘‘میں گانا لگا ہؤا تھا۔
گھر آیا میرا پردیسی…. پیاس بجھی میری اکھیوں کی۔
’’ رکو رکو….ذرا آواز اونچی کرنا….یہ گانا تو راحیل کو بہت پسند ہے….‘‘
’’ ہیں یہ راحیل کہاں سے آگیا؟‘‘
ابھی تو وہ زبردستی مجھے اپنی نئی محبت کی کہانی سنارہی تھی جس کا ہیرو علی تھا۔وہ اس کے پاس کچھ دن ریاضی پڑھنے کے لیے جاتی رہی تو علی نے ایک دن حساب پڑھاتے ہوئے اپنے بے حساب پیار کی کہانیاں بھی اسے سنا ڈالیں۔
’’یار راحیل میری پھوپھی زیتون کا بیٹا ہے ناں ….بیچارہ میرے پیچھے پیچھے رہتا ہے‘‘۔
’’لیکن تم تو علی کے بارے میں بتارہی تھیں۔اور ابھی مہینہ بھر پہلے جب میں گاؤں گئی تھی تو تمہیں لمبرداروں کا شوکت بہت پسند تھا‘‘۔
شوکت کو سب شوکا کہتے تھے جب کہ میں اسے ’’شوخا‘‘کہتی تھی۔بوسکی کا سوٹ، تلّے والی کھیڑی، سونے کے بٹن اور تیز پرفیوم والا شوخا!
’’یارا….پسند تو میں شوکت کو کرتی ہوں لیکن راحیل بیچارہ میرے بہت آگے پیچھے پھرتا ہے…. اور محبت تو خیر علی سے کرتی ہوں لیکن سچا پیار صرف زہیب سے ہے‘‘۔
’’ توبہ ہے ….! اب یہ زہیب کون ہے ؟ ‘‘میری آنکھیں اور منہ بیک وقت کھلے کے کھلے رہ گئے۔
یہ 1990 کا مئی کا مہینہ تھا۔زینت آج گاؤں سے دسویں کے پرچوں کے لیے ہمارے گھر رکی ہوئی تھی۔گرمی کی وجہ سے ہم دونوں چھت پر چارپائیاں ڈال کر سورہے تھے۔اوپر آتے ہوئے میں ابا سے آنکھ بچا کر چھوٹا ٹرانسسٹر ریڈیو ساتھ ہی لے آئی تھی۔ان دنوں بڑی تفریح سنیما ہال پر فلم دیکھناہوتی تھی جس کی ہمیں کبھی اجازت نہیں ملی تھی اور دوسری تفریح ریڈیو سننا ہوتی تھی۔
امی نے ہمیں ساتویں جماعت میں برقع پہنادیا – زینت گاؤں سے شہر آتے ہوئے برقع اوڑھ کر آتی اور یہاں آکر بغیر برقعے کے بازار کا چکر لگا آتی تھی،بلکہ اکثر بہانہ لگا کر کوئی نہ کوئی فلم بھی دیکھ لیتی تھی۔
پچھلی مرتبہ اس نے بابرہ شریف اور غلام محی الدین کی فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘دیکھی تھی۔ اور جب فلم دیکھ کر گھر پہنچی تو منہ، آنکھیں رو، رو کر سجائی ہوئی تھیں جس پر میرے بھائی نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
’’ لوگ گاؤں سے خرچہ کر کے شہر آتے ہیں، پھر مزید خرچہ کر کے فلم دیکھتے ہیں اور پھر پیسے لگا کر روتے ہیں‘‘۔
اب بھائی آگے آگے تھا اور زینت پورے گھر میں اس کے پیچھے پیچھے۔آخر کار بیٹھک کے صوفے کے پیچھے سے بھائی کو پکڑ کر اسے نیچے گرا کر اس پر بیٹھنا ہی چاہتی تھی جب دادی نے دیکھ لیا۔
’’ اری کم بخت، اب کیا بچے کی جان لوگی….آخر کیا کیا اس نے؟‘‘
فلم کا راز کھل جانے کے خوف سے زینت نے بھائی کو چھوڑ تو دیا لیکن منہ پر ہاتھ پھیر کر بعد بدلہ لینے کا اشارہ کرنا نہ بھولی۔
گاؤں میں وہ کھیتوں پر چھٹی کا پورا دن اپنے ابے کے ساتھ کام کرواتی تھی اس لیے بڑی پراعتماد، منہ پھٹ اور بہادر تھی۔
ادھر ہم لوگ پڑھائی کے لیے گاؤں سے شہر منتقل ہو چکے تھے۔یہاں میں اپنے بڑے خوبصورت گھر میں اپنی امی ، ابا، دادی اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔گھر کا پابند ماحول اور دادی کی ہروقت نصیحتوں کی وجہ سے میں گھر کے ماحول سے بہت بیزار رہتی تھی۔زینت آجاتی تو کچھ دن میرے بھی اچھے گزرجاتے تھے لیکن دادی زینت کے خلاف باتیں کرتی رہتی تھیں اور انہیں اس کا ہمارے گھر آنا سخت ناپسند تھا اور رات بھر جاگ کر ہمارا باتیں کرنا تو بالکل ناقابل برداشت تھا ان کے لیے۔ایک دن باتوں، باتوں میں اس نے دادی کے سامنے کہہ دیا۔
’’ دیکھنا! ایک دن میں دولت اور شہرت حاصل کر کے رہوں گی‘‘
’’ پتر اسی دن سکون رخصت ہوجائے گا کیونکہ دولت، شہرت اور سکون کبھی ایک جگہ نہیں رہ سکتے‘‘۔
دادی نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی کہ دولت اور شہرت مل جائیں تو سکون خود بخود آجاتا ہے۔
ان دنوں میں فرسٹ ایر کے پرچے دے کر فارغ تھی جب امی نے مجھے گاؤں جانے کی اجازت دے دی۔
گاؤں پہنچی تو زینت نانی کے گھر کے سامنے میٹھے نلکے سے پانی کا گھڑا سر پر رکھے جارہی تھی۔مجھے ٹانگے سے اترتا دیکھا تو گھڑے سمیت تیز تیز قدموں سے چلتی میرے پاس آگئی، گھڑا زمین پر رکھا اور مجھ سے لپٹ گئی۔اس کے لمبے بال اب رنگین پراندے میں گندھے ہوئے تھے، سیاہ آنکھیں کاجل سے مزید سیاہ اور جادو بھری نظر آرہی تھیں، گلابی گال دہک رہے تھے دونوں ہاتھوں کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ نے ارد گرد کے ماحول کو بھی خوبصورت رنگ دے دیا تھا۔وہ مجھے ملی تو اس کے چہرے کی چمک اور شوخ مسکراہٹ سے مجھے لگا کہ وہ کسی اور ہی رنگ اور لے میں ہے۔شاید وہ مجھے کوئی خوشی کی بات بتانا چاہتی تھی۔
رات کو برتن دھو کر چھوٹے بہن بھائیوں کے بستر تیار کرکے چوڑیاں چھنکاتی وہ آئی تو اس کے پاس مجھے سنانے کے لیے کچھ نئی کہانیاں تھیں۔
اس کے پاس موجود کہانیوں میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کی پھوپھی زیتون نے اپنے بیٹے راحیل کے رشتے کے لیے زینت کے ابا سے بات کی تھی، تب زینت نے راحیل سے رابطہ کیا اور اس سے پوچھا
’’یہ پھوپھی کو تو نے بھیجا ہے رشتے کے لیے؟‘‘
’’ ہاں، میں نے بھیجا ہے….تو جانتی ہے کہ میں تجھ سے کتنا پیار کرتا ہوں،،راحیل نے جواب دیا
’’تو، تو پیار کرتا ہے، مان لیا….لیکن کیا میں بھی تجھ سے پیار کرتی ہوں؟‘‘
’’ تو، کیا تو مجھ سے پیار نہیں کرتی؟‘‘راحیل کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
’’پیار کرنا اور بات ہے، شادی کرنا اور ساتھ زندگی گزارنا اور بات ‘‘زینت نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا’’ میں صرف اس بندے سے شادی کروں گی جو مجھے میری مرضی کی زندگی گزارنے کا حق دے گا‘‘
’’ مثلاً تم کس قسم کی زندگی گزارنا چاہتی ہو؟‘‘راحیل نے جزبز ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ میں شادی کے بعد گاؤں میں نہیں رہوں گی، شہر میں رہوں گی اور ، ہمارے ساتھ ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں رہے گا‘‘۔
زینت نے فیصلہ کن انداز میں راحیل سے کہا۔
’’اور پھوپھی سے کہنا کہ یہ سب باتیں پہلے ہی ابا اور امی سے کر لیں گی، تا کہ بعد میں مسئلہ نہ ہو‘‘۔
زینت مجھے ساری کہانی مکالموں کے ساتھ سنارہی تھی اور میں حسب سابق منہ کھول کر اس کی باتیں سن رہی تھی۔
’’ یار، منہ تو بند کر لیا کرو…. یا منہ سے سن رہی ہو؟‘‘زینت نے ہاتھ بڑھا کر میری تھوڑی کو اوپر کر کے میرا منہ بند کیا۔
ہم دونوں ہم عمر تھیں لیکن اس کی سوچ اور اپنے مستقبل کے بارے میں پروگرام بہت پختہ اور ابہام سے پاک تھے۔اس کا ارادہ تھا کہ ٹی وی پر ماڈلنگ اور ڈراموں میں کام کرے گی اور خوب نام کمائے گی، دولت اور شہرت حاصل کرنا اس کا خواب تھا۔ وہ خوش شکل، پر اعتماد اور دُھن کی پکی تھی۔
ایک سال کےاندر، اندر اس کی شادی ہو گئی اور وہ کرائے کے گھر میں لاہور چلی گئی۔
ادھر میرا داخلہ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی میں ہوگیا۔نانا، نانی کی وفات کے بعد میرا گاؤں جانا بھی ختم ہوگیا۔
آخری سمسٹر کے آخری پرچے کے بعد ایک دن ٹی وی آن کیا تو ان دنوں کا مشہور ڈرامہ ’’تم میرے کون ہو‘‘آرہا تھا، اس میں ہیرو کی بہن کا کردار ادا کرنے والی لڑکی ہوبہو زینت جیسی تھی۔ڈرامے کی کاسٹ چیک کی تو اس کا نام’’ زینیا‘‘تھا۔ میں نے سوچا کہ آخرکار اس نے اپنا ہدف حاصل کر ہی لیا ۔
پھرایک دن ٹی، وی پر اس کا انٹرویو دیکھا۔
پیاری تو وہ پہلے ہی تھی اب سلم ہونےاور پرسنیلٹی گرومنگ کے کورس کرنے کے بعد اس کی شخصیت اور بھی نکھر گئی تھی۔پہلے وہ تو تڑاک سے بات کرتی تھی اب بہت ٹھہر ٹھہر کر بات کررہی تھی۔اس کی انگریزی سن کر لگتا نہیں تھا کہ وہ کسی پس ماندہ علاقے سے محض میٹرک تک پڑھی ہوئی لڑکی ہے۔
امی سے اس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہؤا کہ پھوپھی زیتون کے بیٹے سے شادی بمشکل ایک سال چل سکی تھی۔اس کے بعد اس نے خلع لے کر دوبارہ کسی ڈرامہ پروڈیوسر سے شادی کر لی تھی۔گاؤں کے ساتھ اس کا تعلق اب بالکل ختم ہو چکا تھا اس لیے مزید کچھ معلوم نہ ہوسکا۔
انہی دنوں میری شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔علی ابا کے دوست کے بیٹے تھے اور پولیس میں ایس۔پی تھے۔شادی کے بعد زندگی کچھ ایسی مصروف ہوئی کہ ٹی، وی، رسالے، فلم سب کچھ چھوٹ گیا۔وقتی طور پر زینت کی طرف سے بھی دھیان ہٹ گیا۔البتہ کئی مرتبہ سرسری نظر سے ٹی، وی دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی ڈرامے میں نظر آجاتی۔
ان ہی دنوں میں اس کی دوسری شادی بھی ٹوٹنے کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔لیکن ماڈلنگ اور ڈراموں میں وہ اب ایک نمبر کی فنکارہ مانی جاتی تھی۔
میرے بچے اب بڑے ہورہے تھے اور میرے پاس وقت ہوتا تھا تو اب میں نے گھرداری کے ساتھ ساتھ سماجی بھلائی کے کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا۔اسی سلسلے میں مہینے میں ایک یا دو دن ہمارا گروپ یتیم خانہ کا دورہ کرتا تھا۔وہ سردیوں کی شام تھی جب ہم یتیم خانہ پہنچے تو وہاں مجھے زینت بلکہ زینیَا نظر آئی۔جب وہ اپنی بڑی سی گاڑی سے اتری تو بغیر میک اپ کے اس کی آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے تھے، ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں گھنے بالوں کی بجائے بالوں کے اندر سے سر کی کھال دکھائی دے رہی تھی، ڈراموں میں نازک اور سمارٹ دکھائی دینے والی زینیا کی اصل حالت دیکھ کر مجھے دلی صدمہ ہؤا۔اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ جب وہ گاڑی سے نکلی تو ہم بالکل آمنے سامنے تھیں۔مجھے تو اس سے بالکل اجنبیت محسوس ہی نہیں ہوئی اور اس نے بھی اسی وقت مجھے پہچان لیا۔
مجھے محسوس ہؤا کہ آج بھی مجھے دیکھ کر وہ اپنی ساری کہانیاں مجھے سنانا چاہتی ہے۔اس وقت میں اپنے گروپ کے ساتھ تھی اس لیے اسے اپنا فون نمبر دے دیا تا کہ گھر پہنچنے کے بعد رابطہ کرسکے۔
یتیم خانے کے بچے اسے دیکھ کر اس کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ کوئی اس سے کہانیوں والی کتاب کا پوچھ رہا تھا، کسی کو اپنی ویڈیو گیم کا انتظار تھا، کسی کو ٹافیاں چاہیے تھیں تو کسی کو برانڈڈ سوئٹر یا کپڑے۔
اس کا ڈرائیور بڑے بڑے شاپنگ بیگ لے کر آیا تو اس نے سب بچوں کو چیزیں دینی شروع کر دیں۔دو کم سن بچے اپنے گفٹس لے کر اس کا منہ چوم کر بھاگ گئے۔بچوں کی خوشی اور تمتماہٹ دیکھ کر میری بھی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
گھر جاکر اس سے رابطہ کیاتو ہم نے ملنے کا پروگرام بنایا۔اگلے دن وہ گیارہ بجے کے قریب آئی تو آج بھی سادہ اور سنولایا ہؤا چہرہ تھا۔وہ کسی طور بھی اداکارہ نہیں لگ رہی تھی بلکہ ظاہری حلیہ میں، میں اس سے بہتر لگ رہی تھی۔
ہم لوگ ظہر تک باتیں کرتے رہے۔وہ بار، بار اپنے والدین کو، امی کی ڈانٹوں کو باقی گھروالوں کو یاد کر کے رو رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ میری دادی کو بھی یاد کررہی تھی۔
باتیں کرتے ہوئے وہ غیرارادی طور پر جھٹکے لے رہی تھی۔ ہاتھوں کو بلا ضرورت ہلارہی تھی شاید وہ کوئی نشہ کرنے کی عادی ہوچکی تھی۔باتوں باتوں میں کہنے لگی۔
’’اب میں سوچتی ہوں کہ تمہاری دادی کی ساری باتیں ٹھیک تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ بہادری اور فراخ دلی مرد کی خوبیاں ہیں جب کہ یہ عورت کی خامیاں ہیں۔کاش میں بزدل ہوتی ۔ جس دن میں نے پروڈیوسر سے رات کو ملنے کے لیے گھر سے قدم نکالا تھا وہ نکالتے ہوئے مجھے خوف آجاتا‘‘۔
زینیا بلاوجہ ہوا میں ہاتھ ہلاتے ہوئے بول رہی تھی۔
’’آج میرے پاس دولت اور شہرت ہے لیکن اب مجھے تمہاری دادی کی بات یاد آتی ہے کہ جہاں دولت اور شہرت آجائے وہاں سے سکون رخصت ہوجاتا ہے‘‘۔
مجھ سے اس نے باربار دعا کا کہا کہ اللہ اسے ذہنی سکون دے دے۔
ذہنی سکون کے لیے وہ کھانا پکا کر مدرسہ کے بچوں میں خود جا کر بانٹتی ہے، کبھی یتیم بچوں کے پاس دن گزارتی ہے اور ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے کے بعد ان کی خوشی کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ یہ سب مانگے کی خوشیاں ہیں۔اصل خوشی اپنا گھر، اپنے بچے اور اچھا شوہر ہے۔عورت تو فطری طور پر ماں ہوتی ہے اس لیے چار سال کی عمر سے گھر بناکر گڑیا کے ساتھ کھیلتی ہے۔لیکن جب بھی فطرت کے خلاف جاتی ہے تو پھر سکون ڈھونڈنے کے لیے کبھی مدرسوں میں جاتی ہے، کبھی پارٹیوں میں ، اور کبھی نشوں میں ملوث ہوجاتی ہے۔
٭ ٭ ٭