ذیابیطس جسم میں انسو لین کی کمی یا انسو لین کے عمل کے خلاف جسم کی مدافعت(Resistance) کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے ۔ یہ بیماری آج دنیا میں ایک عالمی وبا کے طور پر پھیل رہی ہے ۔اسی لیے ہر سال ایک دن (14نومبر) ذیابیطس کا عالمی دن منایاجاتا ہے تاکہ اس مرض کے بارے میںدنیا بھر میں آگاہی پھیلائی جائے ۔جدید دنیا میں تیزی سے آتی ہوئی تبدیلیوں کی وجہ سے اس کی شرح بہت تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے ۔ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں یہ بیماری کثرت سے پائی جاتی ہے ۔ اس وقت پاکستان اس لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے اور اگر اسی طرح یہ بیماری بڑھتی رہی تو امکان ہے کہ یہ دنیا کا چوتھا ملک ہوگا جہاں اس بیماری کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔
متعدد رپورٹوں کے مطابق ہر 10میں سے ایک شخص اس مرض کا شکار ہے یعنی 10فیصد اور کہیں یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے ۔ شہری خواتین میں یہ مرض زیادہ ہے اور اب یہ نسبتاً کم عمر کے افراد میں بھی پایا جا رہا ہے ۔ ذیابیطس کے ہر خلیے ، ہر عضو پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوتاہے ۔ خاص طور پر گردے ، خون کی نالیاں ، دماغ، دل ، جگر ، آنکھیں اس سے متاثر ہوتی ہیں اورہر طرح کی انفیکشن کا تناسب بڑھ جاتا ہے ۔ خون میں شوگر کا تناسب جتنا نارمل سے زیادہ ہوتا جائے گا ، اتنا ہی یہ جسم متاثر کرتا جائے گا ۔عارضہ قلب، فالج ، گردوں کا فیل ہونا ، آنکھ کی بینائی کا ضائع ہونا ، تپ دق وغیرہ کا تناسب شوگر کے مریضوں میں کہیں زیادہ ہو جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے جسم کا نظام ایسا رکھا ہے کہ شوگر کامرض ہونے سے بہت پہلے جسم میں کچھ ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن سے مرض کے امکان کا پتہ چلایا جا سکتا ہے اور اگر اس وقت حفاظتی تدابیر اختیار کرلی جائیں تو اس مرض کو ہونے سے روکا جا سکتا ہے ۔ اس کیفیت کو Pre Diabetesکہا جاتا ہے ۔
ذیابیطس کی وہ قسم جو بالکل بچپن میں ظہور پذیر ہوتی ہے یعنی Type-1 اس کا علاج تو فی الحال انسو لین ہی ہے ، جس کی اس مرض میں شدید کمی ہوتی ہے لیکن دوسری قسم جو جوانی میں یا اس کے بعد ظہور پذیر ہوتی ہے ( اب یہ کم عمر میں بھی ہو رہی ہے ) یعنی Type-2 ،اس میں موروثی اثرات کے ساتھ ماحول ( غذا اور ورزش وغیرہ) کے اثرات بہت اہم ہوتے ہیں ۔ اگر ان اثرات پر قابو پایا جا سکے تو موروثی اثرات بھی دب سکتے ہیںاور انسان اس بیماری سے بچ سکتا ہے ۔
رپورٹوں سے واضح ہوتا ہے کہ خون میں شوگر کی مقدار جتنا نارمل کے قریب اور اس کی کم سطح پر ہو اتنا ہی آئندہ شوگر ہونے کا امکان بھی کم ہوگا۔
اگر خالی پیٹ شوگر 126mgیا اس سے زیادہ ہو تو یہ واضح طور پر ذیابیطس کی علامت ہے اگر خالی پیٹ شوگر 110-125mg ہو تو یہ Pre Diabetes کہلاتی ہے (WHOکے مطابق ) بعض جگہ پر 100یا اس سے زیادہ بھی اس میں شامل ہے۔
اگر کھانے کے 2گھنٹے بعد کی شوگر 200mgیا اس سے زیادہ ہو تو واضح طور پر ذیابیطس ہے اگر یہ مقدار 140-199mgہو تو یہ Pre Diabetes کہلاتی ہے ۔
ذیابیطس کا سبب بنے والے کچھ عوامل تو ایسے ہیں جن کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ انہیں Un- modifiable Risk Factorsکہا جاتا ہے ، مثلاً موروثیت ، جنس ، عمر ، مقامیت، خاندان میں ذیابیطس کا ہونا البتہ بہت سے ایسے عوام ہیں جو تبدیل ہو سکتے ہیں ، مثلاً وزن کا زیادہ ہونا موٹاپا ، کمر کاناپ زیادہ ہونا ۔ غیر متوازن غذا ، جس میں خوراک میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہونا ، چینی کا استعمال، میٹھے مشروبات Refined Sugar(غیر ریشہ دار نشاستہ) اور مطلوبہ اجزاء کی کمی مثلاً ریشہ دار غذائوں ( بغیر چھنے ہوئے آٹا ، دلیہ ، سبزیاں ، پھل ) دالیں ، ان کی کمی ، مناسب جسمانی ورزش کا م سیر کی کمی۔
بچپن میں یا پیدائش کے وقت مناسب خوراک کی کمی بھی شوگر کاباعث بن سکتی ہے ۔ اسی لیے وہ مائیں جو غذائی قلت کا شکار ہوں ، ان کے بچے، خصوصاً وہ جن کا وزن پیدائش کے وقت مطلوب درجے سے کم ہو، وہ بھی ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔
اسی طرح تمباکو نوشی بھی اس مرض کا باعث بن سکتی ہے خوش قسمتی سے ، یہ تمام عوامل ایسے ہیں جن سے اپنے ارادے کی قوت اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بچا جا سکتا ہے ۔ اب سے کچھ دہائیوں پہلے جب لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے عادی تھے اور میلوں چلا کرتے تھے اور خالص ، قدرتی غذائیں کھاتے تھے توان میں یہ بیماری بہت کم تھی یا کنٹرول میں تھی۔
مغربی ممالک میںجب خوشحالی کے ساتھ ، فاسٹ فوڈ اور میٹھے مشروبات کی صنعت پروان چڑھی تو شوگر، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریاں بھی ساتھ لائی ۔ چنانچہ باشعور ، تعلیم یافتہ طبقے میں قدرتی غذائوں ، قدرتی علاج ، سیر اور ورزش کی عادتیں فروغ پائیں اور بہت سی جگہ پر باقاعدہ طور پر ریشے دار غذائوں کی صنعت کو پروان چڑھایا گیا ۔ اس کے نتیجے میں ان بیماریوں کی روک تھام نظر آنے لگی البتہ ترقی پذیر ممالک میں ، جہاں خودی کا احساس ماند پڑ رہا تھا ، اپنی اچھی روایات کو چھوڑ کر ، ہر طبقے میں صحت کے لیے مضریہ تمام اجزا فروغ پانے لگے اور کسی حد تک نا سمجھی کی بنا پر اچھے معیار زندگی کی علامت بن گئے۔شہری آبادی کی نسبت دیہاتوں میں یہ رحجان کم تھا مگر دیکھا دیکھی اور بہت سے لوگوں کے شہروںمیں آکر آباد ہونے سے اُن میں یہ اثرات آگئے جو یقینا مضر تھے۔
اب بھی اگر ہم اس بات کو سمجھیں ، اپنی اصل کی طرف لوٹیں ، قرآن و سنت کے طرز زندگی کو اپنائیں ، محنت سے جی نہ چرائیں ، سادہ متوازن اور قدرتی غذا استعمال کریں اورشوگر کا ٹیسٹ بھی کراتے رہیں خصوصاً اگر ذیابیطس کا سبب بننے والے کوئی بھی عوامل موجود ہیں ، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس مرض کا شکار ہوں ہمارے پیارے نبی ؐ نے ہمیں کچھ بھوک رکھ کر کھانا کھانے ، معدے کو ایک تہائی پانی ، ایک تہائی کھانا اور ایک تہائی خالی رکھنے کی جو بیش بہا ہدایات دی تھیں ان پر عمل پیرا ہوں اپنی تقریبات ، گھروں میں ان کو رائج کریں تو یقینا ذیابیطس اور اس جیسی بہت سے بیماریوں سے بچ سکتے ہیں ۔ ان شاء اللہ۔
ڈاکٹر فلزہ آفاق
٭…٭…٭