’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا : جس آدمی نے کسی مومن کی دنیا کی تکلیف میں سے ایک تکلیف کو دور کردیا اللہ تعالیٰ اُس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے ایک تکلیف کو دور کردے گا اور جس آدمی نے کسی مصیبت میں گرفتار آدمی کے ساتھ آسانی کا معاملہ کیا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرمائیں گے اور جس آدمی نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی ۔ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا ۔ جب تک کوئی آدمی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ بھی اس کا مدد گار رہتا ہے اور جو آدمی حصول علم کے لیے سفر اختیارکرتا ہے اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کے درس و تدریس کا اہتمام کرتے ہیں ، تو لازماً ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بارگاہ فرشتوں میں ان کا تذکرہ کرتا ہے ۔ اور جو آدمی عمل میں سست ہؤا تو اس کا حسب نسب اس کو کچھ فائدہ نہیں دے گا ۔(مسلم صفحہ۳۴۵، جلد ۲)
پہلا حصہ
حدیث کا پہلا حصہ یہ واضح کرتا ہے کہ خدمت خلق بہت بڑی عبادت ہے اور اس عبادت کا ثواب بعض اوقات معروف عبادت سے بڑھ جاتا ہے ۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کی دنیا کی تکالیف میں سے ایک تکلیف کو دور کردے تو اللہ اس کی قیامت کی تکالیف میں سے ایک تکلیف کو دور کر دیں گے اور جو کسی مسلمان بھائی کی تنگی میں سہولت کا سامان کرے، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی مہیا فرماتے ہیں۔
اس مضمون کی بہت سی حدیثیں صحاح ستہ میں موجود ہیں ۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا:
’’ جس نے اللہ کی خاطر کسی مسلمان کے لیے راحت کا سامان کیا ، اللہ اس کی قیامت کی لغزشوں میں راحت کا سامان کریں گے ‘‘ ۔ (ترمذی)
’’ بے شک اللہ اپنے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے ‘‘۔ (صحیحین)
اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
’’جو لوگ لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں اللہ بھی انہیں عذاب دیتا ہے ‘‘۔(مسند احمد)
ان احادیث کی بنیاد پر بلا خوف و خطر یہ کہنا پڑتا ہے ’’ آدمیت احترام آدمی ‘‘ کہ انسانوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا بڑا مقام اوردرجہ ہے ۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ حقوق اللہ میں شامل ہیں ۔ ان پر کاربند رہنے والوں کا بڑا مقام اور مرتبہ ہے، مگر حقوق العبادکے ناطے سے انسانوں کے کام آنا، ان کی خدمت کرنا ، ان کی سہولت کا سامان مہیا کرنا ، ان کو ضروریات زندگی مہیا کرنا اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا بڑی فضیلت کا باعث ہے ۔ آجکل اس چیز کی معاشرے میں بڑی کمی پائی جاتی ہے ۔ کسی کو زکوٰۃ دے دینا ، کسی کو صدقہ و خیرات سے نواز دینا ، یہ کام بڑا آسان ہے ، مگر کھانا کھلانا ، پانی سے کسی کی تواضع کرنا، مہمان داری و مہمان نوازی سے پیش آنا اس دور میں کمیاب و نایاب ہوتا جا رہا ہے ۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا :
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
جس نے کسی مومن کو بھوک میں کھانا کھلایا ، اللہ قیامت کے دن اسے جنت کے پھل کھلائے گا ، جس نے پیاس کے عالم میں کسی مومن کو پانی پلایا، اللہ قیامت کے دن خالص مہر بند شراب اسے پلائے گا اور جس نے کسی مومن کو عریانی میں لباس پہنایا ، اللہ جنت کے سبز ریشم کا لباس اسے پہنائے گا ‘‘۔
حدیث میں آتا ہے کہ ’’ اہل جنت سے ایک آدمی قیامت کے دن دوزخ والوں کو جھانک کر دیکھے گا اور ایک دوزخی کو پکار کر کہےگا ، کیا تم مجھے پہچانتے ہو ؟ وہ کہے گا اللہ کی قسم میں تمہیں نہیں جانتا ، جنتی کہے گا کہ ایک دفعہ دنیا میں میں تیرے پاس سے گزرا تھا اور میں نے تجھ سے پانی کا گھونٹ مانگا تھا اور تو نے مجھے پانی پلایا تھا ، دوزخی کہے گا اب میں تجھے جان گیا ہوں ۔ پس تو اللہ سے میری سفارش کر ، پھر وہ اللہ سے سفارش کرے گا اور اللہ اس کی سفارش قبول کرتے ہوئے اسے دوزخ سے نکالنے کاحکم فرمائے گا ‘‘۔(بیہقی)
اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پانی پلانے کا ثواب ایک انسان کو دوزخ سے جنت میں لے جانے کا سبب بن جاتا ہے ۔
اسی طرح رسول اکرم ؐ نے فرمایا : جو کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے ، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخر میں اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے ۔ رسول اکرم ؐ کی بعض دوسری احادیث میں اور تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ جو آدمی اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے ۔ اللہ آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور جو اپنے مسلمان بھائی کے عیبوںسے پردہ اٹھائے ، اللہ اس کے عیبوں کو کھول دیتا ہے ۔حتیٰ کہ اس کے گھر میں اس کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے (ابن ماجہ ۔ احمد ۔ ابو دائود)
پس جان لینا چاہیے کہ کسی مسلمان بھائی کی پردہ دری کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی طرف سے یہ سزا مرتب ہوتی ہے کہ انسان کے اپنے عیبوں سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی کا باعث بنتا ہے ۔
دوسرا حصہ
اس حدیث کے اگلے حصے میں خدمت خلق کے انعام کو اس طرح واضح فرمایا کہ جو آدمی کسی مسلمان بھائی کے کام میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے ، اللہ ہمیشہ ایسے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے ۔ اس سلسلے میں بھی رسول اکرم ؐ کی متعد احادیث وار د ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ(بخاری ،مسلم)اس سلسلے میں صحابہ کرام ؓکے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ کس طریقے سے وہ اللہ کے بندوں کے کام آتے تھے ؟ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک قبیلے کی بکریوں کا دودھ دوھیا کرتے تھے ۔ جب وہ خلیفہ بن گئے تو ایک لڑکی نے کہا اب ہماری بکریوں کا دودھ کون دوھے گا ۔ حضرت ابو بکر ؓ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا:
’’ میں ہی بکریوں کا دودھ نکالا کروں گا اور میری یہ تمنا ہے کہ خلافت سے پہلے جو کام کرتا رہا ہوں ، اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آنے پائے ‘‘۔( مسند احمد)
حضرت عمر ؓ راتوں کو جاگ جاگ کر رعایا کے حالات جانچا کرتے تھے ، گویا یہ بھی خدمت خلق کا اک بہانہ تھا بیوہ عورتوں کا پانی رات کو بھرا کرتے تھے اور ان کو ضروریات زندگی بہم پہنچانا انہوں نے اپنا شیوہ بنا رکھا تھا ۔ حضرت طلحہؓاس عورت کے گھر گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھی اور نابینا عورت ہے ، جو چار پائی سے لگ گئی ہے ، حضرت طلحہؓنے اس عورت سے پوچھا کہ جو آدمی رات کو تمہارے ہاں آتا ہے وہ کیا کرتا ہے ؟ اُس بڑھیا نے کہا بڑی مدت سے وہ آدمی میرے ہاں آ رہا ہے اور ہر وہ کام کرتا ہے جومیرے لیے باعث راحت ہو اور میری تکلیفوں کو دور کرے۔
حضرت طلحہؓ نے اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا’’ ابو طلحہ تمہاری ماں تمہیں گم کردے کیا تم عمرؓ کے عیب تلاش کرتے ہو؟‘‘
رسول اکرمؐ کے ان ساتھیوں کا خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہونا اور ہماری بے عملی ، عرب و عجم کے فرمان روا ہونے کے باوجود بھی یتیموں ، مسکینوں کی غم خواری اور چارہ سازی وہی کر سکتا ہے جسے رسول اکرم کا یہ فرمان یاد ہو کہ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيه ِشاعر نے بڑی خوبصورت بات کہی۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یہ جو ہم نے کہا کہ خدمت خلق بہت بڑی عبادت ہے اور بعض اوقات اس کا اجر و ثواب معروف عبادت سے بڑھ جاتا ہے ۔ یہ اپنی طرف سے نہیں کہی ۔ بخاری اور مسلم میں ہے ۔’’ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ ہم رسول اکرم ؐ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ہم میں سے کچھ روزے دار تھے ، کچھ غیر روزہ دار ، ایک سخت گرمی کے دن ہم ایک منزل پر ٹھہرے ۔ روزہ دار نڈھال ہو کر گر پڑے ، غیر روزہ دار ان روزہ داروں کے کام آئے ۔ انہوں نے خیمے لگائے ، جانوروں کو پانی پلایا، رسول اکرم ؐ نے فرمایا :
’’ آج غیر روزہ دار اجر میں سبقت لے گئے ‘‘۔(صحیحین)
آخری حصہ
حدیث کے آخری حصے میں جو بات رسول اکرم ؐ نے فرمائی وہ فضیلت علم کے بارے میں ہے ۔ حصول علم کی فضیلت یہ بیان فرمائی کہ اس سے جنت کا راستہ آسان ہوجاتا ہے ۔
آپؐ نے فرمایا ’’ جو حصول علم کے لیے نکل کھڑا ہو ٔا، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان بنا دیتے ہیں ۔ اگر حقیقی طور پر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اپنی جگہ برحق ہے کہ حصول علم کے لیے انسان علماء کی محفل میں بیٹھتا ہے ۔ جوں جوں اسے علم حاصل ہوتا ہے ، جہالت اس سے دور ہوتی ہے کیونکہ علم در اصل قرآن و سنت کے فہم کا نام ہے ۔ علم سے انسان عمل کے راستے پر گامزن ہوتا ہے اور عمل در اصل حصول جنت کا راستہ بن جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(القمر:۱۷)
وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى(مریم : ۷۶)
حصول علم اور فضیلت علم کے بارے میں روایات کا احاطہ بہت مشکل ہے ۔
ترجمہ’’روئے ارض پر علما کا وجود آسمان کے ستاروں کی مانند ہے جن کے ذریعے سے بحرو بر کے اندھیروں میں لوگ راستوں کا تعین کرتے ہیں اور جب تارے غروب ہو جائیں تو مسافروں کے بھٹک جانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ جب تک زمین پر علم باقی ہے لوگ اس سے ہدایت حاصل کرتے رہتے ہیں ‘‘۔مسند احمد) شاعر نے سچ کہا :
سرخ رو آفاق میں وہ رہ نما مینار ہیں
روشنی سے جن کی ملاحوں کےبیڑے پار ہیں
ایک مرتبہ آپ ؐ نے فرمایا کہ علم ختم ہو جائے گا ۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اللہ کے نبی ؐ علم کیسے ختم ہو گا ؟ جب کہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور اسے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں تک پہنچایا ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا :
’’ انجیل یہود و نصاریٰ کے پاس موجود تو ہے لیکن یہ انہیں کچھ فائدہ نہیں دیتی ‘‘۔(صحیحین)
اس کا معنی یہ ہے کہ علم کا اٹھ جانا در اصل علما کے وجود کا مٹ جانا ہے اور جب اہل علم اٹھ جائیں تو لوگ گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ :
’’ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک روئے ارض پر ایک شخص بھی اللہ اللہ کہنے والا ہوگا ‘‘(مسلم ، کتاب الایمان)
رسول اکرم ؐ نے ساتھ ہی الہٰ علم پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا بھی تفصیلی ذکر فرمایا کہ ’’ جو لوگ اللہ کے گھروں میں بیٹھ کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کی درس و تدریس میں مشغول رہتے ہیں لازماً ان پر اللہ کی طرف سے سکون اور اطمینان کی دولت نازل ہوتی ہے ۔اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان کا تذکرہ اپنی بارگاہ کے مقرب فرشتوں میں فرماتے ہیں ‘‘۔
یہاں بھی قرآن مجید کی مساجد میں بیٹھ کر تدریس کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ بخاری شریف میں حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے ۔
’’ تم میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو قرآن مجید کو سیکھتا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے ‘‘۔(بخاری)
آخری بات رسول اکرم ؐ نے یہ فرمائی کہ جس انسان کا عمل سست ہؤا تو اس کا حسب نسب آگے نہ بڑھ سکے گا ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ صرف اور صرف انسان کے عمل کو دیکھتا ہے ۔ ایک حدیث کا تذکرہ پہلے آچکا ہے جو اس جملے کا مفہوم واضح کرتی ہے ۔
’’ کہ اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے ‘‘۔(مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ)
حسب نسب کے اعتبار سے کوئی انسان کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو، مال ودولت کے اعتبار سے کسی کی شان کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو ، شکل و صورت اورحسن و جمال کے اعتبار سے کوئی انسان کتنا ہی معزز کیوں نہ ہو، اگر اس کے اعمال اچھے نہیں تو اس کا حسب نسب، اس کا مال اور اس کا جمال اسے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا ۔
قرآن نے دریا کوکوزے میں یوں بند کردیا :
اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۔(الحجرات۱۳)
’’ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے مکرم اور معزز انسان وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے ‘‘۔
رسول اکرم ؐ کی متعدد احادیث اس مفہوم کو بیان کرتی ہیں ۔
’’ بے شک میرے اہل بیت سمجھتے ہیں کہ وہ میرے سب سے زیادہ قریبی ہیں حالانکہ حقیقت اس طرح نہیں ہے در حقیقت تم میں سے میرے سب سے قریبی متقی لوگ ہیںوہ جو بھی اور جہاں کہیں بھی ہوں ‘‘۔ (رنگ ، نسل اور خطہ زمین کا کوئی امتیاز نہیں )(طبرانی ، مستدرک حاکم مسند احمد)
’’ فلاں بن فلاں میرے قریبی نہیں ہیں ، میرا قریبی تو اللہ اور مومنین صالحین ہی ہیں ‘‘۔
موازنے کے لیے ابو لہب کو سامنے رکھو جو رسول اکرمؐ کا سگا چچا تھا ۔ حسب نسب کے اعتبار سے مکہ کا مانا ہؤا سرمایہ دار تھا ۔ خوبصورتی اور حسن و جمال کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ ابو لہب اس کا لقب اسی لیے پڑ گیا تھا کہ اس کے سفید رخساروں میں خون کی لاٹیں پھوٹتی تھیں مگر رسول اکرم ؐ کا دشمن اور نا فرمان تھا ۔ جب شان رسول ؐ میں گستاخی کا مرتکب ہؤا تو اللہ کا یہ فرمان نازل ہؤا:۔
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّتَبَّ(الہب:۱)
’’ ابی لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی تباہ و برباد ہو ٔا‘‘۔
گویا اس کے اونچے نسب نے اسے کچھ فائدہ نہ دیا ۔ جو مالدار ہونے پر اسے فخر تھا اور وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا ۔یَحْسَبُ اَنَّ مَالَه اَخْلَدَهٗ۔ترجمہ:’’ جسے یہ گمان تھا کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ و پائندہ رکھے گا ، اللہ کا فرمان نازل ہؤا:
مَا أَغْنَٰىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ
ترجمہ:’’ اس کے مال نے اور جو کچھ اس نے کمایا ، اس کے کسی کام نہ آیا ‘‘۔
اس کی خوبصورتی نے اسے جہنم کا ایندھن بنا دیا ۔ اس کے مقابلے پر حضرت بلال حبشی ؓ کو دیکھو ۔ حسب و نسب کا کچھ علم نہیں ، حبشی زادہ سوق عکاظ میں غلام بن کے بکا ۔ موٹے ہونٹ ، رنگ کالا کلوٹا ، ہئیت کذائی پر غور کرو تو اچھا بھلا انسان خوف کھانے لگے مگر شمع رسالت نے سینے کو ایسا منور کیا کہ ہر بن موایمان و آگہی سےمعمور ہؤا اور اللہ احد ، اللہ احد کی صدائوں سے فضائیں معمور ہوئیں ۔ مقام اور مرتبہ یہ ملا کہ رسول اکرم ؐ کا موذن ٹھہرا ،خدمت اقدس کی حاضری کی وہ سعادت نصیب ہوئی کہ ابو بکر ؓ، عمر ؓ سید نا بلالؓ کہہ کے پکارتے تھے ۔
قسمت کی پرواز دیکھیے رسول اکرمؐ معراج پر تشریف لے جاتے ہیں، سیر جنت میں ایک آدمی کے پائوں کی آہٹ سنی ، جبریل ؑ سے پوچھا کون ہے ؟ عرض کیا گیا آپ کا خادم بلالؓ ہے جو جنت میں جوتوں سمیت سیر کر رہا ہے ۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
(حوالہ :شرح اربعین نووی۔ ترجمہ و تشریح: پروفیسر چوہدری عبد الحفیظ، پروفیسر ملک ظفر اقبال)
٭ ٭ ٭