This Content Is Only For Subscribers
دادی جان کے ماہانہ معمولات میں سےتھا ایک دن بچوں کی دعوت کیا کرتیں۔ایک نمکین اور ایک میٹھی ڈش بنا کرتی۔ دادا جان کو یہ شور شرابہ اور معمول پسند نہ تھا ۔ایک دن عجیب معاملہ ہؤا۔ صبح اٹھتے ہی کہنے لگے۔ آج بچوں کی دعوت کر لیتے ہیں ۔سبھی حیران ہوئے آج سورج کہاں سے نکلا ہے۔
کہنے لگےرات کو عجیب خواب دیکھا۔ بہت سے بچے دعوت کے لیے آئے ہیں۔ واپسی میں ان کے ہاتھوں میں برتن ہیں۔میں بچوں کے برتنوں میں جھانکتاہوں۔ ان میں سے کسی میں کیڑے مکوڑے کسی میں سانپ، بچھو اور کسی میں عجیب و غریب مخلوقات ہیں۔ڈر سے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
ہم کم ظرف لوگ آنکھوں دیکھی کو حاصل اور حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔کسی کی معاونت احسان سمجھ کر کرتے ہیں۔خبر نہیں کہ اصل محسن وہ ہیں۔جو کئی بلاؤں سے آڑ بنے ہوتے ہیں ۔مصائب سےبچاؤ کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ایک ہاتھ سے دینے والے جانتے نہیں کہ ان کے رب کے پیمانے اور ہی ہیں۔اس کی عطا کردہ خیر بے بہا بارش کی صورت ہر سمت برستی ہے۔
ایک دن کہیں سے راشن آیا۔میری کوشش ہوتی ہےحقدار کو حق فوراً پہنچے۔بیٹے سے سامان اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔میں بھی ساتھ ہو لی۔جیسے ہی دروازہ کھلا سامنے سب بچے ہاتھ اٹھائے اللہ سے کچھ مانگنے میں مصروف تھے۔مخل ہونا مناسب نہیں سمجھا ۔دروازے سےہی سامان دے کر واپس پلٹ آئی ۔
بعد میں خاتون خانہ نے میری چھوٹی بہن سے کہا،میرا رب بچوں کی دعائیں اتنی جلدی سنتا ہے اندازہ نہ تھا ۔جس دن تمھاری باجی راشن لائی گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔بچے بھوک سے رونے لگے تو ان کےوالد نے کہا،روتے کیوں ہو آؤ اللہ سے مانگتے ہیں۔ایسے وقت راشن کا پہنچنا کہ اٹھے ہاتھ جھکے بھی نہ ہوں ،ایک معجزہ ہی تھا۔اللہ ربی نے ہمارے یقین کو مزید بڑھا دیا اور معصوم ہاتھوں کا مانگا رزق خود چل کر آیا۔
اور میں سوچ رہی تھی راشن بھیجنے والا نہیں جانتا کہ اس رزق کو کس دعا کی قبولیت بنا کر یقین کا سبب بنایا گیا ہے۔کیا اس کے بدلے دینے والے کو نوازا نہ گیا ہوگا؟ کہاں ممکن ہے ۔
ایک ساتھی نے اپنے دس بچوں کے ساتھ تین یتیم بچیوں کو پالا۔ان کی تعلیم کے سلسلے میں مشورہ چاہ رہی تھیں کہ اب بچیاں بڑی ہیں اور میرے بیٹے ان کے محرم نہیں ۔ بچیاں محنتی اور ذہین ہیں۔ کچھ ایسا بندوبست ہو کہ اعلیٰ تعلیم کسی تربیتی ماحول میں حاصل کریں۔ ان سے رازدارانہ پوچھااس دور میں اتنا حوصلہ کہاں سے پایا ؟کہنے لگیں حوصلے کی کیا بات، یہی تینوں تو گھر کی برکت ہیں، انھیں کے سبب سے ہم نوازے جاتے ہیں۔ جب ان بچیوں کو لائی تھی حالات بہت تنگ تھے۔ہم نے ان کی جگہ دل میں بنائی اور رب نے رزق کے دریا کو ہماری طرف موڑ دیا۔ اس سےانمول نسخہ ہاتھ لگا۔محنت ان کی تعلیم پر کی اور بچے میرے ٹیوٹر سے بے نیاز ہو گئے۔ بس پھر جو مجھے اپنے بچوں کے لیے چاہیے ہوتاان کو دیتی اور بدلے میں ملٹی پلائی ہو کر ملتا۔
وہ تو چلی گئیں اور میں سوچ رہی تھی یہ حوصلہ کہاں سے لائیں…..ہم دو اور دو چار کرنے والے!
اسی طرح دو تین سال پہلے کی بات ہے۔ایک دوست انتہائی پریشانی کی حالت میں آئیں ۔کہنے لگیں میرا گھر ٹوٹنے کو ہے ۔مجھے ایک ترکیب سوجھی ،اسے کہا صدقہ کرو۔اس نے پرس سے دس ہزار نکال کر دیے اور چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد میں اپنے بچوں کو ساتھ لیے ایک بیوہ کے کچن میں راشن رکھتے ہوئے اس بیوہ سے نگاہیں نہ ملا پا رہی تھی کہ ان
کاکچن خالی اورآٹا تک موجود نہ تھا۔بچے راشن دیکھ کر خوشی سے بے حال اور وہ اشاروں سے صبر کا کہہ رہی تھیں۔پتہ چلا ہفتے سے گھر میں پکنے کے لیے کچھ نہیں تھا ۔البتہ بارہ سالہ بچہ دکان پر کام کر کے واپسی پر آٹا لے آتا۔سوکھی روٹی پر گزارہ تھا۔آٹھ ننھے بچے اور ان کی ماں۔
وہاں سے نکلتے ہوئے میں نے اپنے بچوں سے کہا،چلو بچو! آج کھانا کھانے ہوٹل چلتے ہیں۔مجھ سےان معصوموں کی بھوک دیکھی نہیں جا رہی تھی، گھر جا کر کھانا بناتی تو خاصا وقت لگتا۔واپسی میں کھانے کے ساتھ سبزی،گوشت، فروٹ اوردیگر سامان لیتے آئے،بقیہ خاتون کے ہاتھ میں پکڑائے۔دس ہزار نے سب کچھ بدل ڈالا تھا۔بچے گویا خوشی کے آسمان پر تھے۔ بیوہ ماں بچوں کو دیکھتی دوپٹے سے بار بار آنسو پونچھتی تھی ۔
کتنا ہی عرصہ وہ منظر آنکھوں میں رہااور شرمندگی بھی سوا تھی۔ ہماری غفلت نے ایک خوددار ماں کی آزمائش کی انتہا کرڈالی تھی۔ دو دن بعد مذکورہ سہیلی مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ آئی۔اس کا کہنا تھاکمال ہو گیا۔سب کچھ لمحوں میں بدل جانا معجزہ ہی تو تھا۔
یہ تو دنیا کی بات تھی!
جو کچھ آخرت میں محفوظ ہؤا، تصور ممکن نہیں۔
دنیا میں مہنگی چیز کے لیے کم سے کم درجے کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے۔اسی لیے سونے کا حساب تولے اور ماشے میں اور پتھر کا ٹرک کے حساب سے ہوتا ہے۔مومن کے اعمال اتنے قیمتی ہیں کہ وہ ذرے میں تولے جائیں گے۔ اور اس کی ہلاکت بھی حد درجے بری کہ فرمایا۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۷۔۸)
ترجمہ:’’جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے گااسے بھی موجود پائے گا‘‘۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیکی تھوڑی سی بھی کارآمد ہے اور گناہ چھوٹا سا بھی وبال ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، رسول اللّٰہ ﷺنے ارشاد فرمایا’’بندہ کبھی اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بات کہتا ہے اور اُس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا(یعنی بعض باتیں انسان کے نزدیک نہایت معمولی ہوتی ہیں ) اللّٰہ تعالیٰ اُس (بات) کی وجہ سے اس کے بہت سے درجے بلند کرتا ہے اور کبھی اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بات کرتا ہے اور اُس کاخیال بھی نہیں کرتااِس(بات) کی وجہ سے جہنم میں گرتا ہے۔( بخاری، کتاب الرّقاق، باب حفظ اللسان، ۴ / ۲)
زندگی کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کے لیے جیے۔ابراہیم بن ادہم کی مثال فرشتے سے پوچھا کس کے نام لکھ رہے ہو؟جواب ملا اللہ سے محبت کرنے والوں کے،انھوں نے درخواست کی میرا نام اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والوں میں لکھ دو۔دوسرے دن فرشتے نے ان لوگوں کی فہرست دکھائی جن کو اللہ کی محبت عطا کی گئی تھی۔ابراہیم حیران رہ گئے کہ فہرست میں ان کا نام سب سے اوپر تھا۔
معلوم ہؤاکہ اللہ کو وہ لوگ محبوب ہیں جو اس کے بندوں کا خیال رکھتے ہیں۔صرف اپنےلیے جینا زندگی کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔اپنا مال اپنی طاقت، صلاحیت، اللہ کے لیے دوسروں پر خرچ کرنا کمال انسانیت ہے۔ارشاد ربانی ہے:
’ جو لو گ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے، جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘۔ ( البقرۃ : 261)
تاریخ گواہ ہے۔جو دوسروں کے لیے زندگی جیتے رہےوہ زندہ رہے،ان کا پیغام زندہ رہا۔انھیں برکت اللہ کے قا نون کے مطابق بے حساب ملتی رہی ۔ان کے نقوش روشنی کا سبب بنے رہے۔اور اپنے لیےجینے والے ہمیشہ کی موت مرگئے۔
٭ ٭ ٭