بلندیوں کا سفر
قبالا آذربائجان کا ایک تاریخی شہر ہے جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے منگول خان، تیمور لنگ اور ایسے کئی جنگجوؤں کے قدم اس زمین پر پڑے ہیں۔باکو سے قبالا کا بائی روڈ راستہ ساڑھے تین گھنٹے کا ہے لیکن جگہ جگہ اسپیڈ چیک اور ریڈار بورڈز نصب ہیں جس کی وجہ سے رفتار کبھی کم اور کبھی زیادہ رکھنی پڑتی ہے ۔پہاڑوں کے درمیان سطح مرتفع پر واقع وادیاں، وسیع سرسبز میدان اور چراگاہیں، کھیت، مویشیوں کے جھنڈ ، خوبصورت لکڑی سے بنے مکانات، سرائے ،ہوٹل ،دکانیں کہیں ملیں اور فیکٹریاں کہیں ہوائی چکیاں، سولر پلانٹ اور ان سب کے درمیان صاف ستھری بل کھاتی سڑک، کہیں دریائی راستوں پر پل بنائے گئے ہیں جہاں ابھی تو بالکل ہلکا سا پانی نظر آرہا تھا لیکن برف باری کے بعد یقینا ًیہ دریائی راستے پانی سے بھر جاتے ہوں گے۔
تقریباً دو ڈھائی گھنٹے چلنے کے بعد ایک جگہ گاڑی روک کر تھوڑی چہل قدمی کا فیصلہ کیا۔لکڑی کے تختوں کو جوڑ کر چھوٹی چھوٹی بیٹھکوں کی شکل میں قہوہ خانے پورے راستے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود تھے جنہیں مقامی لوگ ہی چلاتے ہیں، جو نہ صرف ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے بلکہ آذری لوگوں کی بے لوث مہمان نوازی کا بھی اظہار ہے۔
ایسے ہی ایک قہوہ خانے کے سامنے ہم نے گاڑی پارک کی۔لکڑی کی چھوٹی سی سیڑھی پر چڑھ کر اوپر آئے جہاں کرسی میز کا انتظام، اور ایک نوجوان اپنے گھر کے افراد کے ساتھ مسافروں کی خدمت کے لیے موجود تھا۔ پاکستانی خاندان کو دیکھ کر جو خوشی اور محبت اس کے چہرے پر نظر آرہی تھی وہ ہمیں خود بخود ایک اپنائیت کے احساس میں مبتلا کر رہی تھی۔ بھلا ہو ترکی ڈراموں کا کچھ الفاظ آذری کے ترکی سے ملتے ہیں لہٰذا بچوں نے اپنا تعارف کرایا اور اس سے اس کا تعارف بھی جان لیا۔ ہماری لشکری زبان کی اہمیت بھی ان ممالک میں جا کر محسوس ہوتی ہے کیونکہ عربی ترکی اور فارسی کے جو الفاظ ہماری اردو میں موجود ہیں ان کے ہاں کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں ۔ قہوہ کے ساتھ وہی جام رس بھری کی روایتاً پیش کی گئی۔ میاں صاحب نے روٹی لانے کا بھی کہا۔ دو خواتین جو غالبا ً ًاس لڑکے کی ماں اور دادی اماں تھی روٹیاں بنا رہی تھیں۔ روٹی کا سائز ہمارے ہاں کی چار روٹیوں کے برابر ہوتا ہے یعنی بہت بڑا، توا بھی بہت بڑا سا استعمال کیا جاتا ہے۔ روٹی آگئی مگر پلیٹ نہ تھی ،پلیٹ منگوائی تو اس لڑکے نے پرات کا لفظ استعمال کیا۔ اسی طرح قیمت کو بھی قیمت ہی کہا جاتا ہے۔
قہوہ وغیرہ پی کر تازہ دم ہوئے اور پھر آگے کی طرف سفر شروع ہؤا۔ قبالا میں ایک ریسٹ ہاؤس آن لائن بک کرایا ہؤا تھا ۔ دی گئی لوکیشن کے مطابق جب ہم مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی۔ ایک طرف بلند و بالا پہاڑ اور دوسری طرف خوبصورت کشادہ لکڑی سے بنے ون یونٹ گھر صاف ستھری چمکیلی سڑک کے ایک طرف لائن سے لگی ہوئی سٹریٹ لائٹس، یوں لگتا تھا کہ کسی خوابوں کے نگر میں آگئے ہیں۔ آہستہ آہستہ اگے بڑھتی ہوئی گاڑی آخر کار اپنے مطلوبہ ریسٹ ہاؤس کے سامنے آکر رک گئی لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔یہاں پہنچ کر معلوم ہؤا کہ ہم نے جو بکنگ کروائی تھی وہ فیک نکلی۔ اب کچھ پریشانی ہوئی کہ اب کیا ہوگا؟
دیار غیر میں اجنبیوں پر بھی بھروسہ کرنا پڑتا ہے ایک آذری صاحب جو اپنے اپ کو ریسٹ ہاؤسز کے مینجر کہہ رہے تھے اور انگریزی بھی جانتے تھے ہماری مدد کرتے ہوئے شہر کے مرکز کی طرف لے کر چلے اور ایک کاٹیج کے سامنے لا کر گاڑی روکی ۔کاٹیج کےمالک کو فون کر کے بلایا گیا، اندھیرا ہو چلا تھا دن بھر کے سب تھکے ہوئے تھے اجنبی جگہ پر مزید جگہ ڈھونڈنے کی مشق بھی نہیں کی جا سکتی تھی لہٰذا کچھ تھوڑی سی بارگیننگ کے بعد کرایہ طے پا گیا ۔
اس سے پہلے ریسٹ ہاؤس کا جائزہ لے لیا تھا۔ دو منزلہ لکڑی کی بنی عمارت، نچلی منزل پر بڑا سا کچن تمام لوازمات کے ساتھ اور ایک بڑا ڈائننگ اور لیونگ روم جبکہ بالائی منزل پر تین بیڈ رومز ہر قسم کی ضروریاتِ زندگی سے آراستہ و پیراستہ ۔گلاب کی کیاریوں سے سجا لان۔ بچے بڑے سب خوش اور مطمئن۔ بچپن میں کیلنڈر پر تصویروں میں ایسے گھر دیکھا کرتے تھے ۔چاروں طرف پہاڑ ، بلند و بالا درخت، سبزہ ہی سبزہ پھولوں سے بھرے باغیچے اور درمیان میں ایک لکڑی کا مکان۔ بے اختیار حضرت آسیہ کی دعا یاد آئی کہ رب ابن لی عندك بيتا ًفي الجنة۔ لیکن یہاں ایک مکان نہ تھا بلکہ ایک پوری آبادی تھی جس میں مقامی لوگوں کے گھر اور سیاحوں کے ریسٹ ہاؤس دونوں ملے جلے تھے۔ قبالا کے لوگ باکو شہر کے مقابلے میں سادہ اور دین سے قریب نظر آئے۔ جیسے ہی ہم گاڑی سے اترے دو بڑی عمر کی خواتین سڑک پر چہل قدمی کر رہی تھیں، ہمیں دیکھ کر رک گئیں، سلام کا تبادلہ ہؤا ۔انہوں نے اندازا ً ًکہا،’’عرب عرب؟‘‘ہم نے کہا ’’پاکستانی‘‘ فورا ًہاتھ سینے پہ رکھ کر خوشی کا اظہار کرنے لگی ۔
دور دراز پہاڑوں پر موجود شہر میں بھی صفائی ستھرائی کمال کی نظر آرہی تھی۔ رات گزار کر اگلے دن کا ارادہ ہمارا قفقاز کے پہاڑوں پر جانے کا تھا ۔یہ وہی پہاڑ ہیں جنہیں عرف عام میں کوہ قاف کہا جاتا ہے یہ ریسٹ ہاؤس چونکہ شہر کے مرکز میں تھا لہٰذا صبح نکلے تو قریب ہی دکانیں موجود تھیں ۔ ایک سینڈوچ والے سے ناشتے کے لیے سینڈوچ خریدے، قریب ہی روڈ کے دونوں طرف بڑے بڑے پارکس نظر آئے وہیں جا کر بیٹھ گئے۔
بچے سینڈ وچز سے انصاف کرنے لگے اور ہم میاں صاحب کے ساتھ باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے آگے بڑھے جہاں ایک ریسٹورنٹ کے باہر لگی میزوں پر قہوہ سروہو رہا تھا ۔بچے بوڑھے جوان سب ہی پارک میں نظرآرہے تھے ۔تین چار نوجوان لڑکے درختوں سے گرے ہوئے سوکھے پتے گھاس کے اوپر سے صاف کر رہے تھے انہیں دیکھ کر لگتا نہ تھا کہ یہ صفائی والے ہیں۔ یہاں بھی جگہ جگہ صنوبر کے درخت ہیں ۔
باغ کی جی بھر کر سیر کرنے کے بعد اب ہم اپنی اصلی منزل یعنی قبالا ہل اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گئے۔ پہاڑوں کے درمیان بنائے گئی ہموار اور سیدھی سڑک ہمیں تیزی سے مطلوبہ منزل کی طرف لے جا رہی تھی۔ جگہ جگہ خوبصورت ہوٹل ریسٹورنٹ تعمیر کیے گئے ہیں جو یہاں آنے والے سیاحوں کی بہترین میزبانی کرتے ہیں۔ قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے اور موبائل میں محفوظ کرتے بالآخر ہم کوہ قاف کے دامن میں پہنچ گئے۔ اس مقام کا نام جہاں پہاڑ کی بلندی پر جانے کے لیے چیئر لفٹ نصب کی گئی ہیں تفندق ہے۔ پہلے سیڑھیوں کے ذریعے ایک ہموار میدان میں جاتے ہیں جہاں بڑا سا ہوٹل ہے۔ مختلف کھانے پینے کی دکانیں اور چیئر لفٹ کے لیے ٹکٹ وغیرہ کے کیبن وہاں لوگوں کا ہجوم نظر آیا جن میں کچھ کھا پی رہے تھے تو کچھ مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ہم نے بھی ٹکٹ خریدے اور چیئر لفٹ کی بیلٹ کے قریب آ کر کھڑے ہو گئے ۔انہیں ایک ایک بند کیبن کی صورت میں بنایا گیا ہے ، اس میں چلتے چلتے ہی بیٹھنا ہوتا ہے جہاں آپ کو اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔آٹھ لوگوں کی ایک چیئر لفٹ میں گنجائش ہوتی ہے اور ہم چھے تھے۔ بس اہم چیز یہ تھی کہ یہ سب بروقت چلتی ہوئی چیئر لفٹ میں اس طرح چڑھیں کہ ایک ہی میں سب بیٹھ جائیں۔ بچوں کو سب سے زیادہ فکر ہماری تھی کہ امی یہ دوڑ بھاگ کیسے کریں گی۔ تاہم ہم نے بھی بچپن میں دوڑ کے بڑے مقابلے جیتے تھے بس اسی زعم میں چڑھ گئے۔
سفر شروع ہؤا ۔چیئر لفٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں پہاڑ کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف لے جایا جاتا ہے جو کہ زیادہ اونچا راستہ نہیں ہے بلکہ تقریباً افقی ہے۔ پھر اترنے کے بعد آپ کو آگے جانے والی چیئر لفٹ میں بیٹھنا ہوتا ہے جو پہاڑ کی اونچائی پر لے جاتی ہے ۔جب سابقہ مشق دہراتے ہوئے سب دوسری والی میں بھی کامیابی سے سوار ہو گئے تو اب بلندیوں کا سفر شروع ہوا۔ 45 ڈگری سے بھی زیادہ عمودی راستہ ،چاروں طرف گھنے جنگلات سے بھرے پہاڑ، ان پر سے گزرتے بادل، اور اب ہماری چیئر لفٹ بھی ان بادلوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ اف! دل میں خوف اور خوشی کے ملے جلے احساسات، زبان پر آیتوں کا ورد ،ہاتھ میں موبائل اور آنکھ ہر منظر کو سمو لینے کے لیے بےتاب… سبحان اللہ !رب تعالیٰ کا کرشمہ جمال، اس کی کاریگری ،اس کا جلال، اس کی رحمت، اس کی کبریائی کیا کچھ تھا یہاں …چیئر لفٹ اب مزید بلندیوں کی طرف جا رہی تھی ۔آخر کار آہستہ آہستہ بلندی کی جانب آخری اسٹیشن کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوئے اور اب ہم قفقاز کے پہاڑوں کے سب سے بلند مقام پر موجود تھے۔
وسیع سرسبز میدان درمیان میں ایک ہوٹل ،ایک طرف اسکائی ڈائیونگ کے لیے فریم نصب تھے جن سے رسیاں لٹک رہی تھیں اور چاروں طرف گھنا جنگل جسے لوہے کی جالیوں کی باڑ لگا کر بند کیا گیا تھا مبادا کوئی اس طرف آگے نہ نکل جائے اور کسی جنگلی جانور کا شکار ہو جائے زرد، سفید اور جامنی رنگ کے جنگلی پھولوں نے سبزے کو ڈھک رکھا تھا۔ ہمیں ولیم ورڈز ورڈ کی ڈیفوڈلز یاد آگئی۔
I wondered only as a cloud
That floats on high over vales and hills
When all at once I saw a crowd
A host, of golden daffodils
بس فرق یہ تھا ورڈز ورتھ نے یہ سنہری جھنڈ دریا کنارے دیکھا تھا ،اور ہم آسمان و زمین کے سنگم پر دیکھ رہے تھے۔
گھاس کے میدان کے تین طرف گہری کھائیاں اور ایک طرف جنگل تھا۔ ایک طرف 45 ڈگری ڈھلوان سطح سے نیچے جاتا راستہ نظر آیا۔ ہمارا مہماتی دل مچل گیا آگے کی طرف قدم بڑھا دیے لیکن بچوں نے نہ جانے دیا کہ یہاں چلنے کا امکان کم اور لڑکھنے کا زیادہ تھا ۔ہم حسرت بھری نگاہوں سے اس ڈھلان کو دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ یہ نیچے جاتا بل کھاتا ہؤا راستہ کہاں جاتا ہوگا بھلا۔ چیئر لفٹ سے نیچے کا سفر نسبتاً آسان اور خوش کن تھا ۔اب ہم بلندی سے پہاڑوں کا دامن دیکھ رہے تھے۔ چیئر لفٹ پہلے اسٹیشن پر رکی، یہاں بھی وسیع سرسبز میدان تھا مویشی گھاس چرتے نظر آرہے تھے، گھوڑے ،آس پاس گھر پہاڑ پر رہنے والوں کی زندگی کا پتہ دے رہے تھے۔
واپسی پر اندازہ ہؤا کہ ہماری واپسی کے وقت آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اور رش بڑھ رہا تھا یعنی ہم صحیح وقت پر پہاڑوں کی سیر کر کے واپس ہو رہے تھے۔ ہل اسٹیشن کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے اور پارکنگ کی طرف قدم بڑھاتے الوداعی نظر اس وادی کوہ قاف پر ڈالی ،گاڑی ان پہاڑوں کو پیچھے چھوڑتی آگے بڑھ رہی تھی اور ہمیں لگ رہا تھا کہ کوہ قاف کی پریاں ہمارے کان میں سرگوشیاں کر کے ہمیں گدگدا رہی ، ان داستانوں کا یقین دلا رہی ہیں جو قدرتی حسن سے مالا مال فطرت کی صنائی کا شکار ان پہاڑوں سے وابستہ ہیں ۔
راستے میں ایک جگہ ایک آذری خاتون اور ان کے صاحب شہد بیچ رہے تھے ،جیسے پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں دیکھتے ہیں لوگ جگہ جگہ راستوں میں شہد لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان دونوں کے بقول یہ بالکل خالص تھا، بہرحال ایک بوتل خرید لی۔ ہماری اگلی منزل گبا لینڈ امیوزمنٹ پارک تھا ۔چھٹی کا دن تھا لہٰذا داخلی دروازے اور ٹکٹ وغیرہ پر کافی رش تھا۔ مختلف الیکٹرانک جھولے، واٹر سلائڈز ،ڈوجنگ کار، سوئمنگ پول، موٹر بوٹس وغیرہ وغیرہ ۔اگرچہ لوگوں کی بڑی تعداد پارک میں موجود تھی تاہم بہت بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہونے کی وجہ سے ہجوم کا پتہ نہ چل رہا تھا۔ کسی بھی عوامی مقام پر جا کر آپ کو وہاں کے لوگوں کے سوشل سینس کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ ہر کاؤنٹر پر سکون سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے لوگ، کچرے وغیرہ کی صورتحال۔ ہاں ایک بات اور کہ ہمہ وقت چپس جوس کے پیکٹ ہاتھ میں لیے بچے بڑے بھی نظر نہیں آتے۔ پارک میں پانچ چھ ڈھابے تھے جہاں لوگ بیٹھ کر اپنی مطلوبہ چیزیں کھا پی رہے تھے۔ (باقی آئندہ)
٭ ٭ ٭