مریم روشندور تک آسماں ۔ مریم روشن

دور تک آسماں ۔ مریم روشن

مسجود ملائک خود اپنی خواہشات کے آگے ڈھیر ہو جائے، ازلی دشمن کو اس سے بڑھ کے اور کیا چاہیے ؟سکرین کے ساتھ ڈوبتے ابھرتے دل کی کہانی

سبزے نے زمین کو دھانی ، کاہی رنگوں کی چادر پہنا دی تھی، جو کہیں کہیں سے سرک کر نیچے چھپا بھورا رنگ دکھا دیتی ۔ ایک جانب لگے پودوں میں سے جامنی چمکتے بینگن جھانک رہے تھے ۔ درمیان میں پانی کی چھوٹی سی کھائی، پھر گندم کی نرم کونپلیں سر اٹھائےکھڑی تھیں ۔ ان کے بیچوں بیچ ایک پگڈنڈی گزرتی جس کے ساتھ ساتھ زرد پھولوں سے سجے لوکی کے پودے مسکرا رہے تھے۔ کھیتوں میں ٹھہرے پانی کی خوشبو پا کر فضا میں اونچی اڑان بھرتے پرندے کچھ لمحے نیچے اتر کر اپنی پیاس بجھاتے اور تازہ دم ہو کر پھر محو سفر ہوتے۔
آرزو وہیں نیم کے درخت تلے چارپائی پہ گاؤتکیہ سے کمر ٹکائے بیٹھی تھی ۔ فطرت کے حسین مناظر کو اپنے اندر اتارتی ، پلنگ پر بچھی سبز ، لال ، سیاہ رنگوں سے سجی رلی پر انگلیاں پھیرتی، جو ہر ٹانکے کے ساتھ ایک کہانی کہتی تھی۔ برسوں پہلے سنا تھا کہ سیاہ فام غلام عورتوں نے آزادی کی چادریں بنی تھیں، جن پر سلے نشان آزاد ہونے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے تازہ ہوا کاجھونکا بن جاتے ۔ آرزو نے اپنی انگلیاں رلی کے جوڑوں پر پھیریں ،نجانے یہ بھی کسی کی آزادی کا نغمہ ہیں یا قید رہ جانے کا نوحہ!
سوچوں میں گھری آرزو پر نرم ہوا نے پکے نیم کے پھل گرا دیے۔ نیم کی نمولیاں پوری فضا سے زہر چوس کر پھینک رہی تھیں ۔ گہری سانس لیکر آرزو نے آنکھیں موند لیں ۔ عجب گونجتا سکوت تھا۔ کھیت کھلیان ، مٹی ، فضا ہر شے قدرتی آوازں کے جلترنگ سے گونج رہی تھی۔ مرغ کی بانگ ،چرواہے کی سیٹی ، اور ہاتھ میں تھامی لکڑی کی ٹک ٹک ، کھیت میں چھپے کیڑوں کا ساز ، دور کہیں بہت دور بنے مدرسے میں قرآن مجید پڑھتے بچوں کی آواز ،آم کے درخت سے آتی کوئل کی کوک , درخت پر پھدکتی گلہری کی کٹر کٹر کے ساتھ کبھی کھیتوں سے جھن جھنے کی سی آواز آتی جیسے کوئی سانپ بل کھا کے سوکھے پتوں سے گزرا ہو، ہوا کا جھونکا ایک سمت سے کھڑی فصل میں داخل ہوتا تو سارے پتے خوشی سے تالیاں بجاتے ، دل موہنے والے ترنم سے کھنک کر شرارتی ہوا کا استقبال کرتے ۔ ہوا کی دلربا اداؤں پر ہنس کر اسے دوبارہ آنے کی دعوت دیتے۔
کیسا منفردDetox تھا۔ جسم و جان کی ساری کثافت دور ہو جائے۔ روح دھل کر صاف ستھری ہوجائے۔
آرزو نے مٹی کی خوشبو ، پکی فصل کی مہک سانس میں اتاری ۔
وہ یہاں کیوں بیٹھی ہے؟
کیا زہر تھا جس کو تھوکنے کے لیے یہاں آئی ہے؟
دور سے گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز آئی ۔ کھیتوں کے درمیان بنے راستے پر شیرو گھڑ سواری کر رہا تھا۔ آرزو نے ایک آہ سی بھری۔
دو دن پہلے کی وہ رات اس کو پھر یاد آگئی جب شیرو امتحانات کی تیاری کر رہا تھا ۔
’’اماں رات میں ہی سکون سے پڑھائی ہوتی ہے۔ دن بھر کبھی بجلی کا چکر ، کبھی آنے جانے والوں کی دستک اور گھنٹیاں ۔ بورڈ کے امتحان سر پر ہیں ۔ پلیز لیٹ نائٹ جاگنے کی اجازت دے دیں۔ نیٹ آف مت کیجیے گا‘‘۔
آرزو نے شروع سے یہی طے کیا تھا کوئی لیٹ نائٹ اکیلے جاگ کے انٹرنیٹ استعمال نہیں کرے گا۔ جو کام ہیں علی الصبح اٹھ کے کر لیے جائیں۔ سونے لیٹتی تو انٹرنیٹ راؤٹر کو بند کر کے لیٹتی۔
آرزو نے قد نکالتے بیٹے کی جانب دیکھا۔ ہونٹ کے اوپری حصے پہ چھوٹے چھوٹے بال ، بھاری ہوتی آواز میں بات کرتا کیسا بڑا بڑا سا لگتا تھا ۔ شیرو کے دلائل سن کے آخر کار وہ راضی ہو گئی۔ شروع کے دنوں میں رات بھر ساتھ جاگی ۔ نیٹ پہ پڑھائی ہو تو گویا تیز دھار کی تلوار بچے کے ہاتھ میں ہے ،کیسے پریشان نہ ہوں؟
مگر دن بھر کے کاموں اور دیگر مصروفیات کے ساتھ کب تک یہ معمول قائم رہتا۔ بیٹے کو سمجھا بجھا کے سونے چلی جاتی۔
٭
⁰وہ بھی ایک ایسی ہی رات تھی۔ آرزو بار بار کروٹ بدل رہی تھی۔ ایک دو بار آنکھ لگی مگر جھٹکے سے کھل گئی ۔ پائوں بے وجہ درد دے رہے تھے۔ عجیب سی اینٹھن ۔ کوئی جیسے اسے نیند سے جگا رہا تھا۔ کیا بات ہے؟ اس نے کمرے کی چھت پر گھم گھم چکر کھاتے پنکھے کو دیکھا۔ کھڑکی پہ پڑے جالی کے پردے سے چھن چھن کر آتی چاندنی گھپ اندھیرے میں میٹھا سا اجالا پھیلا رہی تھی ۔ بستر پہ بچھی کاسنی چادر یک دم کاٹنے کیوں لگی ؟
نیند کیوں نہیں آ رہی ؟
بے چینی سے اٹھی۔ دبے پائوں بیٹے کے کمرے میں داخل ہوئی ۔ اسکرین پر جو منظر تھا اسے دیکھ کر پاوں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ جیسے کسی اونچی پہاڑی سے اسے دھکا دے دیا گیا ہو۔ دماغ کے پرخچے سے اڑ گئے۔
سنا تھا شیطان کے ساتھی عریانی فحاشی کے مراکز قائم کرتے ہیں، جانور سے بھی نیچے گر جاتے ہیں لیکن ایسا منظر کبھی سوچا نہ تھا۔ وہ بے دم ہو کرنیچے گر پڑیں ۔ شیرو جیسے خواب سے جاگا ۔
’’امی….امی‘‘۔
یہ کیا ہوگیا!
شیرو نے اسکرین کو ہاتھ مارا ، وہ سیاہ ہو گئی۔
یہ اسکرین بھی کیا شے جس تیزی سے رنگوں سے بھرتی ہے اسی تیزی سے سیاہ بھی ہو جاتی ہے۔ گویا کبھی کوئی رنگ اس پہ اترا ہی نہ ہو۔ خود بے نور ہوکر بھی انسان کے دل پر اپنے ایسے نقش چھوڑ جاتی ہے کہ جن کومٹانا آسان نہیں۔
٭
⁰⁰ماں نے تو عرصے پہلے یہ سکھایا تھا بیٹا نظر جھکانا، کبھی غلطی سے بھی کوئی ایسا منظر سامنے ہو تو فورا ًاسکرین بند کر کے اٹھ جانا۔ دوسری نظر نہ ڈالنا۔ کسی بڑے کو بلانا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ کس پیار سے سناتی تھی کہ کیسے دعوت گناہ پر معاذ اللہ پکارے اور بھاگے۔ اس شدت سے بھاگے کہ قمیض پھٹ گئی لیکن دعوت گناہ پہ رکے نہیں۔
شیرو نجانے کیسے سبق بھول گیا۔
رات کی تنہائی میں ‘’پاور‘کو سرچ کرتے کیسے ‘’پورن‘ پر کلک ہو گیا۔ ایک حرف کی غلطی کیا قیامت ڈھاتی ہے! شیطان کا پسندیدہ حربہ اولاد آدم کو فحش مناظر کی لت میں لگا دے ۔ یہ لت لگ جائے تو دیمک کی طرح پورے وجود کوکھا جاتی ہے۔ خالی ڈھانچہ رہ جاتا ہے۔ ساری صلاحیتیں صفر پر آ جاتی ہیں۔ ازلی دشمن کو اس سے بڑھ کے اور کیا چاہیے ؟مسجود ملائک خود اپنی خواہشات کے آگے ڈھیر ہو جائے۔
شیرو کیا دیکھ بیٹھا !
فجر تک بیٹھا رہا جیسے کسی نے ہپناٹزم سے اپنا معمول بنا لیا ہو۔
اگلے دن دوپہر ایک بجے سے ہی وہ مناظر پھر شیرو کو بلانے لگے۔ ایک طرف دل ملامت کرتا تھا دوسری جانب لذت کا ایسا طوفان تھا۔ وہ نہ آنکھ جھکا سکا نہ اسکرین بند کر سکا۔بس ٹرانس میں بیٹھا دم بخود ان مناظر کو دیکھ رہا تھا۔ رات کے سناٹے میں جب سب بستروں پر تھے یہ مناظر شیرو کو قیدی بنا رہے تھے۔
آج تیسرا دن تھا ۔
دن بھر شیرو اپنے آپ کو جھڑکتا ، استغفار پڑھتا ، الجھتا رہا پھر ندامت سے پھٹتے دل کے ساتھ رات کو چھوٹتے ہی اس منظر کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہوگیا کہ ماں اٹھ گئی۔
ماؤں کو تو سونا ہی نہیں چاہیے۔ وہ سو جائیں تو نسلیں لٹ جائیں۔
’’بیٹے یہ کیا دیکھ رہے تھے؟‘‘ آرزو کی آواز جیسے کسی کنویں کے اندر سے آ رہی تھی ڈوبتی ہوئی۔
’’ سوری اماں‘‘۔ وہ کچھ کہہ نہیں پارہا تھا۔ کہتا بھی تو کیا کہتا؟
منظر کی تیزی ، بے باکی ، وحشت ، رات کا سناٹا ، شل اعصاب کے ساتھ آرزو دم بخود تھی۔ بیٹے کو بستر پہ بھیج کرخود وہیں اس کے بستر کے پاس جا نماز بچھا کے بیٹھ گئی۔
رات پلکوں پہ گزری ،جانماز پر بیٹھے بیٹھے۔ فجر کی نماز میں شوہر نے پوچھا۔
’’کیا ہو&ٔا آرزو؟ ‘‘
بکھرے بال ، سوجی آنکھیں، بے رونق پھیکا چہرا ، عثمان آرزو کو دیکھ کےچونک گیا۔
’’ ہمم‘‘ ذہن بوجھل تھا۔’’ آج آپ کو آفس تو جانا نہیں ہے۔ میں سب کو اسکول بھیج کے پھر بات کرتی ہوں ‘‘۔
آرزو یہ کہہ کر ناشتہ بنانے اٹھ گئی ۔ دماغ کام نہیں کر رہا تھا ۔ کیا بتاتی کہ کیا بیت گیا۔
٭
⁰⁰ روٹین کے وہی کام پھر ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ ۔ عثمان نے اسی لیے آج آفس سے چھٹی کی تھی۔بہت دن سے آرزو کی طبیعت اوپر نیچے چل رہی تھی۔ بلڈ پریشر لو رہتا۔ کچھ دن پہلے بلڈ ٹیسٹ کرائے تھے۔ اب رپورٹ ڈاکٹر کو دکھانی تھی ۔ گھر کے کام نمٹا کر کلینک آ گئی۔ عثمان آرزو کو ڈراپ کر کے خود کچھ کام نمٹانے چلے گئے۔ انتظار گاہ میں بیٹھی رات کے واقعے پہ غور ہی کر رہی تھی اچانک کسی کے فون پہ بات کرنے پرآواز جانی پہچانی لگی۔ آرزو نے گردن موڑی۔
اس کی پرانی دوست عائزہ بیٹھی ہوئی تھی ۔ عائزہ سے ملے کافی عرصہ گزر گیا تھا۔
’’ عائزہ‘‘ آرزو لپک کے اس کے پاس گئی۔
سلام دعا کرنے کے بعد وہیں بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد آرزو کو لگا یہ عائزہ نہیں بلکہ عائزہ کے قالب میں کوئی اور بیٹھا ہے۔ بجھی بجھی آنکھیں، اترا ہؤا چہرہ ، سوکھے ہونٹ۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہر خوشی چھن گئی ہو ۔ مسکراتی تو آنکھیں خالی اور ویران ہوتیں۔ ہاتھ ہلکے ہلکے کپکپاتے جنہیں وہ گھٹنوں پہ جما لیتی۔
’’ عائزہ ‘‘۔ کچھ دیر صبر کرنے کے بعد آرزو نے پوچھا:
’’سب خیریت ہے نا ؟ ماذن اور مائرہ کیسے ہیں ؟ بھائی کیسے ہیں ؟ اتنا عرصہ ہؤا تم سے بات بھی نہیں ہوئی۔ یاد ہے ہماری آخری ملاقات کب ہوئی تھی ؟ جب ماذن کا رزلٹ آیا تھا ۔ اس کا ایڈمیشن تم نے ملائشیا میں کروانا تھا ۔ کیسا ہے ماذن اور مائرہ کس کلاس میں پہنچ گئی؟‘‘
عائزہ نے آنکھیں اٹھائیں۔ وہی ویران آنکھیں۔
’’ ماذن ملائشیا نہیں جا سکا تھا ۔ بس کچھ ویزا مسائل رہے ۔ مختلف چیزیں سامنے آتی گئیں پھر ہم نے اس کو پڑھائی کے لیے کوریا بھیج دیا تھا ‘‘۔
’’اچھا واہ کوریا کے بارے میں سنا ہے تعلیمی ادارے بہت اچھے ہیں ۔ اب تو پڑھائی مکمل ہی ہونے والی ہو گی۔ آگے کا کیا سوچا ہے؟‘‘
آرزو نے خوش ہو کر پوچھا۔
’’ماذن واپس آ گیا ہے ۔ ڈگری مکمل نہیں ہوئی ۔ کوریا میں دو سال رہا پھر واپس آ گیا تھا‘‘۔
عائزہ تھکے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
’’ اچھا سب خیریت ہے نا ‘‘
’’ کیا بتائوں گیا تو ماذن تھا ۔ واپس آیا ہے تو کوئی اور ہے ‘‘۔
عائزہ کی زبان سے ہر لفظ دکھ کی چادر اوڑھ کے نکل رہا تھا۔
’’کیا مطلب؟ تعلیم ادھوری کیوں چھوڑی؟ سب خیریت ہے نا عائزہ ؟‘‘
خیریت نہیں ہے آرزو کو اتنا تو اندازہ ہو رہا تھا۔
’’ اپنی کہانی کیا سناؤں؟‘‘ عائزہ نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’ مجھ پہ جو گزری ہے اللہ تعالیٰ کسی دشمن پہ بھی نہ ڈالیں۔ جس آزمائش سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں سچ کہوں تو دل مر چکا ہے۔ بس جسم کو گھسیٹے پھرتے ہیں‘‘۔
’’ آخر ایسا کیا ہؤا ؟‘‘آرزو کا دل بیٹھا جارہا تھا۔
عائزہ نے اپنی کلائی پہ بندھی گھڑی کی طرف نظر ڈالی ۔ پھر ڈاکٹر کے دروازے پہ چمکتا ہؤا نمبر دیکھا۔
ان دونوں کی باری آنے میں ابھی دیر تھی۔
’’ دو سال کے دوران ماذن کا رفتہ رفتہ رابطہ گھر سے کم سے کم ہوتا گیا۔ نہ پہلے کی طرح پروگریس کارڈ آتا تھا نہ وہ ہم سے گفتگو کرتا تھا ۔ فون کرو تو بس چند جملے کہہ کے کال کاٹ دیتا۔ چھٹی میں پہلے سال آیا اور بس۔ آخر کار عدیل نے سوچا وہاں جا کر دیکھیں کیا مسئلہ ہے۔ عدیل 15 دن کے ٹرپ پر کوریا گئے ۔ واپسی پہ ماذن کو ساتھ لائے۔ مجھے بتایا نہیں تھا۔ ماذن گھر میں داخل ہؤا تو ہڈیوں کا ڈھانچہ ، سوکھا کمزور، بے جان بےروح آنکھیں …. خشک چہرہ ۔ عدیل ….وہ بھی لگتا تھا کہ 15 دن میں اپنی عمر سے دس سال بڑے ہو گئے۔ میں گھبرا کے اٹھی‘‘۔
پوچھا ’’کیا ہوا؟ آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپ ماذن کو لے کے واپس آ رہے ہیں‘‘۔ عدیل کچھ نہ بولے۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
میں نے ماذن کو گلے سے لگایا۔
’’ بیٹے ماں کے پاس آ رہے تھے۔ اتنی بڑی خوشی بتا تو دیتے‘‘۔
’’ کچھ بھی نہیں بولا۔ وہ تو بس ایک بے جان لاشہ تھاجس میں چلنے کی بھی سکت نہیں تھی۔ پھر…..‘‘
’’ پھر کیا ہوا ؟‘‘
’’ ہماری زندگی کے اندر ایک ایسی آزمائش آئی جس نے ہلا مارا ۔ پتہ چلا کہ ماذن نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی تھی ۔ وہ ایک بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ ہم نے سوچا ہی نہیں تھا وہاں پر نشہ بھی ہوتا ہے‘‘۔
عائزہ خاموش ہو گئی۔ جیسے بات کرنے کی ہمت نہ ہو۔ بس ہاتھ کی لکیریں دیکھنے لگی۔
آرزو دم بخود بیٹھی تھی۔ ماذن سلجھا ہؤا کم گو بچہ ۔ آرزو کی نگاہ کے سامنے بڑا ہؤا تھا۔ والدین کی ڈھیروں امیدوں کا مرکز ماذن۔
’’ ماذن کو نشے کی لت لگ گئی تھی ‘‘عائزہ نے نجانے کیسے خود کو پھر آمادہ کیا۔
’’ پتہ ہے آرزو نشے صرف کسی انجیکشن ، کسی بوٹی، کسی پڑیا کسی اور ذریعے سے نہیں آتے۔ کچھ نشے اتنے انوکھے اور زہریلے ہوتے ہیں کہ لوگوں کو ادراک بھی نہیں ہوتا اور بچہ اس نشے کے ہاتھوں جیتے جی مارا جاتا ہے ‘‘۔
عائزہ کی آواز دکھ سے پھٹی جاتی تھی ۔ بات اس طرح کر رہی تھی گویا زبان ساتھ نہیں دیتی ہو۔ عائزہ نے اپنا ایک ہاتھ اٹھا کرسینے کے اوپر رکھ لیا ۔ جیسے درد کو دبانے کی کوشش کر رہی ہو ۔
’’ تم جانتی ہو نا کہ ہم نے کس محنت سے بچوں کی پرورش کی تھی۔ دن رات کھپے تھے میں اور عدیل کے بچے ٹھیک سے پڑھ جائیں۔ ماذن یونیورسٹی گیا تو سکھ کا سانس لیا کہ چلو محنت ٹھکانے لگی ۔ وہاں جانے کے بعد میں نہیں جانتی کہ کیا ہؤا لیکن ماذن کسی طرح پورن ایڈکشن میں مبتلا ہو گیا۔
تم جانتی ہو پورن ایڈکشن کیا ہے؟ انسان کے دل و دماغ کو بدل دینے والا ایک نشہ ۔
یہ مواد مستقل دیکھنے سے دماغ کا سوچنے سمجھنے اچھائی برائی کا فرق بتانے والا حصہ بے کار ہو جاتا ہے۔اس نے ماذن کو ایسی پاتال میں گرا دیا ہے کہ وہاں سے واپس لانا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہوپا رہا ….ملک میں واپس تو ہم لے آئے تھے۔بس پھر اس کے بعد وہی سکرین ہوتی تھی ،دن کے کچھ وقت میں اس کو ضرور دیکھنا ہوتا تھا کیونکہ یہ سادہ بے رہروی نہیں تھی،بیماری بن چکی تھی…. رویے کا ڈس آرڈر۔ کھانا پینا مسکرانا دنیا کی ہر لذت جیسےاس پہ حرام ہوتی چلی گئی۔سکرین لو تو غصے سے بے قابو ہو جاتا،اس کو ودڈرال ہوتا تھا۔ پاکی ناپاکی کا تصور ختم ہو گیا تھا۔ نمازپڑھنا مکمل طور پہ چھوڑ دی۔ بس کمرے میں بند رہتا۔ شاید تعلیم کے دوران ہمارے پاس ہوتا تو ہم جلدی دیکھ لیتے لیکن ہاسٹل کے اندر تن تنہا وہ پتہ نہیں کتنے مہینوں سے اس لت میں مبتلا تھا ۔ کووڈ کا لاک ڈاؤن بھی اس زمانے میں آیا تھا۔ نہ کوئی دیکھنے والا نہ کوئی روکنے والا ….
بہت ٹائم تو مجھے اور میرے میاں کو یہ چیزیں سمجھ ہی نہیں آئیں۔ یقین کرو کہ بس لگتا تھا کسی اندھیرے کنویں کے اندر ہمیں ڈال دیا گیا ہے جہاں روشنی کی کوئی کرن ہی نہیں آتی۔ پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے نکالا ۔ مائرہ بہت اگنور ہوئی اس دوران….
اب ایک ایڈکشن ریکوری سینٹر کے اندر ڈالا ہے۔ وہاں تھیرپی چل رہی ہے ۔ یہ بہت لمبا سفر ہے۔ شاید پانچ سال شاید چھ سال شاید 10 سال ۔ پھر معاشرے میں پھیلی ہوئی بے حیائی یعنی بار بار دوبارہ اس گناہ کی طرف اشارے ملنا ….بہت مشکل ہے کہ میں اپنے بچے کو بچا پاؤں یا وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئے‘‘۔
عائزہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ ماں کے دکھ…. بچے پہ کچھ گزرتی ہے تو گویا ماں کو کانٹوں پہ پرو دیا گیا ہو۔
آرزو عائزہ کو گلے سے لگائے تسلی دے رہی تھی۔ آج ڈاکٹر کے پاس کیا اللہ تعالیٰ اس کو اس لیے لائے تھے؟
ورنہ تو کتنے دنوں سے وزٹ کو ٹالے جاتی تھی۔ گزری رات دوبارہ سے آنکھ کی پتلی پہ زندہ ہو گئی ۔ شیرو کیا دیکھ رہا تھا۔ اس کا دل تڑپ گیا۔ کیا کرے کس کو بتائے ۔ عائزہ سے تفصیلات پوچھنے لگی ۔ عائزہ بس اتنا کچھ بتا سکتی تھی جو دو سال کے بعد ہؤا تھا ۔ دو سال سے پہلے کا معاملہ تو مکمل اندھیرے میں تھا ۔ کون جانے کہاں سے ماذن اس ویب سائٹ پہ گیا۔ کس نے لت لگائی ۔ ماذن کی زندگی میں کون ایسا دشمن آیا تھا۔
’’عائزہ کبھی تو تمہارا دل کھٹکا ہوگا ۔ کبھی کوئی احساس ہؤا ….کوئی ریڈ الرٹ، جس سے تمہیں لگتا ہو کہ ماذن کسی مرض میں مبتلا ہو رہا ہے‘‘۔
’’ہاں ایسا ہؤا ایک نہیں کئی بار ہؤا۔ میرا دل ٹھٹکتا تھا ۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ کچھ مسئلہ ہے۔ یہی سوچ کے سر جھٹکتی کہ پڑھائی کا لوڈ ، گھر والوں سے دور ، اجنبی جگہ کی وجہ سے ماذن ایسے کر رہا ہے۔ پھر جب وہ چھٹیوں میں آیا تو اس نے میرا ہاتھ تھام کے دو بار مجھ سے کہا امی میری شادی کر دیں۔ آج سوچتی ہوں اگر وہ یہ کہتا ہے کہ مما میں بھوکا ہوں تو میں اس کو کھانا کھلانے کے لیے اس کی ہر پسندیدہ ڈش بنا دیتی، وہ کہتا ماما مجھے سردی لگ رہی ہے تو میں اس کو گرم لباس پہنا دیتی ، اس کے سر میں درد ہوتا تو دوا کھلا دیتی ۔ بچے کی ضرورت حاجت کو پورا کرنا تو والدین اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ لیکن بچہ کبھی کوئی ایسی ضرورت سامنے رکھے تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ بے وجہ کہہ رہا ہے ۔ اسے صبر کر لینا چاہیے ، ابھی شادی کی عمر نہیں ہے۔ ابھی سیٹل نہیں ہے ۔بس انہی چیزوں کو سوچتے بعض دفعہ ہم خود اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کو اندھے کنویں میں دھکیل دیتے ہیں یا ایسے راستوں پہ روانہ کر دیتے ہیں جہاں سے واپسی بہت دشوار ہے ‘‘۔
عائزہ جیسے خود اپنے آپ سے مخاطب تھی۔
’’آرزو وہ وقت بھی یاد آتا ہے جب ماذن باہر جانے کو منع کر رہا تھا ۔
کتنی دفعہ اس نے کہا امی میں یہیں کسی یونیورسٹی میں ایڈمشن لے لیتا ہوں۔ مگر بات یہ ہے کہ ہم نے ایک سوچ بنائی ہوئی ہے ۔ لڑکوں کو ان کی تعلیمی قابلیت پہ ناپا تولا جاتا ہے اور لڑکیوں کی قدروقیمت حسن اور خوبصورتی پہ ہوتی ہے ۔ انہی پیمانوں پہ تولتے ہم نجانے کتنے ہی بچوں کو گنوا بیٹھے ہیں۔ میں نے بھی اپنے ماذن کو کھو دیا۔ شاید وہ یہاں ہوتا ، میں اس کو نہ بھیجتی، مجھے کبھی پتہ ہی چل جاتا کہ میرا بیٹا کس زہر کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے، شاید اس کی نوبت ہی نہ آتی …. اب تو زندگی میں صرف شاید ہی رہ گئے ہیں ۔ آگے کا سوچتی ہوں تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ جس حالت میں اپنے بیٹے کو دیکھ رہی ہوں اور پھر اس کی کیفیت دیکھنے کے بعد اس کے اثرات جو ماہرہ پر مرتب ہو رہے ہیں وہ ہمارے خاندان کو ہلا دینے والے ہیں۔
اب میرا بچہ میرے پاس تو ہے لیکن اس کی شخصیت کی تابناکیاں دھندلا چکی ہیں۔ آج تمہیں سب بتا رہی ہوں ، ورنہ اپنا دکھ کسی کو کہہ بھی نہیں سکتی۔ یہ بات کسی کے سامنے کہو تو لوگوں کو لگتا ہے والدین کی غلطی ہے ۔ نصیحتیں کرتے ہیں…. بتاتے ہیں کاش آپ یہ کر لیتی…. آپ نے یہ نہیں کیا ہوگا …..آپ کےکسی گناہ کا نتیجہ ہوگا ۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ اولاد کی تربیت کرنا اتنا آسان نہیں، بڑی آزمائش ہے ۔ الزام لگانا ، دوسرے کو ذلیل کرنا ، اولاد کے مقابلے کر کے اپنے آپ کو بلند اور دوسرے کو چھوٹا دکھانا ہمارے معاشرے کا چلن ہے ۔ آج تم سے ملی ہوں تو اپنا دکھ بتایا ورنہ تو دل نہیں چاہتا کہ اس موضوع پہ بات کروں‘‘۔
آرزو کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں سہیلیاں جذباتی کیفیت میں تھیں ۔آس پاس بیٹھے لوگ کیا سوچ رہے تھے کیا سن رہے تھے، سب سے بے نیاز ،بس ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی۔
’’بات سنو عائزہ تم اپنی بھی تھیرپی کرواؤ۔ اپنے درد کے بارے میں لوگوں کو بتاؤ۔ ممکن ہے تم کسی اور ماں کے جگر گوشے کو بچا لو ۔ اس کے طفیل اللہ تعالیٰ ماذن کو بھی نکال لیں ۔ یاد ہے یونیورسٹی میں سب تمہیں کہتے تھے کاؤنسلنگ کا کام کرنا۔ ممکن ہے تم کسی کے دکھ کی دوا بن جاؤ‘‘ آرزو نے عزیز سہیلی کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ کیا کہنا چاہ رہی ہو آرزو؟‘‘عائزہ نے ذرا حیرانی سے آرزو کو دیکھا۔
’’عائزہ میں تمہاری کہانی سن رہی ہوں تو اپنے لیے کتنے سبق سیکھ رہی ہوں ۔ اولاد تو ساری سانجھی ہوتی ہے کسی ایک کا بچ گیا تو سمجھو اپنا بھی بچ گیا۔ اس لیے کہہ رہی ہوں۔ تمہارا غم بہت بڑا ہے لیکن اس بارے میں Awarenessپیدا کرو ‘‘آرزو نے نرمی سے سہیلی کا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہو آرزو میں کوشش کروں گی…. بس ابھی ہمت نہیں ہے۔ تمہاری بات سچ ہے میں دوسروں کے لیے کچھ نہ کچھ کروں گی ضرور۔ اس پہ کام کروں گی انشاءاللہ ۔ میرے ماذن کو بھی اس سے کچھ فائدہ ہو گا‘‘۔
عائزہ کی بجھی آنکھوں میں لمحے بھر کو امید جاگی۔
نرس نے نام پکارا تو عائزہ اٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر میں آرزو کا نمبر بھی آ گیا ۔ راستے میں عثمان کو پوری کہانی سنائی۔
’’عموما ًمعاشرے میں ہوتا تو یہی ہے کہ باپ یا تو تربیت کا کام ماں کے ذمے دے دیتے ہیں یا ان باتوں کو بہت ہلکا سمجھتے ہیں۔ مجھے لگتا ہےایسے ہی عثمان نے بھی کیا‘‘۔
’’ یار چھوڑو نا ،اگنور کرو لڑکےسو چیزوں میں پڑتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو سر پہ سوار کر لیتی ہو ۔آفس کے دس مسائل ہیں ۔ اس میں تمہاری کہانیاں الگ سنوں۔ تین بچے ہیں وہ تم سے نہیں پل رہے۔ ہماری اماں کے سات بچے تھے ۔ ہر ایک کی بہترین پرورش کی۔ لڑکے ایسے شوق پال بھی لیں تو اگنور کرتے ہیں۔ ہر چیز ہوّا نہیں بناتے‘‘۔
عثمان نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ اسی وقت عثمان کے موبائل پر کال آگئی اور اس نے ہینڈ زفری کان سے لگا لیا۔
آفس کے معاملات ، بچوں کے مستقبل کے لیے پیسوں کو جمع کرنا، بجلی گیس کے بل ،ہزار مسائل…. ان سب میں باپ کہاں فکریں پالتے ہیں جو مائیں اپنے کلیجوں پہ دھرتی ہیں…. تربیت کا فریضہ ماں کے سپرد…. بن یہ سوچے کہ جس دن انہوں نے ہاتھ بڑھائے ، قدم اٹھائے ، ساتھ آ کے کھڑے ہوئے، اس معاشرے میں ڈوبتے گرتے ٹوٹتے بچے ختم ہو جائیں گے، بلکہ معاشرہ مضبوط بنیادوں پہ استوار ہو جائے گا۔
آرزو بس سوچے گئی ۔ کیا کروں ، کس سے کہوں ؟
اس کا کوئی حل بھی ہے ؟
٭
چھٹی آتے ہی آرزو ماموں کی زمینوں پرچلی آئی۔
گھوڑے کی ہنہناہٹ سے دو دن پرانا منظر سوچتی آرزو زور سے چونکی ۔ سائیس بلند آواز سے کچھ کہہ رہا تھا۔ کھیتوں کے سکوت میں انسانی آوازوں کا شور سا اٹھا تھا ۔ گھوڑا دو ٹانگیں اوپر کر رہا تھا۔ بار بار گردن جھٹکا دیتا کہ اس سے چمٹا شیرو نیچے گر جائے۔ آرزو بے تابی سے کچی زمین پہ دوڑتی بیٹے کی جانب لپکی۔ شیرو بچپن سے گھڑ سواری میں ماہر تھا ۔ پھر یہ گھوڑا کیسے بے قابو ہؤا ۔ آرزو کے پہنچنے تک شیرو نیچے گر چکا تھا اور گھوڑا گردن اونچی کیے پاؤں زمین پہ مار رہا تھا۔ شیرو کراہ رہا تھا۔ کچھ ہی لمحوں پہلے گھوڑے پہ کس شان سے سواری کی اور اسی نے پٹخ دیا۔
گاڑی میں بٹھا کے نزدیکی ڈسپنسری لے گئے۔ پائوں کی ہڈی مڑ گئی تھی۔ یا اللہ بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا۔
’’Ligament کی چوٹ ہے۔ مہینہ بھر تو سنبھل کے رہنا ہوگا۔ ٹھیک نہیں ہؤا تو چھوٹی سی سرجری کرنی پڑے گی‘‘ڈاکٹر نے احتیاطی لسٹ تھما دی۔
رات وہیں زمینوں پہ گزاری۔ صبح ماموں جان کو ڈھونڈتی آرزو کھیتوں کی جانب آ گئی ۔ وہ وہیں تھے زمین میں گڈائی کر رہے تھے۔ اسّی کے پیٹے میں تھے لیکن نہ اکڑوں بیٹھنا مسئلہ تھا ، نہ کمر ٹیڑھی تھی۔اپنے زمانے کے مشہور سائیکیٹرسٹ ۔ ایک وقت آیا خود سے ریٹائرمنٹ لے کر کھیت کھلیانوں کی طرف لوٹ گئے۔
’’زمین سے بڑا مرہم کوئی نہیں بیٹا۔ اس میں کام کرو تو عقدے کھل جاتے ہیں ، نئے باب سامنے آ جاتے ہیں ۔ وہ گھتیاں سلجھتی ہیں جو لگتا تھا کبھی سلجھ نہیں سکتیں ‘‘۔
بڑے مزے سے کہتے۔ ابھی بھی ان کے بہت سے مریض یہیں چلے آتے ۔علاج کے ساتھ تازہ دم ہو کر لوٹتے۔
وہ پاس ہی بیٹھ گئی۔
’’ کیا کر رہے ہیں ماموں جان؟‘‘
’’ یہ خود رو گھاس نکلی ہے اس کو ہٹائیں گے۔ جگہ بنے گی تو نیا پودا لگے گا۔ ورنہ یہ زمین کی ساری توانائی چوس جائیں۔ بٹیا کا چہرا کیوں اترا ہے ؟ کل سے دیکھ رہا ہوں ۔ شیرو کے چوٹ تو بعد میں لگی ہے۔ تم پریشان پہلے سے ہو۔ سب خیر ہے ناں ! ‘‘
’’ماموں جان ،‘‘ وہ لمحے بھر رک کے الفاظ سوچنے لگی ۔
’’ بچوں کے پیچھے دن رات کھپتی ہوں ۔ ساری توانائی لگا دی لیکن حاصل حصول کچھ نہیں۔ جو سکھایا وقت پڑنے پہ بھول گئے۔ یہ تربیت کا کام بہت مشکل ہے۔ انسان کب تک نظر رکھے۔ذرا آنکھ اوجھل ہو اور مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ شیرو نے کچھ نامناسب چیزیں آن لائن دیکھی ہیں۔ بہت پریشان ہوں ۔ آن لائن پڑھائیاں ہر وقت، نظر کیسے رکھوں۔ میں کیا کروں‘‘ وہ روہانسی سی ہو گئی۔
ماموں جان خاموشی سے بات سنتے رہے۔ ہاتھ مصروف تھے گھاس کو توڑتے۔
سبز خود رو گھاس دور تک پھیلی تھی۔ اونچی لمبی گھاس ، ہوا کے رخ پر گرتی گھاس ، قد آوار دور تک پھیلی گھاس لیکن ایک جھٹکا دو تو ہاتھ میں آ جاتی ۔
’’یہ دیکھو بٹیا ایک یہ پودا بظاہر ننھا سا …..لیکن زمین میں دور تک جڑ پھنسائے بیٹھا ہے۔ اس کو نکالنے جڑ توڑنے کے لیے بہت قوت لگانی پڑتی ہے۔ دوسری یہ گھاس ذرا زور ڈالو اگلے لمحے ہاتھ میں۔ آج کے دور میں سارا زور اولاد کے ظاہر کو چمکانے میں لگایا جاتا ہے ۔ فلاں ڈگری مل جائے ، وہ لینگوئج اسکل آ جائے ، اتنا پر اعتماد ہو جائے کہ مقابل کو لاجواب کر کے رکھ دے ، جسمانی قدوقامت اچھی ہو ، مارشل جوڈو کراٹے نجانے کیا کیا سکھاتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں تو جڑ بٹھانا ۔ پودا جڑ پکڑ لے تو ہوا کا کوئی جھونکا اسےزمین سے نہیں اکھاڑتا ۔ جڑ گہری ہو جائے پھر مالی کو پانی دینے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ درخت خود اپنی توانائی زمین سے جذب کر لیتا ہے۔ انسان بھی پودے کی مانند ہوتے ہیں۔ جڑ بیٹھ گئی تو پھر ہر وقت کی نگاہ کی ضرورت نہیں رہتی ‘‘۔
وہ تنکے سے زمین پہ سانپ بناتی ۔ آڑی ترچھی لکیریں کھینچتی، خاموشی سے ماموں کی باتیں سن رہی تھی۔
’’ یوسف علیہ السلام کو عزیز مصر کے محل میں کس نے بچایا ؟ تم کتنی بھی نظر رکھو گی لیکن کب تک ۔ فتنے تو ایسے ہیں جیسے بارش کے قطرے۔ ایک جانب سے چھاتا تانو گی تو دوسری جانب سے بھیگ جائیں گے ۔ ایک ہی حل ہے ، اس کی جڑ کو مضبوط کرنا کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے رب دیکھ رہا ہے۔ نیٹ کی دنیا تو جیسے آکٹوپس کے ہاتھ ہیں ۔ ایک سے جان چھڑاؤ تو دوسرا تھام لیتا ہے۔ جب تک ممکن ہے اپنے بچوں کو اس کے حوالے نہ کرو‘‘۔
’’ ماموں کیسے ممکن ہے ؟ ساری پڑھائی اسی پر ، دوستیاں اسی پر ، لگتا ہے زندگی کی ڈور نیٹ کے ہاتھ میں ہے‘‘ وہ بے بسی سے کہنے لگی۔
’’ وہ تو ہے سو ہے اب کیا کرو گی۔ بچے کی تربیت تو اس ہی دنیا کے خطوط پہ ہوتی ہے جس میں بچے پیدا ہوئے ہوں ۔ نیٹ ہے۔ نیٹ سے وابستہ خرافات بھی ہیں۔ اب کیا روتی پیٹتی ڈرتی گھبراتی رہو گی ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں برہنہ طواف نہیں ہوتا تھا۔ برائی تھی ، اسی لیے برائی سے کراہیت تھی۔ نہ تم اسکرین چھین کے بچے کو دامن میں چھپا کے رکھ سکتی ہو نا بالکل کھلی چھوٹ دے سکتی ہو۔ دعا کو تھام لو ۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہرسانس کے ساتھ دعا کرو ‘‘۔
’’ دعا تو کرتی تھی پھر بھی شیرو نے کیا کیا ہے ‘‘ بے سوچے شکوہ زبان پہ آ گیا ۔
’’یہ دعا ہی کی ڈھال تھی کہ شیرو پکڑا گیا ورنہ کتنے بچے بڑے اس وبال میں گرفتار ہیں کسی کو خبر تک نہیں ہوتی‘‘۔
بات کرتے کرتے اچانک دور کھیتوں سے ہلال بھاگتا چیختا آگیا۔ یہ یتیم بچہ بچپن سے ماموں نے گود لے رکھا تھا۔ ان کی اپنی اولاد نہیں تھی۔ ہلال سر پہ ہاتھ رکھے ایک ہاتھ سے سوٹی ہلاتا ، تعاقب میں کوے چلے آتے تھے ۔ کائیں کائیں…. ایک شور ۔
’’کیا ہؤا؟‘‘ وہ گھبرا کے کھڑی ہوئی۔ ہلال غڑاپ سے کونے پہ بنے کمرے میں گھس گیا۔ ماموں جان نے آرزو کو دیکھا۔
’’ جانتی ہو کیا ہؤا تھا؟‘‘
’’ جب ہم گاؤں شفٹ ہوئے تو ہلال نے ایک مشغلہ بنا لیا۔ کوّوں کو تنگ کرنا ، ستانا ۔ ان کے گھونسلے خراب کرنا۔ کچھ دن گزرے کے کوّوں نے دشمنی باندھ لی ۔ اب ہلال کا باہر نکلنا دوبھر ہو گیا ہے۔ اتنے سال گزر گئے لیکن کوّے نہیں بھولتے ‘‘۔
’’ اوہ‘‘۔
’’کچھ سیکھو گی کوّوں سے ؟‘‘
’’ہیں ‘‘ اس نے حیرانی سے ماموں کا چہرہ دیکھا ۔ ’’کوّوں سے کیا سیکھوں میں؟ ‘‘
’’کوّے اپنی ساری دشمنیاں دوستیاں نسل در نسل منتقل کرتے ہیں۔ جو ان کی جان کا دشمن ہو اس کو بھلاتے نہیں۔ شیطان کی انسان دشمنی کی کہانی کتنی بار ہم منتقل کرتے ہیں؟ یہ دشمن تاک میں ہے۔ اس سے باخبر کرنا اور رہنا کون سکھائے گا اگر والدین ہی یہ کام نہ کر سکیں !‘‘
ماموں جو اَب نئے لگائے پودے کو پانی دے رہے تھے، ہاتھ روک کر بولے۔
’’اور ہاں! بچے نصیحت سے زیادہ رول ماڈل کو دیکھتے ہیں،وقتی غلطی ہو بھی جائے تو سنبھل جاتے ہیں، ماں باپ کا اپنا طرزِ عمل سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کا نشان بن کر ہمیشہ چمکتا رہتا ہے ان کی زندگی میں‘‘۔
آرزو غور سے ان کی بات سن رہی تھی۔ ہاں دشمن تاک میں ہے۔ یہ ماں نہ سمجھائے تو کون سمجھا سکے گا۔ پھر ہم سمجھاتے تو شاید بہت ہیں لیکن خود نہیں سنبھلتے۔ بھئو آیا بھئو آیا کی طرح بچوں کو شیطان کا ڈراوا دیتے ہیں اور خود شیطان کے ہر فریب میں چاروں شانے چت جا گرتے ہیں ۔ خود تو جیسے کسی برف کے میدان میں اترے اناڑی کھلاڑی کی مانند نہ رفتار پہ قابو ہے نہ طریقہ آتا ہے۔ بچوں کو کیا سکھائیں گے!
’’ ماموں اب میں کیا کروں ؟ شیرو نے جو دیکھ لیا اس کا کیا ہوگا ؟ آنکھ کے پردے سے منظر نوچ تو نہیں سکتی ، دل کی تختی پہ لکھی تحریر مٹاؤں کیسے ؟ ‘‘بے بسی اس کے لفظ لفظ سے عیاں تھی۔
’’بیٹی اس کی عمر کے تقاضوں کو سمجھو،چھوٹی موٹی لغزشوں کو نظر انداز کرو،معاف کرنے والا رب اوپر بیٹھا ہے تسلی رکھواور خود بھی معاف کرو،اپنےآپ کو بھی اور بچے کوبھی….اعتدال خود ہی سیکھ جاؤگی،بس لوگوں سے نہیں خدا سے ڈرو۔وہم کا شکار نہ ہو، اپنی کوشش کر کے معاملہ رب پہ چھوڑ دو….اور….انسان اتنا بے بس نہیں۔ خود سے سوچو کیا کر سکتی ہو۔ جسمانی علاج تو تم سب کو پتہ ہوتے ہیں۔ دل کو کوئی مرض چھو جائے تو کیا دوا کیجیے؟‘‘
ماموں جان اب کھڑے ہو کے کچی مٹی پہ ننگے پیر چلنے لگے۔ فطرت سے قریب ، مٹی کا لمس، اندر تک ترواٹ اتری جاتی تھی۔
آرزو رک کے سوچنے لگی ۔ حل تو واقعی بہت ہیں۔بچے سے قریبی تعلق کہ وہ ہر بات کہہ سکےچاہے کتنی مشکل ہو…. مثبت سرگرمیوں، اچھے دوستوں سے حصار بنا لینا ، فطرت سے نزدیک طرز زندگی ، قرآن مجید سے تعلق۔ یہ ساری چیزیں رائگاں تو نہیں جاتیں ، پھر دعا کی گرہ لگا دینا۔ معاشرے پہ پھیلے گند کو صاف کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہنا ۔ وہ یہ سب کر سکتی ہے۔ فتنے تو ہر جانب ہیں لیکن اولاد پر دعاؤں کی چھتری تان دینا ، ان کے ہاتھوں میں مقصد زندگی کی حفاظتی ڈھال تھما دینا یہ ناممکن نہیں…..بس ایک ذرا ہمت ارادہ توکل چاہیے۔
’’ماموں جان میں اندر جارہی ہوں۔ شیرو اٹھ گیا ہو گا ناشتہ دوں گی“۔
’’جاؤ لیکن ایک بات سنو….زیادہ پانی ڈالو تو پودے کی جڑ گل جاتی ہے۔زیادہ آرام اور ہر وقت کی مصنوعی غذا انسانوں کی جڑ گھلا دیتی ہے۔ بچوں کو فتنوں سے بچانا چاہتی ہو تو سخت کوشی ، سادہ غذا کی عادت ڈالو بیٹی….لیکن محبت سے ‘‘۔
آرزو کو کھانے کی میز پہ رکھی وہ سبز پتوں کی بیل یاد آئی جوزیادہ پانی سے مرجھا گئی تھی ۔ بچوں کی ہر خواہش پوری کرتے ہم بھول ہی جاتے ہیں کہ یہ محبت نہیں بلکہ اولاد کی زندگی کٹھن بنانا ہے۔ وہ دل ہی دل میں بہت کچھ سوچتی اندر کی جانب چلی۔ پردے ہٹائے توکھڑکی سے باہرنیلا شفاف آسمان حد نگاہ تک پھیلا تھا،جیسے پرواز کی دعوت دے رہا ہو۔ اصل کام تو اسے خود پر کرنا تھا۔ اعتدال کا دامن تھام کے سہج سہج اولاد کو چلنا سکھانا تھا۔ جیسے فضاؤں میں غوطے لیتے پرندے اپنے بچوں کوپرواز سکھاتے ہیں!
٭٭٭