۲۰۲۴ بتول فروریدوراہا - قانتہ رابعہ

دوراہا – قانتہ رابعہ

’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم نے بہت شاندار طریقے سے گاجر کا حلوہ بنایا ہے…. ایسے لگتا ہے جیسے نرم نرم سی مٹھاس !جتنا مرضی کھالو بندے کا دل ہی نہیں بھرتا…. بہت زبردست ‘‘۔
ابھی اتنا فقرہ سننا تھا کہ نورین نے اپنے آپ کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کیا ،لیکن ایکدم سے اس کے منہ کی مٹھاس کڑواہٹ میں بدل گئی ، اس کا میاں حارث منصور بات جاری رکھتے ہوئے بولا:
’’لیکن یار سچ پوچھو تو اماں جیسا ذائقہ ابھی بھی نہیں بن پایا ….ان کا بنا ہؤا گاجر کا حلوہ سب سے الگ ذائقہ کا ہوتا تھا ….اصل میں وہ گاجر کے حلوے میں مرغی کے انڈے بھی شامل کرتی تھیں تو وہ دگنا لذیز بن جاتا تھا۔ انڈوں پلس گاجروں کا حلوہ….بہت ہی مزے کا ہوتا تھا !‘‘
اف ! نورین بے زار ہوئی۔ شادی کو بیس بائیس برس بیت گئے لیکن مرحومہ ساس نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ہر کھانے میں وہ جتنا چاہے محنت مصالحے اور خلوصِ کی بھر مار کرتی لیکن رسمی سے تعریفی کلمات کے بعد حارث کو اماں کے ہاتھوں سے بنی وہی ڈش یادآجاتی ۔
نندیں ملنے آتیں تو وہ ماں کی تعریف میں رطب اللسان رہتیں۔ اس کی شادی سےدو ایک سال پہلے اس کی ساس فوت ہوگئی تھی لیکن ان کا ذکر آج بھی گھر میں ایسے سنائی دیتا جیسے وہ گھر میں موجود ہیں بلکہ گھر کے ہر کمرے ہر کونے میں موجود ہیں ۔کبھی کبھار تو اسے لگتا اس گھر کے درودیوار بھی بولتے ہیں اور مرحومہ ساس کی تعریف کرتے سنائی دیتے ہیں!
کبھی اسے رشک محسوس ہوتا اور کبھی بےزاری مسلط ہوجاتی ۔
ایک مرتبہ اس کی جیٹھانی جی پاکستان آئیں تواس نے ڈرتے ہوئے ساس کے بارے میں سوال کیا
’’آپی کیا واقعی آنٹی اتنی اچھی کوکنگ کرتی تھیں جتنا سب بتاتے ہیں ‘‘۔
جیٹھانی نے اسے حیرت سے دیکھااور کہنے لگیں۔
’’کیا تمہیں نہیں معلوم؟ ارے وہ تو لوگوں کی تعریف سے زیادہ قابل تعریف تھیں دہی بڑے بنائیں یا ماش کی کھڑی دال، بیسن کا حلوہ ہو یا شب دیگ ….بس سبھی انگلیاں چاٹتے رہ جاتے تھے….اور وہ تھیں بھی بہت اچھی چھوٹے بڑوں سب میں مقبول! اپنے پرائے سب میں ہر دلعزیز، بوٹا سا قد ، بہت ہنس مکھ اور با اخلاق‘‘۔
نورین حیرت سے انہیں سن رہی تھی۔ جیٹھانی بولیں :
’’میرے تین بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ۔بچہ کی پیدائش کے چند گھنٹے بعد ہی وہ فرمائش لے کے آجاتی تھیں،بیٹی نو ماہ تم نے پیٹ میں رکھا اب کم از کم نو ہفتے تو میرے حوالے کردو،اور یقین کرو صرف دودھ پلانے کے لیے میں بچہ ان سے لیتی تھی۔ بچے کے ساتھ ساتھ میرا بھی پورا خیال رکھا کرتی تھیں۔ ان کے بنائے ہوئے سے زیادہ مزے کے اچار چٹنیاں مربے میں نے زندگی میں کبھی نہیں کھائے۔
یہ جو صحن میں دائیں جانب چوکی پڑی ہے اس پر بیٹھ کر سبزی بناتیں اون سلائیوں سے سویٹر جرسیاں بناتیں سلائی کڑھائی کرتیں مزے مزے کی کتب پڑھ کر ہم سب کو اقتباس سناتیں۔ بچوں کے لیے انہوں نے بڑاسا جار رکھا ہؤا تھا جس میں کھٹی میٹھی ٹافیاں چاکلیٹ کینڈیز بسکٹ سونف سپاری سمیت دس طرح کی چیزیں رکھی ہوتی تھیں ۔محلے سے بھی کوئی بچہ آتا یا کام والیوں کے بچے ساتھ ہوتے سبھی کو کچھ نہ کچھ دیا کرتی تھیں ،اور سنو ….‘‘جیٹھانی جی نے ایکدم کچھ یاد آنے پر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’خود وہ پان نہیں کھاتی تھیں لیکن ان کی ایک دو سہیلیاں کلانَور اور سہارنپور سے تھیں وہ پان کی شوقین تھیں یقین کرو ان کی چوکی کے دائیں جانب ٹی پائی پر ہمیشہ پاندان موجود رہتا‘‘۔
نورین یہ سن کر بس غش کھانے والی تھی لیکن اب اسے رشک کے ساتھ حسرت بھی تھی کاش وہ ان سے ملی ہوتی۔
جوانی کے بعد بڑھاپے کی شروعات تھیں لیکن حارث کے منہ پہ ابھی بھی ماں کے نام کی تسبیح ہوتی۔جو پکاتی جو بناتی وہ اماں کے بنے پکوانوں کے تقابلی جائزہ کے ساتھ قبول کیا جاتا !
انہی دنوں میں ایسا بھی دن طلوع ہؤا کہ انہوں نے بڑے بیٹے رضا کے لیے لڑکی پسند کی ۔لڑکی والے ان کی طرف آئے ،دوایک مرتبہ نورین لوگوں نے بھی ان کی دعوت قبول کی۔ لوگوں سے پوچھ گچھ اور رب سے استخارہ کے بعد انہوں نے باضابطہ طور پر رشتہ ڈال دیا ۔
دو چار دن کی مہلت لینے کے بعد لڑکی والوں نے ہاں کا عندیہ دیا لیکن انوکھی فرمائش کے ساتھ۔
ان کے خیال میں اس دور میں یہ تو ممکن ہی نہیں کہ رشتے ناطے طے ہوجانے کے بعد لڑکی اور لڑکے کا آپس میں رابطہ نہ رہے۔چونکہ دین میں جب تک نکاح کے دو بول نہ پڑھوا لیے جائیں لڑکی اور لڑکا نامحرم ہی ہیں تو مناسب یہی ہوگا کہ نکاح کی تقریب منعقد کر لی جائے۔ سال چھ ماہ کے عرصے میں لڑکی کی تعلیم بھی مکمل ہو جائے گی اور لڑکی کے ماموں ممانی بھی انگلینڈ سے آ جائیں گے تو تب رخصتی کروالیں گے۔
تجویز معقول تھی لہٰذا اس پر عمل درآمد ہؤا ۔بہت شاندار اور پروقار تقریب منعقد کی گئی ۔نورین اور اس کی فیملی کو بہت پروٹوکول دیا گیا ۔ کھانا بھی بہت عمدہ اوروافر تھا صرف دلہن کے گھر والوں کو ہی نہیں بلکہ سب مہمانوں کو بہت تکریم دی۔ خاص طرز کا خاندانی رکھ رکھاؤ اور وضعداری ان کے بچوں میں بھی نظر آرہی تھی ۔بارات گو مختصر سی تھی لیکن سب کو تحائف پیش کیے گئے ۔کسی ہڑبونگ یا شور شرابے کے بغیر یہ تقریب اتنے عمدہ انداز میں انجام کو پہنچی کہ نورین کا دل باغ باغ ہو گیا۔
دولہا دولہن نے بھی آپس میں فون نمبر کے تبادلے کیے ۔ باراتیوں کو دروازے تک خداحافظ کہنے کے لیے دولہن بھی سٹیج سے اتر آئی تھی۔نورین نے اسے پیار دیا بہت سی باتوں کے بعد ہاتھ ہلا کر وہ لوگ رخصت ہوئے ۔
نکاح کے دو چاردن کے بعد دولہن کی والدہ کا فون آیا اور اطلاع دی کہ ڈرائیور کوفتے ،نہاری اور شاہی ٹکڑے لے کر آرہا ہے ۔بیس پچیس منٹ میں ڈرائیور کھانے کی اشیاء لے کر پہنچ بھی گیا۔دوپہر کے کھانے میں سب نے تعریف کی کہ بہت اچھا کھانا بنا ہؤا ہے، اورتواور نورین کی چھوٹی دیورانی جسے اپنے ہاتھ کے بنے کھانے کے علاوہ کسی کا کھانا پسند نہیں آتا تھا ،شاہی ٹکڑوں کی اس نے بھی بہت تعریف کی
کھانے کے بعد نورین نے شکریہ کا فون کرنا چاہا تو فون گم ،ادھر ادھر نظر ڈالی مگر فون نظر نہیں آیا ،اور جب نظر آیا تو چارجنگ ختم ۔رضا کےفون سے ہی کر لیتی ہوں ،اس نے سوچا،پتہ نہیں کھانے کے فوری بعد کہاں چلا گیا ہے ۔اب رضا کو ڈھونڈتے ہوئے اس کے کمرے میں پہنچی دروازہ بند تھا لیکن اندر سے رضا کی آواز آرہی تھی۔،فون پر بات کر رہا ہوگا ،اس نے دروازہ کھولتے ہوئے سوچا اور ایک دم ٹھٹکی۔رضا بڑے مؤدب لہجہ میں بات کر رہا تھا ۔نورین نے دروازہ سے کان لگائے ۔
’’نہیں اس میں کوئی شک نہیں کھانا بہت مزے کا تھا اور آپ کو کیسے پتہ چلا کہ مجھے شاہی ٹکڑے بہت پسند ہیں ‘‘۔
اوہ!نورین مسکرائی….تو یہ فون سسرال والوں کو بلکہ یقیناً ارسہ کو کیا جارہا ہے ۔چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد رضا کی پھر آواز سنائی دی ۔
’’کوفتے….ہاں کوفتے تو تھے ہی بہت لذیز ،لیکن ایک بات ہے ذائقہ تو میری ممی کے ہاتھ میں بھی بہت ہے ۔ان جیسا کھانا کوئی بنا سکتا ہے نہ ان جیسا کوئی بن سکتا ہے ۔بہت کیئرنگ ،سب کو ساتھ لے کر چلنے والی… بہت عمدہ ذوق رکھنے والی….ممی تو بس ممی ہیں ناں،آئی لو مائی ممی سو مچ‘‘۔
رضا شاید کچھ اور بھی کہہ رہا تھا لیکن نورین کے دل کی دھڑکن ایکدم تیز ہوگئی ۔
یہ کیا کہہ دیا رضا نے ؟ اندر کی خوشی اور تسکین کے ساتھ ایک ستر ملین ڈالر کا سوال بھی سر اٹھائے کھڑا تھا ۔
رضا کی گفتگو جاری رہنے دے اور خوش ہوتی رہے یا آج ہی ممی نامہ بند کروادے؟
٭٭٭

 

 

Previous article
Next article

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here