دریا کی سیر
اِک دن ابا ہم کو لے کر گئے دریا کے پار
خوشی خوشی سے بھاگے ہم توگلوں کے لے کے ہار
بریانی بھی ساتھ میں رکھی، بیٹ بال بھی رکھا
گلی ڈنڈا رہ نہ جائے، سر پرہیٹ بھی رکھا
دسترخوان وہاں پرجا کر آپی نے بچھایا
چکن کڑاہی والا ڈونگا اماں نے سجایا
نان پراٹھا ہاٹ پاٹ میں گڈو لے کر آئی
سیون اپ اور کوکا کولا لے کر آیا بھائی
آم تھا چونسا بہت ہی میٹھا اورانور ریٹول
جامن بھی تھے آڑو بھی اور چیری گول مٹول
سیر کریں گے کشتی میں ہم سب نے سوچ لیا
چلی نہ کشتی پانی میں گر تو پھر کیا ہوگا
جا کے ہم دریا کے کنارے جھولا بھی جھولے
ساتھ ساتھ میں پانی کے ہم مزے سے سب گھومے
امی نے آواز لگائی بچو! کھانا کھالو
اپنے اپنے حصے کی تم چیزیں اب اُٹھا لو
آم مزے سے کھا کر ہم نے کشتی رانی سیکھی
آپی نے جو چائے بنائی تھی وہ بہت تھی پھیکی
دُور کھڑے تھے ابا ،ہم کو دیکھ دیکھ کے خوش تھے
گلی ڈنڈا ہم نے کھیلا ،چھوٹے بھیا چُپ تھے
اماں نے فیڈر میں ڈالا دُودھو اُن کا بچو!
لاڈ میں آکر ٹانگ جو ماری بولے مجھ سے ہٹو!
کھیل بھی کھیلے، کھانا سب نے مزہ مزہ کا کھایا
شام ہوئی توتھک گئے سارے، قافلہ گھرکو آیا
رونق دن کی رخصت ہوئی رات اُتر کر آئی
زبردست سی بچو ! ہم نے پکنک ایک منائی
٭…٭…٭