منیرہ بیگم کلینک سے باہر نکلیں تو مارے پریشانی کے برا حال تھا ، پائوں کہاںرکھتیں اور کہاں پڑتا ، خشک ہونٹ اورچہرے پر ہوائیاں انتظارگاہ میں بیٹھی انیلا نے یہ حالت دیکھی تو لپک کر ماں کو تھاما، کرسی پر بٹھایا اور پانی پلایا۔
’’کیا ہؤا امی جی ؟ اتنی پریشان کیوں ہیں؟‘‘
جواباً وہ اسے ٹکر ٹکر دیکھتی رہیں ۔ انیلا نے کچھ دیر اصرار کیا مگر وہ بولنے پر راضی نہ ہوئیں ۔ تھک ہار کر وہ ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔ اسے علم تھا ڈاکٹرنے اُس کے بارے میں ہی کوئی بات کی ہے ۔ جہاں تک اُسے سمجھ آئی تھی اس کے بعد وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ۔’’ شکر ہے جان چھوٹی‘‘ وہ دل ہی دل میں مسکرائی مگر چہرے پرسنجیدگی طاری رکھی ۔ کچھ دیر بعد منیرہ بیگم نے ہمت جمع کی ۔ ترحم آمیز نظروں سے انیلا کی طرف دیکھا اور اُٹھ کھڑی ہوئیں ’’ چلو گھر چلیں ‘‘۔
رکشے سے اتر کر گھر کی طرف بڑھتی انیلا کا بازو دبوچا ،’’ سنو، کسی سے ذکر نہ کرنا ‘‘۔
’’ کس بات کا ؟‘‘ وہ حیران ہوئیں۔
’’ جوبھی ڈاکٹر نے بتایا ہے اس کا ‘‘۔
’’ بھلا بتانے والی بات ہی کیا ہے ؟‘‘ اس نے سوچا پھر ماں کا چہرہ دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔ ’’ جی کسی کو نہیںبتائوں گی ‘‘ اور اچھلتی کودتی اندر داخل ہوگئی ۔ سامنے ہی آپی کے دونوںبچے کھیل رہے تھے ۔’’ ارے واہ میرے فرینڈز آئے ہیں‘‘ اس نے حسن اور صبا کوبانہوں میں سمیٹا۔
’’ خالہ جانی ہم توکب سے آئے ہوئے ہیں آپ کہاں گئی تھیں؟‘‘بچے اپنی توتلی زبان میں پوچھ رہے تھے۔
’’ میں …‘‘ وہ ہسپتال کہتے کہتے رُک گئی۔’’ آپ کی نانو کے ساتھ کام سے گئی تھی ‘‘۔
امی عدیلہ آپی سے مل کر بلڈ پریشر کی زیادتی کا بہانہ بنا کر کمرے میں جا کرلیٹ گئیں ۔ ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بن گیا ۔ ’’ یا اللہ مجھ پر یہ آزمائش کیوں آگئی ؟انیلا کا کیا بنے گا ؟‘‘
سچ تویہ ہے کہ اپنی پوری زندگی میںوہ کبھی اتنی پریشان نہیںہوئیں ۔ ابا سرکاری سکول میں استاد تھے ۔ ساتھ کچھ زرعی زمین بھی تھی ، ان کی بڑی بہن میمونہ ان کی بہترین دوست تھیں ۔ دونوں بھائی بھی ان پر جان چھڑکتے تھے ۔بارہویں پاس کی تو پھپھو بہت چاہ سے ان کوبیاہ کر لے آئیں ۔ شوہر بھی بہت ملن سار تھے اور سسرال والے سب بہت مہربان اللہ نے پہلے بیٹے سے نوازا ، محسن جو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ روز گار کی وجہ سے دوسرے شہر مقیم تھا پھر عدیلہ ، شہلا اور انیلا تین تین سال کے وقفے سے ان کی گود میں آئیں ۔ عدیلہ نے جیسے ہی گریجویشن کی میمونہ باجی نے اسے اپنے بیٹے کے لیے مانگ لیاحالانکہ عدیلہ ابھی انیسویں سال میں تھی ۔پڑھائی میں بہت تیز تھی ۔ سکول میں تو ایک سال میں دو جماعتیں پاس کرلی تھیں ۔ میمونہ باجی نے یقین دلایا کہ وہ شادی کے بعد اس کی پڑھائی میںرکاوٹ نہ بنیں گی ۔ ایک سال بعد ہی اللہ نے جڑواں بچوں سے نوازا حسن اور صبا۔
شہلانے صاف کہہ دیا تھا کہ ماسٹرز سے پہلے اس کی شادی کا سوچیں بھی نا ۔
اچھا بھلا مطمئن گھرانا تھا ۔ انیلا سب سے چھوٹی ، لاابالی، شرارتی ، کھلنڈری … سب کی لاڈلی۔
جن دنوں منیرہ بیگم عدیلہ کی شادی کی تیاری میں مصروف تھیں تو انہیں پہلی بار انیلا کے بارے میں تشویش ہوئی اسے ایام کیوں نہیں آتے ؟ لگتا تو سب کچھ ٹھیک ہے بظاہر کوئی کمی نہیں ہے ۔
انہوں نے شہلا کے ذمہ لگایا کہ وہ انیلا سے اس سلسلے میں بات
کرے ، اسے تفصیل سے سمجھائے ۔ انیلا نے برا سامنہ بنایا ، ’’ کیسی عجیب باتیں کر رہی ہیں آپ مجھے نہیں اچھی لگ رہیں‘‘۔
شہلا مسکرائی، ’’ تم نے غور نہیں کیا کبھی کبھی میں اور عدیلہ آپی نماز نہیں پڑھتے‘‘۔
’’ وہ تو آپ لوگوں کے پیٹ میں درد ہوتا ہے اس لیے نہیں پڑھتے ‘‘۔
’’ نہیں اصل وجہ یہی ہے جو میں نے بتائی ہے ۔اللہ نے ان دنوں میں نماز سے روکا ہے ‘‘۔
’’ توبہ ! میں تو خوشی خوشی ساری نمازیں پڑھوں ۔ شکر ہے مجھے ایسی کوئی بیماری نہیں ‘‘۔
’’ پگلی یہ بیماری نہیں ہے ‘‘۔
’’ اچھا جو بھی ہے ۔ اب میں جائوں ، مجھے کھیلنا ہے ‘‘۔
شہلا نے امی کورپورٹ دی ۔ انہوں نے سوچا عدیلہ کی شادی کے بعد اس مسئلے کو دیکھیں گے ۔ مگر دوسرے ہی ماہ عدیلہ امید سے ہو گئی ۔ جڑواں بچے تھے ۔ ابتداکے مہینے تو اُلٹیوں کی نظر ہوئے ، پھر کمزوری، خون کی کمی ، بلڈ پریشر، پورے نوماہ منیرہ بیگم اور میمونہ بیگم نے پریشانی میں گزارے ۔ بڑے آپریشن سے بچوں کی پیدائش ہوئی ۔ الحمد للہ زندگی کچھ معمول پر آئی تو انہیں پھر انیلا کی فکر ہوئی ۔ بار ہا کوشش کی کہ اسے لے کر ڈاکٹرکے پاس جائیں مگر وہ راضی ہی نہ ہوتی تھی ۔ منیرہ بیگم اپنے آپ کو تسلی دیتیں ۔’’ ابھی نویں جماعت میں ہے بعض اوقات بچیاںدسویں جماعت میں جوان ہوتی ہیں ، اٹھان تواچھی ہے ‘‘۔
مگر آج …
وہ پچھلے ہفتے زبردستی انیلا کو ہسپتال لے کر گئیں ۔ ڈاکٹرصاحبہ نے تسلی سے بات سنی، تفصیلی معائنہ کیا ، الٹرا سائونڈ اور خون کے ٹیسٹ تجویز کیے اور اگلے ہفتے آنے کوکہا۔
آج وہ تمام رپورٹس لے کر دوبارہ ہسپتال گئیں تو ڈاکٹر نے گویا ان کے سر پر بم پھوڑا،’’ ان رپورٹس کے مطابق آپ کی بیٹی کو ماہواری نہیں آئے گی، نہ ان کے بچے ہو سکیں گے ‘‘۔
منیرہ بیگم کا رنگ فق ہو گیا ۔
’’ بیٹا آپ ذرا باہر بیٹھو‘‘ ڈاکٹر انیلا سے مخاطب ہوئیں ۔ منیرہ بیگم کوپانی پلایا ۔’’بہت مشکل سے وہ کچھ بولنے کے قابل ہوئیں ‘‘۔
’’ کیا انیلا ’’لڑکی‘‘ نہیں ہے ؟‘‘
’’ ایسا بالکل نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہی ہیں ‘‘ ڈاکٹر نے تسلی دی وہ سو فیصد لڑکی ہے مگر اس میں بچہ دانی موجود نہیں ہے ‘‘۔
’’ کیوں؟‘‘
’’ بعض اوقات ایسے بچے بھی تو پیدا ہوتے ہیں نا کہ ایک ہاتھ نہیں یا ایک آنکھ میں بینائی نہیں یا دو کی بجائے ایک گردہ ۔اسی طرح جب یہ بچی ماں کے پیٹ میں تخلیق پا رہی تھی تو اللہ کے حکم سے بچہ دانی نہیں بنی باقی سب کچھ ٹھیک بن گیا ‘‘۔
’’ کیا مجھ سے کوئی بے احتیاطی ہوئی تھی ؟‘‘
’’نہیں ، اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے ‘‘۔
’’ کوئی علاج‘‘ انہوں نے بہت امید سے ڈاکٹر کودیکھا۔
’’ ایام تو نہیں ہوں گے کیونکہ بچہ دانی ہی نہیں ہے اور ظاہرہے بچہ بھی نہیں ہو سکتا ۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ شادی کے قابل ہیں ‘‘۔
’’ بچہ ہی نہیں ہو سکتا تو شادی کافائدہ ‘‘۔
’’ ایسا رشتہ دیکھیں جس کے بچے ہوں ، بیوی فوت ہو گئی ہو ‘‘۔
منیرہ بیگم کے چہرے پر نا گواری کے تاثرات اُبھرے اور دل میں تہیہ کیا کہ کسی ’’ بڑی‘‘ ڈاکٹر سے مشورہ کریں گی۔ ایسا بھی کیا مسئلہ کہ علاج ہی نہ ہو ۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر آگئی تھیں۔
٭…٭…٭
انیلا کو احساس تھا کہ امی بہت پریشان ہیں اس لیے تھوڑی دیر بچوں کے ساتھ کھیل کودکرخود ہی کچن میں آگئی اور عدیلہ آپی سے پوچھ پوچھ کر دال چاول بنا رہی تھی ۔رہ رہ کر دھیان امی کی طرف جاتا۔
’’ بھلاامی اتنی پریشان کیوں ہیں ؟ کیا ہے اگر مجھے ماہواری نہ آئے ۔ شکر ہے طبیعت ٹھیک رہے گی ‘‘۔
’’ عدیلہ آپی کوکتنا درد ہوتا تھا لوٹ پوٹ ہو جاتی تھیں ‘‘۔
’’ اور شہلا آپی کو تو امی سکول سے چھٹی ہی کروا دیتی تھیں ‘‘۔
اورڈاکٹر کیا کہہ رہی تھیں ؟ اس نے ذہن پر زور دیا … ‘‘ ہاں …بچے نہیں ہوں گے … اُف…!!‘‘ اسے شرم آگئی۔
تو کیا ہؤا سامنے والی آنٹی کے بھی تو بچے نہیں ہیں ۔ مس عمارہ کے بھی بچے نہیںہیں اور فلاں … فلاں ، اس کو تین چار اور خواتین یاد آگئیں جن کی اولادنہیںتھی۔ تو کیا وہ نارمل نہیں ہیں؟
’’ دیکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک لگتی ہیں ۔ آنٹی الماس تو مجھ سے اتنا پیار کرتی ہیں ‘‘۔ وہ مسکرادی۔
’’ کیا بات ہے گڑیا، کچھ سوچے جارہی ہو اور مسکرائے جا رہی ہو ‘‘ عدیلہ آپی نے اس کی چوری پکڑی۔
وہ سٹپٹائی پھر فوراً بات بنائی ۔’’ میں سوچ رہی تھی حسن اور صبا کتنے کیوٹ ہیں نا ، میرا ان کے ساتھ کھیلنے کودل چاہ رہا ہے ۔ مگر آپ تو مہمان ہیں آپ کو کہتے برا لگ رہا ہے کہ کھانا آپ بنا لیں میں کھیل لوں ‘‘۔
’’ جی جی ‘‘ آپی نے دانت پیسے ،’’ڈرامہ بازمیں تو حیران ہوں کہ اتنی دیر سے کچن میں ہو اور ابھی تک کوئی بہانہ بنایانہیں ۔ چلو نکلو ، مجھے پتہ ہے میں کتنی مہمان ہوں ‘‘۔
’’ شکریہ آپی۔آپ بھی بہت کیوٹ ہیں حسن اور صبا کی طرح ‘‘ وہ ان کا گال چوم کر کچن سے باہر نکل آئی۔
کھانا تیار ہؤا تو انیلا امی کو بلا لائی ، رونے سے ان کا دل کچھ ہلکا ہوگیا تھا اور ابھی وہ کسی سے اس سلسلے میں بات نہیں کرنا چاہ رہی تھیںاس لیے سب کے ساتھ دستر خوان پر آ بیٹھیں ۔ شہلا بھی کالج سے آگئی تھی ۔ بہنوں کی نوک جھونک اور بچوں کی شرارتوں کے درمیان کھانا کھایاگیا ، منیرہ بیگم نے اپنے آپ کو سنبھالے رکھا۔
٭…٭…٭
’’ ارے منیرہ تم ‘‘ میمونہ بیگم نے دروازہ کھولا اور سامنے چھوٹی بہن کو دیکھ کر حیرت سے چلائیں ،’’ یوں اچانک‘‘ وہ اسے لپٹاکر اندر لے آئیں ۔’’ بتایا ہی نہیں کہ آج آناہے‘‘ اُن کے انداز میں محبت تھی۔منیرہ بیگم تو ان کے کاندھے پر سر رکھے جو رونا شروع ہوئیں تو وہ ہائیں ہائیں کرتی رہ گئیں ، ذہن میں کتنے ہی برے خیالات آئے اوروہ جھٹکتی رہیں ۔ بہن کو صوفے پر بٹھایا ، تسلی دی اور صبر سے ان کے بولنے کا انتظار کرتی رہیں ۔
’’ آپا میں بہت پریشان ہوں ‘‘۔ آخر ہچکیوں کے درمیان بولیں۔
’’ وہ تو مجھے نظر آ رہاہے، یہ لو پانی پیو اور آرام سے بتائو کیا پریشانی ہے ؟ اللہ کوئی حل نکال دے گا ‘‘۔
میری پریشانی کا کوئی حل نہیں‘‘انہوں نے دو پٹے سے آنکھیں رگڑیں ۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے انیلا کی فائل لے کر مختلف ڈاکٹرز کے پاس جا رہی تھیں اور سب نے کم و بیش وہی باتیں کیں جو پہلی ڈاکٹر نے کہی تھیں ۔ وہ اس بوجھ کر اٹھاتے اٹھاتے تھک گئی تھیں ۔ انہیں کسی ہمدرد کی تلاش تھی جس کے سامنے وہ اپنا دل کھول کر رکھ دیں اور اس کے لیے ماں جیسی بڑی بہن سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے ۔ سو اب وہ میمونہ بیگم کے سامنے بیٹھی تھیں۔
انہوں نے ٹوکے بغیر تسلی سے پوری بات سنی۔
ان کی گفتگو کا اختتام اس جملے پر ہؤا ’’ ہائے میری انیلا کا کیا بنے گا ؟‘‘
آپا کے چہرے پر نا گواری کے تاثرات ابھرے مگر رسان سے بولیں ’’ یہ کیا بات ہوئی منیرہ ؟ خدانخواستہ کوئی اتنی تشویشناک بات تو نہیں ہے کہ تم یوں ہاتھ ملو‘‘۔
’’ پھر بھی آپا !‘‘
’’ بس ‘‘ انہوں نے محبت سے ان کا ہاتھ دبایا۔’’ اب نہ رونا ہے نہ افسوس کرنا ہے ، اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے ، اللہ ہی سے دعا مانگنی ہے ‘‘۔
’’ میں تو بہت دعا مانگ رہی ہوں ‘‘ ۔
’’ کیا دعا ؟‘‘
’’ یہی کہ انیلا کوایام شروع ہو جائیں ‘‘۔
’’ اچھا ، پھر کیا ہوگا ؟‘‘
’’ پھر وہ نارمل ہو گی نا‘‘۔
’’ منیرہ میری پیاری بہن وہ ابھی بھی نارمل ہے نہ خود پریشان ہو نہ بچی کو پریشان کرو ۔ زندگی میں یہی ایک کام تو نہیں ہے ، اللہ کی طرف سے نہیں ہے تو اس کو قبول کر لو ۔ اللہ نے بہت خیر رکھی ہو گی ۔ دیکھو انیلا میں کوئی اور کمی تو نہیں ہے نا ۔ ماشاء اللہ اتنی پیاری ، لائق بچی ہے ، نیک ہے ، سعادت مند ہے اور کیاچاہیے ‘‘۔
’’مگر شادی …‘‘
’’ تم نے خود تو بتایا ہے کہ بقول ڈاکٹر شادی کے قابل ہے ‘‘۔
’’ مگر بچوںکے بغیر … ‘‘
’’ کتنی ہی خواتین کے بچے نہیں ہوتے ۔ اس میں اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے ‘‘۔
’’ جب سسرال والوں کو پتہ چلے گا کہ اس کی اولاد نہیں ہو سکتی تو وہ بسنے دیں گے ؟‘‘
’’ یہ تو ہم رشتہ طے کرتے وقت ہی بتا دیں گے ‘‘۔
منیرہ بیگم نے آپا کو یوں دیکھا جیسے ان کا دماغ چل گیا ہو ۔
’’ پھر تو ہو گئی شادی ‘‘ وہ طنزیہ بولیں ۔ میمونہ مسکرائیں ،’’ اللہ پر بھروسہ رکھو پیاری بہن ۔ اللہ نے اسے ایسا پیدا کیا ہے وہی سبب بھی بنائے گا ۔ ابھی کون سا شادی ہو رہی ہے ، آرام سے پڑھنے دو اسے ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے آپا ‘‘ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولیں ۔ پھرجیسے کچھ یاد آیا ، ’’عدیلہ کہاں ہے ؟‘‘
’’ بازار گئی ہوئی ہے۔ دونوں بچے اندر سورہے ہیں ‘‘ انہوں نے حسن اور صبا کے بارے میں بھی بتا دیا ۔
’’ شکر ہے وہ گھر پر نہیں ہے ‘‘ پھر لجاجت سے آپا کے گھنٹے پر ہاتھ رکھا ’’ آپا کسی سے ذکر نہ کیجیے گا ‘‘۔
’’لو یہ کوئی ادھر اُدھر کرنے کی بات ہے ، میری بیٹی ہے انیلا ، میں کیوں اس کا راز کھولوں ‘‘۔
’’ بہت شکر یہ آپا۔ آپ سے بات کر کے میری فکر کافی کم ہو گئی ہے ‘‘۔
’’ اللہ تمھیں ریلیکس رکھے۔ اب مل کر چائے پیتے ہیں اوردوپہر کا کھانا کھا کر جانا ‘‘۔
٭…٭…٭
بہت سے دن گزر گئے ۔ منیرہ بیگم نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ انیلا کو بھی احساس ہوگیا کہ قدرت نے اس میں کچھ کمی رکھی ہے مگر اس نے اس احساس کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا ، پڑھائی کے ساتھ مختلف کورسزکرتی رہی گھر میں حتی المقدور امی کا ہاتھ بٹاتی شہلا کی بھی شادی ہو گئی ۔ کچھ عرصہ بعد اس کی گود میں رملہ آگئی ۔ عدیلہ آپی کے آنگن میں بھی نیا پھول کھلا ،حسین۔ اپنے بھانجے ، بھانجیوں میں انیلا کی جان تھی ۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ ان کو گود سے ہی نہ اتارے ۔
اس ہنستے بستے خاندان میں بھونچال تب آیا جب عدیلہ آپی چوتھے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں ہسپتال گئیںاور جانبرنہ ہو سکیں۔ بچی تو خیریت سے پیدا ہوئی مگر بعد میں کچھ ایسی پیچیدگی ہوئی کہ ہسپتال کے عملے کی سر توڑ کوشش بھی مریضہ کو نہ بچا سکی۔ منیرہ اور میمونہ بیگم کے گھروں پرگویا قیامت ٹوٹ پڑی ۔ خاندان کی دیگر خواتین نے ان کو سنبھالا اور عدیلہ کے چاروں بچوں کو انیلا نے گویا اپنے پروں میں سنبھال لیا ۔ حسن اور صبا توکچھ سمجھدار تھے ، سوال کرتے تھے ، ماں کو تلاشتے تھے … انیلا نے جس طرح ان کے سامنے اپنے آپ کو رونے سے باز رکھا یہ وہ ہی جانتی تھی ۔ دل تو روز ٹکڑے ٹکڑے ہوتا اور و ہ اسے سمیٹ کر بچوں کو سمیٹتی ۔ وقت کے ساتھ صبر تو آ ہی جاتا ، ان کو بھی آگیا مگر جو خلا رہ جاتا ہے وہ کیسے بھرا جائے۔
٭…٭…٭
دونوں بہنیں آمنے سامنے بیٹھی تھیں میمونہ اپنی گزارش سامنے رکھ چکی تھیں اور امید بھری نظروں سے منیرہ کو دیکھ رہی تھیں ، ’’ آپا …‘‘ ان کی آنکھیں چھلک پڑیں ۔’’ میں نے ایسے تو نہ چاہا تھا ‘‘ ۔
’’ کسی نے بھی ایسے نہ چاہا تھا پیاری مگر جومیرے رب کی مرضی‘‘۔
’’ میں کیا جواب دوں آپا انیلا کواس سے بہتر سسرال کہاں مل
سکتاہے ؟‘‘
’’ اور عدیلہ کے بچوں کو اس سے بہتر ماں کہاں مل سکتی ہے ؟‘‘ دونوں بہنیںمسکرا دیں ۔ ایسی مسکراہٹ جس میں آنسوئوں کی نمی گھلی ہوئی تھی۔٭